پروفیسر گوپی چند نارنگ کو شعبۂ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی کا خراج عقیدت
وارانسی، 17جون2022(پریس ریلیز)
15جون 2022کواردو کے ممتاز دانشور، محقق، نقاد، استاد، بہترین خطیب، ماہر لسانیات اور سفیر اردو، پروفیسر گوپی چند نارنگ 91برس کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ پروفیسرگوپی چند نارنگ کے انتقال پُرملال پرشعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیاجس میں شرکا نے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اسے اردو ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا۔
صدر شعبۂ اردو پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے اپنے تعزیتی کلمات میں پروفیسرگوپی چند نارنگ کی وفات کو ایک عہد کے خاتمے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسرگوپی چند نارنگ کی شخصیت ہمارے عہد کے ناقدین میں ممتاز ترین تھی ۔انھوں نے کم و بیش پانچ دہایئوں تک نئے اذہان کی ذہنی و فکری تربیت میں حصہ لیا۔پروفیسر نارنگ نے لسانیات سے خصوصی دلچسپی لی اور اردو شعر و ادب میں ہندوستانی تاریخ، تہذیب، فلسفہ اور مذہب کی کارفرمائی کی نشاندہی کر کے اردو کو ہندوستان کی خالص ہندوستانی زبان قرار دیا۔ پروفیسر نارنگ نے کلاسیکی شعر و ادب کے پہلو بہ پہلو عصری تقاضوں اور بدلتے ادبی رویوں کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔میر ؔ، غالبؔ، اقبالؔ، محمد علی جوہرؔ وغیرہ کی نئی تفہیم و تعبیر کوان کے مشرقی و مغربی ادب کے مطالعے کا ثمرہ کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مابعد جدید تصور کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے شعریات کے تعین ِقدر پر خصوصی توجہ دی جس کے گہرے اثرات نئی نسل کے قلم کاروں پر مرتب ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر مشرف علی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت جامع اور ہمہ جہت تھی اور ان کی وفات یقینا اردو شعرو ادب کا بڑا خسارہ ہے۔ ان کی تخلیقی و تنقیدی نگارشات اردو شعرو ادب کی تاریخ میں اثاثے کا حکم رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر رقیہ بانو نے اس موقع پر کہا کہ پروفیسر نارنگ صاحب سے براہ راست کبھی ملنے کا موقع تو نہیں ملا تاہم اردو کے طالب علم کے طور پران کی تخلیقات کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اپنی علمی و ادبی شخصیت کی بنا پر وہ اردو شعر و ادب میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے تعارفی کلمات میں ڈاکٹر عبدالسمیع نے پروفیسر نارنگ کی سوانح حیات پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے ان کی علمی و ادبی شخصیت اور ان کی پرزور خطابت کا ذکر کیا ۔ اردو کی نئی بستیوں کے قیام میں پروفیسر نارنگ کی کوششوں و کاوشوںپر روشنی ڈالی اور ان کے انتقال کو اردو شعر و ادب کا بڑا نقصان قرار دیا۔ اس تعزیتی نشست میں شعبے کے اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page