’اسلوبیات میر‘ 1985 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر بابائے اردو مولوی عبدالحق یادگاری خطبہ (1984) ہے۔ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصے میں عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ ان عنوانات سے اسلوبیاتِ میر کے مسائل اور میلانات ایک نظر میں سامنے آجاتے ہیں۔ 1985 تک گوپی چند نارنگ کے یہاں اصطلاح کی شکل میں مابعد جدیدیت کے مباحث نہیں ملتے۔ لیکن ’اسلوبیات میر‘ میں ساختیں، ساختیہ، داخلی ساختوں جیسے الفاظ کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ ’اسلوبیات‘ مطالعے کا ایک ایسا انداز ہے جو زبان کو اس کی تہذیبی جڑوں سے الگ کرکے نہیں دیکھتی۔ لیکن یہ مطالعہ تاریخی اور سوانحی بھی نہیں ہے۔ تاریخی اور سوانحی حقائق کو اسی حد تک اہمیت دی گئی ہے جس حد تک کہ متن کی تفہیم میں کوئی مدد مل سکے، اور وہ معنی کے عمل کو محدود نہ کرے۔ پہلا عنوان ’دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو‘ ہے۔ یہ عنوان مطالعۂ میر کے ایک نئے زاویہ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے ’تذکرہ خوش معرکہ زیبا‘ کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا ہے۔
ایک دن سراج الدین علی خاں آرزو نے جو کہ میرتقی میر کے سوتیلے ماموں تھے کہا کہ آج میرزا رفیع سودا آئے اور یہ مطلع نہایت مباہات کے ساتھ پڑھ گئے:
چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا
صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا
میر نے اس کو سن کر بدیہہ یہ مطلع پڑھا:
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو اپنے تھام تھام لیا
خان آرزو فرط خوشی سے اچھل پڑے اور کہا خدا چشم بد سے محفوظ رکھے۔‘‘1؎
گوپی چند نارنگ نے بظاہر ایک عام سی بات کے ذریعہ ایسے نکتہ کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے جس سے میر کے نمائندہ شعری اسلوب پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ فرق دراصل دو شاعر کے شعری مزاج کا فرق ہے۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’میر کی فطری افتاد نے ان کے لہجے کو کس طرح یکلخت سودا سے الگ کردیا ہے… سودا کے شعر میں چمن، صبح، جنگجو، صبا، تیغ، آب، کام کیا ہیں؟ یہ سب اسم ہیں۔ پورا مصرع سات اسما کا مجموعہ ہے۔ اب میر کا مطلع دیکھیے۔ علاوہ لفظ نام کے جو دونوں شعروں میں مشترک ہے۔ سارے شعر میں صرف ایک اسم ہے دل ستم زدہ اور شعر کا پورا معنیاتی نظام اس ایک اسم کے گرد گھومتا ہے۔‘‘ 2؎
میر کا یہ شعر دیوان اول کی ایک غزل کا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے میر کی طبیعت کو بڑی اہمیت دی ہے اور سودا کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ سودا کے شعر سے ان کی طبیعت کی تیزی کا اظہار ہوتا ہے۔ گویاایک شعر میں چار اسما کا استعمال یا ایک اسم کا استعمال شاعر کے مزاج کی طرف اشارا کرتا ہے۔ یہ مزاج شخصیت کا بدل نہیں ہے جسے عموماً شاعری میں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوپی چند نارنگ اس شعر کو میر کے شعری اسلوب کا بنیادی اور ابتدائی حوالہ بتاتے ہیں۔ کسی کو اس بارے میں اختلاف ہوسکتا ہے وہ اس لیے کہ میر کے اسالیب میں اس اسلوب کی اہمیت تو ہے مگر یہی سب کچھ نہیں ہے۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے ’دل ستم زدہ‘ کے تعلق سے میر کی داخلی دنیا کو جو زبان کی ساخت کی مانند ہے، ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کا رشتہ انھوں نے میر کی زندگی سے بھی قائم کیا ہے۔ خود میر نے ’ذکر میر‘ میں سراج الدین علی خاں آرزو کی بے توجہی اور اپنی پریشاں حالی کا ذکر کیا ہے اس سے بھی دل ستم زدہ کی ترکیب کو ایک داخلی اساس مل جاتی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے سودا کے جواب میں کہے گئے اس مطلعے کو بڑی اہمیت دی ہے:
’’اس ایک بیت سے کئی ایسے عناصر کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بعد میں میر کے شعری اسلوب اور طرز گفتار کی شناخت بن گئے۔‘‘ 3؎
گوپی چند نارنگ نے حالی کی مقدمۂ شعر و شاعری کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں حالی نے اس شعر کے تعلق سے میٹھی چھری سے تیز خنجر کا کام لینا کہا ہے۔ مجموعی طور پر گوپی چند نارنگ کو میر کا شعری آہنگ میر کی افتاد طبیعت کا نتیجہ یا اس کا تکملہ معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے ’’میر کے مطلع میں دل کو چھو لینے والی جو کیفیت ہے، سودا کا مطلع اس سے خالی ہے کیوں؟‘‘ دل کو چھو لینے والی یہی وہ کیفیت ہے جسے ابتدا ہی سے مختلف نام دیا جاتا رہا ہے اور اس عمل میں بار بارخستگی، دردمندی، دل سوزی، تڑپ، شدت احساس جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے رہے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا جب بعض ناقدین نے میر کی شاعری کو ان کیفیات سے ماورا ثابت کرنے کے لیے اپنی پوری ذہانت صرف کردی۔ گوپی چند نارنگ نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ ان کا سروکار محض ان کیفیات سے نہیں بلکہ ان کیفیات کو پیدا کرنے والی لسانی ساخت سے ہے۔ میں نے جان بوجھ کر اس ضمن میں شعری طریقہ کار کی ترکیب استعمال نہیں کی۔ گوپی چند نارنگ کے نزدیک میر کے ہاں دل کو چھو لینے والی کیفیت کی خاص اہمیت ہے اس میں وہ میر کی مقبولیت کا راز بھی دیکھتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ میر کی شاعری کی بعض بنیادی خصوصیات کو جن کا تعلق میر کی عالمگیر مقبولیت سے ہے، نظرانداز نہیں کرتے۔ میر تنقید کی نارسائیوں کا وہ ذکر ضرور کرتے ہیں لیکن پوری میر تنقید کو فیشن کے طور پر رد نہیں کرتے۔ انھوں نے ’نکات الشعرا‘ کی بحث اور انداز‘ کا ایک عنوان قائم کیا ہے۔ میر نے نکات الشعرا کے اختتام پر ریختہ کی قسموں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی شاعری کو انداز سے وابستہ کیا ہے۔ گوپی چند نارنگ کا خیال ہے کہ خود میر نے اپنی شاعری کے مطالعے کا ایک زاویہ ہمیں فراہم کردیا تھا لیکن ہم اس سے غافل رہے۔ میر نے اس ضمن میں کئی اشعار بھی کہے ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے میر کی شعری کائنات کو جس انداز میں دیکھا ہے اس میں وہی شعور موجود ہے جسے آج ہم متن کا بین المتونی مطالعہ کہتے ہیں۔ میر کے ہاں فارسی اور ہندی روایات کا اثر تو دکھایا گیا مگر ان اثرات کو جس وسیع تر سیاق میں دیکھنا تھا اس کی طرف سے بہرحال غفلت برتی گئی۔ اب میر کا ’انداز‘ ان کی شاعری سے بھی اپنا رشتہ قائم کرلیتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میرکی ہنرمندی اپنی جگہ مگر کوئی اور چیز بھی تھی جس نے میر کو میر بنایا۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ میر اردو کے پہلے بڑے شاعر ہیں جن کے یہاں اردو کی جتنی شاخیں، جتنے ذیلی اسالیب اور جتنی لسانی جہات ملتی ہیں اتنی بعد کے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتیں۔ غالب اور اقبال کی عظمت مسلم، لیکن غالب یا اقبال کے شعری اسالیب میں اتنا لسانی تنوع نہیں ہے۔ تاریخ کے مختلف لمحات میں رائج ہونے والے مختلف اسالیب کے مختلف دھاروں کے باہم موج زن ہونے سے جو کیفیت میر کے یہاں پیدا ہوتی ہے بعد میں وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔‘‘ 4؎
اس اقتباس کے ساتھ میر کی شاعری کو دیکھئے تو ایک دریا موجزن نظر آئے گا اور دریا کی ان مختلف لہروں کو الگ الگ کرنا ممکن نہیں۔ اس لسانی تنوع کو عموماً فارسی سے مخصوص کردیا گیا اور دیگر لسانی سیاق پر توجہ نہیں دی گئی۔ گوپی چند نارنگ جسے مختلف اسالیب اور دھارے کہتے ہیں وہ تو سب کے لیے یکساں تھے، مگر میر نے انھیں کس طرح جذب کیا اس سوال کا جواب ایک مستقل موضوع ہے۔ اس سوال سے یہ سوال بھی وابستہ ہے کہ کوئی لسانی اور تہذیبی معاشرہ تو سب کے لیے یکساں تو ہے۔ کیا سیاق ہی کسی شاعر کو بڑا یا اہم بناتا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے مطالعۂ میر میں اسی سیاق کو بڑی اہمیت دی ہے لیکن وہ یہ بھی ثابت کرتے جاتے ہیں کہ سیاق ہی کسی کو اہم نہیں بناتا۔ موجودہ تنقید میں جو لوگ محض سیاق کی نشان دہی کے ساتھ کسی کو اہم ثابت کرتے ہیں انھیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک سخن کی طرفیں کتنی ہیں۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’میر کے یہاں شعری زبان کی وہ کیفیت بھی موجود ہے جو گنجینۂ معنی کی طلسم کاری سے عبارت ہے جسے غالب نے منتہائے کمال کو پہنچا دیا اور علاوہ اس کے میر کے یہاں دوسری شاخیں بھی ہیں۔ میر کی پہچان بالعموم سادگی اور سلاست والی شان سے ہوتی رہی ہے جو تصویر کا صرف ایک رخ ہے…
انداز میر کی بحث میں یہ بات خاطر نشان رہنی چاہیے کہ کسی ایک مثال یا ایک طرح کی مثالوں سے میر کے انداز کو سمجھنا سطحیت کو راہ دینا ہے۔ ایسی کوئی کوشش یک طرفہ، ادھوری، اور یک رخی ہوگی چنانچہ اس کے لیے ایک طرف نہیں بلکہ بیک وقت کئی اطراف میں دیکھنا ضروری ہے۔ کچھ باتیں تجزیے اور وضاحت کی زد میں آتی ہیں اور کچھ نہیں بھی آتیں۔ 5؎
اس اقتباس کے ذریعہ میر تنقید کا المیہ بھی سامنے آجاتا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ باتیں تجزیے میں آجاتی ہیں اور کچھ تجزیے سے باہر رہ جاتی ہیں۔ اقتباس کی روشنی میں اس تنقیدکا چہرہ شرمندہ ہوتا ہے جو غیرضروری طور پر اشتعال پیدا کرکے قاری کو انتشار میں مبتلا کرتی ہے۔ میر تنقید پورے میر کو ایک ساتھ دیکھنے میں اس لیے ناکام رہی کہ ہر نقاد کا اپنا مسئلہ رہا ہے اور یہ مسئلہ ایک سطح پر انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ کئی اطراف میں دیکھنا دراصل کثرت معنی سے روبرو ہونا ہے۔ میر کا اسلوبیاتی مطالعہ ایک مخصوص زاویۂ نظر کا نام ہے۔ اور اس کا براہِ راست تعلق موضوعات اور افکار سے نہیں ہے۔ انھوں نے اسلوبیاتی مطالعے کی ایک دشواری کا بھی ذکر کیا ہے :
’’یاد رہے کہ اسلوبیاتی امتیازات ہرگز Serial نہیں ہوتے۔ یہ پرت در پرت بیک وقت وارد ہوتے ہیں اور اس حد تک باہم دگر مربوط ہوتے ہیں کہ انھیں الگ الگ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور یہ تخلیقی عمل کے منافی بھی ہے تاہم بحث شعر میں یہ عمل ناگزیر ہے۔‘‘ 6؎
گوپی چند نارنگ نے میر کے اسلوبیاتی مطالعے کے لیے میر اور غالب کی ایک ایک غزل کا انتخاب کیا ہے:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
(میر)
وحشی بن صیاد نے ہم دم خوردوں کو کیا رام کیا
رشتۂ چاک جیب دریدہ صرفِ قماش دام کیا
(غالب)
ان غزلوں کے بارے میں کچھ تحقیقی نوعیت کی اطلاعات بھی فراہم کی گئی ہیں اور نقد میر سے سید عبداللہ کی ایک رائے بھی موجود ہے۔ سید عبداللہ نے ان دو غزلوں کی روشنی میں میر اور غالب کے شعری مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ گوپی چند نارنگ اگر چاہتے تو سید عبداللہ کی رائے سے صرف نظر کرسکتے تھے۔ گوپی چند نارنگ اسما اور اسمائے صفات کی روشنی میں ان دونوں غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سید عبداللہ نے اسما یا اسمائے صفات کو اس طرح الگ الگ کرکے دیکھا نہیں تھا۔ وہ مجموعی طور پر ایک بات لکھ دیتے ہیں کہ میر کی پرتاثیر غزل کے مقابلے میں غالب کی یہ غزل محض چند رنگین الفاظ کا مجموعہ ہے۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں غزلیں اپنے اپنے اسلوب کی نمائندہ ہیں۔ غالب کے مطلع میں اسما اور اسمائے صفات نو ہیں۔ وحشی، صیاد، رم خوردوں، رشتہ، چاک، جیب دریدہ، قماش، دام، میر کے یہاں کیا ہے؟ پہلے مصرع میں تدبیریں اور دوا اور دوسرے میں بیماری دل اور ان کی ساخت یوں ہے۔ تدبیروں کا الٹا ہوجانا، دوا کا کام نہ کرنا اور بالآخر بیماری دل کا کام تمام کرنا۔ آپ نے دیکھا شعر میں صرف تین اسمائ ہیں اور تین نحوی اکائیاں ہیں اور ہر ایک کی تکمیل فعل سے ہوتی ہے۔‘‘ 7؎
مطلع کے شعر سے اسما اور اسمائے صفات کی یہ گنتی محض گنتی نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ میر اور غالب کی فکری دنیا ان سے بہت آگے جاتی ہے۔ لیکن یہ دنیا کس طرح آگے جاتی ہے اس کو بتانے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر میر کے شعر کی قرأت میں ’دیکھا‘ کو زور دے کر پڑھا جاتا ہے اور اس سے معنی کے عمل پر زور پڑتا ہے۔ لیکن اسما اور اسمائے صفات کی نشان دہی اوران کے عمل کو یہاں جس طرح سمجھایا گیا ہے کہ وہ مطالعۂ میر کی ایک جہت تو ہے ہی۔ غالب میر کے مقابلے میں کیوں کر اسما اور اسمائے صفات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اس کا جواب گوپی چند نارنگ نے الگ سے دینے کی کوشش نہیں کی ہے، وہ اسے ایک اسلوب کا نام دیتے ہیں۔ وہ بقیہ اشعار کامطالعہ بھی ان ہی خطوط پر کرتے ہیں۔ بار بار نحوی اکائیاں، نحوی واحدے، مصمتوں، طویل مصمتوں جیسے الفاظ آئے ہیں۔ ان مباحث کے بعد وہ میر کے اشعار کا انتخاب پیش کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ میر کی یہ غزل اس بحر میں ہے جسے بحر میر کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ طویل بحر کا بہاؤ میر کے یہاں عجب لطف پیدا کرتا ہے۔ اس کے جادو اور بہاؤ کا ذکر تو سب نے کیا مگر اسے عملی تنقید کے ذریعہ شاید پہلی مرتبہ گوپی چند نارنگ نے ثابت کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میر کے یہاں طویل بحروں میں بھی چھوٹے چھوٹے نحوی واحدے ہیں جو معنیاتی Nodes کی طرح کام کرتے ہیں اور فوری ترسیل جذبات یا تاثیر میں مدد بہم پہنچاتے ہیں۔‘‘ 8؎
نحوی واحدے کے ضمن میں جو اشعار پیش کیے گئے ہیں انھیں پڑھتے ہوئے اس تاثر کی تصدیق ہوتی ہے۔ ایک مثال دیکھیے:
دل کی تہہ کی کہی نہیں جاتی/ نازک ہے اسرار بہت
الجھن تو ہیں عشق کے دو ہی/ لیکن ہے بستار بہت
معنیاتی Nodes کا مطلب معنی آفرینی یا معنی کی طرفیں نہیں، معنی کی طرفیں اگر دیکھنی ہوں تو میر کا یہ شعر دیکھیے:
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
اس شعر کا تجزیہ داخلی ساختوں کا شعری تفاعل/ کے باب میں موجود ہے۔ یہاں صرف ایک پہلو فوری ترسیل، جذبات اور تاثیر کے سبب کو دریافت کرنا تھا۔ اس کتاب میں ’میر کی سادگی نظر کا دھوکا‘ بول چال کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہے جیسے عنوانات کے تحت میر تنقید کے بعض مقدمات کو ایک افواہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میر کی سادگی ہی نہیں بلکہ سادگی کا لفظ ہی ادب کی قرأت میں بڑی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ میر کی سادگی تو کچھ ایسی مشہور رہی ہے جیسے کہ میر نے عام قارئین سے پوچھ کر شعر کہے ہوں۔ جس وقت یہ عنوانات قائم کیے گئے اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ان مسائل سے لوگوں نے بحث کی ہے۔ فرق یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ عملی تنقید کے ذریعہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ ایسا بھی کچھ ہے جو نظر سے اوجھل رہ گیا ہے۔ بول چال کی زبان کو شاعری کی زبان بنانا ایک بات ہے اور اسے معنی آفرینی کا وسیلہ بنانا دوسری بات ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بول چال کی زبان اور شاعری کی زبان میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ بول چال کی زبان میں زبان کی محض اوپری ساخت کام کرتی ہے۔ اس میں لفظ محض لفظوں کی طرح کام کرتے ہیں… شاعری کی زبان میں زبان کی محض اوپری ساخت نہیں بلکہ اس کے علاوہ داخلی ساخت اور بعض اوقات کئی کئی داخلی ساختیں کام کرتی ہیں۔‘‘ 9؎
زبان کی خارجی اور داخلی ساختوں کاتعلق بنیادی طور پر شاعری کی تنقید سے ہے۔ نہ صرف میر کی شاعری بلکہ کسی بھی اچھی شاعری پر عام بول چال کی زبان کا گمان ہوتا ہے تو اس کو اسی انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ داخلی اور خارجی ساختوں کے معاملے میں ہمارا ذہن عموماً عروض و آہنگ اور دیگر شعری طریقۂ کار تک محدود ہوجاتا ہے اور جسے لفظوں سے آگے دیکھنا کہتے ہیں اس سے ہم دور ہوتے جاتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کا تنقیدی ذہن جسے ہم اس بحث میں تہذیبی ذہن کہہ سکتے ہیں وہ اصطلاحوں میں سوچنے کے باوجود اصطلاحوں سے ماورا ہوکر ان علاقوں میں چلا جاتا ہے جسے خود انھوں نے دھندلے خطے اور ان کی وسعتوں اور پنہائیوں کا نام دیا ہے۔ انھوں نے فرائڈ کے ایک ترجمان Jacques Lacan کا ایک قول نقل کیا ہے:
"Language is structured like the unconscious”
لاشعور کی یہ ساخت کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے اس کو سمجھنے کا ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ شاعری میں لفظی و معنوی رعایتوں اور مناسبتوں پر گفتگو کرتے ہوئے عموماً لفظوں سے آگے ہماری نگاہ نہیں جاتی اور سامنے کے متضاد اور مشترک رشتوں کی نشان دہی کے بعد بات ختم کردی جاتی ہے۔ کلاسیکی شاعری کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں رعایتوں اور مناسبتوں کا نظام معنی کی طرفیں پیدا نہیں کرتا۔ مگر مجموعی طور پر میر کا معاملہ مختلف ہے۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’میر نے نکات الشعرا میں اپنے ’انداز‘ کی وضاحت کرتے ہوئے صرف صنائع کا ذکر کیا تھا یعنی تجنیس وترصیع و تشبیہ و ادا بندی وغیرہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعری زبان کی داخلی ساختوں میں نہ صرف یہ بلکہ بدیع و بیان کے جملہ منضبط اور غیرمنضبط وسائل کام میں آتے ہیں۔ صنعتوں کے محدود تصور سے ہٹ کر داخلی ساختیں ایسے ایسے جہان معنی آباد کرتی ہیں اور ایسے ایسے احساسات و جذبات و تصورات و خیالات کے دروازے کھول دیتی ہیں جن تک پہنچتے ہوئے زبان کی اوپری ساخت کے پر جلتے ہیں۔‘‘ 10؎
سوز کی بنڈکلھیا اور میر کی باتیں/ گفتار خام عزیزاں سند نہیں/ کا باب بھی خاصا دلچسپ ہے۔ یہ دلچسی طبقات الشعرا اور آب حیات کے مصنّفین کی آرا سے پیدا ہوتی ہے۔ صاحب طبقات الشعرا نے میر کو محاورہ داں کہاتو صاحب آب حیات نے میر کے انداز کومیر سوز سے مستعار بتایا ہے۔ ان آرا کے بعد گوپی چند نارنگ نے ایک مرتبہ پھر شعری زبان اور محاورہ کی زبان کا فرق بتایا ہے۔ وہ خوش معرکہ زیبا سے ایک روایت نقل کرتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ خوش معرکۂ زیبا کی روایات سے گوپی چند نارنگ نے کئی موقعوں پر استفادہ کیا ہے بلکہ اسلوبیات میر کا آغاز ہی ’خوش معرکہ زیبا‘ کی ایک روایت سے ہوتا ہے۔
گوپی چند نارنگ میر کے سلسلے میں مختلف اسالیب سے استفادہ کی بات لکھ چکے ہیں اور اب وہ ’فارسی آمیز لہجہ کی خوش امتزاجی‘ کا عنوان قائم کرتے ہوئے غالب کی فارسی آمیز مشکل پسندی کا رشتہ میر کی شعری ساختوں سے قائم کردیتے ہیں۔ فارسی شاعری کے مضامین کو اردو میں منتقل کرنے کی ایک روایت قائم ہوگئی تھی۔ لیکن اس معاملے میں میر کا امتیاز کیا ہے؟ اس سوال پر سید عبداللہ نے بھی غور کیا تھا گوپی چند نارنگ کو حیرت ہے کہ سید عبداللہ کو ایسے شعروں میں محض فارسی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ گو کہ یہ سامنے کی بات تھی کہ فارسی الفاظ اور ریختہ کے ملنے سے امتزاجی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ گوپی چند نارنگ ان ہی فارسی الفاظ میں میر کی فطری طبیعت کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ لکھ چکے ہیں میر کی طبیعت کی روانی کے آگے کوئی بھی شئے ٹھہر نہیں پائی۔ میر نے سب کو اپنے مطابق بنا لیا۔ اس کو تخلیقی عمل کے دران اشیائ کا صیقل ہوجانا کہتے ہیں لیکن یہاں گوپی چند نارنگ نے ایک فرق کی نشان دہی کی ہے:
’’میر کو جہاں جہاں ٹھیس لگی اور وہ آبلے کی طرح پھوٹ بہے ہیں۔ انھوں نے سادہ ایمائی لہجہ اختیار کیا لیکن جہاں انکشاف ذات کی صورت پیدا ہوئی ہے یا ماہیت عالم پر غور کیا ہے یا ذات و کائنات کا فشار محسوس ہوا ہے یا حیرت و استعجاب کے عالم میں ڈوب ڈوب گئے ہیں وہاں اکثر و بیشتر فارسی آمیز پراکرتی امتزاجی پیرائے سے اظہار حق ادا ہوا ہے۔‘‘ 11؎
ہندی الفاظ کا رس: پوری اردو کا پورا شاعر۔ اس عنوان کے تحت اسی فارسی آمیز پراکرتی امتزاجی پیرائے کو نشان زد کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر میر کی زبان کا یہ مطالعہ دراصل ایک تہذیبی مطالعہ ہے جس میں ریختہ کی تعمیر و تشکیل میں مختلف لسانی و تہذیبی قوتوں کے عمل دخل کو داخلی ساختوں کا فطری عمل بتایا گیا ہے۔ یہ سارا عمل اتنی خاموشی کے ساتھ ہوتا ہے کہ بہت بعد کو ہم اس کی شناحت کرپاتے ہیں۔ اس عمل میں تاریخی اور سماجی صورت حال بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ میر کے ریختہ نے عوامی بولیوں اور دیگر جمہوری قدروں سے استفادہ کیا ہے۔
m
حواشی
.1 اسلوبیات میر، گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی،سن اشاعت اول 1985، سن اشاعت چہارم 2013،ص؛ 8
.2 ایضاً، ص ؛10
.3 ایضاً، ص ؛9
.4 ایضاً، ص ؛14
.4 ایضاً، ص ؛14-15
.6 ایضاً، ص؛15
.7 ایضاً، ص ؛17-18
.8 ایضاً، ص؛ 18
.9 ایضاً، ص؛35
.10 ایضاً، ص ؛35-36
.11 ایضاً، ص؛ 54
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page