محمد فیصل خان
(ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی)
بیسویں صدی کے بلندپایہ شاعروں کی تعداد کافی ہے اور ان میں بھی ایسے شعراء جن کا اقبال گزرتے ہوئے دنوں کے ساتھ بلند ہوتا چلا گیا وہ بھی بہت ہیں۔ ان میں فیضؔ، مجازؔ، مخدومؔ، جذبیؔ، شہریارؔ،ن۔م۔راشدؔ، خلیل الرحمٰن اعظمی، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انہیں شعراء کے درمیان ایک آواز اور بھی ہے جس نے روایت سے ،ماحول سے، تحریک سے، تقاضوں سے اور اپنے ہم عصروں کے طریقۂ کار سے بغاوت کرکے لکھااور اپنی راہ الگ بنائی۔ اس ڈگر پہ وہ اکیلے ہی چل نکلے لیکن آگے چل کر پورا کارواں ان کی آواز کے ساتھ آواز ملانے پر مجبور ہوگیا وہ مشہور زمانہ شاعر مجروحؔ سلطان پوری ہیں۔ میرے ناناجان اور موجودہ دور کے مشہور شاعر ’مہدی پرتاب گڑھی‘نے مجروحؔ کی سخن فہمی کا ترانہ اپنی غزل میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ان کی انفرادیت اور مقبولیت پوری طرح سے واضح اور عیاں ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر غزل کے چند اشعار قابل ذکر ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
اس قدر اس نے نکھارا اپنا اسلوب سخن
اس کے فن کا معترف سارا جہاں بنتا گیا
سرپہ چڑھ کے بولتا ہے اس کی کاوش کا سحر
کل جو تھا دہقانِ فن وہ خوش بیاں بنتا گیا
جادۂ شعر و سخن جاذب نظر بننے لگا
پھول لفظوں کے کھلائے، گلستاں بنتا گیا
وہ اکیلا ہی چلا شدت مگر جذبے میں تھی
لوگ آتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا
شعر گوئی بن گئی اس طرح وجہ افتخار
وہ چراغِ رہ گزر تھا کہکشاں بنتا گیا
فلمی دنیا میں بھی نغمے اس کے ٹھہرے معتبر
راہ رو مجروحؔ ، میرِ کارواں بنتا گیا
مجروحؔکا عام ڈگر سے ہٹ کر چلنا اور نئے اندازِ بیان کو اختیار کرکے اپنے تفکرات اور خیالات کو شعری پیکر عطا کرنا ابتداً ان کے عہد میں موجود ادیبوں، دانشوروں ، نقادوں اور عالموں کو کھٹکتا رہا، جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شہرت اور پذیرائی دیگر شعراء کے حصے میں آئی اس سے مجروحؔ کو محروم رکھا گیا۔ جس کا شکوہ مجروحؔ نے اپنی شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔مجروحؔ خوداپنے مجموعے کلام ’’مشعل جاں‘‘کی ابتداء میں ’’گفتنی ناگفتنی‘‘ کے عنوان سے موجود تحریرمیں یہ بات ذکر کرتے ہیںکہ:
’’میرا فن غزل ہی ہے۔ترقی پسند غزل، اس کی واضح ابتداء میں نے ۱۹۴۵ء میں کی۔جب سیاسی مضامین غزل والوں میں مقہور اور خود غزل ترقی پسندوں میں مردود قرار دی جاچکی تھی اس تنہائی اور بے بسی کے عالم میں بس ایک یقین میرا رہبر تھا کہ غزل میں اپنے عہد کے کس موضوع کو کب خوبی سے بیان نہیں کیا گیا جو آج بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں وہ حرف برہنہ جو نظم کا امتیاز اس دور کے ترقی پسندوں میں سمجھا جاتا تھا غزل اتنی ننگی کبھی نہیں رہی کہ اس کی بنیاد ہی رمزو کنائے پر ہے۔اشاریت ہی تو اس کا ملبوس ہے چنانچہ میری غزل کے بعض وہ اشعار جو نعرہ زنی کی حد میں آجاتے ہیں محمود نہیں گردانے گئے بلکی میرے ساتھ ستم ہی یہ ہوا کہ میری پوری غزل کو انہیں بعض عیوب سے منسوب کرکے بڑے تو بڑے، چُھٹ بھیّے بھی جو ہاتھ میں آیا لے کر میدان میں آگئے اور تب سے یہ سنگ باری آج تک جاری ہے میری خوبیوں کو نظرانداز کرکے صرف چند خامیوں کو میرا معیار فن ٹھہرایا گیا گو اس ہنگامۂ داروگیر کے باوجود میرا یقین ایک لمحے کو بھی متزلزل نہیں ہوا اور میں نے اور میرے ساتھیوں نے ترقی پسند غزل کو ایک تازہ روایت کی حیثیت دے کر ہی دم لیا۔‘‘
ٍٍ(’’مشعل جاں‘‘مجروح سلطان پوری۔مشمولہ’’ گفتنی ناگفتنی‘‘مجروح اکیڈمی، ممبئی ۱۹۹۹ء ص۔۳)
مجروحؔ سلطان پوری اُن سخن فہم لوگوں کی فہرست میں شمار نہیں کیے جاتے جو حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور ہمت ہار جاتے ہیںبلکہ ان کاشمار باہمت اور بلند حوصلہ رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔حالات کا سامنا کرنے کا ہنر انہیںخوب آتاہے جس کا اظہار مذکورہ بالا تحریر میں مجروحؔ نے بڑے ہی والہانہ انداز میںکیا ہے۔چنانچہ یہی بات مجروحؔ کے اشعار میں بھی دیکھنے کوملتی ہے جہاں ہمیں حالات سے لڑنے کا، اس سے ٹکرانے کا، اس کا سامنا کرنے کا ہنر سیکھنے کو ملتا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کے باوجود مجروحؔ اپنی الگ راہ بناتے ہیں اور اپنی انفرادیت کو منوا کر دم لیتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کا اثر مجروحؔ کی شاعری میں پیوست ہی نہیں ہے بلکہ ان کو ترقی پسند شاعروں میں غزلیہ شاعری کا امام تصور کرنا چاہیے۔ یوں تو اس ضمن میں مجروحؔ کو بہت کچھ کہا گیا ہے مثلاً مجروحؔ ترقی پسندغزل کے نقیب ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ترقی پسند ذہنیت کے حامل ناقدین ،ادباء اورشعراء کا عام خیال یہی رہا ہے کہ غزل کا دائرہ تنگ ہے،غزل اس طرح پیغامبری نہیں کرسکتی جس طرح نظم کرسکتی ہے۔ لیکن مجروحؔ کی غزلوں نے نہ صرف ان خیالات کی تردید کی ہے بلکہ اپنی انفرادیت اور مقبولیت کو تسلیم کراتے ہوئے ترقی پسندانہ نظریات اور اس کے مقاصد کی ترجمانی بھی کی ہے۔ اس کی مثالمجروحؔ کی بہت سی غزلوں میں موجود ہے۔ نمونے کے طور پر غزلوں کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
سرپر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ
اپنی کُلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
سوئے مقتل کہ پئے سیر چمن جاتے ہیں
اہلِ دل جام بہ کف سر بہ کفن جاتے ہیں
مجروحؔکا اصل نام ’’اسرار الحسن خان‘‘ تھا۔ اتبداء میں اسرارؔ اور بعد میں دوستوں کے اِصرار پر ’’مجروحؔ‘‘ تخلص اختیار کیا۔ مجروحؔکی پیدائش یکم اکتوبر ۱۹۱۹ء کو ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔ مجروحؔکا سلسلۂ نسب راجپوت خاندان سے ملتا ہے۔ مجروحؔکے والد ’’محمد حسن خان‘‘ محکمۂ پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر معمور تھے۔ والدہ کا تعلیم سے کوئی خاص شغف نہ تھا وہ صرف ایک خاتونِ خانہ تھیں۔ مجروحؔکا خاندان بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھا جس کا اعتراف خود مجروحؔنے بھی کیا ہے۔ مجروحؔکی تعلیمی سرگرمی مدرسہ سے شروع ہوتی ہے جہاں انہوں نے اردو، فارسی، اورعربی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک تعلیمی سلسلہ منقطع رہا ،پھر ۱۹۳۳ء میں لکھنؤ آئے اور طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۸ء میں کالج سے طب یونانی یعنی حکمت کی سند حاصل کی۔ مجروح موسیقی سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ جس کے باعث دورانِ تعلیم ہی راگ،راگنی وغیرہ سیکھنے لگے تھے، لیکن جب گھروالوں کو اس کا علم ہوا تو اس سے کنارہ کش ہوگئے اور اس کے بعد لکھنؤسے ٹانڈہ آئے اور مطب قائم کیا جہاں حکمت چل پڑی۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی کہیں یا قسمت کا لکھا کہ کچھ دنوں کے بعد مطب چھوڑ کر اپنے وطنِ اصلی سلطان پور واپس آگئے۔
مجروحؔنے ۱۹۳۵ء کے آس پاس شاعری شروع کی۔ ابتداء میں کلام پر اصلاح ’’مولانا آسی‘‘سے لی۔ لیکن جلد ہی استادی اور شاگردی کا یہ رشتہ منقطع ہوگیا۔ اسی دوران مجروحؔ کی ملاقات اپنے عہد کے مشاعروں کے سرتاج اور مشہور زمانہ شاعر’’حضرت جگرمرادآبادی‘‘ سے ہوئی۔ مجروحؔ نے جگرصاحب کواپنا استاد تو نہیں بنایا مگر ان کی صحبت سے فیض یاب ضرور ہوتے رہے اور چند مہینوں کے بعد جگر صاحب کے ساتھ علی گڑھ پہنچے تو رشید احمد صدیقی صاحب کے یہاں قیام کیا اور ان سے بھی مراسم ہوگئے۔ جہاں مجروحؔنے نہ صرف رشید احمد صدیقی صاحب کی ذہانت اور ذکاوت سے استفادہ کیا بلکہ علی گڑھ کے علمی ماحول اور ادبی فضا سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایااور دیکھتے ہی دیکھتے مجروحؔ مشاعروں، ادبی محفلوں اور نشستوں میں لوگوں کے ہر دل عزیز ہوگئے، اردو شاعری سے متعلق تقریباً ہر مجلس میں ان کی شرکت لازمی سمجھی جانے لگی۔ اس کی وجہ صرف ان کا کلام ہی نہیں تھا بلکہ ان کی پرسوز آواز بھی تھی جس نے لوگوں کو ان کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیا۔بقول معین احسن جذبیؔ:
’’مجروحؔاپنے ترنم کی وجہ سے بہت جلد علی گڑھ میں مقبول ہوگئے۔ جہاں بھی کوئی شعری نشست ہوتی وہاں وہ ضرور بلائے جاتے۔ کیا پرسوز آواز تھی اور اس آواز میں کس بلا کا جادو تھا۔ لوگ گھنٹوں دم بخود سنتے رہتے، اکثر فرمائش ہوتی کہ مجروحؔصاحب وہ نظم سنائیے۔’’گائے جا پپیہے گائے جا‘‘
(’’مجروحؔسلطان پوری:مقام اور کلام‘‘مرتب ڈاکٹر فیروزاحمد۔مشمولہ’’مجروح میری نظرمیں‘‘ ساقی بک ڈپودہلی۔ اشاعت دوم۲۰۰۸ء ۔ص۳۱)
بعدازاں مجروحؔ۱۹۴۵ء میں جگرؔ صاحب کے ساتھ ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے ممبئی گئے اورانہیںکے توسط سے فلم ’’شاہجہاں‘‘ کے ڈائریکٹر ’’اے ۔آر ۔کاردار‘‘ نے مجروحؔ کو فلم میں بحیثیت نغمہ نگار منظوری بھی دے دی اور مجروحؔنے فلم شاہجہاں کے لیے اپنا پہلا نغمہ’’غم دیئے مستقل کتنا نازک ہے دل یہ نہ جاناہائے ہائے یہ ظالم زمانہ‘‘لکھا جو فلمی دنیا میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد مجروحؔممبئی میں ہی مقیم رہے،ان دنوں ممبئی ترقی پسندوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ اردو ادب پر حکمرانی کرنے والے بہت سے شعراء و ادباء نے ممبئی کو اپنا مسکن بنا رکھا تھا ان میں علی سردار جعفریؔ، کیفی اعظمیؔ، ساحر لدھیانویؔ، منٹو، کرشن چندر، اوپندرناتھ اشک اور بیدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔چنانچہ مجروحؔبھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے اور آخری عمر تک اس تحریک سے اپنا دامن استوار رکھا۔ یہ کمیونسٹوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ مجروحؔبھی انہیں کے حامی اور پرستار تھے اسی کے سبب ایک سال تک جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ دوسری طرف ترقی پسندوں نے دیکھا کہ مجروحؔ صرف غزلیہ شاعر ہیں اور غزلیں اس تحریک کے مقاصد کو بیان کرنے سے قاصر ہیں تو مجروحؔکو قبول کرنے سے گریز کیا۔ لیکن مجروحؔ ڈٹے رہے اور نکتہ چینوں کو جس بات کی شکایت تھی کہ غزل میں مقصدیت کا فقدان ہے اس کی بالکل پرواہ نہ کی اور ناہی مجروح ؔ کو اس بات کی فکر تھی کہ ان کو قبول کیا جائے گا یا نہیں۔ان سب سے ہٹ کر مجروحؔنے اپنی بنائی ہوئی ڈگر پر چل کر وہ کام کردکھایا جو اوروںکی دسترس سے باہر تھا۔ ان اشعار کو پڑھ کر دیکھیے آپ بھی اس کو محسوس کریں گے۔
دیکھ کلیوں کا چٹکنا سرِ گلشن صیاد
سب کی اور سب سے جدا اپنی ڈگر ہے کہ نہیں
ہم روایات کے منکر نہیں ، لیکن مجروحؔ
زمزمہ سنج مرا خونِ جگر ہے کہ نہیں
تجھے نہ مانے کوئی تجھ کو اس سے کیا مجروحؔ
چل اپنی راہ بھٹکنے دے نکتہ چینوں کو
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
مجروحؔکے لیے اپنی الگ ڈگر بناکر چلنا ایک مشکل چیلنج تھا۔ لیکن مجروحؔنے اپنی ضدی طبیعت اور انانیت کے پیش نظر اس کو برقرار رکھا اور آگے چل کر اہل علم نے ان کی انفرادیت کا اعتراف بھی کیا۔ مگر بلا تامّل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مجروحؔ کے اندر انانیت کا جذبہ موجود تھا، مجروحؔجب اس جذبے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں تو طبیعت ان کی طرف سے مملو ہوجاتی ہے لیکن جب یہی جذبہ شعری سانچے میں ڈھل کر سامنے آتا ہے تو مجروحؔکی عظمت کا ترانہ کہلاتا ہے۔ ’’انا‘‘مجروحؔ کی ذات کا ایک جزو ہے۔اس بات کی عکاسی ان کی شاعری میں پوری آن بان اور شان کے ساتھ جابجا جلوہ گر ہے۔ مجروحؔکے یہاں مقصدیت، منزل کی تلاش اور صداقت کا جذبہ سب کچھ ہے۔ مگر عاجزی و انکساری کسی درجہ تک کم ہے یا کہیں کہ بالکل مفقود ہے، اس کی وجہ بھی ان کے اندر موجود انانیت ہی ہے ۔لہٰذا غوروفکر کے بعدیہ اندازہ ہوتا ہے کہ مجروحؔکے مشہور و معروف اور عمدہ اشعار کی فہرست اسی جذبے کی پیداوار ہیں۔بذریعۂ مثال چند اشعار سے اس جذبے کو سمجھاجا سکتا ہے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات
ہوسکے تو خود کو بھی ایک بار سجدہ کیجیے
شمع بھی اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا
میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی راہی بھی
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان شوق
خار سے گل، اور گل سے گلستاں بنتا گیا
مجروحؔکی ادبی خدمات یہ ہے کہ ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا ’’غزل ‘‘کے نام سے ۱۹۵۳ء میں دوسرا ’’مشعل جاں‘‘ کے نام سے ۱۹۹۱ء میں جس میں غزلوں کی تعداد صرف پینتالیس(۴۵) ہے اس کے علاوہ چند نظمیں اور کچھ متفرقات شامل ہیں۔ مجروحؔکو کامیابی اور کامرانی کی منزل پر پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ ان کی غزلوں کا ہے کیوں کہ مجروحؔ کا اصل میدان غزل ہی ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مجروحؔایک کم سخن شاعر تھے۔ کم گوئی میں مجروحؔغالب ؔاور اصغرؔ کی پیروی کرتے ہوئے ان سے آگے نکل جاتے ہیں۔مگر مجروحؔکا امتیاز یہ ہے کہ ان کی ہر غزل بہت ہی غوروفکر اور چھان بین کے بعد منظر عام پر آتی ہے اسی لیے بلاجھجک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مجروحؔنے جو کچھ لکھا وہ سراپا انتخاب ہے۔اگر ہم کلاسیکی شعراء سے لے کر بیسویں صدی کے شعرا کا کلام منتخب کریں تو کئی بلند پایہ شعراء کے ساتھ مجروحؔکا کلام بھی ان میں شامل ہوگا۔اور اگر ہم یہ کہیں کہ بیسویں صدی کے علمی و ادبی حلقوں میں کس شاعر کے اشعار سب سے زیادہ مشہور اور زبان زد تھے تو اس میں مجروح کو اولیت دی جاسکتی ہے۔
بقول کالی داس گپتا رضا:
’’ یہ صحیح ہے کہ انہوں (مجروح)نے برسوں سے کوئی غزل نہیں کہی تھی اور ان کااثاثۂ غزل بہت کم ہے مگر وہ جس قدر بھی ہے سر آنکھوں پر بٹھانے کے قابل ہے۔‘‘
(’’منفرد غزل گو: مجروحؔسلطان پوری‘‘ماہنامہ ’آج کل‘دہلی، نومبر ۲۰۱۹ء ص ۴۸)
مجروحؔکو ان کے شعری کارناموں کی بنا پر مدھیہ پردیش کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز’’اقبال سمّان ‘‘ ۱۹۹۲ء میں نوازا گیا۔ مجروحؔنے فلموںکے لیے اردو اور بھوجپوری دونوں زبانوں میں نغمے بھی لکھے ہیں۔ مجروحؔنے اپنے گیتوں اور نغموں کی وجہ سے فلمی دنیا میں بھی غیر معمولی شہرت اور بلندی حاصل کی،ان کے بہت سے نغمے فلمی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ آج بھی عوام کی پہلی پسند کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً ’’دل کہتا ہے چل ان سے مل‘‘ وغیرہ بہت مشہور ہے۔ مجروحؔکے نغموں کی پسندیدگی کے پیشِ نظر فلمی گیتوں پر دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ بحیثیت نغمہ نگارانہیں عنایت کیا گیا۔ اس طرح ایک صاحب طرز غزل گو مجروحؔسلطان پوری ۲۴؍ مئی ۲۰۰۰ء کو ممبئی میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ۲۵؍مئی کو سانتا کروز ویسٹ کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی،اور بامشکل پینتالیس غزلوں کا مختصر سا اثاثہ لے کر اردو شاعری کی دنیا میں اپنا دائمی نقش چھوڑ گئے۔
مجروحؔ کی شاعری کا موضوع روایتی انداز کا ہے یعنی وہی موضوعات جو دیگر ترقی پسند شعراء نے اختیار کیے ان کے یہاں بھی ہیںجیسے: جاگیردارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرنا، سیاسی و سماجی جبر کے خلاف سخت احتجاج کرنا، جبرو تشدد کے خلاف بے باکی سے بولنا وغیرہ۔ جب کہ عشق و محبت کے پیرائے میں کی گئی شاعری مجروحؔ کے یہاں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ بلا شبہ مجروحؔ کی شہرت ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے ہے لیکن مجروحؔکا کمال یہ ہے کہ انہوںنے ترقی پسندوں کے مقاصد کی ترجمانی کرتے ہوئے کبھی بھی کلاسیکی روایت و اقدار سے انحراف نہیں کیا بلکہ اس کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ اس راہ میں ان کو بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن بلند حوصلہ رکھنے والے مجروحؔ کے پاؤں اس راہ میں ڈگمگائے نہیں اور انہوں نے اپنے انہیں خیالات و جذبات کو اپنے تجربات کی روشنی میں غزل کے پیرائے میں پیش کیا اور اردو غزل کا وہ کارواں جو اصغرؔ، جگرؔ، حسرتؔ، اور فانی ؔکی سرپرستی میں آگے بڑھ رہا تھا رواں رکھا۔ ایسے پُرآشوب دور میں جہاں غزل کے سانچے میں کی گئی شاعری پرپھبتیاں کسی جارہی تھیں مجروح ؔکا غزل کے مذاق، مزاج، بانکپن ارو دلداری کو قائم رکھنا ایک مشکل امرتھا پھر بھی مجروحؔنے اس راہ پر چلتے ہوئے ایسی مشعل جلائی کہ وقت کہ آندھی بھی اس کو نہیں بجھا سکی۔ جس کا اعتراف ہر دور کے ادیبوں ، نقادوں اور دانشوروں نے کیا ہے۔ میرے استاد محترم پروفیسر ابوبکر عباد نے بھی انہیں خیالات کا اظہاریوں کیا ہے :
’’مجروحؔکا حوصلہ اور ہنر یہ ہے کہ انہوں نے خدشے اور خوشی کے اس پل صراط سے کامیاب گزر کر غزل کو مقصدیت اور عصری حقائق کے اظہار سے آشنا کیا اور اسے سیاسی حالات کی ترجمانی اور تمدنی معاملات کی عکاسی سکھائی۔‘‘
(’’خدشے اور خوشی کے پل صراط کا شاعر: مجروحؔ سلطان پوری‘‘ آج کل دہلی۔ نومبر ۲۰۱۹ء ص ۔۱۰)
مجروحؔ کی شاعری کو فیضؔ کی شاعری سے مماثلت دی جاتی ہے، چوں کہ دونوں نے ہی اپنی شاعری کا رشتہ کلاسیکی روایت اور ترقی پسندانہ افکار سے جوڑے رکھا، اور دونوں نے اپنی شاعری کی بنیاد کلاسیکیت پر ہی رکھی، اسی لیے دونوں کی شاعری کا رنگ بڑی حد تک یکساں ہے، اس وجہ سے مجروحؔ کے بعض اشعار پر فیض ؔکے اشعار ہونے کا دھوکہ ہوجاتا ہے۔ لیکن مجروحؔکی بہت سی غزلیں ایسی ہیں جو فیضؔ کی غزلوں سے زیادہ پُراثر ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر سبقت بھی رکھتی ہیں۔ ترقی پسندوں کی شدت کے سبب ہمارے شعروادب میں نعرے بازی اور مقصدیت کی تکمیل کے لیے سطحی شاعری کو بھی اہمیت دی گئی جس کااثر یہ ہوا کہ ہمارا رشتہ کلاسیکیت سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ لیکن مجروحؔ ،فیضؔاور ان کے ساتھیوں نے اس کمی کو دور کرنے کی کامیاب کوشش کی اور اس میں مجروحؔ کو اپنے ساتھیوں پر اولیت بھی حاصل ہے۔ مجروحؔ کی شاعری کلاسیکی رچاؤ اور اس کے رنگ روپ کا سرچشمہ کہی جاسکتی ہے۔ مجروحؔنے اپنی شاعری میں ایسے کلام کو بالکل جگہ نہیں دی جو وقتی یا معمولی ہوں یا کلاسیکی ڈھنگ سے معمور نہ ہوں۔ ہم کلاسیکی شاعری کی شناخت کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں تصورِ الٰہی، تصور تہذیب، تصور کائنات اور کسی نوع کا استحکام ہے یا نہیں اور ساتھ ہی اس میں رعایت لفظی اور تصوف کے مضامین جیسے امتیازات بھی ہوں تو ایسی شاعری کو کلاسیکی کہا جاتا ہے اور یہ ساری چیزیں مجروحؔ کی شاعری میں نئے رنگ ، نئے ڈھنگ، اور نئے انداز کے ساتھ موجود ہیں۔ مجروحؔ کی شخصیت ہمارے شعروادب کی روایت میں اس اہم کڑی کی حیثیت رکھتی ہے جس کے ذریعے ہم اپنا رشتہ کلاسیکی شاعری کی روایت کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا پاتے ہیں۔بطورمثال چند اشعار جو کلاسیکی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں پیشِ خدمت ہیں:
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہلِ وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح
روک سکتا ہے ہمیں زندانِ بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
کتابیات:
۱۔ مرتب تاج سعید’’کلیات مجروحؔ ‘‘الحمد پبلی کیشنز لاہور۔ ۲۰۰۳ء
۲۔ ڈاکٹرعباس رضانیر’’مجروحؔ کچھ یادیں اور کچھ باتیں‘‘ ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی لکھنؤ۔۲۰۱۶ء
۳۔ مرتب ڈاکٹر محمد فیروز’’مجروحؔ سلطان پوری : مقام اور کلام‘‘ ساقی بک ڈپو ،دہلی اشاعت دوم ،۲۰۰۸ء
۴۔ مجروحؔ سلطان پوری ’’مشعل جاں‘‘ مجروحؔ اکیڈمی ممبئی موجودہ اشاعت ۱۹۹۹ء
۵۔ آج کل (ماہنامہ) نئی دہلی ،نومبر ۲۰۱۹ء
٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page