اردو تہذہب کے علمبردار،تنقیدی نظریات کے سالار پروفیسر گوپی چند نارنگ 91سال کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے ۔عالمی شہرت یافتہ ،ادیب و نقاد کی موت اردو دنیا کے لئے ایک ناقابل تلافی خسارہ ہے ۔نارنگ صاحب نے اردوادب کو جو کچھ دیا اس کی اردو دنیا ہمیشہ احسان مند رہے گی اور میرے لئے تو نارنگ صاحب کی یادیں ان سے ملاقاتیں ،ان کی باتیں سرمایہ حیات سے کم نہیں ہیں۔
اردو زبان و ادب کی ایک مستحکم آواز ،خوبصورت شناخت نامہ ،چمکتے ستارے اور فعالیت کے نشان یعنی گوپی چند نارنگ کو پہلی بار میں نے خدا بخش لائبریری میں 1987میں دیکھا تھا۔اس وقت میں پٹنہ میں مسابقتی امتحانات کی تیاری کررہا تھا۔ جس کے ایک سال بعد پٹنہ یونیورسٹی میں ایم اے اردو کا طالب علم ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ 102 ڈگری بخار تھا۔لاج میں کسی ساتھی سے گزارش کی کہ مجھے رکشہ سے خدا بخش لائبریری لے چلے۔ شال اوڑھ کر میں بخار کی حالت میں خدا بخش لائبریری پہنچا۔ بالکل بیچھے دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے خیر مقدمی کلمات کہے پھر نارنگ صاحب کی تقریر شروع ہوئی۔ اب تک ان کی تحریریں پڑھی تھیں۔ نارنگ صاحب کی گل افشائی گفتار سے پورا مجمع خاموش اور مہبوت تھا مگر لطف اندوز بھی ہورہا تھا۔ میرے اندر معلوم نہیں کیا کچھ چلتا رہا ،کیا زبان ،کیا اظہار رائے،کیا انداز اور کیا مختلف فنون کی عطر بیزیاں،ایسے میں لگا کہ بخار جیسے تھا ہی نہیں۔ میرے لئےاس وقت نارنگ صاحب کو دیکھنا ،سننا اور عقیدت مندانہ تجربہ تھا۔ اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جب پی ایچ ڈی کی غرض سے آیا تو پھر دلی کی مختلف ادبی محفلوں میں انہیں قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔
نارنگ صاحب نے شعرو ادب کی تفہیم و تعبیر کے کئی گوشے کھولے۔ زبان و اسلوب اور رسم الخط کے حوالے سے نہایت ضخیم معرکتہ الارا کتاب’ اردو زبان اور اسلوبیات‘ جیسی کتاب تصنیف کی۔اردو کے ایک مرجع و منبع نیز اس پر اور اس کے اثرات کو واضح کیا، میر و غالب اور اقبال جیسے شعرا کی چھان پھٹک کی اور کئی ان چھوئے مضامین اور گوشوں کو ہمارے سامنے روشن کیا۔اردو سے نارنگ صاحب سے عشق دیکھا اوار سمجھا جاسکتا ہے۔ شعور ادب اور شعور زیست کی ہم آہنگی سے نارنگ صاحب کا جو فکری وجود متشکل ہوتا ہے وہ ہمیں اپنی طرف کھیچ لیتا ہے۔
نارنگ صاحب نے فیض فہمی کی ہمیں کنجی دی۔ میر اور اقبال یا پھر غالب کو نئی جہتوں سے سمجھانے کی کوشش کی۔ غالب کے یہاں شونیتا کے حوالے سے جو صراحتیں اور وضاحتیں پیش کی ہیں وہ اردو میں اولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اردو غزل او ر ہندوستانی ذہن و تہذیب کو مرکز مطالعہ بنایا تو اردو غزل اور ہندوستانیت کے مابین ایک نئی دنیا نظر آئی۔ متصوفانہ نکات اور بھکتی تحریک کے رموز کھولے اور اردو غزلوں کے اندرون میں ہمیں اترنے کی جسارت عطا کی۔ غزل کی سطحی تنقیدی نگارشات اور معیاری اور بصیرت افروز نگارشات کی ہم میں قدر ے تمیز پیدا ہوئی۔یہ تمیز اور امتیاز بہت آسان نہیں ہوتا۔
نارنگ صاحب کی بصیرتوں کے دائرے جب مابعد جدید کی طرف پھیلے تو مابعد جدیدیت پر مکالمہ قائم کیااور ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات پر شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی۔ ترقی پسندی ، جدیدیت، ما بعد جدیدیت کے نام سے کتاب مرتب کی۔ جدیدیت کے بعد اردو میں ما بعد جدیدیت کو فروغ دینے میں سب سے نمایاں نام پروفیسر گوپی چند نارنگ کا ہی ہے اور بھی بہت سے گوشے ہیں۔ اردو مثنوی تک ہمیں پہنچانے کا کام نارنگ صاحب کا ہی ہے۔یہاں چونکہ ان کی علمی فتوحات پرتفصیل سے گفتگو کی گنجائش نہیں اس لئے بس سرسری گزرنا پڑ رہا ہے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو نارنگ صاحب کی ہر کتاب پر تفصیلی مضمون الگ الگ لکھا جاسکتا ہے۔ ایک گوشہ خطوط نگاری کا بھی ہے۔ایک کتاب خدا بخش لائیبریری ’’خواجہ احمد فاروقی کے خطوط گوپی چند نارنگ کے نام‘‘ سے شائع کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ مشاہیر ادب کے خطوط جو نارنگ صاحب کو لکھے گئے وہ بھی چار جلدوں میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کے انٹرویوز کا مجموعہ ’دیکھنا تقریر کی لذت‘بھی شائع ہوچکا ہے۔ گویا گوپی چند نارنگ نے اردو زبان و ادب کو بہت کچھ دیااورپوری زندگی ادب کو اپنے لئے اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔اردو اگر ’صوت ‘ہے تو نارنگ اس کے ’معنی ‘ہیں۔ نارنگ صاحب کا رنگ ہمیشہ چوکھا رہا ہے اور آئندہ بھی ان کی نگارشات کا رنگ چوکھا ہی رہے گا۔ آج نارنگ صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ،مگر اس کے باوجود اردو ادب کے ایوانوں میں ان کی خدمات کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی۔اردو کی نئی نسل کو اس بازگشت سے بھی حوصلہ ملتا رہے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |