رسائل کی تاریخی ہی نہیں بلکہ عصری معنویت بھی ہوتی ہے،ہم جسے تاریخی دستاویز کہتے ہیں اس میں کسی نہ کسی طور پر حال کا چہرہ بھی پوشیدہ ہوتا ہے اس بات کا تعلق رسالے میں شائع شدہ مشمولات سے ہوتاہے۔کسی عہد کی ادبی،سماجی اور تہذیبی صورت حال کو سمجھنے کے لیے رسائل ایک اہم ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔رسائل ہی دراصل ادب اور تہذیب کی مجموعی صورت حال سے ہمیں آشنا کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے رسالے ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ کا استعارہ بن جاتے ہیں۔میرے پیش نظر ترقی پسندوں کے ترجمان کے نام سے معروف رسالہ’ شاہراہ‘ ہے۔
ترقی پسندادبی تحریک کی حمایت میں کئی رسالے منظر عام پر آئے جن میں نیا ادب ،ادب لطیف ، نقوش،سنگ میل ،سویرا،جاوید اور شاہراہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان رسالوں نے وقت کے اہم تقاضوں کا خیال رکھا اور ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کی جو ادب کے تقاضوں اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں نے ان پر عائد کی تھیں ۔ رسالہ ’شاہراہ‘ ترقی پسندوں کا ترجمان تھا اور اس نے اس بات سے کبھی انکار بھی نہیں کیا بلکہ شاہراہ کے ابتدائی شمارے کے سرورق پر جلی حرفوں میں’’ ترقی پسند وں کا دوماہی ترجمان‘‘ درج ہوتا تھا ،یہ اور بات ہے کہ بعد میں شاہراہ دوماہی کی جگہ ماہنامہ بن گیا اور اس کے سرورق سے’ ترقی پسندوں کا ترجمان ‘والا فقرہ بھی ہٹا لیا گیا ۔
شاہراہ کی اشاعت کا سلسلہ جس وقت شروع ہوا اس وقت تک ترقی پسند تحریک کے قیام کو تقریباً تیرہ سال ہوچکے تھے اور اس تحریک نے قابل ذکر کام کرلیا تھا ۔فیض ،مجاز،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی، سلام مچھلی شہری ،علی سردار جعفری ،معین احسن جذبی ، اختر انصاری،کیفی اعظمی ،جانثار اختر ، ساحر لدھیانوی ،مجروح سلطان پوری،سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی تخلیقات اس بات کی گواہ ہیں ۔
شاہراہ کا پہلا شمارہ جنوری ۱۹۴۹ئ میں ساحر لدھیانوی کی ادارت میں مکتبہ شاہراہ ،نئی دہلی کے ذریعے منظر عام پر آیا ۔اس شمارے میں میر اجی،مجروح سلطان پوری خواجہ احمد عباس،اوپندر ناتھ اشک ، دیوندر سیتارتھی مہندر ناتھ ،کرشن چندر اور عصمت چغتائی وغیرہ کی تخلیقات شائع ہوئیں۔کسی بھی رسالے کا اداریہ بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ مدیر کے پیش نظر وہ مقاصد کا ر فرما ہوتے ہیں جن کا حامل وہ رسالہ ہوتا ہے۔اداریہ ہی رسالے کے مزاج کا عکاس ہوتا ہے ۔ساحر لدھیانوی نے اپنے اداریہ ’’راہ نما‘‘میں شاہراہ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اس رسالے کو ترقی پسند ادبی رجحان کو فروغ دینے کا حامی قرار دیا ۔بقول ساحرلدھیانوی:
’’ہمارے اغراض و مقاصد وہی ہیں جس کا اعادہ انجمن ترقی پسند مصنفین بار بار کرچکی ہے۔ہم اپنے تمام ساتھیوں کو سلام کرتے ہیں جنہیں ہماری تحریک کی بارہ سالہ زندگی میں ظلم اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔۔۔شاہراہ ان کا ترجمان ہے اور یقین دلاتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے آپ کو ان سے وابستہ رکھے گا۔‘‘
(اداریہ:’’راہ نما‘‘: ساحر لدھیانوی،جنوری ۱۹۴۹)
ساحر لدھیانوی نے جن مقاصد کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی حصولیابی کے لیے شاہراہ آخر تک کوشاں رہا۔ساحر لدھیانوی کے علاوہ شاہراہ کی ادارت کی ذمہ داری سرلا دیوی،مخمور جالندھری،پرکاش پنڈت،فکر تونسوی،وامق جونپوری،ظ۔انصاری اور محمد یوسف وغیرہ نے بھی سنبھالی ۔ شاہراہ کے مدیروں نے اپنے اداریوں کے ذریعے ترقی پسند تحریک کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ حکومت کی پالیسیوں پر بھی کھل کر اظہار کیا،یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے ادیبوں کی آزادی پر پابندی عائد کی اور یہاں تک کہ ان کو سلاخوں میں ڈال دیا گیا توساحرلدھیانوی نے حکومت کی اس غلط پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت یہ کہتی ہے کہ ہر طرح کی آزادی کا حق حاصل ہے دوسری جانب ادیبوں پر پابندی بھی عائد کی ہے۔ساحرلدھیانوی لکھتے ہیں :
’’پنڈت جواہر لال نہرو اپنی تقریر میں بار بار دہراتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک میں ہر نوع ہر قسم کے خیالات ونظریات کی ہر امن تبلیغ اشاعت کا حق دے رکھا ہے اگر یہ صحیح ہے تو حکومت ان متشدد اقدامات کی وضاحت کیوں نہیں کرتی جن کے بنا پر متذکرہ بالا (سردار جعفری ،کیفی اعظمی ،اور نیازحیدر وغیرہ )ادیب اور فنکار گرفتار کیے گئے ہیں اگر مہاتما گاندھی کے قاتلو ں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ کھلی عدالت میں مقدمہ لڑسکیں تو شاعروں اور ادیبوں کو جو ملک وقوم کے ضمیر کا درجہ رکھتے ہیں یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا ۔‘‘
(راہ نما ،اداریہ ،ساحر لدھیانوی ،مارچ اپریل ۔۱۹۴۹)
