پروفیسر گوپی چند نارنگ (2022-1931)
زمانے کی گردش دیکھئے کہ جس وقت ہمیں زندگی کے ہر شعبوں میں اچھے قدآور شخصیات اور رہنماؤں کی سخت ضرورت ہے، ایسے سبھی بڑے لوگ ہمیں الوداع کہکر چلے جانے کو بضد ہیں- افسوس صد افسوس کہ اردو ادب کے سب سے دقاق خدمتگار پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب نے بھی کل یہ اعلان کروا دیا کہ دوستوں تم رہو، ہم تو اب چل بسے- بدقسمتی دیکھئے، اردو برادری کے لئے یہ بھی کیا وقت ہے کہ امریکا میں شانتی سے آمادہ سفر ہوگئے- یہاں ہمیں اپنے کریا کرم کا بھی موقع نہیں دیا- سب جانتے ہیں کہ یہ اردو ادب کا بڑا خسارہ ہے اور انکی چھوڑی ہوئی جگہ کو پر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا- ہمیں نہیں معلوم کہ کوئی لایق جانشیں انکا قایم مقام بنکر آیندہ بھی انکے معیار پر کھرا اتر سکے گا- وہ اپنے آپ میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ ہی ان کی وراثت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
دککی، بلوچستان (جو موجودہ پاکستان میں ہے)، کے ایک سرائیکی خاندان میں پیدا ہوئے اور ایک اندازہ کے مطابق 60 سے بھی زیادہ کتابوں کے مصنف و مرتب، نارنگ صاحب نے اردو ادب کے چشمے سے دنیا کو اچھی طرح دیکھا تھا، خاص کر مذہب کے نام پر ہونے والی بیہودگی اور سیاسی تانڈو جس نے آج ہمارے چاروں طرف سماج و نظام کو بری طرح ہلا دیا ہے- ان سب سے آزاد اور اوپر اٹھ کر اپنے لئے ایک بلند مقام تیار کرنا آسان کام نہیں ہوتا-
دل و دماغ کے سارے دروازوں اور کھڑکیوں کو کھول کر معاملات کو سمجھنے کے لئے نئے زاویے تراشنے ہوتے ہیں- برصغیر کے اردو حلقوں میں برسوں تک چمکنے والے اس ستارے نے اس کام میں مرزا غالب اور دوسری مایہ ناز ہستیوں کے غیر معمولی کارناموں کو اپنا مشعل راہ بنایا- نارنگ صاحب کے یہاں یہ انسپریشن صاف دکھتا ہے- غالب کے الفاظ میں:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تم سا کہیں جسے
غالب کے علاوہ، امیر خسرو، میر تقی میر، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی شاعری اور فلسفے کا مطالہ آپ نے جس لگن اور جدت سے کیا، آپ سے ہی ممکن تھا- اس کا لب و لباب ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تاریخ کی نشو و نما میں بھکتی سنتوں اور صوفیاکرام کی تعلیمات کے اہم رول کو اردو ادب کے حوالے سے نہ صرف سمجھنا ہے بلکہ اس نقطہ نظر کو فروغ بھی دینا ہے-
اپنی کتاب ‘امیر خسرو کا ہندوی کلام’ کے حوالے سے نارنگ صاحب نے مؤرخین کو بھی آئینہ دکھایا ہے، اور زبان و ادب کی تاریخ میں صوفی شاعروں کے گراں قدر کام کو بھی سراہا ہے- یہ کام آپنے اس وقت کیا ہے جب پیشہ ور مؤرخین بھرشٹ سرکاروں کی فائلوں میں ہارڈ فیکٹس ڈھونڈنے کے چکر میں سردی زکام کے شکار ہو رہے تھے-
نارنگ صاحب کے نزدیک سماج و معاشرے کی صحیح سمجھ معاصر ادب سے ممکن ہے- ادب اور معاشرے کے بیچ چولی-دامن کا رشتہ ہے، وہیں دوسری طرف سرکاریں آتی جاتی رہتی ہیں-
ان کی پھیلائی ہوئی آلودگیوں کی صفائی کی ذمہ داری پڑھے لکھے طبقوں اور دانشوروں پر ہوتی ہے- اس کے علاوہ، عوام الناس کی چیرہ دستیوں اور مذہب کی سیاست سے اوپر، فلسفے اور مابعدالطبیعیات کے راستے حاصل ہونے والی ذہنی بیداری اور شعور کے گہرے معانی کو ادب کی شکل میں پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا- اس کے لئے ایک پوری زندگی وقف کرنا پڑتی ہے- اس زندگی میں نارنگ صاحب ترقی کے سارے حدود پار کر گئے- انکی اکادمک لائف پر ایک نظر ڈالئے-
