میر تقی میر ایک ایساجادوئی فنکار ہے جو ایک بار کسی پر اپنا سحرکر دے تو وہ عمر بھر اس کا اسیر رہتا ہے۔ میر کی شخصیت اورشاعری کمال اور کرامت رکھتی ہے، وہ ہر عہد اور ہر نسل کے شاعر ہیں۔ جیسے جیسےوقت گزرتا جاتا ہے میر کی عظمت بڑھتی جاتی ہے اور لوگوں کا ان پر اعتقاد بھی مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ناقدین کے ساتھ مختلف شعرانے بھی اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ اشعار پیش کئے جا ر ہے ہیں۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
غالب اپنا تو یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں
غالب
شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
راسخ عظیم آبادی
میر کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا
داغ
سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح
سودا
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرت سخن میر ابھی تک
حسرت موہانی
اب خدا مغفرت کرے اس کی
میر مرحوم تھا عجب کوئی
گو کہ تو میر سے ہوا بہتر
مصحفی پھر بھی میر میر ہی ہے
غلام ہمدانی مصحفی
شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں
امام بخش ناسخ
ان اشعار کی روشنی میں اگر عظمت میرکو دکھانے کی کوشش کی جائے یا یہ دعویٰ کیا جائے کہ میر بہت بڑے شاعر ہیں تو میرے خیال میں یہ میر کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ کچھ اشعار بظاہر میر کی تعریف میں ضرور ہیں مگر کیا ان میں صرف میر کی عظمت کا اعتراف ہے؟ بہت سے مضمون نویسوں نے اپنے مضمون میں انہیں اشعار کی بنیاد پر میر کی عظمت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور سے غالب کے دو شعر کو دلیل کے طور پر بہت زیادہ کوٹ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہےکہ غالب جیسے بڑے شاعر نے بھی میر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اشعار کہیں ہیں۔ حالا نکہ بغور دیکھا جائے تو غالب کا ایک شعر میر کی عظمت کو کم اپنی عظمت کو زیادہ نمایاں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں جسے میں تعلی کا شعر سمجھتا ہوں۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اس شعر میں تین الفاظ پر غور کیا جانا چاہیے ایک "ہو” دوسرا”کوئی” اور تیسرا "تھا”۔ لفظ "ہو” سے حال یعنی موجود کی طرف اشارہ ہے، لفظ”کوئی” ایک عام سی پہچان ظاہر کر رہا ہے اور لفظ "تھا” سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے کسی وجود کا رشتہ حال سے الگ کر دیا گیا ہے۔ غالب اپنے اس شعر میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب تم ہی تم ہو غالب صاحب یعنی غالب اپنی تعریف کر رہے ہیں کہ کوئی میر رہا ہوگا استاد کسی عہد میں ،حال میں تو تم ہی ہو۔ اسی طرح دوسرے شعر میں "غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ ،آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں ” میں بھی "بقول ناسخ” عقیدہ پیدا ہوا ہے (نسخہ حمیدیہ میں اولی مصرع کچھ یوں درج ہے: ریختے کا وہ ظہوری ہے بقول ناسخ) یہاں بھی غالب بلا واسطہ طور پر معتقد ہیں۔
اسی طرح مصحفی کے اشعار پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہاں بھی تعلی کا معاملہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ شعر دیکھیں:
گو کہ تو میر سے ہوا بہتر
مصحفی پھر بھی میر میر ہی ہے
مطلب یہ ہواکہ آپ میر سےبہتر شاعر ہیں مگر میر کو بھی اچھا شاعر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ میری ان باتوں کا مدعا یہ ہے کہ اب تک میر کی عظمت کے اظہار کے لیےمذکورہ اشعار کا سہارا لیا گیا ہے۔ مگر فی زمانہ مجھے لگتا ہے کہ اب میر کی شاعری اور ان کی ذات ان حصار سے باہر نکل چکی ہے اور اس کا اعتراف بھی اس سے بہتر طور پر کیا جا چکا ہے۔اب اس کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میر زمان و مکان سے بالا تر ہو کر آفاقیت کے درجہ کو پہنچ چکے ہیں اور دنیائے ادب ان کی عظمت کو بھی تسلیم کر چکی ہے۔ ایسے میں ایک ہی بات کو بار بار کہنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔اگر آج بھی انہیں اشعار کا سہارا لیکر میر کی شاعرانہ عظمت کو بیان کیا جا رہا ہے تو میری نظر میں یہ سہل پسندی اور کہولت کا دوسرا نام ہے۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ کوئی شاعر عظیم اور آفاقی کب ہوتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کی شاعری کا Meta Theme کیا ہے۔ وہ جس عہد میں شاعری کر رہا ہے اس عہد میں اس کی شاعری کتنی relativity رکھتی ہے اور بعد کے دور میں وہ کتنی Relevant رہتی ہے۔ اس کے اشعار سے اس کا مشاہدہ جھلک رہا ہے یا تجربہ۔ اس کی شاعری میں اس کی حسیت کار فرما ہے یا احساس و جذبات ۔ یہ تمام بنیادی چیزیں ہیں جو کسی شاعر کی شاعرانہ اختصاص اور اس کی عظمت کو بیان کرنے اور پرکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن ایک بڑا شاعر اپنی شاعری میں مختلف الجہات پہلو رکھتا ہے اور اسی پہلو کی تلاش ایک اچھے مضمون اور مضمون نویس کا شیوا ہونا چاہیے۔ فلاں فلاں شاعر کے شعر کی بنیاد پر کسی شاعر کو عظیم اور ممتاز قرار دینا اپنی کم علمی کا ثبوت دینا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page