شاہراہ میں شائع ہونے والے مضامین سے بھی شاہراہ کے مقاصد کا پتا چلتا ہے۔اس میں شائع مضامین ’ترقی پسند تنقید‘ کی سمت و رفتار کا پتہ دیتے ہیں۔ ترقی پسند تنقید کی کوئی گفتگو شاہراہ کے مضامین کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔اس وقت کے تمام اہم نقادوں کے مضامین شاہراہ کی زینت ہوا کرتے تھے۔احتشام حسین، ممتاز حسین، علی سردار جعفری،محمد حسن، عبادت بریلوی، وارث علوی، وامق جونپوری،مسیح الزماں،دیویندر اسّر، ظ۔ انصاری، خلیل الرحمن اعظمی اور باقر مہدی وغیرہ کے مضامین خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔مجموعی طور پر ان کی تحریریں ہی ترقی پسند تنقید کا سرمایہ ہیں۔شاہراہ کے مضامین کااہم مقصد ایک صحت مند ادبی فضا کو قائم کرنا تھا۔ادب اور شاعری محض دل لگی کا سامان نہیں ۔ اچھا ادب وہی ہے جس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہوں جن کا براہ راست تعلق ہماری زندگی،ہماری تہذیب اورہماری ثقافت سے ہو۔ترقی پسند شاعرو ادیب نے ’’ادب برائے زندگی ‘‘کے اپنے قول کو برقرار رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی ۔ڈاکٹر سلامت اللہ کا مضمون ’’اردو کی شاعری میں امن کا موضوع‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ڈاکٹر سلامت اللہ نے ادب کی افادیت ، ضرورت اور اہمیت پر روشنی ان لفظوں میں ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’ادب صرف زندگی کی جھلکیوں کو ہی نہیں دکھاتا ،وہ اس کی نوک بھی سنوارتا ہے اور ادب زندگی کو نکھارنے اور حسن کو نکھارنے کا ایک کار آمد آلہ ہے وہ خضر راہ بنکر ان غاروں ،دلدلوں سے بھی آگاہ کرتا ہے جو زندگی کی شاہراہ میں حائل ہیں اور لہلہاتی وادیوں اور سخن زاروں سے بھی روشناس کراتا ہے اور انہیں حل کرنے کا شعور بھی بخشتا ہے کسی ادب کی پختگی کو پرکھنے کی یہی ایک کسوٹی ہے کہ وہ کتنی سچائی اور شدت کے ساتھ اپنے اس اہم فریضے کو پورا کرتا ہے ۔‘‘
(اردو شاعری میں امن کا موضوع ،ڈاکٹر سلامت اللہ ،جنوری،فروری ۱۹۵۳)
ڈاکٹر سلامت اللہ کا مضمون ’’اردو شاعری میں امن کا موضوع‘‘تاریخی لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے، کیوں کہ جس وقت یہ مضمون لکھاگیاتھا اس وقت پوری دنیا دوسری جنگ عظیم سے متاثر تھی۔ڈاکٹر سلامت اللہ نے انتشار اور بے چینی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا۔وہ لکھتے ہیں :
’’موجودہ عہد کا سب سے بڑا مسئلہ امن ہے اس وقت دنیا کی امن کی ناؤ پھر ڈانواں ڈول ہورہی ہے ۔دنیا کی رجعت پرست قوتیں اسے ڈبونے کی سازش کررہی ہیں اگر یہ سازش کامیاب ہوگئی تو ساری انسانی زندگی تباہ ہوجائے گی ۔‘‘
(اردو شاعری میں امن کا موضوع ،ڈاکٹر سلامت اللہ ،جنوری،فروری ۱۹۵۳)
جس وقت کا ذکراس مضمون میں کیا گیا ہے پوری دنیا ایک خوف کے عالم میں زندگی گزار رہی تھی ۔ اس وقت بھی ادیبوں کا ایک ایسا گروہ تھا جو امن کی بات کررہا تھا اور ڈاکٹر سلامت اللہ بھی ادیبوں کی اسی فہرست کا حصہ تھے ۔انہوں نے اردو شاعری میں امن کے موضوع کو عنوان بنایا۔رسالہ‘‘نقوش ‘‘ کاعالمگیر امن نمبر ‘‘(جون ۱۹۴۹)بھی شائع ہوا جس کی ادارت ہاجرہ مسرور اور احمد ندیم قاسمی جیسے ادیبوں نے کی تھی۔ڈاکٹر سلامت اللہ کے مضمون میں احمد ندیم قاسمی کی نظم ’’جنگ کنگ سے چلی تک ‘‘مخمور جالندھری کی نظم ‘‘رن بھومی چیخ اٹھی‘‘، ن ۔ م ۔ راشد کی نظم ’’جہان ِامن‘‘، نیاز احمد کی نظم ’’شانتی دوست بنگال‘‘،حبیب تنویر کی نظم ’’کل ہند امن کا نفرنس کلکتہ‘‘،کیفی اعظمی کی نظم’’اٹل فیصلہ‘‘،نیازحیدر کی نظم ’’تیسری جنگ نہیں ہوگی‘‘ ،سلیمان اریب کی نظم ’’عزم ‘‘، غلام ربانی کی نظم ’’کوریا کے جاںبازوں سے ‘‘ا ور خلیل الرحٰمن اعظمی کی نظم ’’امن ‘‘ کا تجزیہ بھی اس میںموجود ہیں۔ڈاکٹر سلامت اللہ نے ان تجزیوں سے اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اردو شاعری میں امن کے موضوع کو کس طرح برتا گیا۔ وہ مذکورہ نظموں کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اردو شاعرنے امن سے متعلق اپنی ذمہ داری کوایک حد تک پورا کیا۔ان کا مضمون اردو شاعری میں امن کے موضوع کو جاننے اور سمجھنے کا اہم وسیلہ ہے ۔اس مضمون سے اردو کا تعمیری کردار بھی سامنے آتا ہے۔
انور عظیم’’کا مضمون ‘‘ایک ناقابل فراموش افسانہ نگار ’’تاثراتی ہونے کے باوجود منٹو کی افسانہ نگاری کی خصوصیات کا بہت حد تک احاطہ کرتا ہے ۔یہ مضمون منٹو کے انتقال کے بعد لکھا گیا تھا ۔
مضمون’’ایک ناقابل فراموش افسانہ نگار‘‘ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انور عظیم نے منٹو کی خوبیاں گنوانے کے ساتھ ساتھ ان کی کچھ خامیوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔مضمون نگار نے پوری کوشش کی ہے کہ غیر جانب دار ہوکر منٹو کے فن پر گفتگو کی جائے ۔منٹو کے افسانوں پر ان کے ہم عصر نقادوں اور افسانہ نگاروں نے مختلف الزامات لگائے۔ منٹو کو فحش نگار بھی کہا گیا ان پر مقدمہ چلایا گیا اور ان کے بعض افسانوں پر پابندی لگانے کی سفارش بھی کی گئی یہاں تک کہ منٹو کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ مگر ان باتوں سے بے پرواہ منٹو پوری قوت کے ساتھ اپنے ادبی اور تخلیقی سفر کو جاری رکھتے ہوئے افسانے تخلیق کرتے ہیں ۔ منٹو پرلگے فحش نگاری کے الزام کے بارے میں کہ وہ محض جنسی موضوعات ہیںکے متعلق انور عظیم لکھتے ہیں۔
’’منٹو محض جنسی کہانیاں لکھتا ہے ایک تو یہ بیان غلط ہے دوسرح جنسی کہانیاںجرم نہیں اگر اس سے ترغیب کے بجائے موجودہ سماج میں زندگی کے ایک اہم انسٹی ٹیوشن کی ابتری اور مریضانہ پیچیدگی کی تنقید ہوتی ہے ۔میرا خیال ہے کہ منٹو کے افسانے موجودہ سماج میں جنسی زندگی کی گھٹن ناآسودگی اور ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں اور موجودہ سماج کی قلعی کھولتے ہیں ۔‘‘
(ایک ناقابل فراموش افسانہ نگار ،مئی ۱۹۵۵)
انور عظیم نے انہی نکات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں ۔منٹو کے جن افسانوں پر فحش نگاری کے الزامات لگائے گئے ان کا مطالعہ بھی از سر نو ضروری ہے۔
مضمون ’’فیض کی شاعری‘شکیل الرحٰمن کا ایک اہم مضمون ہے جس میں فیض کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا گیاہے ۔فیض احمد فیض کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ن،م،راشد نے لکھا تھا کہ ’’فیض کی شاعری رومان اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج ہے‘‘ ۔ ن،م،راشد کا یہ قول یقینا فیـض کی شاعری پر صادق آتا ہے ۔فیض کی نظموں میں زندگی کا درد بھی ہے اور سوز بھی، حوصلہ بھی ہے اور رنج و ملال بھی ،ایک درد انگیز پرامید اور طاقتور جدت بھی ہے اور ساتھ ہی غزل جیسا کلاسیکی رچاؤ بھی ۔فیض کی ابتدائی نظموں میں رومانی جذبے اور عشق ومحبت کا زور ہے نقش فریادی کی چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں سماجی کش مکش اور حالات کی ناسازگار ی کا احساس ملتا ہے ۔فیض کی شاعری میں فکر کی گہرائی تو ہے مگر پیچ وخم اور الجھائو نہیںہے ۔فیض نے اپنی شاعری میں نغمگی ، امیجری ،تشبیہ واستعارہ جیسی فنی تراکیب کا ہنر مندی کے ساتھ استعمال کیا ہے جس سے ان کی شاعری میں ایک دلکشی پید ا ہوگئی ہے ۔
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے با دِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
ابتدامیں فیض نے غزلیں کہیں یہ سلسلہ بعد تک جاری رہا مگر ان کے شعری سرمایہ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر نظمیں ہی کہی ہیں ۔ فیض کی غزلیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں :
’’فیض نے بہت غزلیں کہی ہیں پھر بھی جو سرمایہ ہے اس کے متعلق باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے اس لئے کہ ان غزلوں میں نفاست ،رچائو شگفتگی ہے ۔ان میں نغمگی ہے ۔جو تغزل کی نغمگی سے مختلف ہوتے ہوئے بھی بڑے سوزوگداز اور بڑی سرمستی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے ان ساری نفاست شگفتگی ،رنگینی اور چاشنی کے ساتھ فیض نے قدیم اور روایتی کو برقرار رکھا ہے ۔‘‘
(فیض کی شاعری :شکیل الرحمٰندسمبر ۱۹۵۳ )
علامہ اقبال کے بعد جس شاعر نے غزل اور نظم دونوں صنفوں میں ایک خاص مقام حاصل کیا ان میں فیض کانام سر فہرست آتاہے ۔کلام فیض کے مطالعہ کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ فیض نے فن کو مجروح نہیں ہونے دیا اور یہی خوبی انہیں دوسرے ترقی پسند شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ فیض کی ابتدائی شاعری اور اس کی نفسیات کو سمجھنے میں شکیل الرحمٰن کا مذکورہ مضمون ’’فیض احمد فیض ‘‘بہت ہی معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔
وامق جونپوری کا ایک خط شاہراہ میں اگست ۱۹۵۲کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔اس خط میںوامق جونپوری نے اردو شاعری کے رنگ روپ کو بدلنے کا مشورہ دیا تھا ۔ان کے مطابق ترقی پسند شاعری کا بڑاحصہ وہ ہے جس میں عوام کے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے، مگر شاعری کی زبان ادبی ہے لہذا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کسان اور مزدور تک پیغا م نہیں پہنچ پاتا ۔وامق جونپوری کے مطابق عوام کے لیے لکھی جانے والی شاعری عوامی زبان میں ہونی چاہیے۔انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں ایک تفصیلی مضمون بھی لکھا جس میں عوامی زبان کی ضرورت اور اہمیت پرروشنی ڈالی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’ہر دور میں دوسری چیزوں کی طرح شاعروں کا بھی معیار اور اس کی قدریں بدلتی رہتی ہیں ۔موجودہ دور زندگی کا جمہوری دور ہے جو عوامی جد وجہد کی آغوش میں پرورش پارہا ہے ۔وہ چیز ہر گز عوامی نہیں کہی جاسکتی جس سے عوام کو فائدہ نہ پہنچ سکے یا جس کو عوام اپنا نہ سکیں اس لئے آج کے معیار پر وہی اصلی ترقی پسند شاعر ی ہے جو عوامی شاعری کہی جاسکے ۔عوامی شاعری وہی شاعری ہے جس کو عوام سمجھ سکیں جس کو عوام گاسکیں ۔‘‘
(عوامی شاعری ، عوامی زبان۔وامق جونپوری ،جولائی اگست ۱۹۵۲)
وامق جونپوری کے مطابق ترقی پسند شاعری کا اصل مقصد عوام کی باتیں عوام تک پہنچانا ہے لہذا شاعری کی زبان بھی عوامی ہونی چاہئے تاکہ عوام اسے اپنا سکیں ۔ایک اقتباس اور ملاحظہ کریں تاکہ وامق جونپوری کے نظریے کی وضاحت ہوسکے ۔
’’اگر سختی کے ساتھ ترقی پسند ادب کا جائزہ لیا جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ۱۹۳۶ سے لے کر آج تک اردو میں صرف تین یا چار ایسی عوامی نظمیں لکھی گئی ہیں جن کو قبول عام کی سند حاصل ہے ۔مثلا مخدوم کی نظم ’’جنگ آزادی ‘‘ ’’میرا گیت ‘‘’’بھوکا بنگال ‘‘اورعمر شیخ کا ’’نیا ترانہ ‘‘۔عوامی تحریک کے سلسلے میں ان تین مختصر نظموں نے جادو کا کام کیا ہے مگر اب تحریک کو ایسے متعدد جادوئوں کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(عوامی شاعری،عوامی زبان ۔وامق جونپوری ،جولائی ۔اگست ۱۹۵۲)
وامق جونپوری کے ان خیالات پر رد عمل کا سامنے آنا ضروری تھا۔لہذا سب سے پہلے علی سردار جعفری نے وامق جونپوری کے نظر یے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک مضمون تحریر کیا جس میں وامق جونپوری کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے علی سردار جعفری لکھتے ہیں:
’’اگر وامق سنجیدگی سے غور کر یں گے تو انہیں اپنا بیان خود ہی بڑا مضحکہ خیز معلوم ہوگا ۔ذرا سوچئے کہ جس تحریک نے سترہ برس میں صرف تین عوامی نظمیں دی ہوں اور ان میں سے بھی ایک مراٹھی شاعرکی لکھی ہوئی ہو ،وہ تحریک دوکو ڑی کی ہے ۔اس پر لعنت بھیجئے اور کوئی اور تحریک شروع کیجئے ۔‘‘
(عوامی شاعری اور عوامی زبان ،علی سردار جعفری اکتوبر ۱۹۵۲)
وامق جونپوری نے جن نکات کو شاعری کے لئے اہم قرار دیا وہ کلاسیکی اندازفکر سے مختلف تھا ۔دوسری بات وامق خود ایک شاعر تھے اور ان کا یہ کہنا کہ تحریک کے سترہ سالہ دور میں محض کچھ نظمیں ایسی لکھی گئی جو سچ میں ترقی پسند تحریک کی نمائندگی کرتی ہیں ،تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر وامق جونپوری جو عوامی زبان سے واقف تھے انہوں نے کیوں نہیں ایسی نظمیں لکھیں جو خود ان کے بنائے اصول پر کھڑی اترتی ۔ علی سردارجعفری کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ جس تحریک کا بنیادی مقصد غریبوں ،مزدورں کی بات کرنا ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھنارہا ہو باوجود اس کے سترہ سال کی مدت گزر جانے کے بعد بھی چند ہی عوامی نظمیں ملتی ہیں،ایسی تحریک کو بند کردینا چاہیے۔
وامق جونپوری نے اپنے مضمون میں گل وبلبل کے استعاروں پر بھی اعتراض کیا۔ ان کے مطابق گل وبلبل جاگیر دارانہ علامتیں ہیں۔ لہذا اس گل و بلبل کے استعاروں سے گریز کرتے ہوئے مزدور ں کے دکھ درد اور عوامی جدجہد کا بیان ہونا چاہئے ۔شاعری کی زبان آسان اور عام فہم بلکہ فلمی نغموں جیسی ہونی چاہئے تاکہ عوام اسے بآسانی یاد کرسکیں۔وامق خود بھی ترقی پسند شاعر تھے اس لیے وہ اس امر سے واقف تھے کہ ترقی پسند شاعری چونکہ عوام کے لیے ہے، لہذا ضروری ہے کہ شاعری کی زبان اتنی سہل اور آسان ہوکہ اسے آسانی سے سمجھا جا سکے۔زبان کے متعلق وامق جونپوری کا خیال تھا کہ چونکہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ زیادہ تر شعرا متوسط اور اعلی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ طبقہ اپنے کلچر اور کردار کے اعتبار سے بنیادی طور پر رجعت پسند ہے اس لیے وہ عوام کی زبان میں شعر نہیں کہتے بلکہ آبائ و اجداد سے ورثے میں ملی زبان کو شاعری کے لئے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔مجموعی طور پر وامق جونپوری کا خیال تھا کہ ترقی پسند شاعروں کو عوام کے لیے عوامی زبان میں شاعری کرنی چاہئے۔ عوامی زبان میں شاعری پر زور تو تحریک نے بھی دیا تھا، مگر عوامی زبان کی ضرورت پر جس قدر وامق جونپوری نے زور دیا اس میں ایک ایسی شدت تھی کہ ترقی پسند شاعر وادیب تلملا اٹھے۔ لہذا پہلے سردار علی جعفری بعد ازاں ظ۔انصاری نے وامق جونپوری کے نظریہ کے خلاف محاذقائم کیا ۔علی سردارجعفری اور ظ۔انصاری خود بھی ترقی پسند شاعر تھے اور عوام کی ضرورتوں کے ساتھ زبان کی اہمیت سے بھی واقف تھے۔ وامق جونپوری نے شاعری میں گل وبلبل کے تذکرے کو جاگیر داری نظام کا نمونہ ٹھہرایا تھا اس کے متعلق ظ۔انصاری لکھتے ہیں :
’’گل وبلبل کی شاعری ٹھیک ہے اس کی حیثیت جاگیرداری دور میں زیادہ تر ایسی تھی جیسے قلعہ معلی کے نقش ونگار کی ہوتی ہے ۔وہ صرف جی کا بہلاوا اور وقت کاٹنے کا ایک مشغلہ تھا مگر کیا گل وبلبل کی شاعری محض اتنا ہی تھا !گل ، بلبل،کانٹے ، چمن،صیاد،باغباں،بجلی،نشیمن،بہار ،خزاںکی شاعری اگر چہ جاگیر داری دور کی ہی شاعر ی ہے لیکن جاگیر داری دور میں صرف جاگیر داراور ان کا مفاد ہی سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ عوام بھی جسے ماس کہتے ہیں ان کی نبضوں میں بھی لہو حرکت کرتا ہے۔ ان کی زندگی کے مسائل بھی ادب اور شعر میں فن تہذیب میں اپنا رنگ چھلکاتے ہیں۔ ‘‘
(عوامی شاعری اور عوامی زبان ۔ظ۔انصاری )
وامق جونپوری کاعوامی زبان میں شاعری کرنے کے مشورے کو پوری طرح مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جب ہم کسی مقصد کی حصولیابی کے لیے شاعری کرتے ہیں تو مشکل زبان مقاصد کی حصولیابی میں دشواری پیدا کرتی ہے ۔لیکن کیا کلاسیکی لفظیات اور استعاروں سے انحراف کر کے اچھی شاعری کی جاسکتی ہے؟ظاہر ہے ہر لفظ کی اپنی ایک تاریخ اور تہذیب ہوتی ہے،اس کے استعمال کے ساتھ ساتھ وہ تمام عناصر ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں ابھرنے لگتے ہیں جن کا تعلق اس لفظ کی روایت اور تہذیب سے رہا ہے۔اس طرح وامق جونپوری سے مکمل اتفاق ممکن نہیں۔
شاہراہ‘‘ میں شاعری اور اس کے موضوعات سے متعلق کئی مضامین شائع ہوئے۔ کبھی زبان کی صحت پر زور دیا گیا تو کبھی موضوعات پر۔ علی سردور جعفری کا مضمون’’ ترقی پسند شاعری کے بعض بنیادی مسائل ‘‘ ان ہی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ترقی پسند تحریک پر ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ اس نے ادب وشاعری کی روح کو مجروح کیا ہے اور مقصدیت کی خاطر فنی ضرورتوں کو نظر انداز کیا ہے ۔اس کا جواب دیتے ہوئے علی سردار جعفری لکھتے نے شاہراہ کے ابتدائی شمارے میں ہی ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے ترقی پسند شعری نظریات کی حمایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تم سے یہ کس مسخرے نے کہہ دیا ہے کہ ہم نظریات کو نظم کرتے ہیں ۔یہ گناہ تو ہم سے پہلے وہ اساتذہ کر گئے ہیں جن کی شاعری ہمارے لیے مشعل راہ ہے (زادراہ نہیں بلکہ ’’مشعل راہ ‘‘) ہم نظریات اور عقائد کے پرستار نہیں ہیں ۔ہم تو زندگی اور حقیقت کے جویا ہیں ۔‘‘
(علی سردار جعفری ،مضمون ،ترقی پسند شاعری کے بعض بنیادی مسائل،مارچ،اپریل ۱۹۴۹ )
علی سردار جعفری ادب کے ذریعے سماج کی تشکیل کرنا چاہتے تھے مگر ادب میں نعرہ بازی کے وہ قائل نہیں تھے،جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ علی سردار جعفری کے یہاں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔بہرحال علی سردار جعفری نے اس وضاحت کے بعد حافظ ،غالب اور اقبال کے کچھ اشعار درج کیے ہیں ۔علی سردار کی اس بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ و ہ’ نظریات اور عقائدکے پرستار نہیں‘کیوںکہ ترقی پسندوںنے جس شدت کے ساتھ اپنے نظریات کو اپنی تخلیقات میں برتا جس شدت کے ساتھ اسے اپنایا اسے قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ترقی پسندوں نے ادب برائے زندگی کے پیش نظر ایسی تخلیقات پیش کیں جن سے زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے ۔ترقی پسند وں نے دل کے مقابلے دماغ کو زیادہ ترجیح دی اور عشق وعاشقی کے موضوعات کے ساتھ زندگی کی بے ثباتی بھوک ، افلاس،سماج اور سیاسی مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے ۔علیسردار کا مذکورہ مضمون جہاں ترقی پسند شاعری کی چند بنیادی خامیوں کو اجاگر کرتا ہے وہیں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند شاعری کا تقابل بھی پیش کرتا ہے ۔
شاہراہ کی شائع شاعری کا حصہ کافی اہم ہے۔شاہراہ کے پہلے شمارے میں احمد ندیم قاسمی(چلی مشین چلی)،فکر تونسوی(امن نامہ)،شاد عارفی( ایٹم بم)، کمال احمد صدیقی(استقبال)،بلراج کومل(درمیانی طبقہ) اور اکرام افگار(آرتی) شامل ہیں۔ان نظموں کے علاوہ چند غیر ملکی زبان کی نظموں کا ترجمہ بھی اس شمارے کا حصہ ہیں۔ رسالہ’’شاہراہ‘‘ چونکہ ترقی پسندفکر کا نمائندہ تھا لہذا اس نے اپنے صفحات پر ان نظموں کو جگہ دی جس میں عوام کی آرزؤں اور پریشانیوں کو موضوع بنایا گیا تھا ۔رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے ابتدائی شماروں کی نظموں میں ایسی ہی نظمیں اہتمام کے ساتھ شائع کی گئیں۔’’شاہراہ‘‘ میں سلام مچھلی شہری کی نظم’’نا خدا اخفت است‘‘ شائع ہوئی تھی۔ نظم کی ابتدا اس بند سے ہوتی ہے۔
سحر کے بعد، اچانک ہوا کچھ ایسی چلی
کہ گلستاں میں ہراک سو غبار چھانے لگا
ابھی سنور بھی نہ پائے تھے صبح کے گیسو
کہ ابر وقت برنگ شرار چھانے لگا
اس انجمن میں مائل اہتمام آرائش
نہ جانے کیوں وہ خوشی کی فضا نہیں ملتی
شراب سامنے رکھی ہے پی نہیں سکتے
رباب چھڑا رہے ہیں ،صدا نہیں ملتی
( ’’ناخدا اخفت است ‘‘سلام مچھلی شہری ۔مارچ اپریل ۱۹۴۹)
نظم کے پہلے دو مصرعے ’’سحر کے بعد اچانک ہوا کچھ ایسی چلی ،کہ گلستاں میں ہر ایک سو غبار چھانے لگا ‘‘اس کرب بے چینی ،بے اطمینانی ،خوف ودہشت اور ظلم کی اس داستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے خاتمے کا خواب محبان وطن نے دیکھا تھا۔ سلام مچھلی شہری کا شمار بڑے ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے، ان کی نظم ’’ناخدا اخفت است ‘‘ آزادی اور اس کے بعد پیش آئے اس خونی قیامت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا خواب کسی نے نہیں دیکھا تھا۔’’ابھی سنور بھی نہ پائے تھے صبح کے گیسو ،کہ ابر وقت برنگ شرار چھانے لگا ‘‘ جیسے مصرعوں سے اسی واقعہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔تقسیم نے ہماری مشترکہ تہذیب کو بہت نقصان پہنچایا۔ ملک کا دوحصوں میں تقسیم ہونا اور اس کے نتیجے میں انسانی زندگی کی جو پامالی ہوئی وہ ہماری تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔سلام مچھلی شہری نے اس نظم میں بنیادی طور پرآزادی کے بعد پیش آئے اس خونی حادثے کو پیش کیا ہے جس کے پاداش میں ہزاروں جانیں گئیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔سلام مچھلی شہری اس بگڑتے ہوئے حالات سے بالکل خوف زدہ ہیں اور انہیں یہ ڈر بار بار ستا رہا ہے کہ کہیں ہم ہھر سے غلامی کی زنجیر میں قید نہ کردیے جائیں۔
ابھر چکی ہے جو بحر افق کے ساحل پر
وہ کشتی سحر زر نگارو ڈوب نہ جائے
بچا کے لائے ہیں جس کو بھنور کے چنگل سے
وہ نائو پھر سے پروردگار ڈوب نہ جائے
ہوا مخالف وشب وتارو بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشتی وناخدا اخفت است
(نظم :ناخدا اخفت است ،سلام مچھلی شہری ،مارچ یپریل ،۱۹۴۹)
سلام مچھلی شہری کی پوری نظم ایک خاص ماحول میں لکھی گئی ہے۔آزادی ملنے کے بعد بھی ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم آزاد نہیں یا ہماری آزادی دیرپا نہیں ہے۔پوری نظم گو کہ ایک خاص عہد کی نمائندگی کرتی ہیں مگر اس کے بعض بند ایسے ہیں جنہیں ہم آج کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ملک کی صورت حال میں بہت فرق نہیں آیا ہے،آج بھی مذہب،ذات اور علاقے کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے اور انہیں آپس میں لڑوانے کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس سے چشم پوشی ناممکن ہے۔آج بھی ہمارے ذہن میں ایک خوف ایک ڈر کا احساس ہے کہ کہیں پڑوسی طاقتیں ہمیں اپنا غلام نہ بنالیں۔سلام مچھلی شہری نے نظم’’ ناخدا اخفت است ‘‘ کے ذریعے عوامی فکر اور ذہنی کشمکش کو شعری پیکر میں پیش کیا ہے۔
شاہراہ کے مارچ اپریل 1949کے شمارے میں احمد ندیم قاسمی کی نظم’’فن‘‘بھی شائع ہوئی۔احمد ندیم قاسمی کی نظم ’’فن ‘‘بھی بنیادی طور پر ترقی پسند ادب کی ضرورت اوراہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ابھی ہے خون سے آلودہ شاہراہ حیات
ابھی حکایتِ عشق وجمال کون سنے
عظیم ادب کے نقیبو !
تصورات کی دنیا بسا تولوں لیکن
تصورات میں جمہور کی بھلائی نہیں
بڑے ادب کے نمائش پر ست بیماروں !
مجھے بھی یا دہیں وہ خوابناک افسانے
جو اس جہاں سے الگ دلربا جزیروں میں
گھنے درختوں کی خوش رنگ چھتریوں کے تلے
پنپتے آئے ہیں
(’فن‘، احمد ندیم قاسمی،مارچ اپریل ۱۹۴۹)
فیض کی مشہور نظم ’’نظم شورش بربط ونے ‘‘پہلی بار شاہراہ میں شائع ہوئی بعد میں فیض نے اسے اپنے مجموعہ ’’دست صبا‘‘میں بھی شامل کردیا ۔چند اشعار دیکھئے ۔نظم کا بند ملاحظہ ہو:
پہلی آواز :
اب سعی کا امکاں اور نہیں پروازکا مضموں ہو بھی چکا
تاروں پہ کمندیں پھینک چکے مہتاب پہ شنجوں ہو بھی چکا
اب اور کس فرد ا کے لئے ان آنکھوں سے کیا پیماں کیجئے
کسی خواب کے جھوٹے افسوں ہے تسکیں دلِ نادان کیجئے
شیرنیئی لب خوشبوئے دہن اب شوق کا عنواں کوئی
شادابیٔ دل تفریح نظر اب زیست کا درماں کوئی
جینے کے فسانے رہنے دو ایوان میں الجھ کر کیا لیں گے
اک مدت کا دھندا باقی ہے جب چاہیں گے نپٹالیں گے
یہ تیرا کفن وہ میرا کفن یہ میری لحد وہ تیری ہے
دوسری آواز :
یہ ہات سلامت ہیں جب تک اس خو ں میں حرارت ہے جب تک
اس دل میں صداقت ہے جب تک اس نطق میں طاقت ہے جب تک
ان طوق وسلاسل کو ہم تم سکھلا ئیں گے شورس بر بط ونے
وہ شورس جس کے آگے زبوں دمّامۂ حشمت قیصر و کے
آزادہیں اپنے فکر و عمل بھر پور خزینہ ہمت کا
اک عمر ہے اپنی ہر ساعت امروز ہے اپنا ہر فرد ا
یہ شام وسحر یہ شمس و قمر یہ اختر و کوکب اپنے ہیں
یہ مال و حشم یہ لوح وقلم یہ طبل وعلم سب اپنے میں
(شورس بر بط ونے ،فیض احمد فیض ۔مارچ اپریل ۱۹۴۹)
اس نظم میں دو آہنگ یا دو آواز یںموجود ہیں۔پہلی آواز جس میں مایوسی اور ناامیدی کا غلبہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے متکلم اپنی زندگی اور اس کی بے ثباتی سے تنگ آچکا ہے یانیرنگی زندگی سے گویا اس نے خود کو الگ کرلیا ہے ۔جبکہ دوسری آواز میں متکلم ایک حوصلہ مند بن کر ابھرتا ہے ،اس کے اندر مایوسی ، اضطراب اور ناامیدی کا دور دور تک شائبہ نظر نہیں ہوتا وہ نہ صرف ایک نئے جوش وخروش سے خود کو تازہ دم رکھنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں بھی حوصلہ مندی کی جوت جگاتا ہے فیض کی یہ نظم خالص ترقی پسند نظم ہے ۔ترقی پسندوں نے جہاں عوامی مسائل کو اپنی تصنیف کا حصہ بنایا وہیں انہوں نے عوام کے دلوںسے ڈر اور خوف کو مٹا کر زندگی جینے کا حوصلہ بھی دیا۔ٖفیض کا کمال یہ ہے کہ وہ ترقی پسند ہونے کے باوجود اپنی شاعری کو نعرہ بازی کا حصہ نہیں بننے دیتے بلکہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے ہر وہ کام لیتے ہیں جو ترقی پسند شاعر لینا چاہتے تھے مگر شعری اصولوں کی پابندی کا خیال رکھتے ہوئے۔فیض نے مذکورہ نظم اس وقت کہی جب انسانی زندگی خوف و ہرا اور ڈر کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔فیض نے اپنی نظم سے ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کے اندر کے ڈر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔فیض نے عوام کی بے چینی اور اضطراب کو پہلی آواز کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ دوسری آواز ترقی پسندفکر کی آواز ہے۔
ساحر لدھیانوی کی نظم ’’آہنگ انقلاب‘‘رسالہ ’’شاہراہ ‘‘ کے مارچ۔ اپریل ۱۹۴۹ کے شمارے میں شائع ہوئی۔نظم کے عنوان سے ہی اس کی انقلابی نوعیت کا احساس ہوتا ہے۔نظم ’’آہنگ انقلاب‘‘میں ساحر نے ترقی پسند نظر یے کو پیش کیا ہے ۔یہ نظم ِ ذہنی کشمکش اور اس کے رد عمل میں پیش آنے والی تبدیلیوں اور گونا گوں تقاضوں کی ترجمانی کرتی ہے ۔پوری نظم میں مایوسی اور ناامیدی کی فضا قائم ہے اور یہ مایوسی اور نا امیدی کا سلسلہ مسلسل ارتقا پذیر ہے ۔
مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈ نے والے
یہاں بہار نہیں، آتشیں بگولے ہیں
دھنک کے رنگ نہیں —سر مئی فضائوں میں
افق سے تابہ افق پھانسیوں کے جھولے ہیں
پھر ایک منزل خونبار کی طرف ہیں رواں
وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں
( آہنگ ِانقلاب ۔ساحر لدھیانوی ۔مارچ اپریل ۱۹۴۹)
نظم کی ابتدا ہی ذہنی کشمکش میں الجھے ہوئے خیالات سے ہوتی ہے ۔متکلم اس دلسوز واقعہ کو پیش کرتا ہے کہ جس طرف دیکھو پھانسی کے پھندے لٹک رہے ہیں اور رہنمائی بھی راہ سے بھٹک گئے ہیں ۔
خلیل الرحمٰن اعظمی کی نظم ’’امن ‘‘بھی شاہراہ کی زینت بنی تھی۔ان کی شناخت ایک ترقی پسند ناقد اور شاعر کی تھی۔ان کی ذہنی تربیت میں ترقی پسند فکر کا ایک اہم کردار ہے،بعد کو وہ جدیدیت کی طرف آئے لیکن ترقی پسند فکر کی اعلی اقدار سے ان کا رشتہ برقرار رہا۔نظم ’’امن‘ کے ذریعے متکلم ان شعرا سے مخاطب ہے جن کا تعلق ترقی پسندتحریک سے نہیں تھا۔ خلیل الرحمٰن اعظمی ان سے کہتے ہیں کہ حقیقت سے چشم پوشی غلط ہے ۔شعرا رومانی فضا سے نکل کر امن کی خاطر اپنے قلم کا استعمال کریں وہ دیکھیں کہ دنیا کی حقیقت آج کتنی تلخ ہوگئی ہے ۔
اے نئی نسل کے فنکاروں، مرے شاعروں، جنتاکہ امنگو اٹھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار اور مئے تلخ سے چمکادو ،شبستانوں کو
اپنے نعروں سے جگابھی دو مئے کہنہ میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو
پھینک دو جام وسبو،توڑ دو ساقی کی جوانی کا فسوں
چھین لو عارض وکاکل کا یہ بے جان سا گیت
آج تو شاعر رومان کے بھی ہاتھ میں دے دو پرچم
آج تو امن کی خاطر ہمیں لڑنا ہوگا
(’’امن‘‘،خلیل الرحمٰن ،دسمبر ۱۹۵۰)