آپ دہلی کی دو بڑی یونیورسیٹیوں، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسیٹی، میں اردو کے پروفیسر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں اداروں میں ایمریٹس پروفیسر بھی – یہ ایک طرح کی کرامت ہے، اور ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں- عام طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کے اپنے کلیگ کیمپس سے آپ کا نام و نشان ہمیشہ کے لئے مسخ کر دینا چاہتے ہیں- اس کے برعکس آج یہاں ماتم کا عالم ہے-
ظاہر ہے آپ کے چاہنے والوں کی ایک جماعت ہر جگہ شاک اور صدمے میں ڈوبی ہوئی ہے- کہتے چلیں کہ جماعت ہر جگہ مذہبی نہیں ہوتی، اور کئی بار بے وجہ بدنام بھی ہو جاتی ہے- میر تقی میر پر اپنی کتاب کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت کے موقع پر ابھی حال ہی میں رسالہ پنچ کو دئیے ایک انٹرویو میں نارنگ صاحب نے خداۓ سخن کا یہ شعر پڑھا تھا:
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
آپ کے کام کی ستائش کئی دہائیوں سے ہر طرف جاری و ساری ہے- کئی بڑے منصب اور ایوارڈز گویا آپ کے لئے ہی بنے تھے- مختلف سرکاروں نے بھی آپ کو اچھی طرح سے نوازا ہے- اردو کے ایک اسکالر کو پدم شری (1990) اور پدم بھوشن (2004) دیا جانا اس زبان و ادب کو ایک نئی پازیٹو انرجی سے سیر کئے جانے کے مترادف ہے-
ہمسایہ ملک پاکستان نے بھی نارنگ صاحب کو اپنے یہاں کے سب سے بڑے انعاموں سے نوازا ہے- پاکستانی صدر کے قومی طلائی میڈل (1977) اور اس سے زیادہ مشہور ستارۂ امتیاز (2012) کا دیا جانا جدید قومیت کی غیر فطری اور پرتشدد تاریخ پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں-
یہاں ایک بار پھر نارنگ صاحب نے ایک لمبی جست بھرکر اپنی شناخت اور اثر و رسوخ کی ایک نئی تعبیر یا مثال پیش کی ہے- کہ سرحدوں کے آگے بھی دنیا ہوتی ہے، اور وہاں بھی لوگ کچھ اچھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یا کم از کم اچھے کام کے قدردان ہوتے ہیں-
بلا شبہ، اردو دنیا کو ایک بڑا جھٹکا لگا ہے- حالات کی نزاکت دیکھئے کہ اپنی تمام نفاست کے باوجود یہ دنیا ایک کیچڑ میں تبدیل ہوا چاہتی ہے- اس صورتحال میں ایک نئے نارنگ کا کھلنا مشکل ہوگا- اب وہ ہماری مسلسل کمزور پڑتی جا رہی گنگا-جمنی تہذیب کی تاریخ کا حصّہ بن جائیں گے-
اور یہ بھی سچ ہے کہ سماج اور ادب کی تاریخ میں سب کو جگہ نہیں ملتی- اس کے لئے اعلی قدروں کا علم بردار بننا پڑتا ہے- آج نارنگ صاحب کے کام کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے- یہی ان کے تیئں سچی خراج عقیدت ہوگی-
جس مٹی کے ہم بنے ہوتے ہیں، آخر اسی مٹی میں فنا ہوکر مل جاتے ہیں- مذہب میں کہا گیا ہے کہ ہم خدا کے بندے اسی کے پاس واپس چلے جاتے ہیں جس نے ہمیں بنایا ہے:
انا للّہ و انا الیه راجعون
(یہ مقالہ پہلے ہندی میں پربھات خبر کے 17 جون 2022 کے شمارے میں چھپا ہے)
رضی الدین عقیل (دہلی یونیورسٹی)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |