کلیات نثر اقبال، ایک مطالعہ – ضیاء الحق خیرآبادی
بیسویں صدی کی ان نابغہ روزگار شخصیات جنھوں نے اپنے فکر وفن کے گہرے اثرات برصغیر پر مرتب کئے ان میں علامہ اقبال کا نام نمایاں مقام رکھتا ہے، وہ بین الاقوامی شاعربھی تھے اور مفکر بھی، معلم بھی تھے اور دانشور بھی، فلسفی بھی تھے اور انشاء پرداز بھی، معلم بھی تھے اور دانائے راز بھی،
بلکہ حق یہ ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی علوم کے جامع ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جس میں بو علی سینا کی دانشوری، رازی کا فلسفہ ابن خلدون کی گہرائی، رومی کی عشق ومستی، نطشے اور آن اسٹائن کی حکمت پورے جمال وکمال کے ساتھ موجود تھی،
علامہ اقبال کے افکار وخیالات کی خصوصیت یہ ہے کہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ ان کا دائرہ وسیع ہوتا رہا، ان کی فنی وفکری کاینات کی حدود میں وسعت ہوتی رہی، علامہ کے افکار ونظریات پر خصوصاً ان کی بامقصد اور انقلاب آفرین شاعری پر ان کی زندگی میں ہی تحقیقات و تشریحات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اس قدر وسعت ہوئی کہ آج اس کی حیثیت اقبالیات کے نام سے مستقل ایک دبستان کی ہوگئی ہے،
علامہ اقبال کی شاعری قوم وملت میں زندگی کی روح بھر دینے والی ہے، انھوں نے اپنی شاعری میں نہایت جرات مندانہ انداز میں اسلامی تعلیمات اور زندگی کی ابدی حیثیت وحقیقت کو واضح کیا ہے،یاس وناامیدی اور دوسروں کی دست نگر پر قناعت کرنے والی قوم کو خود شناسی کا پیغام دے کر اصل مقصد اور فرض سے آشنا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت بین الاقوامی شاعر کی حیثیت سے متعارف اور مشہور ہوئی، شہرت کی اس روشنی میں ان کی دوسری خصوصیات کی لو اس قدر مدھم ہوئیں کہ عموماً اہل نظر کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئیں۔
حالانکہ وہ ادیب وانشاپرداز مکتوب نگار، اور عمدہ نثر نگار بھی تھے انہوں نے قرآنیات،اخلاقیات، معاشیات،اقتصادیات ،سیاسیات ،تاریخ وفلسفہ اور تصوف واحسان نہایت عالمانہ، اور محققانہ مضامین ومقالات لکھے ہیں، ان کا نثری سرمایہ تقریباً ہر صنف میں ہے، اور اس پوری صدی میں وقفے وقفے سے اس پر کام بھی ہوتا رہا ہے، مگر ان کی نوعیت کسی ایک پہلو سے متعلق تھی اور محدود دائرہ میں تھی، سائنٹفک اور تدوین کے جدید معیار کے اعتبار سے نثری سرمایہ پر اب تک کام نہیں ہوا تھا، علامہ کے فنی تنوع اور ان کے فکری جہانوں کی وسعت کا تقاضا تھا کہ ان کے نثری سرمایہ پر باضابطہ توجہ کی جائے اور مکمل اہتمام سے سارے نثر پاروں کو اکٹھا کرکے اقبال شناسی کی راہوں کو وسعت دی جائے،
ظاہر ہے یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا ہم نے لکھ دیا ہے بلکہ اس کے لئے ہزاروں کتابوں کی چھان بین اور ان گنت رسالوں کی ورق گردانی کا مرحلہ تھا،مگر جو لوگ اپنا سفر ایک نصب العین کے تحت جاری رکھتے ہیں ان کے لئے کوہ کنی کا عمل کچھ مشکل نہیں ہوتا ہے،ڈاکٹر خالد ندیم صاحب انہیں فرہاد صفت لوگوں میں سے ہیں، انھوں نے کئی سال کی عرق ریزی کے بعد علامہ کی ان ساری تحریروں کو جمع کرکے
کتابی صورت میں نہایت قیمتی تحفہ اہل دانش کو عنایت کیا ہے،مصنف کا اس سلسلے میں یہ احساس بجا ہے کہ،،حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے اردو فارسی شعری مجموعوں اور ان کے کلیات کے علاوہ
اقبال کی نثری تحریروں کو اب تک سائنٹفک اور تدوین کے جدید معیارات کے مطابق شائع نہیں کیا جاسکا مدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ان منتشر نگارشات کو کسی ایک مجموعے میں حسن ترتیب کے ساتھ پیش کیا جائے یہ کام اداروں کی سطح پر کرنے کا تھا لیکن بوجوہ اب تک اس جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکا چنانچہ کئی برسوں کے انتظار کے بعد اس بوجھ کو بقول میر یہ ناتواں اٹھا لایا(صفحہ 13) اس تحقیق سے قبل اقبال کے شعری سرمایہ کی تدوین وترتیب کے علاوہ ان کے نثر پاروں کی جمع وتدوین منظر عام پر آچکی ہے خصوصاً ان کے مکاتیب، ان کے خطبات، اور لیکچرز کی ترتیب واشاعت اہتمام کے ساتھ ہوچکی ہے، اسی طرح ان کے مقالات ومضامین اور انگریزی تراجم، اور دیگر موضوعات پر ان کی تحریریں کتابی شکل میں منصۂ شہود پر آچکی ہیں، تاہم ایسی کوشش اور ایسی
کتاب جس میں صرف علامہ کی تقریباً تمام موضوعات پر لکھی ہوئی تحریریں،اور ان کے نثری مضامین موجود ہوں اور تاریخی لحاظ سے مرتب ہوں، موجود نہیں تھی۔
یہ کتاب درحقیقت انہیں تقاضے کو بحسن وخوبی پورا کررہی ہے، اس میں علامہ کی دو سو انتیس تحریریں شامل ہیں جو دیباچے، اشعار میں تلمیحات واشارات، ان کے معانی و مفاہیم، کتابوں پر تقریظات اور تبصرے،رسائل وجرائد پر ان کی آراء،تقاریر بیانات،پیغامات اور مقالات ومضامین پر مشتمل ہیں، یہ مقالات ومضامین تاریخ میں بھی ہیں،فلسفے میں بھی،ان کا موضوع اخلاقیات بھی ہے اور مذہب بھی،اقتصادت سے بھی متعلق ہے اور سیاسیات سے بھی، اصلاحی بھی ہے اور تحقیقی بھی، ان کو پڑھنے کے بعد اقبالیات کے تقریباً تمام پہلو نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں،
کتاب کے مشمولات اور ان کی وقعت کے حوالے سے یہ کہنا بجا ہے کہ مطالعہ اقبال کی راہ کے مسافر کے لئے یہ کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس کتاب کی ترتیب وتدوین پر ڈاکٹر خالد ندیم صاحب تمام اہل علم کی جانب سے شکرئیے کے مستحق ہیں۔
ضیاء الحق خیرآبادی
۲۲/شوال ۱۴۴۳ھ
24/مئی 2022
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page