بہار ہمیشہ سے اردو زبان و ادب کا مرکز رہا ہے۔ادیب و دانشور کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی تشکیل میں ایک نمایاں اور اہم رول ادا کیاہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی بہار کے صحافیوں نے کارہائے نمایاں ادا کیا ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اردو صحافت کا آغاز ’’جام جہاں نما(۱۸۲۲)‘‘سے ہوا،بہار میں اردو صحافت کی ابتدا ۱۸۵۳ میں ’’نور الانوار(آرہ) سے ہوتی ہے،یعنی اردوصحافت کے آغاز سے کوئی اکتیس (۳۱) سال بعد۔بہار کی صحافت کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہار میں صحافت کی ابتدا اردو سے ہوتی ہے۔بہر کیف صحافت کی تاریخ کی طرف ذہن مرکوز کرنے کے بجائے میری کوشش ہے کہ میں بہار کی ادبی صحافت: ۲۰۰۰ کے بعد شائع ہوئے رسالوں کے حوالے سے‘‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ادبی صحافت کے متعلق عطا عابدی اپنے مضمون ’’ ادبی صحافت اغراض و مقاصد میں لکھتے ہیں:
’’ادب اگر سماج کا آئینہ ہے تو ادبی صحافت کو بجاطور پر سماج کا آئینہ گر یا آئینہ خانہ کہا جانا چاہئے ۔ ادب اور سماج کے اس رشتے سے ادبی صحافت کی اہمیت وافادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ادبی صحافت کا مطلب ہے صحافت کا وہ پہلو جو ادب سے متعلق ہوتاہے۔ اور ایسی صحافت کا بنیادی وسیلہ عموماً ادبی رسائل ہی ہوتے ہیں۔ ادب کے نشو ونما ادب کے مزاج ومذاق کی تعمیر وتوسیع نیز رجحانات وعوامل کے حوالے سے ادبی صحافت یعنی ادبی رسائل کا مطالعہ جہاں سماجی وثقافتی جہان نو کی دریافت کے مترادف ہے وہیں مختلف اور متنوع زمانی ومکانی ارتقاکی تاریخ کو روشنی میںلانے کے مساوی بھی ہے۔ ‘‘
یقینا ادب سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے ، اور ادبی صحافت سے ادب کی سمت و رفتار کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ادبی صحافت کا چونکہ مفہوم ایسی تحریر سے ہوتا ہے جس میں ادبی مسائل پر گفتگو کی گئی ہو۔ لہذا میں نے صرف ان رسالوں کا انتخاب کیا ہے جو ادبی حیثیت رکھتی ہیں اور ساتھ ہی ان کی اشاعت غیر سرکاری اداریے کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ دراصل میری کوشش ہے کہ بہار میں ادبی صحافت کی صورت حال کے ساتھ ان مردان مجاہد ین کی نشاندہی بھی کی جائے جو اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا،تن، من اور دھن لگادیا، ان مدیران نے جس تندہی کے ساتھ اردو ادب کو نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے وہ لائق احترام ہے۔بہار کی ادبی صحافت دراصل اردو کے ادبی صحافت کا جائزہ ہے۔ بہار کی ادبی صحافت پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹرصفدر امام قادری لکھتے ہیں:
’’بہار کی ادبی صحافت پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو انجم مانپوری کے ’ندیم‘، قاضی عبدالودود کے ’معیار‘، کلیم الدین احمد کے ’معاصر‘ وفاملک پوری کے ’صبحِ نو‘، قیوم خضر کے ’اشارہ‘، کلام حیدری کے ’آہنگ‘، ظفر اوگانوی کے ’اقدار‘،بہار اردو اکادمی کے ’زبان وادب ‘، عبدالمغنی کے ’مریخ‘ اور سہیل عظیم آبادی، عبدالقیوم انصاری کے رسالہ ’تہذیب‘، طارق متین کے ’علم و ادب‘ اور وہاب اشرفی کے ’مباحثہ‘ وغیرہ کا تذکرہ لازم ہے۔ ان رسائل میں تقریباً نصف کی حیثیت علاقائی سے زیادہ نہیں رہی۔ لیکن ان رسائل نے اپنے عہد میں قومی سطح پر لکھنے والوں کو ایک مستحکم پلیٹ فارم عطا کیا۔ ’ندیم‘، ’معیار‘، ’معاصر‘، صبحِ نو‘، ’اقدار‘، ’آہنگ‘ اور ’مباحثہ‘ کو قومی سطح پر توجہ سے پڑھاجاتا رہا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی صوبے سے زیادہ ادبی رسائل کی فروخت بہار میں ہوتی ہے لیکن بہار میں تواتر سے نکلنے والا ایک بھی بہترین ماہانہ ادبی رسالہ ایسا نہیں ہے جسے ملک کے نمائندہ ادبی رسائل میں شامل کیا جا سکے۔‘‘
(بہار میں اردو صحافت:تاریخ، تکنیک اور معیار کا جائزہ،ڈاکٹر صفدر امام قادری،بہار میں اردو صحافت۔ ص:۳۴)
ڈاکٹر صفدر امام قادری کا خیال درست ہے مگر اب صورت حال میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی واقع ہورہی ہے ادھر چند برسوں میں جو رسائل منظر عام پر آئے ہیں ان رسالوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے امید کی جانی چاہیے کہ بہار میں ادبی صحافت کا مستقبل روشن ہے۔ میں نے چند رسالوں کا انتخاب اپنے مطالعے کے لیے کیا ہے تاکہ بہار میں ادبی صحافت کی سمت و رفتار کا اندازہ لگایا جاسکے۔ ذیل میں چند رسالوں کا تعارف پیش کیا جارہا تاکہ ان رسالوں کی خدمات کا ایک اشاریہ قاری کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔
رسالہ مباحثہ: پروفیسر وہاب اشرفی:
پروفیسر وہاب اشرفی کی شخصیت ایک ادیب اور دانشور کی رہی ہے، انہوں نے اپنی تحریروں سے نئی نسل کے ذہن کی آبیاری کی ہے۔جہاں تک ان کی ادبی صحافت نگاری کا تعلق ہے تو انہوں نے لکھا ہے کہ نوجوانی سے ہی انہیں رسالہ شائع کرنے کی خواہش تھی مگر تجربہ نہ ہونے کے سبب وہ اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے، حالانکہ انہوں نے سید رفیع احمد کے ماہنامہ ’صنم ‘ کی ادارت ضرور کی۔اور بقول ان کے’’اس[رسالہ صنم] کے دو خصو صی شمارے ’ بہار نمبر ‘ اور ’ افسانہ نمبر ‘ آج بھی محققین کے لیے کشش رکھتے ہیں۔‘‘پروفیسر وہاب اشرفی کے خوابوں کی تکمیل اگست ا۲۰۰ میں ہوئی جب انہوں نے’’مباحثہ‘‘ نام سے اپنا سہ ماہی رسالہ جاری کیا۔رسالہ’’ مباحثہ‘‘ کے پہلے شمارے کے اداریے میں انہوں نے اس رسالے کی اشاعت کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ آج کی ادبی فضا بڑی وسعت کی حامل ہو گئی ہے ۔ ایک طرف ادب کے نئے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ایسے امکانات پر سوالیہ نشانات قائم کیے جارہے ہیں ۔ میرے خیال میں دونوں رویے اپنی جگہ پر اہم ہیں اور ہوسکتے ہیں ۔ اگر طرفین میں مجادلے کا انداز پیدا ہوتا جا رہا ہے تو یہ بھی امکان کے اندر کا عمل ہے ، تشویس کی ضرورت نہیں ہے۔دلوں کا بخار نکل جاتا ہے توسکون لازمی نتیجے کے طور پر ابھرتا ہے اور ساتھ ساتھ نئی توانائی اور نئی صحت بھی ۔ہاں کردار کشی نہ کی جائے یہ بڑا اچھا حربہ ہے ۔‘‘
(مباحثہ ، اگست ،2001 ،ص:4)
پروفیسر وہاب اشرفی کا مذکورہ اداریہ کئی معنوں میں اہم ہے، اداریے کی ابتدا میں انہوں نے اردو رسالوں کی مجموعی صورت حال پر بھی گفتگو کی ہے۔انہوں نے اپنے اداریے میں رسالہ ’’ مباحثہ‘‘ کی اشاعت اور اس کی ضرورت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ رسالے کے نام سے ہی ظاہر ہے وہ اس رسالے سے علمی مباحثہ کو فروغ دینے کے خواہاں تھے، انہوں نے ذاتیات پر مبنی تنقید کو ناپسندگی کی نگاہ سے بھی دیکھا ہے۔ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نئے لکھنے والوں کو اپنے رسالے میں نہ صرف شائع کرتے بلکہ اان کی رہنمائی اور ضروری حوالوں کی طرف اشارے بھی کرتے۔ رسالہ ‘‘ مباحثہ‘‘ نے ہمیشہ ادب کی اعلی قدروں کی اشاعت کی ہے۔
تمثیل نو(دربھنگہ) مدیر: امام اعظم
رسالہ’’ تمثیل نو‘‘ بہار کے دربھنگہ سے شائع ہونے والا ایک اہم رسالہ ہے۔ اس رسالے کی اشاعت مارچ ۲۰۰۱ سے جاری ہے۔پہلے پہل یہ رسالہ سہ ماہی تھا مگر بعد میں یہ ماہنامہ بن گیا۔ اس رسالے کو ادبی دنیا میںخوب پذیرائی ملی۔ اردو کے معروف اسکالرز کے علاوہ صحافیوں نے بھی اس رسالے اور اس کی مشمولات پر تبصرے اور مضامین لکھے ہیں۔مشہور صحافی خشونت سنگھ نے بھی رسالہ ’’تمثیل نو‘‘ کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا جو ٹیلی گراف میں شائع ہوا تھا۔۔ اس کے کئی گوشے شائع ہوئے، ان خصوصی شماروں میں’’ میتھلا کے دو روشن چراغ: فاطمی اور شکیل(اکتوبر ۲۰۰۴)‘‘،’’اردو ادب کے رجحان ساز فاروقی، نارنگ اور مظہر امام(اپریل تا ستمبر ۲۰۰۵)‘’’ تاریخ ادبیات عالم اور عہد ساز شخصیت وہاب اشرفی (اکتوبر ۔ دسمبر 2005ئ)،متھلا اردو زبان اور تہذیب و ثقافت کا ایک قدیم مرکز (جولائی -دسمبر 2006ئ)اور سہرے کی ادبی معنویت (اکتوبر 2007ئ-جون2008)۔’’ سات سمندر پار کا ہم عصر ادب: ۸۵ کے بعد‘‘ (جولائی ۲۰۰۸، مارچ ۲۰۰۹)، ’’ بیسویں صدی کے مدبر و مفکر : مولانا آزاد‘‘(اپریل دسمبر ۲۰۰۹)’’ ہندوستانی فلمیں اور اردو‘‘(جنوری۔ ستمبر ۲۰۱۰) قابل ذکر ہیں۔ ان خصوسی شمارے سے امام اعظم کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
رسالہ تمثیل نو کے ذریعے ڈاکٹر امام اعظم نے اردو زبان اور اس کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ پہلے شمارے میں اداریے کا عنوان ’’ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے‘‘ تھا، مگر دوسرے شمارے سے اداریے کا نام بدل کر ’’ مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ کردیا گیا۔ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے ایک اداریے میں رسالے کی ضرورت اور انفرادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے پیش نظر کسی خاص مکتبۂ فکر کی ترویج و اشاعت کے بجائے مختلف مکتبہ فکر کو ایک ساتھ جمع کرنا ہے تاکہ اہم موضوعات اور اردو کے مسائل پر مختلف نظریات سامنے آئیں۔مدیر کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ سنسنی خیزی سے اپنے رسالے کو دور ہی رکھیں بلکہ سنجیدگی سے اردو کی زبوں حالی کی طرف متوجہ ہو کر ان مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
دربھنگہ ٹائمز: مدیر: منصور خوشتر
’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ ایک ادبی رسالہ ہے جس کی ادارت نوجوان قلمکار اور شاعر ڈاکٹر منصور خوشتر کر رہے ہیں۔یہ رسالہ متھلانچل یعنی دربھنگہ سے شائع ہوتا ہے۔دربھنگہ ٹائمز کا پہلا شمارہ جنوری ۲۰۰۶ میں منظر عام پر آیا۔اس شمارے کے سر ورق پر پروفیسر عبد المنان طرزی کا ایک شعر درج ہے، جس سے رسالے کے عزم کا احساس ہوتا ہے۔
قافلوں کے کام آئے کچھ میرا بھی خون دل
رہ گزر پر رکھ دیا میں نے جلا کر اک چراغ
دربھنگہ ٹائمز کے پہلے شمارے میں جگن ناتھ آزادؔ، پروفیسر اویس احمد دوراں ؔ اور ڈاکٹر حنیف ترین جیسے شعرا کا کلام شامل ہے جب کہ دور حاضر کے اہم افسانہ نگار ڈاکٹر اسلم جمشید پوری (تم چپ رہو) ،اقبال انصاری ( ناداں )اور علیم صبا نویدی (چیل ) کے افسانوں کو رسالے نے ترجیح کے ساتھ شائع کیا ہے۔جہاں تک تنقیدی مضامین کا تعلق ہے تو محمد بدیع الزماں، عطا عابدی، ڈاکٹر محمد حسن اور ڈاکٹر خالد حسین کی تحریریں قابل ذکر ہیں۔دربھنگہ ٹائمز نے خاص نمبرات پر توجہ دی ہے۔ادیب و دانشور کے اعتراف میں بھی کئی گوشے بھی شائع ہوئے،اور گوشوں کا یہ سلسلہ رسالے کے دوسرے شمارے سے ہی شروع ہوتا ہے۔دربھنگہ ٹائمز کے دوسرے شمارے میںحسن امام دردکی ادبی خدمات کے اعتراف میں بطور خاص چند صفحات مختص کیے گئے تھے ۔ حسن امام درد ؔ نے شعر ونثر دونوں میں یکساں طور پر اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ۔ اس شمارے میں حسن امام درد کا افسانہ ’’اور آزادی مل رہی تھی ‘‘، ’’صبا برگد ‘‘ شامل ہے، جب کہ ان کی شخصیت اور شاعری کے حوالہ سے صلاح الدین رام نگری اور منظر شہاب کے مضامین کے علاوہ حسن امام درد سے لیا گیا انٹرویو اور عبد المنان طرزی کا منظوم اظہاریہ اور منتخب غزلیں شامل ہیں۔ دربھنگہ ٹائمز کی مقبولیت یوں تو کئی حوالوں سے ہے مگر اس رسالے کے دو نمبرات ’’ افسانہ نمبر‘‘اور ’’ ناول نمبر‘‘ کو خاص مقبولیت ملی۔ ناول نمبر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس شمارے کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع کیا گیا۔اس شمارے کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس میں ناول کی پوری تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس شمارے میں تازہ ترین ناولوں پر مضامین تو شامل ہیں ہی ساتھ میں غیر مطبوعہ ناول کے ابواب بھی مدیر نے شامل کئے ہیں۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نوجوان ہیں مگر انہیں بزرگوں کی محبت اور شفقت بھی حاصل ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں اعتماد اور ان کے کام میں پختگی پائی جاتی ہے۔
رسالہ اردو جرنل: مدیر ۔ شہاب ظفر اعظمی
رسالہ ’’ اردو جرنل ‘‘ پٹنہ سے نکلنے والا ایک اہم رسالہ ہے۔ اس رسالے کی اشاعت پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ سے ہوتی ہے۔ رسالے کے مدیر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ہیں۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اردو دنیا کے لئے کسی تعارف کے محتاج نہیں،وہ پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں۔جہاں تک ان کی علمی کارناموں کی بات ہے تو ان کی تنقید کا دائرہ کافی وسیع ہے مگر ناول پر کیا گیاان کا کام ’’اردو ناول کے اسالیب ‘‘کوکئی حوالوں سے یاد کیا جاتا رہے گا۔
اپنی علمی و ادبی سرگرمی کے ساتھ ساتھ شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ سے شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’ اردوجرنل ‘‘کی ادارت کے فرائض بھی ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی فرما رہے ہیں۔یہ رسالہ سالانہ شائع ہوا کرتا ہے۔ اردو جرنل کا پہلا شمارہ ۲۰۱۰ میں منظر عام پر آیا۔ اب تک اس رسالے کے چھ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس رسالے کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس کے تمام شمارے ’’ خاص نمبر‘‘ ہیں۔رسالہ اردو جرنل کے شماروں کی ترتیب کچھ یوں ہے:
پہلا شمارہ ۲۰۱۰: دبستان عظیم آباد نمبر
دوسرا شمارہ ۲۰۱۱: فیض، مجاز ، سہیل نمبر
تیسرا شمارہ ۲۰۱۲: منٹو اور غیر افسانوں نثر نمبر
چوتھا شمارہ ۲۰۱۳: تحقیق و تنقید نمبر
پانچواں شمارہ ۲۰۱۴ـ: ہم عصر اردو افسانہ نمبر
چھٹا شمارہ ۲۰۱۵: ہم عصر اردو ناول نمبر
رسالہ جرنل کا ساتواں شمارہ ’’ ہم عصر اردو شاعری‘‘ نمبر ابھی زیر ترتیب ہے۔اس رسالے کا مزاج خالص تحقیقی اور تنقیدی ہے۔مذکورہ تمام شمارے دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سہ ماہی’’ آمدـ‘‘ پٹنہ : مدیر اعزازی :خورشید اکبر
بہار کی راجدھانی پٹنہ سے خورشید اکبر کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ’’ آمد‘‘ کا ذکر ناگزیر ہے۔خورشید اکبر اردو ادب کے لیے نیا نام نہیں۔ سرکاری محکمے سے وابستہ ہونے کے باوجود ان کی تحریریں اورشاعری مختلف رسالوں میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ادب سے محبت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انہوں نے اپنی محنت ذاتی خرچے پر ایک رسالہ ’’ آمد ‘‘ کا آغاز کیا۔اس رسالہ کی ضخامت ۴۰۰ یا اس سے زائد صفحات پر مشتمل ہوتی ہے۔اس رسالے کا پہلا شمارہ اکتوبر ۲۰۱۱ میں منظر عام پر آیا تھا۔ رسالہ آمد نے اپنے ابتدائی شمارے سے ہی معیاری ادب کی اشاعت پر توجہ مرکوز کی۔خورشید اکبر نے ہمیشہ نجات پسندی، کشادہ ذہنی اور ادیب کی آزادی پر زور دیاہے۔خورشید اکبر کے نزدیک فکشن کی عصری معنویت کتنی اہم ہے اس بات کا اندازہ رسالے کے پہلے شمارے سے ہی لگایا جاسکتا ہے،جس میں انہوں نے خالد جاوید کے ناول ’’ موت کی کتاب‘‘ پرایک مباحثہ قائم کیا تھا۔
رسالہ آمد کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں جو تخلیقات شائع ہوتی ہیں اس میں یہ کوشش نظر آتی ہے کہ ہر علاقے کے تخلیق کار کی تخلیق(بالخصوص شاعری) شامل ہو۔
رسالہ’’ آمد‘‘ کا اداریہ کئی لحاظ سے اہم ہوتا ہے، اول تو یہ اداریہ عموما یک موضوعی ہوتا ہے ، ان اداریوں میں ادب کی عصری صورت حال پر کھل کر گفتگو ملتی ہے۔بعض اداریے ایسے بھی ہیں جن میں رسالے کی مشمولات پر گفتگو اور ان کا تجزیہ ملتا ہے۔بعض اداریے منظوم بھی ملتے ہیں۔ان اداریوں میں ادب کے مقاصد پر بھی سوال قائم کئے جاتے رہے ہیں، مثلاََ ادب کا مقصد کیا ہے ؟ کیا ادب بے مقصد ہوتا ہے ؟ کیا ادب غیر مشروط رہ سکتا ہے ؟ خورشید اکبر کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف سوال قائم نہیں کرتے بلکہ ان کے ممکنہ جواب بھی پیش کرتے ہیں اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ ان کے جواب سے کس حد تک مطمئن ہو پاتا ہے۔ مجموعی طور پر اداریے میں ادبی موضوعات پر سنجیدہ گفتگو ملتی ہے ۔
آمد کا کوئی خاص نمبر شائع تو نہیں ہوا مگر وہاب اشرفی، احتشام حسین اور ابن صفی وغیرہ جیسے اردو کے مایہ ناز ادیب اور ناقد پر خاص گوشہ ضرور شائع ہوا ہے۔اس کے علاوہ ہر شمارے کی ترتیب میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر شمارہ کسی نہ کسی جہت پر خصوصیت کا حامل نظر آتا ہے۔
ادھر چند مہینوں سے رسالہ ’’ آمد‘‘ مالی دشواریوں سے گزر رہا ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلا دو شمارہ مشترکہ شائع ہوا۔ رسالہ ’’ آمد ‘‘ کاشمارہ نمبر ۱۳۔۱۴ اور ۱۵ تا ۱۹ شمارہ مشترکہ شائع ہوئے ہیں، ان دونوں شماروں میں شعر و نثر کا بہترین تناسب دیکھنے کو ملتا ہے۔ شمارہ نمبر ۱۵ تا ۱۹ میں جن قلمکارو کی تحریریں شامل ہیں ان میںڈاکٹر آفاق عال صدیقی، شرجیل احمد خان، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔خورشید اکبرکا اداریہ ’’ نجات شعریات : معنویت اور جواز‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اداریے میں خورشید اکبر نے ادب اور ادیب کی آزادی پر تفصیل اور دلیل کے ساتھ اپنے خیالات کو پیش کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ادب کو جبر سے آزاد رکھنا چاہیے ، انہوں نے اس بات پر بھی اظہار خیال کیا ہے کہ ہمارا کلاسیکی ادب، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے ادب سے جبر کو ختم کرنے کی کوشش تو کی مگرآدھے ادھورے طور پر ہی یہ جبر کی نفی کر سکے، اور بالعموم اپنے عقائد و نظریات کی تبلیغ پر زیادہ توجہ کی ۔یہی نہیں خورشید اکبر نے ماضی میں بھی ادب کے فطری پن کا سوال اپنے اداریے میں قائم کیا ہے۔
رسالہ ’’ آمد‘‘ کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں ہندستان اور پاکستان کے اہم لکھنے والوں کی تحریریں اور تخلیقات شائع ہوتی ہیں ساتھ ہی نئے لکھنے والوں کو بھی رسالے میں جگہ دی جاتی ہے۔ اس کے لیے الگ سے ایک عنوان ’’ نوخیز قلم‘‘ سے کے نام سے شامل ہے۔
رسالہ’’ صدف‘‘ مدیراعلی: ڈاکٹر صفدر امام قادری
دسمبر ۲۰۱۵ میں رسالہ صدف کا پہلا شمارہ بڑے آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ یہ ایک سہ ماہی رسالہ ہے جس پر ’’ سہ ماہی صدف بین الاقوامی رسالہ‘‘ درج ہے۔یہ رسالہ مظفر پور بہار سے شائع ہوتا ہے۔ڈاکٹر صفدر امام قادری نے رسالے کی اشاعت کا جواز بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے۔ اپنے اداریے میں انہوں نے جو واقعات درج کئے ہیں اسے پڑھتے ہوئے آنکھیں نم اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔رسالہ صدف کے سر ورق پر ’’ بہ یاد ضیائ الدین احمد شاہد جمال‘‘ درج ہے۔ ضیائ الدین احمد شاہد جمال کے تعلق سے خود صفدر امام قادری نے لکھا ہے کہ وہ ان کے بھانجے تھے جنہیں اللہ پاک نے نہایت کم عمر دی اور کوئی ۳۵ برس کی عمر میں وہ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ ضیائ الدین احمد شاہد جمال وہی شخص ہیں جنہوں نے پہلے پہل ’’ صدف‘‘ نام سے رسالہ شائع کیا تھا، یہ کوئی ۱۹۹۵ میں منظر عام پر آیا تھا، اس لحاظ سے موجودہ رسالہ’’ صدف‘‘ کا یہ دوسرا دور ہے۔
ڈاکٹر صفدر امام قادری نے اپنے اداریے میں لکھا ہے :
’’سہ ماہی’ صدف‘ کے توسط سے ہم ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد تیار کرنے کا نشانہ نہیں رکھتے، اس لئے ہر نقطۂ نظر، قبیلے اور حلقے کے لکھنے والوں کا استقبال ہے۔‘‘
اس رسالے کے نظریاتی سروکار کے متعلق ابھی کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی، کیونکہ ابھی اس کے دو ہی شمارے منظر عام پر آئے ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ رسالہ صدف کے مشمولات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ صفدر امام قادری نے نئے اور پرانے لکھنے والوں کو ایک ساتھ جمع کردیا ہے۔موضوعات کی ترتیب میں بھی قدیم و جدید کا خیال نظر آتا ہے۔ رسالہ صدف کے دور ثانی کے پہلے شمارے میں جن قلمکاروں کی تخلیقات شائع ہوئی ہیں ان میں’ارتضی کریم‘، ’غضنفر‘،’ قمر الہدی فریدی‘، ’جمیل اختر‘،’شہاب ظفر اعظمی‘ اور عمیر منظر کے نام قابل ذکر ہیں ، ان کے علاوہ نئے لکھنے والوں میں نظام الدین،شاہ نواز فیاض اور افشاں بانو کی تحریروں کو بھی خاص اہتمام کے ساتھ جگہ دی گئی ہے۔تنقیدی مضامین کے علاوہ تخلیقات کو بھی رسالے میں شامل کیا گیا ہے۔ مشتاق احمد نوری، محمد حامد سراج ، اقبال حسن آزاد اور غزل ضیغم کے افسانوں کے علاوہ نور الحسنین کے ناول ’’ چاند ہم سے باتیں کرتا ہے‘‘ کا ایک باب بھی اس شمارے میں شامل ہے۔
بہار سے کئی اور رسالے شائع ہوتے ہیں ، مگرمیں نے چند رسالوں کا تعارف بھر پیش کیا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ بہار میں ادبی صورت حال کیا ہے۔ مذکورہ بالا رسائل کے علاوہ ’ ابجد‘ ارریہ(مدیر رضی احمد تنہا)، ’ ثالث‘ مونگیر(مدیر اقبال حسن آزاد) اور دربھنگہ سے ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ’ جہان اردو‘ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام رسالوں میں ایک مماثلت یہ ہے کہ یہ تمام رسالے غیر سرکاری ادارے سے شائع ہوتے ہیں۔
ادبی رسالے کی کئی اہم خوبیاں ہوتی ہیں ، ایک تو یہ کہ ادبی رسالے میں عموما نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ پرانے اور منجھے ہوئے مصنفین کو اس لئے بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ دو نسلوں کے درمیان پیدا ہونے والے خلیج کو روکا جاسکے ، نئے اور پرانے ذہن کو ملا کر ادب کو نئی شکل سے آشنا کیا جاسکے۔مدیر کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ شخصی نوعیت کے اعتراضات کو رسالے میں شائع کرنے کے بجائے ادبی مباحث کو ترجیح دے۔ادبی رسالے کا کام سنسنی پیدا کرنا نہیں بلکہ سنجیدہ موضوع پر سنجیدہ بحث کا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔
بہرکیف ان رسالوں کے مطالعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں اردو صحافت کا مستقبل روشن ہے حالانکہ زیادہ تر رسائل کو مالی دشواریوں کا سامنا ہے ، پھر بھی مدیر اور دوسرے ذمے دار حضرات کے حوصلے میں کمی نظر نہیں آتی۔اگر ہم خود بھی خرید کر رسالوں کو پڑھیں اور دوسروں کو بھی خریدنے کی ترغیب دیں تو بڑی حد تک رسالوں کو مالی دشواری سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
بہت ہی معلوماتی اور معیار ویب سائٹ ہے ۔۔۔۔مبارکباد