سب سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ابھی تک کوئی ایسی شخصیت نہیں دیکھی جس نے اتنی شدّت کے ساتھ ،اور اِتنا ٹوٹ کر اردو سے محبت کی ہو؎
عظیم شخص ہے سیفی مری نظر میں وہ
جو اپنی زندگی اردو کے نام پر لکھ دے
بلا شبہ پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک ایسی عظیم شخصیت تھے، جنھوںنے اپنی پوری زندگی اردو کے لیے وقف کر دی تھی۔دنیا میں عزت شہرت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔جب قدرت کسی کو عزت،شہرت اور ہر دلعزیزی دینا چاہتی ہے تو اس میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دیتی ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ جن کی مثال ادبی دنیا میں دور دور تک نہیں ملتی۔وہ ایک نامور محقق،نقاد اور دانشور ہیں،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُن کا دل پیار محبت کے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔وہ اپنے چھوٹوں سے بھی پیار،محبت اور خلوص سے ملتے تھے کہ جو ان سے ایک بار مل لیتا ہے،اُن کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔وہ ایک چہرہ شناس ،دور اندیش اور ماہرِ نفسیات بھی تھے۔نارنگ صاحب مکر و فریب،جھوٹ،اور بناوٹی لوگوں سے دور رہتے تھے۔اُن میں بے شمار خوبیاں تھیں جس کی تفصیل کے لیے تو ایک نہیں،کئی دفتردرکارہوںگے۔وہ موجودہ اردو ادب ہی نہیں،بلکہ انگریزی، سنسکرت، عربی، فارسی،ہندی اور دیگر زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔عالمی ادب کے منظرنامے پر ان کی گہری نظر رہتی تھی،اور نئی نسل سے اُنھیں بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔وہ نئے اور قابل لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے تھے،بلکہ اُنھیں صحیح راستہ دِکھاتے تھے،اور تعریف بھی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اُنھیں اپنا دوست،اپنا رہنما اور مسیحا سمجھتا تھا۔نارنگ صاحب واقعی رہنمائی کرتے تھے،سب کے کام آتے تھے۔اردو کے لیے جیتے تھے،اردو کے لیے سفر کرتے تھے۔نارنگ صاحب کی شخصیت اور کارناموں سے متعلق تقریباً ۲۴ کتابیں شائع ہو چکی ہیں،لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی پہلو تشنہ رہ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نارنگ صاحب پر لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔سچ تو یہ ہے کہ اُن پر ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے۔
میں نے تو صرف وہی باتیں دہرائی ہیں،لیکن میں ان پر بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ویسے میرا معاملہ یہ ہے کہ میں صرف عظیم شخصیات پر ہی نہیں ،بلکہ اُن پر بھی لکھتا ہوں جو میرے محسن ،کرم فرمااور دوست ہیں،جن کے اخلاق اچھے ہیں،جو دوسروں سے محبت کرتے ہیں،جو لوگوں کے کام آتے ہیں،اور یہ تمام خوبیاں نارنگ صاحب میں موجود تھیں۔اُن کے علمی اور ادبی کارناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔نارنگ صاحب ایک ایسی شخصیت تھے جن کی پوری زندگی ہی اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزری ہے۔اپنی علالت کے باوجود جب بھی اردو کا نام آتا ہے،وہ بے چین ہو جاتے تھے،اور اپنی تقریروں،تحریروں میںصرف اردو کی بات کرتے تھے۔لوگ زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں،لیکن نارنگ صاحب عمل کرکے دِکھاتے تھے۔تب ہی تو خامہ بگوش نے کہا ہے کہ :
’’ہمارے یہاں ایسے مقرر تو بہت ہو سکتے ہیں جو بولتے ہیں تو لگتا ہے پھول جھڑ رہے ہیں۔پروفیسر نارنگ بولتے ہیں تو منھ سے صرف پھول ہی نہیں ،پھل بھی جھڑتے ہیں۔یعنی جو باتیں وہ کہتے ہیں وہ کار آمد،پر مغز اور مفید بھی ہوتی ہیں۔اردو والوں کے حصے میں پھول بہت آ چکے،اب پھل بھی آنے چاہییں۔ہوا میں باتیں کرنا پروفیسر نارنگ کو نہیں آتا۔جذباتی باتوں سے گریز کرنے کے باوجود ہر جملے پر سامعین کی تالیاں وصول کرتے جاتے ہیں۔تہذیب اور شائستگی کا دامن ان کے ہاتھ سے آج تک نہیں چھوٹا۔‘‘
نارنگ صاحب پر لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔میں تو کسی قطار میں بھی نہیں ہوں۔لیکن دِل میں بہت کچھ ہے،میں نے جو کچھ دیکھاوہی لکھا ۔میں پانچ مرتبہ یورپ کے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کر چکا ہوں۔میں نے نارنگ صاحب کے مقام و مرتبے کی شہرت بیرونی ممالک میں اِتنی دیکھی ہے کہ آج تک کسی اردو ادیب کی نہیں دیکھی۔لندن میں ایک بڑے رائٹر نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک بار نارنگ صاحب میرے گھر آ جائیں تو میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کو تیار ہوں۔
آپ اندازہ لگاییے کہ جس شخص کو لوگ اتنا چاہتے ہوں،اُس کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا کون عاشق نہ ہوگا۔رہا سوال اُن کے ادبی مقام و مرتبے کا ،تو اِس سلسلے میں بے شمار لوگ لکھ چکے ہیں۔ان کی کئی اہم کتابیں تو ایسی ہیں کہ جن سے نئی نسل استفادہ تو کر ہی رہی ہے،ساتھ ہی انھوںنے ایک ایسی کتاب لکھ ڈالی جس نے ادبی دنیا میں اُن کی لکھی تمام تحریروں کا رکارڈ توڑ دیا اور وہ ہے’غالب:معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات‘۔یہ کتاب اُن کی بائیس سالہ محنت کا نتیجہ ہے جس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے غالب کو از سرِ نو دریافت کیا ہے ،اور حالی کی ’یادگارِ غالب‘بھی اس کے آگے ماند پڑ گئی ہے۔اِس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سلتا ہے کہ ۲۰۱۷ئ میںکتاب کا انگریزی ترجمہ واشنگٹن میں مقیم سریندر دیول نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ،جسے آکسفرڈ یونیورسٹی نے اہتمام سے شائع کیا،اور اب بہت جلد رشین میں بھی اِس کتاب کا ترجمہ منظرِ عام پر آنے والا ہے۔
نارنگ صاحب نے غالب سے متعلق وہ سب کچھ کہہ دیا ہے ،جو آج تک غالب کی شاعری سے متعلق لکھا جاتا رہا ہے۔گویا نارنگ صاحب نے کئی صدیوں کے عہد کی پوری تہذیب کو سمو کر رکھ دیا ہے،اب غالب پر آگے جو کچھ لکھا جائے گا اُس کی طرف بھی واضح اشارے کر دیے گئے ہیں۔غالب کے دیوان کے علاوہ ،غالب کی جتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اور جن ناقدوں نے غالب کے دیوان مرتب کیے ہیں اُن تمام نسخوں پر نظر ڈالتے ہوئے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس طرح دیگر زبانوں کے لوگ اپنے اپنے فلاسفرز،ادیبوں اور شاعروں پر فخر کرتے ہیں ،اُن کے یہاں ارسطو، افلاطون،شیکسپیئر،ملٹن،رومی،فردوسی ہیں ،اُسی طرح نارنگ صاحب نے ہندوستان میں غالب کو پیش کرکے ہندوستان کی عظمت کو بڑھایا ہے اور ہمیں فخر کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔
میں نے نارنگ صاحب کی تقریباً ساری کتابیں پڑھی ہیں ،بس دو کتابوں کو چھوڑ کر جو اُن کا بنیادی کام ہے۔ایک لسانیات اور دوسرا ساختیات کیونکہ مجھے لسانیات اور ساختیات سے وحشت ہوتی ہے۔ویسے تو میں تحقیقی مضامین بھی بہت کم پڑھتا ہوں۔ہاں! تنقیدی تمام کتابیں پڑھی ہیں۔نارنگ صاحب 1998-2008تک ساہتیہ اکادمی کے چیئرمین رہے تو انھوںسب سے زیادہ کام اردو کے لیے کیا۔جب سے ساہتیہ اکادمی وجود میں آئی ہے کوئی ایسا دانشور، نقاد ،اردو کا ادیب اس مقام تک نہیں پہنچا،جس مقام پر پروفیسر گوپی چند نارنگ پہنچے۔اور اپنی زندگی اردو کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ایسی مثال دنیائے ادب میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ افسوس!آج نارنگ صاحب اِس دنیا میں نہیں رہے،اور وہ پوری ادبی دنیا کو ایسا غم زدہ کر گئے کہ لوگ برسوں انھیں بھول نہیں پائیں گے۔و
وہ ایک شخص دوستو مر تو گیا مگر
روشن جہاں میں پیار کی قندیل کر گیا
٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |