مرزا عبدالقادر بیدل (۱۶۴۴۔۱۷۲۰)برصغیر کے پہلے جدید شاعر کہے جاسکتے ہیں۔عظیم آبادمیں پیدا ،اور دہلی میں آسودہ خاک ہونے والے مرزا بیدل نے فارسی میں شاعری کی جو اس زمانے میں سرکار،دربار کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے علمی اور تخلیقی اظہار کا ذریعہ تھی ۔بیدل نے فارسی زبان تو اختیار کی ،مگر برصغیر وایران کی فارسی شاعری کی روایت کی پابندی نہیں کی(اور انھیں قومی شاعر کا مرتبہ افغانستان و وسطی ایشیا میںملا)۔انھوں نے ماسبق شعراکو پڑھا ،مگر ان کے راستے پر نہیں چلے؛پہلوں میں سے کوئی ان کی شاعری کے لیے حکم نہیں بنتا۔’’ وہ لوگ جو صرف سعدی، نظامی ، حافظ ، فردوسی ،عرفی ،نظیری کی سطح سے بیدل کا مطالعہ کریں گے ، وہ یقینا کوئی لطف ان کے کلام میں نہ پائیں گے ‘‘۱۔حق یہ ہے کہ بیدل کے کلام سے لطف اٹھانے اور اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بعض مسلمات کا درجہ رکھنے والے نظریات کو ساقط تصور کیا جائے، جیسے ’روایت سند ہوتی ہے‘، ’شاعری کے اصول استاد یا روایت سے سیکھے جاتے ہیں‘،رائج یا معاصر شعریات ہی شاعرکی تفہیم کا ذریعہ ہوتی ہے‘۔بیدل کے لیے اگر کوئی تصور راہنما ہوسکتا ہے تو وہ انھی کے اس قول میں بیان ہوا ہے:’ شاعری عبارت از معنی تازہ یابیست‘۔اسی قول سے استفادہ کرتے ہوئے ،غالب نے کہاکہ شاعری معنی آفرینی ہے ،قافیہ پیمائی نہیں۔ جب شاعر معنی آفرینی کو اپنا شعری مسلک بناتاہے تو معنیِ تازہ وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔معنی تازہ وہ ہے جسے شاعر نے خلق کیا ہو، دہرایا نہ ہو۔معنی تازہ ،ہمارے ذوق اور فہم دونوں کے لیے کسی حد تک پریشانی کا باعث بنتا ہو۔وہ ہمیں مجبور کرتا ہو کہ ہم اسے سمجھنے کے لیے ،اپنے ذوق اور فہم کی سطحوں سے خود کو منقطع کریں، اور خود کو اس کی سپردگی میں دیں۔صرف جدید شاعری ہی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے قارئین اپنے پہلے سے قائم کردہ تصورات، تعصبات وغیرہ معطل کریں، ایک خلا کی سی حالت اپنے تخیل میں پیدا کریں ،اور جدید شاعری کو وہاں داخل ہونے ،اور اپنے وجود کے اسرار ظاہر کرنے کا موقع دیں۔
بیدل کی شاعری سے متعلق ہمیں کم وبیش وہی آرا ملتی ہیں، جوبعد ازاں غالب اور بیسویں صدی کے جدید نظم گوئوں سے متعلق ظاہر کی گئیں۔ وہ مشکل پسند ہیں، مہمل گو ہیں،ان کا کہا وہ آپ سمجھیں یا خدا۔ مثلاً مولانا محمد حسین آزاد کہتے ہیں:’’ مضامین اس قدر باریک باندھتا ہے کہ اکثر اشعار میں سے معنی بمشکل نکلتے ہیں‘‘۔آزاد کے نزدیک اس کا سبب ،یہ ہے کہ ’’ خود آزاد مزاج اور خود پسند تھا۔استاد زبردست کے ہاتھ سے نیچے نہیں نکلا کہ وہ راستہ پر لاتا،اس واسطے وہ بے اصول رہ گیا‘‘۲۔ آزاد کی بیدل پر تنقید،برنگ دیگر بیدل کی جدیدیت کی نشان دہی کرتی ہے۔ ’بہ مشکل معنی نکلنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ بیدل کے متن میں معانی اس طور مضمر ہیں کہ ان تک رسائی ،شاعری کی قرأت کے عام طریقے سے نہیں ہوسکتی؛ان کا متن قرأت کے ایک مشکل طریقے کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ مشکل طریقہ عبارت ہے،مانوس ،کلاسیکی طریقے کو ترک کرنے سے ،نیز یہ عبارت ہے بیدل کی انفرادیت سے ،جس کے بارے میں عبدالغنی کا کہنا ہے کہ ’’بیدل اپنی انفرادیت کے باعث ناقابل ِ تقلید ہے ،اور اپنے زمانے سے بلند تر ذہن کا مالک ہونے کی وجہ سے مستقبل کا شاعر ہے‘‘۳۔انفرادیت کا لفظ اب کلیشے بن چکا ہے ،اس لیے قاری ٹھیک ٹھیک محسوس نہیں کرسکتا کہ بیدل آخرکس طور’منفرد ‘ہے ۔انفرادیت ،حقیقت میں دیوتائی صفت ہے ، جو آدمی کو اپنی ہی نوع سے بلند اور ممتازکرتی ہے؛نیزانفرادیت ایک ایسی خصوصیت ہے ،جسے سمجھنے کے لیے ،خود اسی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے؛اگرچہ یہ دوسروں کے مقابلے میں روشن ہوتی ہے ،ان سے خود کو ممیز بھی کرتی ہے،مگر اس میں شدید اصرا ر موجودہوتا ہے کہ اس کے معانی کا سراغ خود اسی میں لگایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ جدید شاعر کسی استاد زبردست کو نہیں مانتا، نہ اس کے ہاتھوں سے نکلنے پر آمادہ ہوتا ہے،جسے آزاد ’بے اصول‘ رہنا قرار دے رہے ہیں ،وہ بیدل کے اپنے وضع کردہ اصول ہیں ،جو پہلے اصولوں کے استنادکو برہم کرتے محسوس ہوتے ہیں۔پہلے اصولوں کو اسی وقت برہم کیا جاسکتا ہے ،جب آپ ان اصولوں سے محض آگاہ ہی نہ ہوں ، تنقیدی طور پر آگاہ ہوں۔ بنی ہادی نے ایک واقعہ نقل کیاہے کہ ’’ میرزا کے ایک معاصر ناظم خاں فارغ ،مئولف تاریخ فرخ شاہی نے ایک موقع پر بعض احباب کی ضیافت کی ،اور وہاں میرزا کا ایک شعر پڑھ کراہل محفل کو سنایا۔اس میں ’’موے کاسہ‘‘ اور ’’نمد باختن ‘‘ کی ترکیبوں پر طنز اور اعتراض ملحوظ خاطر تھا۔میرزا نے دفاع میں برجستہ شعر سنانا شروع کیے اور مثالوں کا ڈھیر لگادیا۔عنصری اور فرخی جیسے قدیم استادوں سے لے کر مختلف شاعروں کے کلام سے سترہ مثالیں سند اور شہادت میں پیش کیں‘‘۴۔اس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ بیدل ا ن اصولوں کی تنقیدی آگاہی رکھتے تھے،جن سے وہ اکثر انحراف کرتے تھے۔
آزاد نے بیدل پر تنقید کی ہے،اور کلاسیکی شعریات کے اس معروف اصول کے تحت کی ہے کہ ’شاعری اہلِ زبان اور اہلِ فن کے قائم کردہ اصولوںکی پابندی سے عبارت ہے‘ ۔یہی وجہ ہے کہ آزاد نے بیدل کے اس شعر پر گرفت کی ہے،جو بیدل کے اپنے بیٹے کے مرثیے کا ایک شعر ہے : ’ہر گہ دوقدم خرام میکاشت؍از انگشتم عصابکف داشت‘ ۔ آزاد کے مطابق اہل فارس نے آج تک خرام کاشتن نہیں کہا۔ گویابیدل نے اہل زبان کے اصولوں سے روگردانی کی،اور خارج آہنگ ہوگیا۔ اس کا جواب خواجہ عبادللہ اختر نے یہ کَہ کردیا ہے کہ ’’ خرام کاشت کا مفہوم یہ ہے کہ [بیٹا] چلنا سیکھتا تھا۔۔۔گویا خرام بمنزلہ ایک بیج کے تھاجس کو وہ طفولیت میں بورہا تھا۔آگے چل کر اسی بیج کا نشوونماہونا تھا،لیکن نہ ہوسکا،ورنہ میری پیری کا عصا ہوتا‘‘۵۔ قصہ یہ ہے کہ بیدل نے اہلِ فارس کے محاورے سے انحراف کیا، زبان کے اساسی نظام سے نہیں۔ویسے تو محاورہ بھی زبان کے اساسی نظام یعنی علامتی نظام کی پیداوار ہے، مگر وہ کثرتِ استعمال سے اپنی علامتی حیثیت کا احساس کھودیتاہے۔ بیدل ایک جدید شاعر کی مانند زبان کے اساسی نظام تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ زبان کا اساسی نظام،زبان کا انتہائی بنیادی علامتی نظام ہے ؛جہاں علامتیں نہیں، علامت سازی کی صلاحیت مضمرہے۔جسے اہل زبان کا محاورہ کہا جاتا ہے ،یا مانوس زبان کا نام دیا جاتا ہے ،وہ زبان کی معروف علامتیں ہوتی ہیں، جدید شاعر ان علامتوں کی بجائے، علامت سازی کے منبع تک رسائی حاصل کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں جدید شاعر کا لسانی عمل ،اپنی ماہیت میں یکسر نیانہیں؛یہ وہی عمل ہے جو زبان میں عموماً جاری ہوتا ہے،مگر مخصوص لفظیات، معروف استعاروں،رائج محاوروں کے عام استعمال کے سبب ،نظروں سے اوجھل رہتا ہے ۔ مانوس زبان میں خرام ،کاشت کرنا مضحکہ خیز لگتا ہے،مگرجب پہلی مرتبہ’نفرت کا بیج بونا‘کا محاورہ استعمال کیا ہوگاتو کئیوں کو مضحکہ خیز لگا ہوگا۔ جدید شاعری میں استعارہ سازی و علامت سازی کے منبع تک رسائی ،کوئی خالی خولی لسانی کرتب نہیں، جس کا مقصد لوگوں کو چونکانا ہو(اگرچہ غفلت کے ماروں کو چونکانا بھی اپنے آپ میں اہم مقصد ہوسکتاہے)اس کا گہرا تعلق ’نئی حقیقت خلق کرنے ‘ سے ہے۔جدید شاعر یہ سمجھتا ہے کہ زبان اور حقیقت کی تخلیق ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ نئی حقیقت ، نئی زبان ہی میں ظاہر ہوسکتی ہے،اور حقیقت اگر شے، مظہر ، تجربے کی ’اصل‘ تک پہنچنے ،اور اسے نئے سرے سے مرتب کرنے (تاکہ اس کی معرفت حاصل ہو)سے عبارت ہے ،تو اس کے لیے زبان کی ’اصل‘تک رسائی بھی ناگزیرہے۔ بہ قول نبی ہادی ’’وہ نئی ترکیبیں ایجادکرنے اور لفظوں کو نئے انداز سے برتنے کا عجیب وغریب سلیقہ رکھتا ہے۔اس کا ہر شعر ایک لسانی تجربہ ہے،جہاں معانی کی گنجائش اور رعایت کی خاطر لفظوں کی صفیں ذرا سے اشارے پراپنی کیفیت وحیثیت میں تغیر کے لیے آمادہ نظر آتی ہیں۔۔۔ہم اس کو سبک ہندی کی معراج کَہ سکتے ہیں‘‘۶۔
خوجہ عباداللہ اختر نے بیدل کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔احباب کی مجلس میں مجذوبوں کا ذکر چھڑا تو شاہ کابلی کا ذکر آیا ،جس کے حسب نسب اور ملک ووطن کی خبر کسی کو نہیں تھی۔کسی نے اسے کابل میں دیکھا تھا، اسی لیے اسے شاہ کابلی کہتے تھے۔ اس پر بیدل نے ایک اہم نکتہ بیان کیا،جو حقیقت میں جدیدیت کے فلسفے کا اہم نکتہ ہے۔
مارا کہ علم است نہ معلوم شدن
نے خواہش منثور ومنظوم شدن
مضمون ظہوری بخیال آمدہ است
باید زبان خلق موسوم شدن
از وہرچہ بگفتند از کم وبیش
نشانے دادہ اند از دیدہ خویش
منزہ ذاتش از چند و چہ وچوں
تعالیٰ شانہ عما یقولون
یعنی یہ کہ لوگ اپنے آپ کو وہی کچھ سمجھتے ہیں جو انھوں نے اوروں سے اپنے بارے میں سنا ہے ۔ زبان ِ خلق ہی لوگوں کے لیے حکم ہے۔’’اشیاے کائنات ہوں یا ذات باری تعالیٰ زبان ِ خلق ہی سے موسوم ہیں‘‘۷۔بیدل کو یہ بات قبول نہیں کہ ’حقیقت ‘ کا سرچشمہ’ زبان ِ خلق ‘ہے؛ان کی نظر میں زبان ِ خلق، نقارہ خدا نہیں ہے ۔زبان ِ خلق ،فہم عامہ کی نمائندگی کرتی ہے،جس میں نقل و تقلید کے سوا کچھ نہیں،اور نقل و تقلید سے کسی شے کی پہچان پیدا نہیں ہوتی ،بلکہ مسخ ہوتی ہے۔نقل وتقلید میں دوسروں کے تجربے ،یا قول پر اندھا بھروسا کیا جاتاہے،اور اپنی پہچان کی صلاحیت کو موقوف کیا جاتا ہے؛ روایت وسندکے مقابلے میں اپنی عقلی صلاحیت کو ہیچ سمجھناہے ،اور اس سے دستبردار ہونا ہے ۔دوسروںکی پہچان کو اپنی پہچان بنانا ہی ،پہچان کو مسخ کرنا ہے۔ایک اور جگہ بیدل کہتے ہیںکہ کارہاے دنیا میں اس وجہ سے ابتری پائی جاتی ہے کہ لوگ یک دوسرے کی نقل وتقلید کرتے چلے جاتے ہیں۔
ازاں نقش کار جہاں ابتر است
کہ آثار تقلیدیک دگر است
گویا دنیاکا اصل بحران، عقلی صلاحیت کوموقوف کرنا،اوراس کے نتیجے میں پہچان کو مسخ کرناہے ۔ایک دوسرے کی تقلید کرکے لوگ ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں، ایک دوسرے سے عقیدت بھی پیدا کرلیتے ہیں،مگر حقیقت سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں۔ایک شخص کا تجربہ ، مخصوص زمان ومکان کا پابند ہوتا ہے ، ور کسی مخصوص واقعے ، صورتِ حال کا جواب ہوتا ہے ۔ کیا ہم ایک ایسے تجربے کی نقل کرسکتے ہیں؟ جب تجربہ دوسروں کے بیان میں آتا ہے تووہ ایک افسانہ ہوسکتا ہے ، تجربہ نہیں۔افسانے کو تجربہ سمجھ کر اس کی نقل کرنا پہچان کو مسخ کرنا ہے ،اور حقیقت کی معرفت کی بجائے جہالت گلے لگاناہے۔
کسے تکیہ برفہم مردم کند
کہ چوں جہل راہ خرد گم کند
اسی ذیل میں بیدل سرگزشت ِ رفتگاں کے سننے والوںکو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔فرماتے ہیں:
غفلت ِ عالم فزود از سرگزشت رفتگاں
ہرکجا فسانہ باشد ،ہیچ کس بیدا رنیست
یعنی رفتگاں کی کہانی، سننے والوں کی غفلت میں اضافہ کرتی ہے،جہاں قصہ کہا جارہا ہو ،وہاں کوئی شخص بیدار نہیں ہوتا۔ بیدل زبانِ خلق، دسروں کے تجربے اور سرگزشت رفتگاں کو ایک ہی زمرے میں رکھتے محسوس ہوتے ہیں۔ بیدل کا مدعا یہ ہے کہ آدمی میں غفلت پہلے ہی موجود ہے، جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ سرگزشت ِ رفتگاں غفلت کو بڑھاتی ہے ، اور سرگزشتِ خود غفلت کا خاتمہ کرتی ہے، اور سرگزشت ِ خود موجود نہیں ہوتی ، خود خلق کرنی پڑتی ہے۔سرگزشت ِرفتگاں ،ہمارے آباوا جدادکے تجربے تھے ،جو مخصوص تاریخی تناظر کے حامل ہیں،اور معرض بیان میں آنے سے وہ قصے بن گئے ہیں۔ بیدل اس بات کے ہرگز قائل نہیں کہ ’میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو‘۔وہ اس بات کے قائل محسوس ہوتے ہیں کہ رفتگاں کے قصوں ،یا ماضی وروایت وسند پرانحصارآدمی کو اپنی ہستی کے مرکز تک پہنچنے میں حائل ہوتے ہیں۔ بیدل یہاں تک کہتے ہیں کہ کعبہ و بت خانہ بھی ،راستہ چلنے والوں کے نقش ِ قدم ہیں۔
کعبہ و بت خانہ نقش مرکز تحقیق نیست
ہرکجا گم گشت رہ سرمنزلے آراستد
بیدل جس شدت سے تقلید ی روش پر نکتہ چینی کرتے ہیں، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کا جامد تصور نہیں رکھتے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں حقیقت’ باہر‘،واضح خدوخال کے ساتھ موجود نہیںکہ جس تک ایک شخص کی رسائی کافی ہے،باقی اس کے ادارک ِ حقیقت کو من وعن قبول کرسکتے ہیں۔یعنی وہ حقیقت کا سائنسی تصور نہیں رکھتے؛ نہ ہی وہ حقیقت کو محض ’اندر ‘سمجھتے ہیں کہ جس کا کشف ہوسکے،اور ایک شخص کے کشف پر دوسرے آنکھیں بند کر کے اعتبار کر لیں۔ وہ حقیقت کو خلق ہوتا، وجود میں آتا ،ایک مسلسل عمل خیال کرتے محسوس ہوتے ہیں۔حقیقت کا یہ حرکی وتخلیقی تصور ہے ، جو ناظر ؍تخلیق کار کی فعال شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ناظر؍تخلیق کار کی شرکت ہی ،حقیقت کو حرکی وتخلیقی ثابت کرتی ہے۔ یہ موضوع ان کی مثنوی محیط اعظم میں ظاہر ہواہے۔اس مثنوی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
چہ ذہن و چہ خارج خیال اوست
چہ اصل و چہ فرع از نہال اوست
گمانہاہمہ نقش تکوین اوست
یقیں یک گل از باغ تسکین اوست
مشو غافل از باغ نیرنگ دل
کہ علم و عیاں نیست جز رنگ دل
بہ ظاہر تر اگرچہ دل در براست
بمعنی تو لفظی و دل دفتر است
یکے فہم خود کن تو خود کیستی
ازاں پردہ دل بروں نیستی
دلت ہرچہ اندیشد اندرخیال
بود جملہ منقوش لوح مثال
گل وگلشن دل مثال است وبس
خیال آنچہ بیند خیال است وبس
دریں دائرہ ذہن خارج یکی است
تفاوت اگر ہست جزوہم نیست
تعلق بہار فریب دل است
توہم گل ناشکیب دل است
وگرنہ ندارد بہار شہود
بغیر از تو از خود گلے در وجود
خواجہ عبادللہ اختر نے ان اشعار کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
خارج از دل ان کا وجود نہیں، خواہ یہ ذہنی امور ہوں یا خارجی حالات ہوں،سب دل کے خیالات (Ideas)ہیں۔یہ شجر دل ہی ہے خواہ اس کی جڑیں ہوں یا شاخیں یاپتے۔خواہ گمان ،وہم یا یقین ہو سب دل کے نقوش ہیں،البتہ یقین سے دل کو ایک گونہ تسکین حاصل ہوتی ہے،مگر یہ بھی دل کی ایک کیفیت ایسی ہے،جیسے گمان ۔دل ایک باغ ہے جس میں طرح طرح کی نیرنگی تو مشاہدہ کرتا ہے ،خواہ یہ علمی صورت ہویا ذہنی امر یا خارج میں اعیان ہو،دل ہی کے رنگ میں رنگین ہیں،یعنی ان کا وجود دل ہی دل میں ہے،دل سے باہر تصور نہیں کرسکتے۔اس لیے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔اگرچہ دل بظاہر تیرے اندر ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ تو صرف ایک لفظ کی صورت ہے،دل معانی کا دفتر ہے۔۔۔۔یہ گل اور گلشن سب مثالی صورتیں ہیں،جو کچھ خیال چاہتا ہے ایک خیالی صورت بنالیتاہے۔اس دائرہ کائنات یا تیرے دائرہ دل سے خارج ایک ’’ذہن‘‘ ہے ،اسی ذہن کے تصورات یہ کائنات ہے ،اور اسی کائنات کے نقوش تیرے دل پر ثبت ہیں۔۔۔ہمیں اگر کچھ تفاوت نظر آتا ہے تو یہ کرشمہ وہم ہے۔تو خود بھی دل ہی کا ایک گل ناشگفتہ ہے۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بہار شہود میں تیرے سوا اور کوئی گل نہیں۸۔
بیدل نے یہ اشعارایک رشی کی زبانی ایک راجہ کے سوال کے جواب میں کہلوائے ہیں ۔بیدل نے مثنوی میں ہندوستان کے ایک راجہ کا قصہ لکھا ہے ، جس نے ہر طرح کے ماہرینِ فن کو مظاہرہ فن کی دعوت دی تھی۔ایک بازی گر نے لکڑی کا گھوڑا پیش کیا ،اور کہا کہ یہ سرعتِ اندیشہ یعنی خیال کی رفتار سے دوڑتا ہے۔راجہ اس پر بیٹھا اور چکر اکر گر پڑا۔(خیال کی رفتار کی تاب ،جسم خاکی کو کہاں ہے!)راجہ جہاں گرا وہاں ایک جنگل تھا۔ بھوک پیاس سے نڈھا ل تھا کہ ایک شودر ذات کی عورت آئی جو پیشے کے اعتبار سے کناسی تھی۔ راجہ کو مجبوراً اس سے بیاہ کرنا پڑا۔دس سال اس کے ساتھ رہا ،بچے پیدا ہوئے۔قحط پڑا تو سب نے ناچار خود کشی کا فیصلہ کیا۔پہلے راجہ نے آگ میں چھلانگ لگائی۔ دیکھا تو اس کا دربار ہے ۔ اسے لگا جیسے وہ دوگھڑی کے لیے دربار سے گیا تھا۔ راجہ کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک مقام پر دس بر س ،دوسرے مقام پر محض دوگھڑی۔ صحرا میں مارامارا پھرا۔ ایک بار پھر کناسیوں کی بستی میں پہنچا،جہاں لوگ اسے اور اس کے اہل وعیال کو یاد کررہے تھے۔ آخریہ کیا طلسم ہے؟ اس سوال کے جواب میں رشی نے اس سے کہا کہ یہ سارا طلسم اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔وہ خود ہی اس سارے طلسم کا خالق ہے ،جس کا وہ تجربہ کرتا ہے۔بیدل انسان کی طلسم و وہم خلق کرنے کی صلاحیت کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں،کیوں کہ وہم ،خواہ کس قدر دھوکا دینے والا ہو،وہ ہے توانسانی ذہن کی تخلیق،یعنی وہ خارج کی حقیقت کا عکس نہیں، انسان کی خود مختارتخلیقی فعلیت کا اظہار ہے۔بیدل یہاں ریڈیکل جدید شاعر نظر آتے ہیں،اس لیے کہ جدیدیت میں یہی ’خود مختار تخلیقی فعلیت ‘ کلیدی اہمیت کی حامل ہے ۔مثنوی میں بنیادی نکتے دو ہیں،اور دونوں جدید فلسفہ ئ فن سے متعلق ہیں:پہلا یہ کہ طلسم و وہم و توہم کوانسان خودتخلیق کرتا ہے ،کیوں کہ وہ تخلیق کی دیوتائی صلاحیت رکھتا ہے،دوسرا یہ کہ انسان طلسم و وہم وتوہم کواپنی تخلیق کے طور پر قبول کرے ،اسے ناقابل ِ فہم ،پراسرارطبیعی و مابعد الطبیعی قوتوں سے منسوب کر کے،ان سے بھاگے نہیں،نیزان کی ذمہ داری اپنے سرلے۔ راجہ نے زماں کے قبض کا جو تجربہ کیا، وہ اگر وہم اور طلسم تھا تو اسے راجہ کے ذہن ہی نے پیدا کیا تھا۔ایک واقعہ جو قطعی ناممکن لگتا ہے ،ہمارے روزمرہ تجربے سے لے کر ، علت و معلول کی منطق کی شکست کرتا ہے ،اس کی مدد سے بیدل، انسانی ذہن کی قوت ِتخلیق کی حدود کو ممکنہ حد تک پھیلانے کا تصور پیش کرتے ہیں۔راجہ نے جس طلسم کا تجربہ کیا، اس کا آغازاس وقت ہوا،جب ان کے جسم نے خیال کی رفتارسے سفر شروع کیا؛خیال، انسانی ذہن کی تخلیق ہے ،اورانسان کے تجربے میں کوئی شے ایسی نہیں جو خیال کی رفتارسے زیادہ رفتار رکھتی ہو؛انسان کی طبعی وجود زمان ومکاں، علت ومعلول کی منطق کا پابند ہے ، مگر خیال نہیں ۔انسانی وجود کا یہ ایک ایسا تناقض یا پیراڈاکس ہے ، جسے جدیدیت نے خاص اہمیت دی ہے۔انسانی وجود کا بنیادی تجربہ ،تناقضات کا تجربہ ہے۔ہمار اجسمانی وحسی تجربہ ،ہمارے ذہنی تجربات سے مختلف ہے؛پہلی سطح ہمیں محدود کرتی ہے، بندھے ٹکے قوانین سے باندھتی ہے،جب کہ دوسری سطح ہمیں حدود کے جبر کا احساس دلاتی ہے، قوانین شکنی سے لے کر قوانین سازی کی اہلیت کا شعور دیتی ہے ،اور جسم و ذہن کی سطح پر رونما ہونے والے تناضات کا عرفان بھی دیتی ہے۔راجے کو جب پتا چلا کہ ایک طرف کی دوگھڑی ، دوسری طرف کے دس برس ہیں تو در اصل پہلی مرتبہ اس پرانسانی وجود کا بنیادی تناقض آشکار ہوا۔اگر اس واقعے ،اور اس کے ساتھ اصحاب کہف ،اورقبض ِ زماں کے بعض دیگر واقعات (مثلاً تذکرہ غوثیہ میں بیان کردہ واقعہ جس کی بنیاد پر شمس الرحمٰن فاروقی نے قبض ِ زماں کے عنوان سے ناولٹ لکھا ہے)کومحض وقت کے حوالے سے بھی دیکھیں ،تو’حیاتیاتی وقت ‘اور ’ذہنی وتخیلی‘ وقت کا تناقض نظر آئے گا۔ حیاتیاتی وقت کی رفتار محدود اور مقرر ہے ، جب کہ ’ذہنی وتخیلی وقت‘ کی رفتار روشنی کی رفتار کی مانند ہے۔گویا اگر آدمی خود کو اپنے خیال کی رفتار کے سپرد کردے تو بڑے بڑے طلسم ممکن ہوسکتے ہیں، جیسے روشنی کی رفتار پکڑنے سے جسم ،توانائی میں بدل جاتاہے۔ بیدل اس ’طلسماتی تجربے ‘ کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں ،جس میں ایک طرف تناقضات کا عرفان ہوتا ہے ،اور دوسری طرف وجود ،خیال میں تحلیل ہوتا محسوس ہوتاہے۔ ذرا یہ شعر دیکھیے:
مابے خبراں قافلہ ئ دشت خیالیم
رنگ است بگردش قدمے نیست در اینجا
یعنی ہمارا وجود کیا ہے؟ دشت خیال سے گزرتا ہوا قافلہ ہے، یہاں رنگ کی گردش کا احساس ہوتا ہے ، قدم کی آہٹ کا نہیں۔ بعض لوگوں (خصوصاًنبی ہادی )نے اسے اپنشد اورویدانت کا اثر بتایا ہے ،اور ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے،مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی فلسفے یانظریے کواس کی اصلی شکل میں منظوم کرنا ،بیدل کو منظور نہیں تھا(خود انھوں نے تقلید کی سخت مخالفت کی ہے)،البتہ وہ ہر بات کی تنقیدی آگاہی میں یقین ضرور رکھتے تھے۔نیز وہ شعر لکھتے تھے ، جس کی تمثالوں میں فلسفے کی وحدتِ معنی تحلیل ہونے لگتی ہے۔مندرجہ بالا شعر ہی کو دیکھ لیں۔ دشت ِ خیال سے گزرتے ہوئے قافلے کی رفتار روشنی کی رفتار ہے ،جس میں وجود کی مادی جہت تحلیل ہوجاتی ہے ؛چوں کہ وجود نہیں،اس لیے قدموں کی آہٹ بھی نہیں۔ وجود کی جگہ رنگ کی گردش جاری ہوگئی ہے۔رنگ، روشنی اور توانائی ہی ہے۔کیااس طرح بیدل،انسانی وجود کے بنیادی تناقض کا حل پیش کرتے ہیں؟ہمارا خیال ہے کہ یہ ایسا سوال ہے ،جس سے ہم بیدل کی جدیدیت کی خاص جہت تک پہنچ سکتے ہیں، اور جو اسے’نو آبادیاتی مغربی جدیدیت ‘سے الگ کرتی ہے(جس کے اثرات سے اردومیں جدید نظم کا آغاز ہوا)۔مغربی جدیدیت میں بھی انسانی وجود کے تناقضات کا شدید احساس ہے ،تاہم عمومی طور پر انھیں قبو ل کرنے کا رویہ ہے۔جسم ، حس، جنس، لاشعور، الجھنوں ، تضادات کو تسلیم کیا جاتاہے؛جسم و ذہن اور دیگر ثنویتوں اور درجہ بندیوں کو کہیں الٹنے کی کوشش ہوتی ہے ،اور کہیںانھیں ختم کرنے کی سعی ہوتی ہے۔جب کہ بیدل کی جدیدیت میں تناقضات کا عرفان ،اور ان کا حل ملتا ہے۔ اگر وجود ،خیال میں منلقب ہوجائے تو تناقض ختم ہوسکتاہے۔اسی بنا پر بیدل کے یہاں حسی اور جنسی دنیا کا ذکر نہ ہونے کے برابرہے۔ نیزیہیں بیدل کی فکر کا رشتہ بہ یک وقت تین دھاروں سے ملتا ہے: ابن العربی کے ’ہمہ اوست‘ ، اپنشدوں اور بدھ فلسفے سے۔
بیدل یہ تو کہتے ہیں کہ اگروجود ، دشت ِ خیال میں پہنچ جائے تو وہ رنگ میں بدل جاتا ہے، مگر وہ اسے تجربے اور واردات کے طور پر نہیں، فکر کی صورت پیش کرتے ہیں۔ اگر واردات کے طور پر پیش کرتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ ان کے یہاں جسم وجنس ضرور ظاہر ہوتے ، جوبعد ازاں علامتی حیثیت اختیار کرلیتے۔جیسا کہ ابن العربی کے یہاں ہوا ہے، لیکن اس صورت میں ایک اور امکان بھی تھا کہ ان کی شاعری متصوفانہ، نشاطیہ شاعری میں تو بدل جاتی ، جدید شاعری میں نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیدل کے یہاں جدیدیت ،ایک فکری نظام کے طور پر مستحکم ہوتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً جب وہ وجود کے خیال میں منقلب ہونے کا خیال پیش کرتے ہیں تو اسے آگے بھی بڑھاتے ہیں؛کہتے ہیں کہ اگر خیال ہے تو لفظ بھی ہے،کہ کوئی خیال بغیر لفظ کے وجود نہیں رکھتا۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک بار پھر وہی تناقض سر اٹھاتا ہے ،جس کے خاتمے کی خاطر خیال کو وجود پر اہمیت دی گئی تھی ۔نظری طور پرخیال لطیف ترین ہے ،صورت وحس سے ماورا ہے ،لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خیال بغیر لفظ کے وجود نہیں رکھتا توہم یہ تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ خیال کی بھی صورت ہے ،یا خیال بغیر حسی ہیئت کے ظاہر نہیں ہوسکتا۔بیدل اور مابعد جدید مفکرین کا نظریہ تو یہ ہے کہ خیال ،بغیر لفظ کے وجود ہی میں نہیں آسکتا۔یعنی لفظ ،خیال کا لباس نہیں۔۔۔اگر ہم ایسا سمجھیں تو نہ صرف خیال کو لفظ کے بغیر موجود تصور کریں گے ، بلکہ ایک خیال کے لیے ایک سے زیادہ لباس یعنی لفظ بھی متصور کررہے ہوں گے۔۔۔۔ اصل یہ ہے کہ لفظ اور خیال ایک ورق کے دوصفحے ہیں،یعنی وہ دوہیں بھی اور نہیں بھی؛وہبہ یک وقت ایک دوسرے پر منحصربھی ہیں، اور آزاد بھی،اور یہ کچھ کم تناقض نہیں ۔بہ ہر کیف بیدل کے نزدیک انسانی وجود کے بنیادی تناقض کا حل ’خیال‘ ہی میں ہے ۔ اسی لیے بیدل کی شاعری میں کائنات کو ایک کتاب کہا گیا ہے،جو حروف وکلمات پر مشتمل ہے ۔
بہر رنگ آیات حرف است وبس
نفس در عبارات حرف است وبس
حقیقت کہ آں سوے ماومن است
چوبے پردہ شد حرف پیراہن است
کائنات کو کتاب کہناقرآنی تصورہے۔گویا آدمی کا خود سے اور کائنات سے رشتہ لفظ کا ہے۔ آدمی کلام اور سخن ہی کے ذریعے خود سے اور دنیا وکائنات سے جڑاہے ۔بیدل کی فکر کے تناظر میں یہ سوال اہمیت نہیں رکھتا کہ کیا کائنات کی کتاب بھی اسی زبان میں لکھی گئی ہے ،جو آدمی کی زبان ہے؟ دوسری طرف یہ کہنا تو ایک طفلانہ بات ہوگی کہ دنیا میں سات ہزار زبانیں ہیں،کائنات کی کتا ب کس زبان میں لکھی گئی ہے؟ کائنات کو کتاب کہنا در اصل اس کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے۔ ایک یہ کہ کائنات بے معنی مادہ نہیں،بلکہ اشارات ونشانات کا ایک نظام رکھتی ہے۔کائنات میں اشیا کی کثرت ’پرفارمنس ‘ ہے ،اور یہ پرفارمنس مرہون ہے ، Competenceکی،جسے بیدل ’حقیقت‘ کہتے ہیں۔جب کائنات کی کتاب پڑھی جاتی ہے تو اسی Competence تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ کائنات سے آدمی کا تعلق خیال ،فہم ،علم کاہے۔اگر یہ نہیں توآدمی اور کائنات میں لاتعلقی ہے،یا پھر کائنات آدمی کے لیے نرا مادے کا ڈھیر ہے۔ بیدل یہ کہتے ہیں کہ حرف ہی کے پردے میں ’ماو من‘ کی حقیقت ہے،جس کا مطلب ہے کہ حقیقت واحدہے۔ یہاں وہ بڑی حد تک وحد ت الوجودی فکر کے حامل محسوس ہوتے ہیں ، اس فرق کے ساتھ کہ ان کے یہاں وحدت کا نکتہ ’لفظ اور کلام‘ہے۔لیکن بہ ظاہر معمولی محسوس ہونے والا یہ فرق کافی اہمیت کا حامل ہے ۔لفظ اور کلام ،مسلسل مکالمے کا لازمی امکان لیے ہوئے ہیں،اور آدمی اور کائنات کا رشتہ جامد ، یک رخا نہیں، تخلیقی ،حرکی ،کثیر جہاتی ہے۔اسی ضمن میں بیدل کا یہ شعر دیکھیے:
ہر سخن سنجے کہ خواہد صید معنیہا کند
چوں زباں می باید اوّل خلوتے پیدا کند
یعنی جس سخن شناس کو تازہ معانی کے شکار کی خواہش ہے ،اسے پہلے زبان کی طرح خلوت اختیار کرنا ہوگی۔خاموشی سے تازہ معانی پیدا ہوتے ہیں(اس پر مزید گفتگو آگے آرہی ہے)۔معنی کی جستجو کی جولان گاہ ،یہ کائنات کی کتاب بھی ہے۔ کائنات کی کتاب کے معانی،سب کے لیے یکساں نہیں ہیں۔یہ معانی کسی چھپے خزانے کی طرح نہیں کہ ہر شخص ایک ہی طرح سے اس تک پہنچ سکتا ہے ، اور وہ خزانہ سب کے لیے ایک ہی طرح کا ہے۔ ہر چند بیدل صاف کہتے ہیں کہ اس کائنات کے خارج میں ایک ’’ذہن ‘‘ موجود ہے ، اور اسی ذہن کے تصورات ،یہ کائنات ہے،مگر یہ تصورات پڑھے ، سمجھے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔بیدل ،بارت ودریداسے کہیں پہلے ،کائنات کو ایک کتاب یعنی متن کہتے ہیں،اور اس متن کی قرأت وتفہیم میں آدمی ؍قاری کے کردار کا ذکر کرتے ہیں۔ جب متن کی قرأت وتفہیم میں ایک قاری کے فعال کردار کا ذکر کیا جاتا ہے تو دراصل دوباتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے: ایک یہ کہ متن میں واحد معنی نہیں،دوم یہ کہ معنی کی تشکیل میں قاری کا کردار ہوتا ہے۔کائنات کے متن کو ایک ’ذہن ‘ نے تخلیق کیا ہے، مگر خود متن اس قدر تہ بہ تہ ، اسرار اندر اسرار ، اشارات وعلامات سے لبریز ہے کہ اسے باربار ، زاویے بدل بدل کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ بیدل ،کتابِ کائنات کی قرأت کو اس کی تسخیر کا ذریعہ نہیں سمجھتے، بلکہ اسے اعلیٰ ترین سطح کی ہم آہنگی کے حصول کی لامتناہی کوشش کا وسیلہ خیال کرتے ہیں۔مغربی جدیدیت میں کائنات کی تسخیر ،اور بعد ازاں اس کے استحصال کا رویہ ملتا ہے،جب کہ بیدل کے یہاں کائنات سے آدمی کے مسلسل مکالمے کا تصور ملتا ہے۔تسخیر واستحصال سے بالآ خر بیگانگیت پیدا ہوتی ہے ،جس کا تجربہ بیسویں صدی میں مغرب و مشرق کے ’جدید انسان ‘ نے کیا ہے،اور تسلیم کیا جانا چاہیے کہ انھی خطوں کے جدید تخلیق کاروں ہی نے جس کے خلاف آواز بھی اٹھائی ۔یہ الگ بات ہے کہ یہ بیگانگیت ایک ایسا گھائو ہے ،جو جدید انسان کی روح کو لگا ہے،جس کا مندمل ہونا ممکن نظر نہیں آتا، اس لیے کہ گھائو سے پہلے کی صورتِ حال کی طرف لوٹنا ممکن نہیں رہا۔ہم ماضی کو یاد کرسکتے ہیں ،اسے واپس نہیں لاسکتے ۔دوسرے لفظوں میں ہم لاکھ ’مغربی جدیدیت‘ کی ملامت کر لیں، اس سے پہلے کی صورت حال کی طرف نہیں پلٹ سکتے۔ ہماری اس کوشش کا مقصود نو آبادیاتی مغرب کے جدیدیت سے متعلق بیانیے (خدارا جدیدیت اور اس کے بیانیے کا فرق ملحوظ رکھیے)کو چیلنج کرنا ہے،جس کے مطابق جدیدیت صرف مغربی مظہر ہے۔
بیدل ،کائنات کی کتاب کے پڑھے جانے کے لیے خاموشی کو ایک اصول کے طورپر پیش کرتے ہیں۔بیدل کے یہاں خاموشی کئی معانی رکھتی ہے، کہیں یہ قرأت کی جمالیات ہے،اور اس کا پس منظر منصور حلاج کا واقعہ ہے، کہیں یہ مراقبہ ہے جو روزمرہ شعور اور اس کی منطق کی نفی سے عبارت ہے ، کہیںیہ زبان کے اس اساسی نظام تک رسائی کا مفہوم رکھتی ہے ،جہاں لفظ سازی ومعنی سازی کا جوہر پنہاں ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
وضع خاموشی ما ،ز سخن دل نشیں تر است
باتیر احتیاج نہ دارد کمان ما
[میری خاموشی کا طریق ،میرے سخن سے بڑھ کر دل نشیں ہے، اور میری کمان تیرکی محتاج نہیں]
درس ِ کتاب ِ معرفت ،حوصلہ خواہ خاموشیست
گر سخنت بلند شد، تا سردار می رسد
[معرفت کی کتاب کے مطالعے کے لیے خاموشی کا حوصلہ درکار ہے، اگر تو نے شور کیا تو سرِدارجانا ہوگا]
در خموشی ،لفظ و معنی قابل تفریق نیست
حرف بے رنگ از کشادلب دوپہلو می شود
[خاموشی میں لفظ اور معنی کی تفریق نہیں ، لیکن سادہ حرف بھی منھ سے نکل کر دوپہلو ہوجاتا ہے]
در آں محفل کہ حیرت ترجمان راز دل باشد
خموشی دارداظہار ے کہ گویا گفتگو دارد
[اس مجلس میں حیرت ،دل کے راز سے آگاہ کرتی ہے، اور خاموشی ایک ایسا طریقہ اظہار ہے جو گفتگو سے بڑھ کر مئوثرہے]
گفتگو از معنی تحقیق دارد غافلت
اندکے خاموش شوتادل زباں پیدا کند
[گفتگومعنی ِ تحقیق تک پہنچنے میں غافل رکھتی ہے،ذرا خاموشی اختیار کر تاکہ دل کو زباں مل جائے]
ان سب اشعارمیں بیدل ،خاموشی کو گفتگو یا کلام کے مقابل پیش کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں وہ خاموشی وکلام میں جدلیاتی تعلق قائم کرتے ہیں؛دونوں میں تفریقی رشتہ قائم کرتے ہیں، اور خاموشی کو افضل قرار دیتے ہیں۔ان کی نظر میںخاموشی بھی معنی کا سرچشمہ ہے،بلکہ بعض صورتوں میں خود معنی ہے۔بہ قول بیدل: ’خموشی چشمہ جوشست دریاے معانی را‘،یعنی خاموشی ،معانی کے دریا کا پرجوش چشمہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خاموشی کیوں کر معنی کا سرچشمہ ہے ،اور کیا خاموشی کے معانی ، کلام کے معانی ستے مختلف ہوتے ہیں؟یہ ایک معروف مقولہ ہے کہ خاموشی ،کلام کی ضد ہے،اور معنی ،کلام میں ہوتے ہیں۔اب اگر کلام ہی نہیں تو معنی کہاں؟ خود بیدل کہتے ہیں کہ’ خاموشی میں لفظ اور معنی کی تفریق نہیں ہوتی،لیکن سادہ حرف میں بھی دوئی ہوتی ہے‘۔ہم جانتے ہیں کہ معنی ،زبان کی اسی دوئی سے پیدا ہوتے ہیں؛زبان کے تفریقی رشتے ہی معنی پیدا کرتے ہیں۔اب اگر خاموشی میں زبان کی دوئی ختم ہوگئی تو معنی کیوں کر پیدا ہوئے ؟کیا کوئی معنی ماوراے لسان بھی ہوسکتا ہے ؟ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ بیدل ’خاموشی کے معنی ‘ کی ترسیل کے لیے ،زبان کا عمومی طریقہ ہی اختیار کرتے ہیں،یعنی خاموشی و کلام کے جدلیاتی تفریقی رشتے کا سہارالیتے ہیں؛خاموشی کو کلام کے تقابل سے باور کراتے ہیں۔اگر خاموشی ، زبان کے جال سے آزاد ہونے کی ’حالت ‘ ہے تو یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ یہ آزادی مشروط ہے ۔اس نکتے کو ہم ایک دوسرے تناظر میں سمجھ سکتے ہیں۔کچھ دیر کے لیے جدلیات کا تناظر بھو ل جائیے ۔یعنی خاموشی کو کلام کی ضد کے بجائے، کلام کی غیر موجودگی سمجھیے۔کلام کے غیر موجود ہونے کی ایک سے زیادہ صورتیں اور کیفیتیں ہیں۔کلام اس صورت میں غیر موجود ہوتا ہے ، جب اس کی ضرورت نہ ہو،یا جب اسے ناکافی سمجھا گیا ہو۔دونوں صورتوں میں خاموشی کا جواز خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے،مگر واضح رہے کہ دونوں صورتوں میں کلام کی حدود کے محدود ہونے کا شدید احساس ہوتا ہے؛ کچھ ایسے منطقے ، کچھ ایسے مقامات ہوسکتے ہیں جہاں آدمی کہنے کی ضرورت سے بے نیاز ہوسکتا ہے ،یا وہ ایک ناقابل ِبیان وترسیل حالت (جسے بیدل حیرت کا نام دیتے ہیں)کا تجربہ کرتا ہے۔مگر کلام کی یہ غیر موجودگی ہمیشہ عبوری ، وقتی ہوتی ہے ،نیز واضح رہے کہ کسی شے کی غیر موجودگی اس کے بے معنی ہونے کی علامت نہیں ہوتی؛’نہ ہونا‘ ،’بے معنی‘ ہونے کا مفہوم نہیں رکھتا۔ لہٰذا کلام غیر موجود ہوکر تعطلی کی کیفیت میں ہوسکتا ہے ، بے معنویت کی حالت میں نہیں ۔خاموشی ، حقیقت میں ایک وقفہ ہے ،جو کلام کے بیچ اچانک نمودار ہوتا ہے ؛ دو روشن نکتوں کے بیچ ایک سیاہ نکتہ ،یا دو سیاہ نکتوں کے بیچ ایک روشن نکتہ ۔ جس طرح دو روشن نکتوں کے درمیان کا سیاہ نکتہ پوری طرح سیاہ نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے کنارے اور حاشیے روشنی سے منور ہورہے ہوتے ہیں، اسی طرح کلام کے بیچ کا وقفہ ،زبان کی معنی خیزی سے بیگانہ نہیں ہوتا؛نیز کلام،خاموشی کی حالت میں کسی نہ کسی شکل میں خلل انداز ہورہا ہوتاہے،یہاں تک کہ جب آدمی مطلق خاموشی کا تجربہ کرتا ہے تو وہ ’بولنے‘ لگتی ہے،یعنی انتہائی معنی خیز ہوجاتی ہے ۔
خاموشی خواہ ’کہنے کی ضرورت سے بے نیازی ‘کی حالت ہو ،یا ’ناقابل بیان تجربے‘ سے عبارت ہو، وہ ایک ایسا وقفہ ثابت ہوتی ہے ،جس میں زبان کی حدود کو ممکنہ حد تک کھنچنے ،اس کی ترسیلی صلاحیت کو جانچنے اور پھر وسیع کرنے ،یعنی اس کی معنی خیزی کی اہلیت میں اضافہ کرنے کا عمل ہوتاہے۔خاموشی کے وقفے کے خاتمے کے بعد ،کلام پھر جاری ہوتا ہے ،اور یہ کلام ، خاموشی سے قبل کے کلام سے مختلف ہوتا ہے۔یعنی ’خاموشی‘ان معانی کو زبان میں پیش کرنے کا پیش خیمہ بنتی ہے ،جن کی ترسیل کی صلاحیت زبان میںاگر پہلے موجود تھی بھی تو اسے دریافت نہیں کیا گیا تھا؛ خاموشی ایک طرح سے زبان کی حدوں کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ خاموشی کی حالت، اگر ایک طرف آدمی کی ذات کی گہرائی میں اترنے، روزمرہ شعور سے پرے کی دنیا میں پہنچنے کا نام ہے ،تو دوسری طرف زبان کے عمومی جدلیاتی طریقے کو عبوری طور پر معطل کرنے سے عبارت ہے۔یہ بات بہ اصرار کہنے کی ضرورت ہے کہ بیدل کے یہاں خاموشی ،کلام کی نفی کا مفہوم نہیں رکھتی،اس لیے کہ بیدل کے نزدیک آدمی کا کائنات سے رشتہ ،کلام کا ہے۔بیدل کے درج ذیل شعر میں ’روزمرہ شعور سے پرے ‘ کی دنیا کا ذکر ہے؛اس میں پہنچ کر آدمی کا سامنا حیرت سے ہوتا ہے ،اور جس کا بیان صرف خاموشی کی زبان میں ہوسکتا ہے۔
شرر در سنگ می رقصند مئے اندر تاک می جوشد
تحیر رشتہ سازاست وخاموشی صدا دارد
[پتھر میں چنگاری ناچ رہی ہے،اور انگور کی بیل میں شراب کا خروش ہے،اس حقیقت کی کیا توجیہ ہو؟یہ سمجھیے کہ حیرت ساز ہے ، اور خاموشی اس ساز کی آوازہے]
بیدل کے یہاں خاموشی کا مضمون غالباًبودھی فلسفے کے زیر اثرآیا ہے۔بیدل کو نہ صرف صوفیوں اور فقیروں سے گہرا تعلق تھا ، بلکہ وہ مراقبہ ، سیر گریباں سے بھی دل چسپی رکھتے تھے، جن کی شرط اورحاصل خاموشی ہے۔اس ضمن میں نبی ہادی نے لکھا ہے :
بیدل پر جن صوفیوں اور فقیروں کا پکا رنگ چڑھا تھا، ان کے ظاہر ی اطوار اور وضع قطع کا ہلکا سا خاکہ ذہن میں رکھنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ان میں بعض بزرگ لباس کی قید سے بے نیاز بالکل ننگے نظرآتے ہیں اور بعض ہیں کہ جذب کا عالم طاری ہو اتو خاموش اور بے ہوش پڑے ہیں۔۔۔بیدل ان پیروں کا پر جوش مرید ہے۔ان کو ’’خورشید نگاہاں ‘‘ اور طرح طرح کے بلند القاب سے یادکرتا ہے اور معترف ہے کہ میرے تخیلات کی دنیا ان کے لطف خاص سے روشن اور آباد ہوتی ہے۔ان بزرگوں کے نظام میں مراقبہ لازم تھا۔بیدل نے سیر گریباں کی مشق پورے شوق کے ساتھ بڑھائی ۔بالآخر اس کی رسائی ایک ایسی دنیا تک ہوگئی جس کو وہ الہام کدہ بے حرف و صوت کہتا ہے۹۔
نبی ہادی کی باقی باتیں بجا ہیں ،مگر بیدل کو کسی کا پرجوش مرید کہنا مناسب نہیں۔خود بودھی فلسفے میں پرجوش مرید کا تصور نہیں۔بدھ کے چیلے آنند کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مہاتما بدھ کے جیتے جی نروان نہیں ملا تھا۔ بدھ سے اس کی غیر معمولی عقیدت اس کے نروان میں حائل ہوگئی تھی ۔بدھ فلسفے کے مطابق خود آدمی ہی اپنا راہنما ہے۔سیرگریباں ومراقبے میں خاموشی کی جس منز ل تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس میں آدمی تنہا ہوتا ہے ،اور اپنے ہی شعور کے خالص پن تک رسائی چاہتا ہے۔ بہ ہر کیف بیدل کو ہندوستان کے صوفیوں، فقیروں ،سنتوں سے گہر ی دل چسپی ضرور تھی، مگر وہ اپنے راستے کے تنہا مسافر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں خاموشی ایک حد تک بودھی مراقبے کا مفہوم رکھتی ہے ،مگر بڑی حد تک وہ خاموشی کو آرٹ کے ایک اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ خاموشی جدید آرٹ کا ایک اہم اصول بھی ہے۔اس ضمن میںبیدل غیر معمولی طور پر جدید جمالیات کے حامل نظر آتے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ سطور میں وضاحت کی گئی ہے ، خاموشی ،کلام کی نفی نہیں، بلکہ کلام کا غیاب ہے ۔دوسرے لفظوں میں خاموشی اور کلام ،اظہار کے دو طریقے ہیں،اور خاموشی کا طریقہ ، کلام سے زیادہ مئوثر ہے۔اس سے بڑھ کر تناقض کیا ہوسکتا ہے کہ ’خاموشی وہ کچھ کَہ سکتی ہے ،جسے کلام نہیں کَہ سکتا !بیدل کو اس تناقض کا احساس ہے ۔مثلاًبیدل ایک اور شعر میں کہتے ہیںـ:’حرف چندیکہ صرف انسان است ؍چوں تامل کنی نہ آسان است ‘،یعنی کس قدر حرف ہیں جو انسان کے مصرف کے لیے ہیں،مگر غوروفکر سے حاصل کیے گئے معانی کے لیے کافی نہیں۔واضح رہے کہ بیدل حرف یا کلام کو بجنسہٖ ناکافی نہیں کَہ رہے ،بلکہ صرف ان معانی کے اظہار کے لیے ناکافی کَہ رہے ہیں، جو غوروفکر سے حاصل کیے گئے ہوں۔غوروفکر سے حاصل کیے گئے معانی وہی ہوسکتے ہیں جنھیں آدمی نے اپنی ہستی کو لاحق بنیادی سوالات کے جواب میں خود دریافت یا وضع کیا ہو،جن کی جڑیں آدمی کے لاشعور میں ہوں،اورجن کا اظہار شاعری اور دوسرے تخلیقی فنون میں ہوتاہے ۔زبان، رائج سماجی معانی کے لیے کافی ہے ،مگر خود دریافت کردہ معانی یعنی آرٹ کے معانی کے لیے خاموشی موزوں ہے۔’ خاموشی کی جمالیات‘کا نظریہ بیسویں صدی میں تھیوڈور اڈورنونے پیش کیا ہے،مگر اس پر گفتگو سے پہلے چند مزید باتیں بیدل کے حوالے سے کہنا ضروری ہیں۔
بید ل کے مطابق خاموشی اور کلام اظہار کے دو طریقے ہیں، اس لیے یہ اپنی اصل میں زبان کے ایک خاص نظریے کی پیداوار ہیں۔زبان کے بعض نظریات زبان کو ’جوہر‘ کہتے اور بعض(مثلاً ساختیات) ’ہیئت ‘ کہتے ہیں۔بیدل کا نظریہ ،یہ محسوس ہوتا ہے کہ زبان ایک ’ہیئت ‘ ہے،جس کی خصوصیت جدلیات ہے ۔جب وہ یہ کہتے ہیں:’حرف بے رنگ از کشاد لب دوپہلو می شود‘یعنی حرف سادہ بھی جب منھ سے ادا ہوتاہے، دوپہلو ہوجاتا ہے ،تو وہ زبان کی اسی جدلیاتی ہیئت کی طرف اشارہ کرتے ہیں،جسے بعد ازاں ساختیات نے بنیادی اہمیت دی۔زبان میں معانی اسی جدلیاتی ہیئت سے پیدا ہوتے ہیں۔اس بناپر خود زبان معنی سازی کا عمل انجام دینے لگتی ہے ؛ آدمی کے منشا وارادہ کی ڈور زبان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔چوں کہ زبان ایک ثقافتی تشکیل ہے ،اور سماجی بیانیوں اور کلامیوں کی آماج گاہ ہے،اس لیے آدمی وہی کچھ سوچنے ،محسوس کرنے ، اور کرنے لگتا ہے ،جو زبان اور اس میں لکھے جانے والے کلامیے اور بیانیے چاہتے ہیں۔زبان کی جدلیاتی ہیئت مکڑی کے جالے کی طرح آدمی کوگرفتار کرلیتی ہے۔ اسے انسان کی بنیادی وجود ی صورت حال کہنا مناسب ہوگا۔آدمی جوں ہی اس صورت ِ حال کا ادراک کرتا ہے تو ایک تنائو پیدا ہوتا ہے ، زبان اور متکلم کے منشا میں۔خاموشی اسی تنائو کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔بیدل جب کہتے ہیں کہ زبان معنی ِ تحقیق سے غافل رکھتی ہے ،یا غوروفکر حاصل کیے گئے معانی کے لیے زبان ناکافی ہے ،تو اس بات پر زور دیتے محسوس ہوتے ہیں کہ ان کے اظہار کی راہ میں زبان کی جدلیاتی ہیئت آڑے آتی ہے ،جو پہلے ہی سے معانی سے لدی پھندی ہوتی ہے ،اورخوداپنے طور پر اپنی معنی سازی کا عمل شروع کردیتی ہے ،اور متکلم کو اپنے معنی مقصود سے غافل کر دیتی ہے؛متکلم کی یہ غفلت ،قید ہے ۔خاموشی اس غفلت یا تنائو سے آزادی دلاتی ہے۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ تنائو عام حالات میں پیدا نہیں ہوتا ، بلکہ ان لمحات میں پیدا ہوتا ہے ،جن میں آدمی ’معنی ِ تحقیق ‘ کا حامل ہوتا ہے ،یا اپنی حقیقی وجودی صورتِ حال کا شدت ِ احساس کے ساتھ ادراک کرتا ہے ،یعنی آرٹ کی تخلیق کے لمحات کا تجربہ کرتا ہے ۔آرٹ کے یہ لمحات،روایتی زبان میں عرفان اور آزادی سے بہ یک وقت عبارت ہوتے ہیں۔ خاموشی ،زبان کی جدلیاتی ہیئت کو عبوری طور پر معطل کردیتی ہے،یعنی اسے غیاب میں دھکیل دیتی ہے۔درج ذیل شعر اس مفہوم کو پیش کرتا ہے۔
خاموش شووبہ بیں کہ بے گفت وشنود
چیزی می گوئی و ہماں می شنوی
[خاموشی اختیار کر،اور دیکھ کہ بغیر بولے اور سنے ،کیا کہتے اور کیا سنتے ہیں]
واضح رہے کہ یہاں بھی خاموشی ،کلام کی ضد نہیں، اس کی غیر موجودگی کا مفہوم رکھتی ہے۔البتہ اس بات کو بیدل نے ایک سے زیادہ بار پیش کیا ہے کہ خاموشی ،کلام کی قائم مقام ہوسکتی ہے،اور ظاہر ہے قائم مقامی وہیں ہوتی ہے جہاں اصل وقتی طور پراور بالفعل موجود نہ ہو،مگر بالقوہ موجودہو۔مثلاً یہی دیکھیے کہ خاموشی جن صفات سے اپنا اظہار کرتی ہے، وہ کلام ہی کی ہیں:’کہنا،سننا‘ کلام ہی کی صفات ہیں۔
جرمن نو مارکسی نقادتھیوڈورڈبیلیو اڈورنو(۱۹۰۳۔۱۹۶۹)نے بھی خاموشی اور کلام کو اظہار کے دو طریقے کہا ہے،اور ان کی بنیاد پر جدید جمالیات کی تھیوری وضع کی ۔ اڈورنوکے مطابق زبان کے دو پہلو ہیں:’ زبان بہ طور ذریعہ ئ ابلاغ‘ اور’ زبان بہ طور فنی اظہار‘۔ان کا مئوقف ہے کہ آرٹ ،ابلاغ کی زبان سے سبقت لے جاتا (transcend)ہے۔ابلاغ کی زبان عام روزمرہ کی زبان ہے ،جو ہماری عملی ضرورتیں پوری کرتی ہے،اور اس میں کوئی ابہام عموماً نہیں ہوتا؛جوکچھ کہاجاتا ہے ، اسے سننے والاپورے کا پوراصرف کر لیتا ہے؛اس زبان میں کچھ زائد نہیں ہوتا ،اور کچھ بچ نہیں جاتا۔آرٹ ،اس روزمرہ کی زبان سے سبقت لے جاتا ہے،یعنی اس کے حدود سے باہر ،بلنداور پرے ہوجاتا ہے۔اڈورنو کے مطابق آرٹ کی حقیقی زبان ،گونگی(speechless)ہے۔آرٹ کے گونگے لمحے کو شاعری کے ترسیلی لمحے پر فوقیت حاصل ہے۱۰۔۔گویا اڈورنو شاعری میں ابلاغ کی زبان کی مکمل نفی کا تصور پیش نہیں کرتے ؛ ان لمحات یاوقفوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں خاموشی وگونگا پن کچھ اس انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی اہمیت ومعنویت کے اعتبار سے ابلاغ وترسیل کے لمحوں سے ممتاز ہوجاتاہے ۔ہم اس بات پر بار بار زور دیتے چلے آرہے ہیں کہ خاموشی کلام میں وقفہ ہوتی ہے، پوری شاعری خاموشی کی زد پر نہیں آتی،نیز خاموشی بالآ خر کلام کرتی ہے،اور اس کاکلام زیادہ مئوثر ہوتا ہے۔ اڈورنو کے ارشادات کے ساتھ ساتھ بیدل کے اشعار ایک بار پھر دیکھیے:
وضع خاموشی ما ،ز سخن دل نشیں تر است
باتیر احتیاج نہ دارد کمان ما
[میری خاموشی کا طریق ،میرے سخن سے بڑھ کر دل نشیں ہے، اور میری کمان تیرکی محتاج نہیں]
در آں محفل کہ حیرت ترجمان راز دل باشد
خموشی دارداظہار ے کہ گویا گفتگو دارد
[اس مجلس میں حیرت ،دل کے راز سے آگاہ کرتی ہے، اور خاموشی ایک ایسا طریقہ اظہار ہے جو گفتگو سے بڑھ کر مئوثرہے]
جسے اڈورنو speechlessہوناکہتے ہیں، وہ بیدل کے یہاں حیرت ہے۔حیرت آدمی کو گونگا بنا دیتی ہے۔آرٹ کی انتہا حیرت ہے۔جس طرح حیرت ،ہمارے روزمرہ شعور کو معطل کردیتی ہے، اسی طرح خاموشی یا گونگا پن بھی روزمرہ یا ابلاغ کی زبان کو معطل کردیتاہے۔اس سے ملتی جلتی بات غالب نے بھی کَہ رکھی ہے: ’آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے ‘ ۔آبگینہ،ابلاغ کی زبان ہے ،جسے آرٹ کی صہبا کی تندی پگھلا ئے دیتی ہے۔آبگینہ صہبا کو سمیٹنا چاہتا ہے،مگر اس کی تندی،آبگینے کو transcend کرنے لگتی ہے۔ جدید شاعری کی زبان ’’گونگی‘‘ ہے؛(آرٹ کے)گونگے کے پاس اجنبی اصوات کے حامل،اور اصوات سے خالی اشارات ہیں،جنھیں وہ (آرٹ)خود خلق کرتا ہے؛گونگے کی لغت ،اس(آرٹ)کی ذاتی لغت ہے،جسے وہ اپنے وجود کے حقیقی اظہار کے دبائو کے دوران میں مرتب کرتا ہے ؛اسی لیے اس کی زبان ،رائج زبان کے لیے اجنبی اور گونگی ہوتی ہے۔
بیدل کی جدیدیت کا اگلا ،اور غالباً اہم ترین پہلو ’بشر مرکزیت ‘ کا ہے۔ بیدل کے بارے میں نبی ہادی کہ یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی کہ ’’بیدل ۔۔۔ حکماے ہند کی طرح شدت کے ساتھ نفی حیات پرقائم ہے۔اس کے افکار میں ’’ہاں کھائیومت فریب ہستی ‘‘ والا رجحان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۱۱۔حیات کے بعض رائج ، مقتدر تصورات کی نفی ،حیات کی نفی نہیں ہوسکتی؛یہاں تک کہ وہم و خیال وطلسم کو مرکزی اہمیت دینے سے بھی حیات کی نفی نہیں ہوتی،اس لیے کہ ان کی مدد سے انسانی ذہن کی قوتِ تخلیق کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔یوں بھی حیات کی نفی ایک دھوکے سے زیادہ نہیں،اس لیے کہ نفی ِ حیات کا فلسفہ بھی ایک زندہ شخص ،فعا ل ذہن کے ساتھ گھڑتاہے۔جس طرح بعض لوگ خاموشی کو کلام کی نفی سمجھتے ہیں،مگر یہ غور نہیں کرتے کہ خاموشی کے حق میں مقدمہ ،کلام ہی میں پیش کیا جاتاہے۔بہ ہر کیف ،بیدل کے متعدد اشعار میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ آدمی کا نقش ہی حقیقت آفاق میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات صراحت سے کہی جانی چاہیے کہ بیدل کی شاعری کی متعدد جہات ہیں ،اور ہر جہت کے آگے کئی پہلو ہیں۔ ان کے یہاں بہ یک وقت اسلامی اور ہندوستانی مذہبی وفلسفیانہ روایتیں کارفرما ہیں۔ان پر سرسری نظر بھی ڈالیں تو کتاب بن جائے ،جب کہ ہمیں یہاں بیدل کی شاعری کی محض ایک خصوصیت ،یعنی جدیدیت کو واضح کرنا ہے، اس لیے ہم صرف انھی پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،جو اس مقدمے کو قائم کرسکیں کہ جدیدیت کو محض مغربی مظہر کہنا، نو آبادیاتی مغرب کا ایک بیانیہ تھا، حالاں کہ فلسفیانہ و شعری سطح پر جدیدیت ہر کلچر میں موجود ہوتی ہے۔آگے چل کر ہم اس نکتے پر بھی بحث کریں گے کہ جدیدیت بہ طور فلسفہ و جمالیات اور جدیدیت کے سماجیانے میں کیا فرق ہے؛ مغربی اثرات کے بعد ہمارے یہاں ’مغربی جدیدیت‘ ہماری سماجی بصیرت میں شامل ہوئی ۔خیر! بیدل کایہ شعر دیکھیے،جس میں وہ کہتے ہیں کہ آدمی کے نقش سے آفاق کی حقیقت کو جانا جاسکتا ہے:
از نقش ما ،حقیقت آفاق خواندنی است
چوں موج ،کارنامۂ دریا نوشتہ ام
یعنی میری ذات سے آفاق کی حقیقت سمجھنا ممکن ہے،میں نے موج کی طرح کارنامۂ دریا لکھا ہے۔جس طرح دریا اپنی موجوں کی وجہ سے ، یعنی ان سے پیدا ہونے والے تحرک و خروش کی وجہ سے دریا ہے،اسی طرح آفاق کی فعلیت کی کہانی آدمی کے ذریعے پڑھی جاسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آفاق کی کہانی ،انفس ہی نے لکھی ہے۔کچھ لوگ اس سے بیدل کے یہاں خودی کا نظریہ تلاش کرتے ہیں،اور اسے اقبال کے نظریہ ئ خودی کا پیش رو کہتے ہیں۔بجا کہ اقبال ،بیدل کو مرشد کامل کہتے ہیں،مگر یہاں ہم جس نکتے کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں،اس کے اثرات اقبال کے یہاں موجود نہیں ،وہ غالب اور جدید نظم گوئوں کے یہاں ضرور موجود ہیں۔بیدل کے نزدیک ،انفس کے آفاق کی کہانی لکھنے سے مراد یہ ہے کہ کائنات کی حقیقت وہی ہے جسے انسانی ذہن سمجھتا ہے؛ انسانی ذہن کی حد ہی کائنات کی حد ہے۔(واضح رہے کہ انسانی ذہن اور ایک فرد کے ذہن میں بہت فرق ہے)۔مندرجہ بالا شعر میں ’خواندنی‘ اور ’نوشتہ‘ کے الفاظ بھی انسان کی قوتِ تفہیم وتخلیق کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اسی بنا پر بیدل ،حال و موجود کو اہمیت دیتے ہیں،یعنی اس دنیا کو جسے انسانی ذہن گرفت میں لے سکتا ہے ۔ یہ اشعار دیکھیے:
طالب ویران ہا غیر جنونت کہ کرد
آنچہ تو خواندی بہشت ،خانہ بے آدمی است
[اگر تو ویرانوں میں جانے کی طلب رکھتا ہے تو گویا جنون کا شکار ہے، وگرنہ جسے تو بہشت سمجھتا ہے وہ خانہ ئ بے آدمی ہے]
دلت بعشوہ عقبیٰ خوش است ،ازیں غافل
کہ ہرکجا توئی آنجا بغیر دنیا نیست
[دل کی خوشی کی حدتک یہ خیال اچھا ہے کہ عقبیٰ بھی موجود ہے،لیکن یہ حقیقت تیری سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں تو موجود ہے ،وہاں دنیا کے سوا کوئی مقام نہیں۔’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن؍دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھاہے‘]
آدم کو چوں کہ بہشت سے نکال دیا گیا تھا ،اس لیے وہ بغیر آدمی کے گھر ہے،ایسے گھر میں جانا نری وحشت ہے۔اس کے مقابلے میں یہ دنیا آدمی کا گھر ہے،اور اس کے سوا کوئی مقام نہیں۔آدمی کی جنت ،ااور اس کا دوزخ اسی دنیا میں ہے۔چوں کہ آدمی کی دنیا ،یہی دنیا ہے ،اس لیے اس کی تگ وتاز کا میدان بھی یہی ہے، خواہ یہ تگ وتاز دنیا کو سنوارنے کی ہو، یا اپنی نجات کی۔یہیں بیدل کفر ودین کے ان کبیری بیانیوں پر بھی جرأت مندانہ اظہار ِ خیال کرتے ہیں،جو در اصل نجات کے تصورات رکھتے ہیں۔وہ دونوں کو ایک دوسرے سے بندھا دیکھتے ہیں۔یہ اشعار دیکھیے:
در حقیقت اتحاد کفر وایماں ثابت است
اندکے از بدگمانی ہا تخلف کردہ اند
[حقیقت میں کفر اور ایمان کا اتحاد ثابت ہے، البتہ کچھ لوگ بدگمانی کی بناپر اس حقیقت کی خلاف ورزی کرتے ہیں]
کفر ودین در گرہ پیچ وخم یک دگرا ند
ظلمت ونور چو آئنہ وجوہر بہم است
[کفر اور دین ایک دوسرے سے گرہ در گرہ بندھے ہیں،اور ظلمت ونور میں وہی تعلق ہے جو آئنے اور جوہر میں ہے]
یہ حقیقت کا جدلیاتی تصور ہے ۔یعنی ہم دین کو کفر کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ،اور کفر کو دین کے بغیر۔اسی طرح جو لوگ دین سے عقیدت رکھتے ہیں، وہ کفر سے عداوت رکھتے ہیں۔ جو کافر ہیں ،وہ دین کے خلاف ہیں۔بیدل اس جدلیاتی حقیقت سے آگے دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں:
غبارے نیست از پست وبلند موج دریا را
حقیقت بے نیاز ِ اختلاف کفر ودیں را
[موج دریا کی پستی وبلندی سے غبار نہیں اٹھتا۔حقیقت ، اختلاف کفر ودیں سے بے نیازہے]
زندگی تاکے ہلاک کعبہ و دیرت کند
بہ کہ از دوش افگنے ایں جامہ احرام را
[زندگی کب تک تیرے کعبہ و بت خانہ کے ہاتھوں ختم ہوتی رہے، بہتر ہے کہ جامہ ئ احرام اتار دیا جائے]
کفر ودیں کے خرخشوں سے اوپر اٹھنے کاتصور فارسی اور کلاسیکی اردو شعرا، نیزبرصغیر کی دیگر زبانوں کے صوفی شعرا کے یہاںبھی ملتا ہے۔ جیسے بلھے شاہ کا یہ کہنا: ’نہ میں مومن وچ مسیتاں ،نہ میں وچ کفر دیا ںریتاں؍نہ میں موسیٰ نہ فرعون؍ بلھا کی جاناں میں کون‘ ۔یہ مضمون زیادہ تر ان جھگڑوں کے پس منظر میں آیا ہے ،جو کفر ودین کے نام پر شروع ہوئے ،اور انسانوں کی بردبادی کا سامان بنے،لیکن بیدل کے یہاں اسے اس لیے بھی اہمیت ملی ہے کہ وہ بشر مرکزیت پر زور دینا چاہتے ہیں؛آدمی اور اس کی عقل کامل کو حقیقت کی جستجو کا ذریعہ اور معیار بناناچاہتے ہیں۔اگر بیدل یہیں تک محدود ہوتے تو محض فلسفی ہوتے ؛ان کی شاعری ان کے فلسفیانہ خیالات کا منظوم اظہار ہوتی، مگر وہ ایک شاعر ہیں ۔چناں چہ وہ حقیقت کی جستجو کو آرٹ کی جستجو بناتے ہیں۔یعنی انھیں ایک بات کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کے منطقی دلائل سے اس قدر غرض نہیں ،جس قدر اس نفسی سطح تک رسائی کی تمنا ہے ،جہاں نشاط اور معرفت ،یا مسرت اور بصیرت یک جا ہوجاتے ہیں،یعنی حقیقت تک رسائی ایک نشاطیہ تجربہ بن جاتی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ اس کی زیریں سطح پر بے اطمینانی کی ہلکی سی لہر برابر موجود رہتی ہے،جو اس تجربے کو ’خالص انسانی ‘ سطح تفویض کرتی ہے ۔ آرٹ اپنی جستجو میں جس حقیقت تک پہنچتا ہے ، وہ تجربی حقیقت نہیں ہوتی ؛وہ اپنی اصل میں ایک نفسی،لسانی تعمیر ہوتی ہے۔(نشان ِ خاطر رہے کہ بیدل جس عقل کامل کی بات کرتے ہیں، وہ اس عقل مفید (Instrumental Intellect)سے مختلف ہے ،جسے یورپی جدیدیت میں اہمیت ملی ہے،اور جس کے مظاہر سرمایہ داریت میں عام ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ بیدل کے یہاںآدمی کی تنہائی اور کبھی نہ ختم ہونے والی جستجو کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ لامتناہی جستجو وہیں ہوتی ہے ،جہاں حقیقت کا ایک سرا ہاتھ آتا ہو ،اور کئی دوسرے سروں کے دسترس سے دور ہونے کا ترغیب آمیز شائبہ ابھارتا ہو،اور اس کی بنا پر آدمی خود کو Beingکے بجائے Doing کی حالت میں مسلسل محسوس کرتا ہو۔یہ وہی تصور ہے جسے بعد ازاں جدید شاعری میں غیر معمولی اہمیت ملی ۔ یہ اشعار دیکھیے:
نقش خیال ما ،بتمامے نمی رسید
اے بے خوداں ،ہم ورقِ نانوشتہ ایم
[میرا نقش ِ زیست ابھی مکمل نہیں ہوا،گویا میں ایسا ورق ہوں،جس پر کوئی تحریر نہیں]
موج دریا درکنارم از تگ وپو یم مپرس
آنچہ من گم کردہ ام نایافتن گم کردہ ام
[اپنی کوشش اور تگ و پو کے بارے میں کیا عرض کروں، سمندر کی موجوں کی مانند بیقرار ہوں،جو چیز کھوئی ہے ،وہ نایافتن ہے،اسی کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں]
ہمہ عمر باتو قدح زدیم ونرفت رنج خمار ما
چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنارمابکنارما
[ساری عمر تیرے ساتھ شراب پیتے رہے، مگر رنج خمار نہ گیا،کیا قیامت ہے کہ ہمارے پہلو سے ہمارے پہلو تک نہ آسکے]
محو یاریم و آرزو باقیست
وصل ما انتظار را ماند
[ہم محبوب کے جلوے میں گم ہیں اورآرزوے دیدارہے کہ پھر بھی باقی ہے،ہماراوصل ہمارے انتظار کی مانند ہے]
وصل ہم بیدل علاج تشنہ دیدار نیست
دیدہ ہا چندان کہ محو اوست دیدن آرزوست
[دیدار کے پیاسے کا علاج وصل بھی نہیں،کیسی انوکھی بات ہے کہ آنکھیں نظارے میں گم ہیں،لیکن دیکھنے کی آرزو باقی ہے]
بیدل چہ توان کرد زمحرومی ِ قسمت
ما خشک لبان ساغر دریا کناریم
[ہم ایسے خشک لب ساغر ہیں جو دریا بہ کنارہیں۔ اس کو محرومیِ قسمت کہتے ہیں کہ جس ساغر میں دریا سمایاہواہے، اس کے ہونٹ خشک ہیں]
از کوشش نارسا مپرسید
مارانرساند تابما ہم
[ہماری کوشش کی نارسائی کی کیفیت نہ پوچھ، اس نے ہم کو ہم تک بھی نہ پہنچایا]
یہ سب اشعار جدید حسیت کو کافی مانوس محسوس ہوتے ہیں۔ان میں ایک ایسی جستجو کابیان ہے ،جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ان اشعار میں ایک ایسے اضطراب، ایک ایسی بے چینی ،ایک ایسے ہجر، ایک ایسی پیاس کا ذکر ہے ،جس کی تقدیر میں تسکین پانا نہیں،مگر جو مایوسی طاری کرنے کے بجائے آرزوکو نئی زندگی دیتی ہے ۔بیسویں صدی کی جدید شاعری میں بھی یہ مضمون ظاہر ہواہے،مگر وہاں اس کا سیاق بیگانگیت ہے، مگر بیدل کے یہاں اس کا تناظر دوسرا ہے۔ بیدل کی جستجو کو ایک صوفی کی جستجو بھی نہیں کَہ سکتے،اس لیے کہ صوفی کی جستجو میں دل کا ورق خالی نہیں ہوتا ،صوفی کو نایافتن کی جستجو نہیں ہوتی؛بیدل کی جستجو حقیقت میں خالص جستجو ہے،جس کا کوئی ایک ، واضح ، متعین ہدف نہیں ہوتا۔یہ جستجو جدیدآرٹ کی جستجوہے، اس مفہوم میں کہ ہم اس جستجو سے جدید آرٹ ہی کے ذریعے واقف ہوئے ہیں۔بیدل جسے نایافتن کہتے ہیں( بعد ازاں غالب نے شاعر کو عندلیب گلشن ِ ناآفریدہ،اسی مفہوم میں کہا)،اس سے مرادوجود کی نفی نہیں، بلکہ حاصل کی نفی ہے۔’نایافت ‘وہ ہے جو نادرالوجود ہو،یا جسے حاصل نہ کیا جاسکے؛ جسے ہم اپنی پوری سعی اور اخلاص بھری سعی کے باوجود نہیں پاسکتے،اس کا وجود ممکن ہے؛اسی بات کا یقین نایافت کو پانے کی تحریک دیتا ہے۔واضح رہے، یہ حاصل کی نفی ضرورہے ،حاصل کرنے کے عمل کی نفی نہیں ۔یہ سمجھنا بھی درست نہیں ہوگا کہ حاصل کرنے کا عمل بجاے خود حاصل بن سکتا ہے؛اگر ایسا سمجھنے لگیں تو ’حاصل کرنے کا عمل ‘ا یک مقام پر رک جائے ۔اصل یہ ہے کہ یہاں حاصل کا مفہوم مکمل دسترس ہے،اور مکمل دسترس صرف ’شے‘ پر ہوسکتی ہے ۔جدید آرٹ میں تو ’شے سازی‘ کے خلاف باقاعدہ مزاحمت موجود ہے۔بیدل جب یہ کہتے ہیں:’ما خشک لبان ساغر دریا کناریم ‘تو حاصل یا مکمل دسترس کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔ مکمل دسترس کے تصور کو موت کے مساوی سمجھتا ہے، آرٹ کی جستجو کی موت! نایافت کا تصور آدمی کو فوری ، سامنے کی ، حسی حقیقت سے آگے کی تخیلی اورلاشعوری دنیا کی طرف متوجہ کرتا ہے؛یعنی ایک متبادل دنیا کی تخلیق پر مائل کرتا ہے۔دوسری طرف نایافت کی یافت کی مسلسل کوشش ایک گہری متناقضانہ صورتِ حال ہے۔یہ صورتِ حال جدید انسان کو بے حد مانوس محسوس ہوتی ہے ۔اسی بنا پر مجنوں نے لکھا ہیـ:
اس (بیدل )کو تخلیق اور کائناتی وجود کی جدلیت یعنی تضاد اور متنا قض الذات اصلیت کا درک تھا اور وہ اندرونی تضاد کو بیان کرنے کے لیے طرح طرح کے پیرا ئے اختیار کرتا تھا۔۔۔ہمارے لیے بیدل کی سب سے بڑی دین یہی ہے کہ اس نے ہم کو زندگی کے اندرونی تضاد کو ، جو زندگی کی اصل روح ہے ،سمجھنے اور اس تضاد کو زبان میں اظہار خیال کرنے کے قابل بنایا۱۲۔
تاہم بیسویں صدی کے جدید انسان ، اور بیدل کے تصور انسان میں ایک فرق بھی ہے ۔ بیسویں صدی کا انسان تناقضات کا احساس کرکے مایوسی والم اور کبھی کبھی مضحکہ خیزی و طنزیہ احساسات سے دوچار ہوتا ہے ، مگر بیدل کے یہاں اندرونی تضادات ایک ایسی حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں ،جنھیں خوش دلی سے قبول کیا جاناچاہیے۔ اس سے بڑ ا تناقض کیا ہوگا کہ بہ قول بیدل علوی جوہر، ہرسفلی جز میں موجزن ہے۔
جوہر علویست در ہر جزو سفلی موجزن
سنگ ہم باآں زمیں گیری سراپا آتش است
یعنی علوی جوہر، ہر سفلی جز میں کارفرما ہے،مادے کا آخری ذرہ تک تڑپتا ہے،اور توانائی سے لبریزہے۔پتھر کی رگوں میں آگ ہے، گو زمین پر پڑاہے، پر سراپا آتش ہے۔ جدید شاعر ی نے نظام ِ مراتب کی نفی شدت سے کی ہے، اس کے اوّلین نقوش بیدل کے یہاں ملتے ہیں۔ جدید حسیت ہی نے علوی وسفلی ،کبیر وصغیر، آفاقیت ومقامیت، مذہب ودنیویت، شعور ولاشعور، عقل وخواب ،اشرافیہ وسبلٹرن جیسے ثنوی جوڑوں او ر ان سے ترتیب پانے والے نظامِ مراتب پر تشکیک کا اظہار کیا۔مابعد جدیدیت نے اسے باقاعدہ تھیوری کی شکل دی۔
بیدل نے اگرزندگی کے اندرونی تضادات کا اظہار کیا تو غالب تک پہنچتے پہنچتے ان تضادات کے سلسلے میں طنز و الم کے احساسات شامل ہوجاتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بیدل کے لیے نایافتن کوئی مابعدالطبیعیاتی تصور نہیں، بلکہ انسانی حقیقت (جسے آرٹ گرفت میں لینے کی سعی کرتا ہے)کا ناگزیر حصہ ہے۔غالباً بیدل کی فکر پر بودھی فلسفے کے جس پہلو کا اثرہوا ہے ، وہ سب کچھ براہ راست ،خود جاننے ،اوراپنی دنیا آپ پیدا کرنے سے عبارت ہے۔
بھکشو،سب ناپائیدار ہے۔۔۔سب دکھ ہے۔۔۔سب غیر ذات ہے۔۔۔۔سب کو براہ راست جاننے کی ضرورت ہے۔۔۔سب کو مکمل طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔سب کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔سب کو اچھی طرح معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔سب کو براہ راست علم سے اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۱۳۔
’سب کو براہ راست اور اچھی طرح سمجھنا ‘ اپنی نجات کی دنیا خود پیدا کرنا ہے ۔بودھی فلسفے میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی نجات کا سفر اکیلے اور خود پر بھروسا کرتے ہوئے طے کرنا ہے۔اس کی مدد کے لیے دیوتا نہیں آئیں گے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے لکھا ہے:
گوتم کو یقین تھا کہ اسے جس آزادی کی جستجو ہے ، اسے وہ اسی ناقص دنیا کے بیچ حاصل کرسکتاہے۔ دیوتائوں سے کسی پیغام کا انتظار کرنے کے بجائے ،وہ خود اپنے اندر جواب تلاش کرے گا، اپنے ذہن کی بعید ترین حدیں کھوجے گا، اور اپنے تمام طبعی وسائل بروے کار لائے گا۱۴۔
اصل یہ ہے کہ بودھی فلسفہ ،نروان کو انسانی سعی کا ثمر مانتاہے ،اور اسے کسی مابعد الطبیعیاتی دھند میں ملفوف نہیں کرتا۔یہ فلسفہ حقیقت کو خود سمجھنے، براہ راست سمجھنے، مکمل طور پر سمجھنے، اور ترک کرنے، ترک کرنے کی خواہش سے آزاد ہونے میں یقین رکھتا ہے۔ دیوتائوں پر انحصار سے آزادی ،اور اپنے ذہن کی بعید ترین حدوں کو کھوجنے پر آمادگی ، جدید آدمی سے مخصوص ہے۔ لہٰذاگوتم کو پہلا جدید آدمی کہنے میں ہم حق بجانب ہیں۔تاہم گوتم کی جدیدیت کو ہم مغربی جدیدیت کا نقش اوّل کہنے کی جسارت نہیں کریں گے۔ ہمارا مقصودگوتم اور ان کے بعد بیدل اور پھر غالب کوجدید قرار دے کر مغرب کے جدید شعرا پر سبقت دلانا بھی نہیں۔ ہمارا مئوقف صرف یہ ہے کہ ’جدیدیت او ر مغرب‘ نہ تو لازم وملزوم ہیں، اور نہ مغربی جدیدیت ہی جدیدیت کا واحد و مستند متن ہے۔ جدیدیت ایک نہیں، کئی جدیدیتیں ہیں؛دنیا میں مغربی جدیدیت کے متبادل اور جوابی بیانیے موجود ہیں،جنھیں مرتب کرنے کی کوششوں کا ابھی آغاز ہوا ہے۔مبادا غلط فہمی پیدا ہو، یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ مغربی جدیدیت کا متبادل بیانیہ ،جدیدیت مخالف بیانیہ نہیں؛دونوں میں تضاد نہیں، صرف فرق ہے ۔مثلاً سب جدیدیتوں میں ایک بات مشترک ہے: اپنی دنیا خود اپنے انسانی ،طبعی وسائل سے پیدا کرنا، اور لمحہ موجود میں پیدا کرنا۔گوتم سب غیر ذات کو دکھ کا باعث قرار دے کر ترک کرنے پر زور دیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں نروان پانے کی نوید دیتے ہیں، وہ اپنی دنیا خود، اپنے طبعی ،بشری وسائل کی مدد سے پیدا کرنے سے عبارت ہے۔
بیدل ،گوتم کی طرح ،جستجو اسی ناقص دنیا میں کرتے ہیں، اور طبعی انسانی وسائل بروے کار لاتے ہوئے ،سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں،مگر اپنے سوالوں کا دائرہ نروان تک محدود نہیں کرتے۔البتہ بیدل کے نایافتن اور گوتم کے نروان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی یافت کی مسلسل سعی درکار ہے۔ اگر بیدل نروان تک محدود رہتے تو شاعری کو بھی ترک کرتے۔ گوتم نے خواہش کو دکھ کا سبب بتایا اور خواہش کو ترک کرنے پر اس قدر زور دیا کہ ترک کی خواہش کو بھی ترک کرنے کا کہا، یعنی ایک مکمل نفی کی حالت کی تخلیق کی جائے، مگرخواہش اظہار رکھنے والے شاعر کے لیے یہ ممکن نہیں۔ تاہم جہاں تک اپنے اندر کی لازوال جستجو کا تعلق ہے ،تو وہ بیدل کے یہاں موجود ہے۔
بیدل سبک ہندی کے شاعر تھے،مگر ان کے اثرات اردو شعرا نے قبول کیے۔ واضح مثالیں تو غالب اور اقبال کی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ کلاسیکی شعرا جیسے اثر،فغاں، مزرا مظہر اور میر درد کے یہاں بھی اثرات مل سکتے ہیں۔ بیدل کے اثرات کے ضمن میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے:
بیدل کے اثر کی دو صورتیں ہیں۔ایک’’ طرزِ بیدل‘‘،جو نئی تراکیب ،خوبصورت بندشوں، لطیف استعاروں اور نادر تشبہیات کا مرکب ہے، اور دوسرے ’’فکر بیدل‘‘ جس میں خیالات کو باطنی اورواردات ِ قلبی نے آئنہ دکھایاہے۱۵۔
جالبی صاحب نے درست لکھا ہے کہ بیدل کے طرز اور فکر دونوں کا اثر ہوا،مگرطرز اور فکر کی وضاحت بہت سرسری کی ہے۔ بیدل کا طرز محض نئی تراکیب اور لطیف استعاروں سے ترتیب نہیں پاتا،اور نہ بیدل کی فکر محض باطنی تجربے سے عبارت ہے۔ بیدل کا اسلوب ایک نئی شعری زبان وضع کرنے کی سعی سے مرتب ہوا ہے،اور اس سعی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بیدل ’ بشر مرکز جدید فکر ‘کے حامل ہیں۔واضح رہے کہ نئی شعری زبان،ایک نئی زبان نہیں ہوتی بلکہ مروجہ ،روزمرہ کی زبان کی بدلی ہوئی ،اور خاصی حدتک اجنبی شکل ہوتی ہے؛اس میں زبان کی ابلاغ کی صلاحیت کو ممکنہ حد تک بروے کار لانے کی سعی کی جاتی ہے،یہاں تک کہ اس کی روزمرہ کی بافت کو جگہ جگہ سے پچکانے میں بھی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ بیدل کا طرز اورفکر ایک دوسرے سے مشروط اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بیدل کا طرز اپنی اصل میں ناقابل تقلید ہے ۔یوں بھی بیدل کی تقلید ، بیدل کے مسلک کے خلاف ہے ۔بایں ہمہ جس بشر مرکز فکر کو بیدل نے سبک ہند ی میں پیش کیا، وہ ایک دھارا بن کر غالب و اقبال سے ہوتی ہوئی ،جدید نظم کے شعرا تک پہنچی ہے۔ اگر ہم میثل فوکو سے مستعار لیتے ہوئے جدیدیت کو ایک رویہ (attitude)کہیںتو یہ رویہ معاصر اردو نظم کے اہم شاعر افضال احمد سید تک پہنچتا ہے، لیکن درمیان میں مغربی جدیدیت بھی پوری قوت سے آئی ،جس پر ہم نے اپنی معروضات ایک دوسرے مقالے میں پیش کی ہیں۔
اردو شاعری میں غالب کا بیدل سے تعلق تقریباً وہی ہے ،جو گوتم اور آنند کا تھا۔آنند کو گوتم کے جیتے جی نروان نہیں ملا تھا ،کیوں کہ وہ گوتم سے غیر معمولی عقیدت رکھتا تھا، اور یہ عقیدت نروان میں حائل ہوگئی تھی؛نروان کسی کو دیوتا بنائے بغیر خود اپنی سعی سے ملتا ہے، اور آنند کی عقیدت نے گوتم کو دیوتا کا درجہ دے رکھا تھا ۔ غالب نے ابتدا میںآنند ہی کی مانندبیدل کو ’صحراے سخن ‘ میں خضر مانا۔غالب نے بار بار بیدل کے طرز،نغمے اور رنگ کا ذکر کیا ہے ،جیسے:
طرز بیدل میں ریختہ لکھنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
اسد ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا
آہنگ اسد میں نہیں جز نغمہ ئ بیدل
عالم ہمہ افسانہ مادارد وماہیچ
مجھے راہ سخن میں خوف گمراہی نہیں غالب
عصاے خضر صحراے سخن ہے خامہ بیدل کا
یہ اشعار بیدل سے غالب کی عقیدت کے غماز ضرور ہیں، خود غالب کے اندازبیاں کے نہیں۔بیدل سے غالب نے جو بات سیکھی ،وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے سے عبارت تھی، یعنی کسی دیوتا، کسی خضر کے بغیر سخن کی ناآفریدہ دنیا میں سفر کرنا۔ بیدل کے بعد غالب پہلے شاعر ہیں ،جن کے یہاں ’بشر مرکز جدید فکر‘ ظاہر ہوئی،مگر وہ بیدل کی فکر کا مثنیٰ نہیں۔یہ فکر خود غالب کی ہے، اس پر غالب کی انگلیوں کے وہ نشان ہیں، جو صرف انھی سے مخصوص ہیں۔یہاں ہم غالب کے چند فارسی اشعار درج کرنا چاہتے ہیں ،جن میں غالب کی جدید فکر ظاہر ہوئی ہے۔
خوشا رندی وجوش زندہ رود و مشرب عذبش
بر لب خشکی چہ میری در سرابستان مذہب ہا
[مے خواری اور موجزن زندہ رود کے طور طریقے کتنے اچھے ہیں۔تو مذہب کی ان راہوں میں کیوں پیاساجان دے رہا ہے،جو سرابوں کی طرح ہیں]
جز سخن کفرے و ایمانے کجا است
خود سخن از کفر و ایماں می رود
[کفر وایمان ،باتوں کے سوا کہاں موجود ہیں، اور کفروایماں سخن ہی سے نکلے ہیں]
کفر ودیں چیست جز آلائش پنداروجود
پاک شو پاک کہ ہم کفر تو دین تو شود
[کفر ودین ،پندار وجود کی آلائش کے سوا کیاہیں؟ اس آلائش سے پاک ہوجا تاکہ تیرا کفر بھی ایمان بن جائے]
خوش بود فارغ ز بند کفر وایماں زیستن
حیف کافر مردن و آوخ مسلماں زیستن
[کفر وایماں کی بندش سے آزاد ہوکر جینا کس قدر لطف انگیز ہے۔ کافر ہو کر مرنے اور مسلماں ہوکر جینے دونوں پر افسوس]
عیش و غم در دل نمی استد ،خوشا آزادگی
بادہ وخوننابہ یکساں است در غربال ما
[کیسی اچھی بات ہے کہ خوشی اور غم دونوں میرے دل میں نہیں ٹھہرتے۔میری چھلنی میں شراب اور خون یکساں طور پر بہ جاتے ہیں]
یہ اشعار ’بشر مرکز جدید فکر ‘ کے حامل ہیں۔ غالب کی ’بشر مرکز جدیدفکر ‘اپنے اظہار کے لیے جابجا مذہب سے جدلیاتی رشتہ قائم کرتی ہے۔ایک حد تک اس کا پس منظر فارسی شاعری کی وہ روایت ہے جو مذہبی رسمیات اور اس کے علم برداروںکے سلسلے میں شوخی کا مظاہرہ کرتی ہے،مگر بڑی حد تک اس فکر کا پس منظر یہ ہے کہ انسانی ہستی کے معنی کی تخلیق ،مرہون ہے بشر ی ،طبعی وسائل کی،اور اسی دنیا کی۔غالب اس دنیاسے ماورا دنیا کو سراب کہتے ہیں،جس کی طر ف اہل مذہب متوجہ رہتے ہیں؛وہ زمین پر موجود زندہ رود کو آسمانی جنت پر ترجیح دیتے ہیں۔نیز وہ کفر ودین، دونوں کو سخن کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ہوسکتا ہے ،بعض لوگ سخن سے مراد محض بات لیں،مگر حقیقت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کفر اور دین سخن کے اندر ، سخن کی وجہ سے ،اور سخن کے ذریعے قائم رہتے ہیں۔ دین اپنے سخن کو اس کی بنیادی شکل میں ابدتک قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے غالب کا اہم ترین انکشاف سمجھا جاسکتا ہے۔ دین کی اصل عقیدے میں ہے ،اور عقیدہ ایک مخصوص لسانی رجسٹر میں وجود رکھتا ہے؛دین کے معانی اس لسانی رجسٹر کو ملحوظ رکھے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتے ۔دین کی تشریح جب اس لسانی رجسٹر سے ہٹ کر کی جاتی ہے تو وہ پریشان کن ہوتی ہے ۔ غالب کے بعد وٹگنسٹائن نے اس مفہوم کو مزید وضاحت سے پیش کیا۔غالب کی یہ فکری جسارت معمولی نہیں کہ وہ دین کے ساتھ کفر کو بھی سخن کی پیداورا سمجھتے ہیں۔گویا کفر کا بھی ایک مخصوص لسانی رجسٹر ہے۔ چوں کہ دونوں زبان کے اندر اور زبان کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں ،اس لیے دونوں میں جنگیں بھی اصل میں لسانی جنگیں ہوتی ہیں،جنھیں تکبر کی آلائش خوں ریز ی میں بدل دیتی ہے۔غالب کے پیش نظر انسان کی ’آزادی ‘ کا سوال ہے ،اس آزادی کاسوال جس کے بغیر انسان اپنی ہستی کے معنی تک پوری طرح اور براہ راست نہیں پہنچ سکتا۔جدیدیت کا ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اِس دنیا کے معنی کو طے کرنے کا اختیار کسی ایسے مقتدرہ کو ہے ،جو اِس دنیا کا باقاعدہ حصہ نہیں؟نچلی ،زیریں دنیا کی روح تک رسائی جس بالائی دنیاکو نہ ہو، وہ نچلی دنیا کے معاملات میں دخیل ہونے کا اختیاررکھتی ہے؟’مَیں‘ کے اسرارکا عرفان ’وہ‘ کس قدر حاصل کرسکتا ہے؟ یہ سوالات غالب کے یہاں کئی طرح کے شوخ پیرایوں میں ظاہر ہوئے ہیں ۔یہ چند اردو اشعار ملاحظہ کیجیے:
مٹتاہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی
عمر عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو
ہوںمنحرف نہ کیوں رہ ورسم ثواب سے ؟
ٹیڑھا لگا ہے قط ،قلم سرنوشت کو
ہنگامہ زبونی ہمت ہے ، انفعال
حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے
نشہ باندازہ خمار نہیں ہے
سلیم احمد نے غالب کو اردو میں’’جدیدیت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا شاعر ‘‘قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق غالب سے پہلے جو کچھ ہے ،روایتی معاشرے کی شاعری ہے۔غالب کی جدیدیت کی وضاحت میں سلیم احمد نے لکھا ہے کہ ’’مذہب، عقیدہ، احکام ،اخلاق،معیارات سب کے سب اس بت شکن کی سبک دستی کے بہانے ہیں،اور وہ ان چیزوں کو کسی خارجی کسوٹی پر ردّ نہیں کرتا ،بلکہ صرف اپنی ذات کے پیمانے پر۔۔۔[غالب کا ]گلشن ناآفریدہ کیا ہے؟ ایک بے حد جدید دنیا ہے ،جس میں حق و باطل کا تعین مافوق الفطرت عقیدوں کی بنا پر نہیں ہوتا۔۔۔۔یہ دنیا ایک حد درجہ آزاد فرد کی دنیا ہے جس کا خالق ، حاکم اور قانون وہ آپ ہے،اور یہ فرد انتہا کا انفرادیت پسند ہے‘‘۱۶۔انھوں نے غالب کی جدیدیت کی بجا طور پر نشان دہی کی ہے۔بلاشبہ غالب مذہب ، عقیدہ، احکام، اخلاق ،معیارات سب کو توڑتا محسوس ہوتا ہے ،اور اپنی ذات کو پیمانہ بناتا ہے۔ تاہم دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ آخر ایک روایتی معاشرے کاپروردہ شخص ’حددرجہ آزاد فرد‘ کیسے بن گیا ؟ روایتی معاشرہ اخلاق ومعیارات کا تعین مافوق الفطرت عقیدوں کے تحت کرتا ہے ،جب کہ ’جدید ،آزاد فرد‘ روایت اور مافوق الفطری تصورات پر سوالیہ نشان لگاتاہے۔سوال قائم کرنے کے لیے ہمہ گیر علم اوراس سے پیدا ہونے والی بے اطمینانی ،نیز جرأت درکار ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ جدیدیت ایک رویے کے طور پر روایت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس معاشرے میں جدیدیت پیدا نہیں ہوسکتی ،جس میں روایت موجود نہ ہو۔جدیدیت اگر انحراف وانقطاع ہے تو اسے ایک ایسا مقام درکار ہے ،جس سے اور جہاں سے وہ انحراف کرسکے ۔اصل یہ ہے کہ ’جدید، آزاد فرد‘ روایتی معاشرے کے اندر موجود کسی رخنے ،کسی خلا، کسی تناقض کو دریافت کرتا ہے ۔ غالب نے روایتی ہند مسلم معاشرے میں رخنے دیکھے تھے،جس طرح ان سے پہلے بیدل نے دیکھے تھے۔
(جدید شاعری پراپنی زیر تصنیف کتاب کے باب کا ایک حصہ)
حوالہ جات
۱۔ نیاز فتح پوری،بحوالہ بہار ایجادی بیدل از سید نعیم حامد علی الحامد،بابر علی فائونڈیشن،لاہور،۲۰۰۸ئ، ص ۴۵۴
۲۔ محمد حسین آزاد،’’مرزا بیدل ‘‘ مشمولہ ،قلزم فیض مرزا بیدل ،مرتب شوکت محمود، ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور،۲۰۱۲،ص ۲۶
۳۔ عبدالغنی ،’’مرزا عبد القادر بیدل‘‘ مشمولہ قلزم فیض مرزا بیدل ،محولا بالا،ص ۸۴
۴۔ نبی ہادی، میرزابیدل ،شعبہ فارسی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،ص۴۹۔۵۰
۵۔ خواجہ عباداللہ اختر، بیدل، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۲۰۰۹(۱۹۵۲)ص ۱۰۲
۶۔ نبی ہادی ،میرزا بیدل ،محولا بالا،ص ۹۵
۷۔ خواجہ عباد اللہ اختر، بیدل، محولا بالا،ص ۶۸
۸۔ ایضاً، ص ۱۵۹۔۱۶۰
۹۔ نبی ہادی،میرزا بیدل ، محولابالا، ص ۱۸۔۱۹
۱۰۔ پیٹر اوئی ہوئینڈال ، Adorno:The Discourse of Philosophy and Problem of Language،مشمولہ The Actuality of Adorno: Critical Essays on Adorno and the Postmodern، (مرتب،میکس پینسکی )سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک ،البانے ،۱۹۹۷،ص ۷۷
۱۱۔ نبی ہادی،میرزا بیدل، محولا بالا،ص۹۶
۱۲۔ مجنوں گورکھ پوری ،’’پردیسی کے خطوط (بیدل کے سلسلے میں)‘‘،مشمولہ قلزم فیض بیدل ،محولا بالا،ص ۱۲۷، ۱۳۸
۱۳۔ بھکشو بودھی،The Book of the Six Sense Bases،جلد چہارم ،وزڈم پبلی کیشنز، امریکا ، ۲۰۰۰،ص ۱۱۴۷
۱۴۔ کیرن آرمسٹرانگ،Buddha،فینکس، لندن، ۲۰۰۰،ص۶
۱۵۔ جمیل جالبی ، ’’میرزا عبد القادر بیدل ‘‘،مشمولہ قلزم فیض بیدل، محولا بالا،ص ۸۶
۱۶۔ سلیم احمد ،مضامین ِ سلیم احمد، (مرتبہ جمال پانی پتی)، اکادمی بازیافت،
کراچی،۲۰۰۹،ص ۲۹۲۔۲۹۳
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ہمیشہ کی طرح شاندار ،غالب اور بیدل کی شخصیت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا