مہرین جہانگیر
لیکچرر گورمنٹ صادق کالج وومن یونی ورسٹی بہاولپور
زبان کسی بھی تہذیب وثقافت کی زایدہ ہوتی ہے اور کسی بھی خطے کی ثقافتی تشکیل میں کلیدی کردار بھی ادا کرتی ہے۔زبدن کا ثقافتی رچاٶ اور تہذیبی پس منظر اس زبان میںتخلیق کردہ ادب میں بہر طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔کسی بھی خطے کے تہذیبی تشخص کو جانچنے اور اس کی صحیح فہم کے حصول کے لیےاس خطے کی زبان میں تخلیق ہونے والے ادب کا مطالعہ نا گزیر ہوتا ہے۔ارو زبان و ادب کے حوالے سے یہی اصول کار فرما نظر آتا ہےکہ اگر کوٸی خطہ پاک پکستان کے تہذیبی معیارات,ثقافتی تشخص اور مذہبی مضمرات۔کو سمجھنے کا ارادہرکھتا ہے تو اسے اردو میں تخلیق کردہ مقامی اصناف شعرو ادب سے رجوع کرنا پڑے گا۔اس طرح یہ مطالعہ جہاں ہمیں تہذیبی تشخص کی تشکیل میں معاونت کرے گا۔وہیں قومی ثقافت کی تشکیل بھی ہو جاۓ گی۔
اس مقالے میں اردو ناول۔افسانہ نظم اور غزل ایسی تخلیقی اصناف کو بنیاد بناتے ہوۓ زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے مابین رشتوں کی نوعیت و ماہیت اور ان کے باہمی اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی جاۓ گی۔
قومی تشخص میں زبان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔زبان ہیبقوی عظمت کی علامت سمجھی جاتی ہےزبان چند صوتی کلمات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اس قوم کی تاریخ ثقافت اور مذہب سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔گویا یہ ثقافت کی تر جمان ہے۔اس کا مزاج ثقافت کے مزاج سے بنا ہے ۔اس کی لوح وسعت اندازے بیان کے محاورات ضرب المثال صناٸع بداٸع تشبیہات واستعارات اور اشارے کناۓ سب ثقافت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ثقافت کا تحریری ریکارڈ قوم کا لٹریچر ہوتا ہے۔جس سے ثقافت کی افتاد طبع افراد کے مزاج اور کر دار کا اندازہ ہوتا ہے۔
ثقافت یا کلچر ان تمام خصوصیات کا مر کب ہوتا ہےجو کسی مخصوص قوم یا معاشرے میں مشترک ہوتی ہے ۔یہ مرکب ان افراد کے عقاٸد و اقدار احساسات وقوانین و آداب رہن سہن کے طور طریقے رسوم و رواج اصولوں ظاہری رویوں ,آلات,اشیا , ٹیکنالوجی,تنظیمیں, مذہب تعلیم صحت خاندان , ادارے پیشے جغرافیے زبان اور علوم و فنون پر مشتمل ہوتا ہے۔ثقافت ایک ایسا بندھن اور تعلق ہے جو مشترک خصوصیات کی بنا پر افراد کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔اگر پاکستانی معاشرے کی بات کی جاۓ۔تو پاکستان میں جس زبان کی جڑیں پاکستانی ثقافت مسلم تاریخ اور دین میں زیادہ گہری ہیں وہ اردو ہے۔
اردو ہی نظریہ پاکستان کی محرک ہے۔اب زبان ثقافت اور ادبی پہلو کی وضاحت کے لیے اردو زبان و ادب سے مثالیں بیان کرتے ہیں۔ہر فنکار نے اپنے فن پارے میں عالمی ۔سیاسی تاریخی اور تہذیبی اثرات بخوبی بر تنے کی کوشش کی۔
اس ضمن میں یہاں ایک پہلو کی وضاحت ضروری ہے کہ ثقافت کسی بھی معاشرے کی اقدار کی نماٸندگی کرتی ہے۔ہر زبان اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت رکھتی ہے۔دونوں ایک دوسرے کی نماٸندہ ہوتی ہیں۔ان کا آپس میں مضبوط و مر بوط رشتہ ہوتا ہے۔جس کی بنیاد پر مذہبی سیاسی اور سماجی اداروں کی ساخت پر ہوتا ہے۔جو رسوم و رواج اور قوانین بناتےہیں۔ان کے اثرات زبان اور ادب پر ہوتے ہیں۔
کسی بھی قوم کا رہن سہن طرز بودو باش آمدن کے ذراٸع تعلقات سماجی اور معاشرتی حالات و واقعات سب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ثقافت درحقیقت ایک رخ ہے۔قوم کےمحض طرز زندگی کا بیان ہی نہیں ۔بلکہ کسی بھی زبان کی ابتدا اس کی ترقی اور اس میں شامل مختلف رنگوں کی مکمل اور واضح داستان ہے۔یہ ثقافت ایک قوم کے خاص طرز عمل کو اپنانے سے وجود میں آتی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
"کلچر کی علامت وہ سر سبزو شاداب پیڑ ہیں جو اپنی غذا کو زمین اور کھاد جیسی کثیف اور بد بودار عناصر سے لے کر خاص کیمیاٸی عمل سے گزر کر پھول جیسی نازک اور معطر شے میں ڈھل جاتے ہیں۔”(1)
اردو زبان اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔مسلمانان ہند کے عقاٸد اوررسوم و رواج پر ہندوستانی تہذیب و معاشرت کے گہرے اثرات مرتب ہوۓ جس سے ایسی زبان وجود میں آٸی جو تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے قومی وقار کو ایک سمت فراہم کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر سلیم ا ختر کے مطابق:
"ثقافت و تہذیب ایک ایسا دریا ہے جس کا منبع اور بنیاد اقوام کے شعور اور ذہنی بلندی پر مبنی ہے۔” (2)
اردو زبان و ادب تہذیب ثقافتی عناصر کو قریبا تمام شعرإ اور ادبا نے ڑے سلیقے اور قرینے سے بر تنے کی کو شش کی یہی وجہ ہےکہ قدیم عہد میں نہ ہونے کے با وجودمختلف ادبی تصا نیف کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اس سماج میں سانس لے رہے ہیں۔اگر ادب کے حوالے سے مثالیں پیش کی جاٸیں تو ان شعرا میں نماٸنفہ نام میر تقی میر ۔مرزا محمد رفیع سودا۔مرزا اسد الل خاں غالب مومن خان مومن مرزا محمد رفیع سودا۔حیدرعلی آتش علامہ اقبال اور فیض احمد فیض ہیں۔ ان کے کلام سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
” کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے سا کنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالن میں انتخاب
رہتے منتخب ہی جہاں روز گار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیارکے(3)
~ پھر اس انداز سے بہار آٸی
کہ ہوۓ مہر و مہ تما شاٸی
دیکھو اے ساکنان خطہ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آراٸی (4)
"سودا کے جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے(5)
~تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقی گلفام
وہ عکس رخ یار سے لہکے ہوۓ ایام
وہ پھو لوں سی کھلتی ہوٸی دیدار کی ساعت
دل دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام(6)
زبان اور ثقافت کا عمل انسان کی ہستی کی وحدت اس کے ماحول تک رساٸی اس کے بقا کی جنگ سے عبارت ہے۔تہذیب اور ثقافت اس لحاظ سےتقویت کا درجہ رکھتی ہیں۔یہ فرد کے افکار اور اعمال کو ہر دو سطح سے متاثر کرتی ہے اور زندگی میں بہتری لانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے ۔اردو نثر کے حوالے سے اگر ثقافت کی وضاحت کی جاۓ اس میں سب رس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔جس میں ملا وجہی نے مجرد کو مجسم کی صورت میں پیش کرتے نہایت چا بکدستی سے برتا ہے۔ایک اور داستان باغ و بہار ہے جس میں دہلی کی تہذیب و معاشرت کو بیان کیا گیا ہے۔اگر ناول کو ذکر کیا جاۓ۔تو مشترکہ ہندوستان میں لکھے گٸیے اہم ناولوں میں امراٶ جان ادا جو مرزا ہادی رسوا نے لکھنوی تہذیب و معاشرت پر لکھا۔گٸیو دان ۔میدان عمل۔بازار حسن جو پریم چند نے ہندوستانی سماج میں پرولتاری طبقے کے جذ بات کے اظہار کے طور پر لکھا۔ افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں معاشرت اور ثقا فت کو بڑی بے رحمی سے بیان کیا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل لکھے گٸے اہم ناولوں میں قرة العین حیدر کا چاندنی بیگم بہت اہمیت کا حامل ہے۔جس میں اشرافیہ کی ثقافت کو موضوع بناتے ہوۓ۔بہترین مثالیں لکھی گٸی ہیں۔
"انٹر مکیو نل شادیاں اگر چہ بہت اونچے طبقے میں ہو رہی تھیں توفریقین کے ہم رتبہ ماں باپ عمو ما خاموش رہتے تھے۔بچوں کے نام مبہم سم کے کبیر۔سمیر۔مونا ۔سیما یا رومی نینا زویا یا نٹا شا رکھے جاتے”(7)
قیام پاکستان کے بعد لکھے گٸے ناول مٹتی تہذیبوں کے نوحہ خواں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔جن میں قدرت اللہ شہاب کا "یاخدا
"اور شوکت صدیقی کا ناول "خدا کی بستی "بھی پاکستانی افرادکے ابتداٸی مساٸل اور معاشرت کی تصویر کشی پر مبنی ہے۔
درج بالا بیان کردہ امثال اس بات کے دلاٸل ہیں ہیں کہ دراصل زبانہی دراصل تہذیب وثقافت کے اظہار کا مکمل اورواضح ذریعہ ہے۔اس کے ذریعے اصلاح و ہدایت ممکن نظریے کے بد لاو عمل کی تر غیب اور دوستی کا ذریعہ ہے ۔اس کے تحت نظریات کی تکمیل کاحصول ممکن ہے۔اس پر عقاٸد کی ٹھوس اور جامع بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
ثقافت کا فروغ معاشرتی ڈھانچے کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔معاشی نظام میں تبدیلی بھی اسی کے تحت ممکن ہے۔اخلاقی اقدار روایات کی بنیاد اسی سے ممکن ہے ۔یہ تمدن و پہچان کو ثابت کرنے کا ذریعہ ہے۔فکر اور سوچ میں اس کا کلیدی کردار ہے ۔زبان اور ثقافت ایک دوسرے کے لیےلازم و ملزوم ہیں ۔یہ ایک ساتھ پروان چڑھتی ہیں ۔ایک دوسرے کو بنیاد بنا کر پھلتی پھو لتی ہیں۔اس ضمن میں ادب کا کردار کلیدی ہے۔جو دونوں کے مابین ربط اور تسلسل کو قاٸم رکھتے ہوۓ۔اصلاح معاشرت کی ترویج کا مر کزو منبع ثابت ہوتا ہے۔
حوالہ جات
١۔وزیر آغا ڈاکٹر۔کلچر کا مسٸلہ مشمولہ تنقید اور احتساب۔ص (7)
٢۔سلیم اختر ڈاکٹر "۔کلچر کی لہریں”مشمدلہ ادب اور کلچ مکتبہ عالیہ س ن ص 210
٣۔محمد حسین آزاد ۔”آب حیات” جلد اول اشاعت اول ص 191
٤۔مرزا اسد اللہ خاں غالب دیوان اول جلد دوم ص 30
٥۔شمس الحق۔اردو کے ضرب المثال اشعار۔”تحقیق کی روشنی میں۔فکشن ہاوس لاہور 2003ص 23
٦۔عبد الغنی ۔ فیض کی شاعری ” خدا بخش اورینٹل لاٸبریری پٹنہ اشاعت اول 2001۔ص 24
7.قرة العین حیدر ۔چاندنی بیگم۔سنگ میل پبلیکشنز لاہور 2007ص15
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page