اردو کے عہد ساز ناقد و دانش ور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی وفات پر قومی اردو کونسل میں تعزیتی نشست
نئی دہلی:اردو کے عہد ساز ناقد و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی وفات پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں تعزیتی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں کونسل کا تمام اسٹاف موجود رہا۔اس موقعے پر پروفیسر نارنگ کی شخصیت و خدمات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ نارنگ صاحب مشہور و معروف ادیب، بین الاقوامی دانشور اور اعلی درجے کے ناقد تھے۔ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان پر اگر سیکڑوں کتابیں لکھی جائیں تو بھی ان کاکماحقہ احاطہ نہیں ہوسکتا۔شیخ عقیل نے کہا کہ ان کی مادری زبان گوکہ اردو نہیں تھی، مگر انھوں نے اپنی غیر معمولی کاوش سے اس زبان میں ایسا ملکہ حاصل کرلیا کہ وہ اردو دنیا کے عظیم ناقد و ادیب کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے ۔انھوں نے کہا کہ نارنگ صاحب کی شخصیت کئی اعتبار سے ہم سب کے لیے سبق آموز ہے۔ انھوں نے مشکل حالات میں بھی اپنی صلاحیت و قابلیت کی بدولت اپنے آپ کو منوایا اور اپنی وقعت و افادیت کو ثابت کیا۔ ان کی قوت ارادی، ان کی جدوجہد اور حصولِ منزل کی ان کی کوشش اور لگن قابل تقلید تھی۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے مابعد جدیدیت کے ادبی نظریے سے اردو دنیا کو متعارف کروایا، بلکہ اسے ایک تحریک کی شکل دی جس کے وہ سرخیل تھے۔ انھوں نے کہا کہ نارنگ صاحب ملٹی لنگول انسان تھے،وہ بہ یک وقت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کا علمی قد بہت بڑا تھا۔ ـ وہ ایک ٹرینڈ سیٹر ناقد و ادیب تھے، جنھوں نے ادب کے تقریبا ہر پہلو پر کتابیں لکھیں،ان کی خدمات کبھی بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں،ایسے لوگوں کو ہی ’یگ پرش‘ کہا جاتا ہے،جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
کونسل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (ایڈمن)کمل سنگھ نے نارنگ صاحب کے تعلق سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کے تو غیر معمولی شخصیت تھے ہی، مگر جب وہ کونسل کے وائس چیئر مین تھے تو ہمیں ان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کرکے اندازہ ہوا کہ وہ ایک ہترین منتظم اور مخلص مشیر بھی تھے۔ کونسل کے ابتدائی دنوں میں اس کی خاکہ سازی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
اس موقعے پر کونسل کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ نے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ ادبی و تنقیدی صلاحیت کے علاوہ نارنگ صاحب کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ ان کی زبان بہت اچھی تھی اور ان کی گفتگو بہت شایستہ،تلفظ بہت صاف اور اندازِ بیان بہت شگفتہ ہوتا تھا۔
معروف ادیب و ناقد حقانی القاسمی نے نارنگ صاحب کی وفات کو ذاتی خسارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی بڑے انسان کے انتقال سے ایک پورا عہد متاثر ہوتا ہے،بلا شہ نارنگ صاحب کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی۔ ان کی عظمت و علمیت کا اعتراف ان کے موافقین و مخالفین سبھی کرتے تھے۔ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی ،مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنی تعلیمی و اقتصادی زبان کے طور پر اردو کو اختیار کیا اور اس میں غیر معمولی کمال حاصل کیا،وہ اردو زبان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اسے زبانوں کا تاج محل کہتے تھے۔انھوں نے کہا کہ نارنگ صاحب کا مطالعہ بہت وسیع اور مشاہدہ قوی و عمیق تھا اور ان کی شخصیت حقیقی معنوں میں نفع بخش اور فیض رساں تھی ۔ان کی وفات سے اردو تنقید اور دانشوری کا ناقابل تلافی خسارہ ہوا ہے۔ اس موقعے پر نارنگ صاحب کی آتما کی شانتی کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔
(رابطہ عامہ سیل)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page