بلراج کومل کی نظم ’’معصومیت کے نام ‘‘ دسمبر ۱۹۵۰میں شائع ہوئی، مگر نظم کے اختتام پر ۱۹۴۶ درج ہے ۔ممکن ہے کہ نظم ۱۹۴۶ میں لکھی گئی ہو اور ۱۹۵۰ میںشائع ہوئی ہو۔ نظم ’’معصومیت کے نام ‘‘ کے شاعر کا تخلیل ، امنگیں ،روشنی،خوشبو،پھول ،اور خوشیوں کا خواب دیکھتا ہے۔ اسے اپنے ارد گرد بس خوشیاں اور محبت رقص کرتی نظر آتی ہیں دور دور تک غم وافسوس کا شائبہ تک نہیں بلکہ وہ آنے والے دن کے لیے پر امید نظر آتا ہے ۔مگر جب خواب اپنے پایہ ٔ تکمیل کو پہنچتا ہے تو اسے اپنا خواب ٹوٹتا بکھرتا نظر آتا ہے۔
وہ شب مجھے یا دہے کہ جب میں نے خواب دیکھا تھا روشنی کا
وہ کیسی دنیا تھی جس میں کرنیں تھیں الفتوں کی،چہار سو گیت ناچتے تھے،
حسین مکھڑوں پہ مسکراہٹ سجی ہوئی تھی
کہ جیسے ہستی غموں کے سایوں سے دور اک وادیٔ نگاریں میں آگئی ہو،
وہ پھول بھی یاد ہیں مجھے جو ہوا کے جھونکوں میں جھومتے تھے،
فضا میں مستی رچی ہوئی تھی
گگن سے موتی برس رہے تھے
زمین دلہن بنی ہوئی تھی
(نظم’’ معصومیت کے نام‘‘۔بلراج کومل ۔دسمبر ۱۹۵۰)
نظم میں اس خواب کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو محبان وطن نے دیکھا تھا ،یعنی آزادی ، مساوات اور خوشحالی وغیرہ ۔مگر نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے خواب بکھرتا نظر آتا ہے۔خواب دیکھنے والا خواب کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کس قدر دنیا میں بے چینی ،بے اعتمادی ، خوں ریزی اور غم واندوہ ہے۔ متکلم حالات سے حوصلہ شکن ضرور ہے مگر نظم اس مصرعہ پر ختم ہوتی ہے :
تمہاری خاطر مرا تخیل جواں رہے گا !!!
اکتوبر ۱۹۵۳ کے شمارے میں باقر مہدی کی ایک نظم’’بھوک‘‘ شائع ہوئی تھی۔اس نظم میں باقر مہدی نے بھوک کی شدت سے پیدا ہونے والی صورت حال کو پیش کیا ہے۔
بھوک کی آگ میں جلتی ہے مری فکر دوراں
روح بیدار ہے، اب بھی ہے وہی سوز تپاں
آج افکار کے پھولوں کو بھی جلنا ہوگا
ہے یہ وہ آگ کہ رگ رگ کو پگھلنا ہوگا
(نظم،’بھوک‘ ، باقر مہدی، اکتوبر ۱۹۵۳)
بھوک تمام مسائل کی جڑ ہے۔ہمارا سماج اس وقت بھی دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا،ایک طبقہ ان غریبوں اور مزوور وں کا تھا جو دن رات کی محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی حاصل نہیں کر پاتے تھے آج بھی صورت حال پہلے ہی کی طرح ہے۔دوسرا طبقہ ان امیروں اور سرمایہ داروں کا تھا جو ان غریبوں کا استحصال کر رہے تھے جس سے سماج میں ایک دوسرے کے خلاف غم و غصہ اور ناراضگی پائی جاتی تھی۔باقر مہدی کے مطابق بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی فکری صلاحیت کو ختم کردیتی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ بھوک کی وجہ سے انسان کے احساس اس کے تخیل کی پرواز اور اس کی دھڑکنوں میں پہلے جیسی حرارت نہیں رہی۔
دل ناداں تری باتوں میں حلاوت نہ رہی
ہے یہ وہ غم کہ محبت بھی حکایت نہ رہی
بھوک کی آگ میں جذبات نہ بجھ جائیں کہیں
میرے اشعار تخیل میں نہ جل جائیں کہیں
(نظم،’بھوک‘ ، باقر مہدی، اکتوبر ۱۹۵۳)
متکلم کہتا ہے کہ بھوک ایسی بیماری جو انسان کے تخیل اور بلند پروازی کو بھی ناکام کردیتی ہے اور انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی تمام صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
اپریل ۱۹۵۵ کے شمارے میں جگن ناتھ آزاد کی ایک نظم’’ بار بار آتے رہو‘‘ شائع ہوئی۔یہ نظم جگن ناتھ آزاد نے انڈو پاک مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے پاکستانی شعرا کے استقبال اور اعزاز میں پڑھی تھی۔
لے کے نغموں میں گلستاں کا نکھار آتے رہو
اس چمن میں صورت فصل بہار آتے رہو
سر زمیں بھارت کی ہے علم و ادب کا گلستاں
اس گلستاں میں مثال جوئبار آتے رہو
روح کو گر مانے والا درد سینوں میں لیے
اے ہمارے دوستان ذی وقار آتے رہو
دردِ شاعر سے واقف کون شاعر کے سوا
تم ہماری روح کا بن کر قرار آتے رہو
(نظم’ بار بار آتے رہو‘، جگن ناتھ آزاد،اپریل ۱۹۵۵)
اور نظم کا اختتام اس شعر کے ساتھ ہوتا ہے :
تم سے قائم ہے ہماری محفلوں کی آبرو
محفلوں کی آبرو کے سایہ دار آتے رہو
رسالہ ’’شاہراہ‘‘کی نظموںکے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ ۱۹۴۹ سے لے کر ۱۹۵۵ کے درمیان جو نظمیں ’’شاہراہ‘‘ میں شائع ہوئیں ان میں سے بیشتر نظمیں ترقی پسند ادبی تحریک کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ۱۹۵۵اور اس کے بعد کے شمارے پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ رسالہ ’’شاہراہ‘‘ میں ترقی پسند نظمیں تو تب بھی شائع ہوتی تھیں مگر ایسی نظموں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ ’’شاہراہ‘‘ میں ایسی نظمیں کثرت سے شائع ہونے لگیں جن میں مقصدیت نظر نہیں آتی۔۱۹۵۵ کے بعد شاہراہ میں جو نظمیں شائع ہوئیں ان میں جدیدیت کا اثر صاف نظر آتا ہے۔پہلے جہاں اجتماعی زندگی کی نمائندگی کرنے والی نظمیں رسالہ’’ شاہراہ‘‘ میں شائع ہوتیں تھیں وہیں ۱۹۵۵ کے بعد انفرادی جذبات و احساسات کی حامل نظمیں زیادہ شائع ہوئیں۔
شاہراہ میں جن شعرا کی غزلیں شائع ہوتی تھی ان میں سے کئی شعرا ایسے ہیں جن کے کلام میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔انہیں کسی خاص نظریے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔’شاہراہ‘‘ میں جن قابل ذکر شعرا کا کلام شائع ہوتا رہا ان میں فراق گورکھپوری، احمد ندیم قاسمی،جوش ملیح آبادی ، باقر مہدی، احسان دانش ، قتیل شفائی، فیض احمد فیض ، معین احسن جذبی، مجروح سلطانپوری، شکیل بدایونی ، سلیمان اریب اور جمیل ملک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان شعرا کے کلام کا بیشتر حصہ وہ ہے جس میں اس وقت کی سیاسی اور سماجی صورت حال کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’شاہراہ‘‘ کی شاعری ان ہی شعرا کے کلام کی وجہ سے جاذب اور دلکش رہی ہے۔
تونگری میں ہیں بہروپ بے شمار ابھی
عوام آئیں گے دھوکے میں بار بار ابھی
کسے خبر ہے کہ کل کون سی ہوا چل جائے
کہ خاک و خوں میں لتھڑی ہوئی ہے بہار ابھی
احسان دانش
کئی روزوں کی ملاقات کی ہے آخری شام
وقت کیا چیز ہے معلوم ہوا آج مجھے
(فراق گورکھپوری)
قتل کرتے سرِ بازار نہ دیکھا نہ سنا
ہم نے تجھ سا کوئی یار نہ دیکھا نہ سنا
(مسعود حسین)
آگ سی ہے سینے میں اور آنکھ تر بھی ہے
ہے اِدھر جو حال اپنا اُدھر بھی ہے
(سلیمان اریب)
شاہراہ میں ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن سے آزادی کے بعد پیدا شدہ سیاسی اور سماجی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہو:
بہار آتے ہی ہر قدم پر نئی نئی زندگی ملے گی
کلی کلی جھوم اٹھے گی روش روش تازگی ملے گی
جشن گل ہم بھی منائیں گے اسی صحرا میں
اک گلستاں میں بدل جائے گا صحرا بھی
(باقر مہدی)
دشمن کی دوستی ہے اب اہل وطن کے ساتھ
ہے اب خزاں چمن میں نئے پیرہن کے ساتھ
(مجروح سلطان پوری)
کیسے بنتے اوس کے موتی،کیسے کھلتے پھول یہاں
لگے ہوئے کانٹوں کے ڈر سے پوجی گئی ببول یہاں
(احمد ندیم قاسمی)
جاگی ہوئی فضا میں ذرا بانکپن تو ہے
یہ کل کے آفتاب کی پہلی کرن تو ہے
(خمار انصاری)
یہاں کچھ اور بھی ہیں چند گلبدن ہی نہیں
مجھے تلاش ہے جس کی یہ وہ چمن ہی نہیں
(احمد ظفر)
نہ راہبر نہ غم رہگذر کو دیکھتے ہیں
جو راہرو ہیں وہ عزم سفر کو دیکھتے ہیں
(نوبھار صابر)
جس کو تری توصیف سے ملتی نہ تھی فرصت
اس لب پہ بھی تلوار کی بات آہی گئی ہے
(مظہر امام)
ابھی زمیں حسین ہے، نہ آسمان حسین
ابھی بنی ہی کہاں ہے مری بہشت بریں
(معین احسن جذبی)
ہر دور میں قانون نئے بنتے رہے ہیں
ہر عہد میں زنجیر نئی ڈھلتی رہی ہے
(غلام ربانی تاباں)
شاہراہ میں شائع شدہ غزلوں کا مجموعی جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو الزام ترقی پسندوں پر لگایا جاتا رہا ہے کہ اس تحریک نے فن کو بالائے طاق رکھ کر شعر وادب تخلیق کرنے پر زور دیا کم سے کم شاہراہ کی غزلوں کے مطالعے سے ایسا نہیں لگتا۔ شاہراہ میں شائع غزلوں کے موضوعات روایتی بھی ہیں اور ترقی پسند بھی ۔کچھ اشاعر میں شاعری کا کلاسیکی رچاؤ بھی ملتا ہے۔
شاہراہ میںدیگر اصناف کی طرح رباعیاں بھی شائع ہوئیں اگرچہ ان کی تعداد خاصی کم ہے۔ شاہراہ کی رباعیوں میں بیشتر رباعیاں ایک خاص مقصد کے تحت لکھی گئی ہیں۔شاہراہ نے اپنے مقاصد کے حصولیابی کے لیے ان رباعیوں کو شائع کیا کیونکہ ان سے ترقی پسند فکر کی ترجمانی ہوتی ہے۔
پنڈت جی، شیخ جی، مہاجن، قاضی
اب لڑ بھڑ کر ہوئے ہیں اس پر راضی
جنتا کو لگی ہے رٹ نئی دنیا کی
مل کر نعرہ لگاؤ ماضی ماضی
(فراق گورکھ پوری)
’’شاہراہ‘‘ کا افسانوی حصہ شعری حصے کے مقابلے میںکمزور ہے۔ایسا نہیں ہے کہ شاہراہ میں شائع ہونے والے افسانے غیر معیاری یا غیر ترقی پسند تھے بلکہ یہ افسانے ان معنوں میں کمزور ہیں کہ ان افسانوں کو ’کفن‘،’پوس کی رات‘،کالو بھنگی‘، ’گرم کوٹ‘،’چوتھی کا جوڑا‘، وغیرہ جیسی شہرت نہیں ملی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاہراہ میں معیاری افسانے شائع ہی نہیں ہوئے ،اس کی وجہ شاید ترقی پسند تحریک سے بے رغبتی ہو کیونکہ جس زمانے میں شاہراہ کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت تک بہت سے ادیبوں نے خود کواس تحریک سے الگ کرنا شروع کردیا تھا ممکن ہے شاہراہ کے افسانوں کو شہرت نہ ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو ۔
رسالہ شاہراہ کی خوبی یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے مقصد کو فوقیت دی حالانکہ آخر کے برسوں میں جس طرح کی تحریریں شاہراہ کا حصہ بنی اس میں ترقی پسند کا روایت اسلوب نظر نہیں آتا۔شاہراہ نے ادیبوں کی آزادی پر زور دیا ، ناساز گار حالات میں بھی شاہراہ کا منظر عام پر آنا اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔مدیران شاہراہ نے بھی وقتاً فوقتاًاس بات کا ذکر بھی کیا ہے۔ محمد یوسف جامعی ایک اداریے میں لکھتے ہیں :
’’شاہراہ نے اس درو میں جب حق یا انصاف کی ۔آواز اٹھانا ،آندھی میں چراغ جلانے کے مترادف تھا ۔انتہائی بے باکی اور جرأت کے ساتھ رجعت پسند اور غیر صحت مند اور معیاری ادب کی ترویج واشاعت کے اہم ترین کا م کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے اور حق وصداقت کی آواز کو ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک لے جانے میں اس نے کبھی کو تاہی نہیں کی ۔‘‘
(محمد یوسف جنوری ۱۹۵۹)
رسالہ شاہراہ نے اپنی ذمہ اری بخوبی نبھائی اور اس علمی اور تاریخی رسالے کا آخری شمارہ(میری تحقیق کے مطابق)ستمبر ۱۹۶۰ میں شائع ہوا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page