اُردو ادب میں تحقیق کے ابتدائی نقوش کے لیے ہم تذکروں کی طرف دیکھتے ہیں۔تذکرے فارسی اور اردو دونوں زبان میں ملتے ہیں جن میں اردو شاعروں اور ادیبوں کا ذکر ہے ۔تذکرہ نویسوں نے اپنے عہد کے معتبر ، معروف اور غیر معروف شعرا وادباکا تذکرہ کیا ہے ۔ان میں ان کی ذاتی پسند وناپسند سب شامل ہے ۔تحقیق کی میزان پر تذکروں کو پرکھنے کے بعد جو کچھ حاصل جمع بچتا ہے غالباً اسی کو تحقیق کہا جائے گا ۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو شاعروں کا ایک بڑا حوالہ یہی تذکرہ ہیں ۔میرؔ اور اس سے پہلے کے عام ادبی ماحول کا اندازہ تذکروں سے ہی ہوتا ہے۔انھیں کو چھان پھٹک کر ہم تحقیق کی طرف آتے ہیں ۔
تحقیق دیدہ ریزی اور جاں فشانی کانام ہے جب کہ تذکرہ نگار ذاتی پسند و ناپسند اور مبالغہ آرائی کو زیادہ بروئے کار لاتا ہے ۔در اصل تحقیق باز یافت کا نام ہے۔سچ اور حق کو بلا کم و کاست پیش کرنے کا عمل تحقیق کہلاتاہے ۔
اُردو میں تحقیق کے اولین نقوش قائم کرنے والوں میں سر سید احمد خاں،علامہ شبلی نعمانی،مولانا الطاف حسین حالی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس بعد کارواں تحقیق میں حافظ محمود خاں شیرانی،قاضی عبدالودود ،امتیاز علی خاں عرشی،عبدالستار صدیقی، مولوی عبدالحق،مالک رام،نذیر احمد ،رشید حسن خاں،مشفق خواجہ،معین الدین عقیل،خلیق انجم، گیان چند جین،تنویر احمد علوی، جمیل جالبی،مشفق خواجہ،سلیم اختر،حنیف نقوی ،شمس الرحمن فاروقی ،گوپی چند نارنگ، ظفر احمد صدیقی،ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی وغیرہ کے نام شامل ہوتے چلے گئے ۔
اُردو تحقیق نے بیسویں صدی کو جہاں متاثرکیا وہیں اکیسویں صدی کے آغاز میں میں بھی زیادہ تر انھیں محققین کے کارناموں کی دھوم رہی جو گذشتہ صدی میں تحقیقی کارنامے انجام دے رہے تھے۔جامعاتی سطح پر بھی تحقیق کو فروغ ملا ۔اور کچھ نہایت اہم اور کارآمد تحقیقی مقالے یہاں لکھے گئے ۔علوم کی ترقی کے ساتھ ہی سائنٹفک اندازِ تحقیق کو بھی طلبہ کے سامنے پیش کیا گیا۔اور اس طرح رفتہ رفتہ تحقیق اساتذہ اور طلبہ کے لیے لازم وملزوم بن گئی۔کلاسیکی ادبیات کے ساتھ ساتھ ادبی افکار ونظریات اور ادب سے متعلق بعض دوسرے مباحث مثلاً علاقائی ادبی روایت ،زبانی بیانیہ نیز صحافت وغیرہ پر بھی تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ اور اس طرح تحقیقی سرمائے میں نہ صرف خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ اس کے دائرہ ٔکار کو بھی وسعت ملی ۔
اُردو اداروں کے ذکر کے بغیر اُردو تحقیق کا باب مکمل نہیں ہوسکتا ۔ان اداروں نے اُردو تحقیق کے فروغ اور ارتقا میں کلیدی کرادر ادا کیا۔ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ،شبلی کے تحقیقی مزاج کی آئینہ دار ہے ۔گذشتہ ایک صدی کے دوران ادب ،مذہب اور تاریخ کے باب میں اُردو زبان میں اس ادارے نے جو کتابیں شائع کی ہیں اس نے اُردو اور ہندستان دونوں کے تحقیقی اور علمی وقار کو بلند کیا ہے ۔اُردو میں تحقیق کی جو روایت رہی ہے اس میں دارالمصنفین اور شبلی اکیڈمی کے ذکر کے بغیر کوئی بات مکمل نہیں ہو سکتی ۔رسالہ معارف نے ادبی رسائل کے تحقیقی منہج کو فروغ دیا ۔انجمن ترقی اُردو(ہند)نئی دہلی نے بھی اُردو تحقیق کی روایت کو مستحکم کیا ہے۔ہفت روزہ ہماری زبان اور سہ ماہی اُردو ادب اس ادارے کے آفتاب و مہتاب ہیں۔جب تک خلیق انجم اس ادارے سے وابستہ رہے یہاں تحقیقی کتابیں خوب شائع ہوئیں۔ اس ادارے کی شاندار روایت کو اب ڈاکٹر اطہر فاروقی آگے بڑھارہے ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ نے نصف صدی کے دوران غالبیات کے حوالے سے جو تحقیقی کام کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔رشید حسن خاں اور پروفیسر نذیر احمد جیسے محققین کی اس ادارے سے نسبت ہی ادارے کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ۔غالب ،متعلقات غالب اورعہد غالب کے مطالعہ کے لیے اس ادارے کی مطبوعات بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہیں ۔غالب نامہ نے غالب تحقیق کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو مطالعۂ غالب کی نئی راہ دکھائی ہے ۔حالیہ دنوں میں شارحین غالب سیریز کے تحت مونوگراف کی اشاعت غالب انسٹی ٹیوٹ کے نئے تحقیقی منہج کی غماز ہے ۔
قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان نے اُردو تحقیق کے وقار و افتخار میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔اس ادارے سے ہر سال بہت سی تحقیقی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔تحقیقی پروجیکٹ اور مالی امداد کی شکل میں بھی اس ادارے نے ادب و تحقیق کے میدان میں کام کرنے والوں کو سہولت فراہم کی ہے ۔اُردو دنیا،خواتین کی دنیا،بچوں کی دنیا اور فکر و تحقیق اس ادارے سے نکلنے والے رسالے ہیں جن میں ادب ،ثقافت،تاریخ ،تحقیق اور تنقید سے متعلق مضمون شائع ہوتے ہیں۔ہندستان کی مختلف اُردو اکیڈمیاں بھی تحقیقی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
موجودہ دور میں تحقیق کے رموز و نکات کے تعلق سے بہت سی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں۔شاعری ،نثر،فکشن ،نان فکشن ،صحافت وغیرہ کے حوالے سے اکیسویں صدی کے آغازکی دو دہائیوں میں بہت سے تحقیقی کام ہوئے۔اس دوران نئے محققین نے اُردو تحقیق کے فروغ میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ۔انھوں نے حقائق کی باز یافت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔اس دوران اگر تحقیقی معیار کی بات کی جائے تو اس تعلق سے بھی نئے لوگوں نے ہمیں مایوس نہیں کیا بل کہ میری نظر میں تحقیق کے اس کارواں میں نئے لوگوں نے پرانے لوگوں کی رہنمائی میں کام سلیقے کے ساتھ کیا۔دوسرے لفظوں میں اُردو کی نئی نسل نے بزرگ محققین کی پیروی کرتے ہوئے ادبی تحقیق کے کارواں کو آگے بڑھایا۔فی الوقت تکنیک کے استعمال نے تحقیق کے پُر خار راستوں کو آسان بنایا ہے،لیکن اس کے باوجود تحقیق کا راستہ خاردار ہی ہے۔تحقیق کے میدان میں صبر و تحمل سے جن لوگوں نے کام لیا ،کامیابی کا سہرا انھیں کے سر بندھا۔در اصل تحقیق صبر آزما کام ہے۔کاتا اور لے دوڑی والی کہاوت کے بر عکس گوہرِ نایاب حاصل کرنے کے لیے برسوںبرس انتظار کرنا پڑتا ہے۔ہمارے بزرگ محققین نے تحقیق کے اصول و ضوابط کی ہمیشہ پاسداری کی۔اس لیے انھوں نے محققین کے لیے کچھ اصول و ضوابط کے ساتھ اوصافِ حمیدہ کا تعین کیا ۔
2000سے2020کا عرصہ یعنی بیس سال ،تحقیق کے لیے کوئی بڑا عرصہ نہیں ہے جب کہ کئی محققین ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اتنے وقت میں صرف ایک ہی کتاب لکھی یا اپنے کسی تحقیقی مقصد کے لیے اس سے بھی زیادہ عرصہ انتظار کیا ۔ بہرحال، نئی نسل نے اُردو زبان کی تشویش ناک صورت حال کے باوجو د ادبی تحقیق کو اپنا موضوع بنایا ۔یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ فی زمانہ اُردو زبان کا دائرہ کم ہوا ہے لیکن تحقیق کے موضوعات میں وسعت آئی ہے ۔یہاںاکیسویں صدی میں اُردو تحقیق کے تحت ،2000سے2020کے دوران میں شائع ہونے والی اہم تحقیقی کتابوں کاایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے ۔
ادبی تحقیق:
اکیسویں صدی میں کے آغاز کے بیس سالوں میں اس میدان میں سب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ادبی تحقیق کے بغیر ہما رامقصد ادھورا ہے۔ 2000کے بعد صف ِ اول کے محقق رشید حسن خاں کی کئی کتابیں منظر عام پر آئی جن میں، ’کلام جعفر زٹلی، مصطلحات ٹھگی،کلاسکی ادب کی فرہنگ قابلِ ذکر ہیں۔کلام جعفر زٹلی میں خاں صاحب نے تدوین کے اعلا نمونوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ثابت کیا کہ جعفر شمالی ہند کا پہلا شاعر ہے جس نے اپنے کلام میں احتجاج کو برتا۔ انھوں نے اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا کہ جعفر زٹلی نے ولیؔ دکنی سے قبل ہی اُردو میں شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ مصطلحات ٹھگی میں انھوں نے ٹھگوں کی اصطلاحی زبان کی گتھیوں کو آسان زبان اور دل چسپ انداز میں سلجھایاہے۔واضح رہے کہ اس کتاب کا انتساب ’ادبی ٹھگوں کے نام‘ ہے۔’’کلاسکی ادب کی فرہنگ ‘‘ میں رشید حسن خاں نے فسانۂ عجائب،باغ و بہار،مثنوی گلزارِ نسیم، مثنویاتِ شوق، مثنوی سحر البیان وغیرہ کے مشکل الفاظ کو قارئین کی آسانی کے لیے یکجا کیا ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم نے ’’سردار جعفری کے خطوط‘‘کو مرتب کیا ۔ان خطوط کو پڑھنے کے بعد ہمیں ترقی پسند تحریک سے وابستہ افراد کی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ معاصر سیاست کے رویوںکے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے۔بالخصوص اُردو رسم الخط کے تحفظ کے سلسلے میں ادیبوں کی بے قراری اور مرحوم وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کا اُردو کے تئیں تنگ نظریے کی تفصیل بھی انہی خطوط میں درج ہے ۔گیان چند جین نے ’’ایک بھاشا :دو لکھاوٹ دو ادب‘‘لکھ کر اُرود اور ہندی رسم الخط اوردونوں زبانوں کے ادب کے سلسلے میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا۔گیان چند جین نے اس کتاب میں ہندی اور اُردو کے قلم کاروں کے علاوہ اُردو کے وجود پر سوالیہ نشان قائم کیے۔اس کتاب کے جواب میں کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔یہاں تک کہ رسائل و جرائد میں بھی اس کتاب کی اہمیت پر مکالمے اور مضامین شائع ہوئے۔پروفیسر عبدالستار دلوی نے اس کے جواب میں ’’دو زبانیں دو ادب،[ہندی اور اُردو کے تناظر میں]‘‘کتاب رقم کی۔اس کتاب کو انھوں نے دس ابواب میں تقسیم کرتے ہوئے گیان چند جین کے اُٹھائے گئے سوالوں کے مفصل اور مدلل جواب تحریر کیے۔لیکن پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے ’’ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی‘‘سائنٹفک انداز میںتحریر کی۔اس کتاب میں مرزا خلیل احمد بیگ نے ایک بھاشا دو لکھاوٹ،دو ادب،اُردو زبان اور مسلمان اور اُردو ادب،ہندی امپیریلزم اور اُردو،فورٹ ولیم کالج اور اُردو ،ہندی،ہندوستانی،اُردو مخالف رجحانات و تحریکات وغیرہ پر تحقیقی بحث کی۔کتاب کے آخر میں انھوں نے ضمیمے کے طور پر پروفیسر گیان چند جین کے خطوط مرزا خلیل احمد بیگ کے نام شامل کیے۔شمس الرحمن فاروقی نے اس کتاب پر معرکہ کا تبصرہ لکھا۔ پروفیسرسید عقیل رضوی ،شمیم حنفی اور کمال احمدصدیقی وغیرہ نے گیان چند جین کی کتاب کے جواب میں تحقیقی مضامین سپردِ قلم کیے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے’’ تاریخ ادب اُردو‘‘ کی چار ضخیم جلدوں میں اُردو ادب کا احاطہ ابتدا تا2000تک کیا۔طلبہ و اساتذہ کے درمیان یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔پروفیسر حنیف نقوی نے اپنی کتاب’’تحقیق و تعارف‘‘میں 21تحقیقی مضامین شامل کیے ۔ان کی وفات کے بعد ’’تحقیق و تدوین مسائل اور مباحث‘‘منظرِ عام پر آئی،جس میں 16تحقیقی مضامین شامل ہیں۔موصوف کے ہر مضمون میں قارئین کوان کی دیدہ وری اور عرق ریزی کے دیدار ہوتے ہیں۔پروفیسر شمس الحق عثمانی نے ’’کلیاتِ سعادت حسن منٹو‘‘کودو جلدوں میں مرتب کیا۔ان جلدوں میں موصوف نے سعادت حسن منٹوکے افسانوں، ناولوں،ڈراموں،تراجم اورمضامین کو تحقیق کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے متن کی درستگی پر خاص توجہ دی ۔یہ کتاب’’ پورا منٹو ‘‘کے نام سے آکسفورڈ پریس کراچی نے بھی شائع کی ہے ۔یہ دونوں جلدیں منٹو شناسی کے باب میں حوالے کا درجہ رکھتی ہیں۔پروفیسر عبدالستار دلوی نے اپنی کتاب کوکن ،کوکنی اور اُردو ‘‘میں کوکن خطے کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے یہاں کے لوگوں کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا۔ڈاکٹر نسیم احمد نے کلام دردؔ کو’’دیوانِ دردؔ‘‘عنوان سے مرتب کیا۔دیوانِ دردؔ کے مقدمے میں ڈاکٹر نسیم احمد نے خواجہ میر دردؔ کی شاعری،تصوف،ادبی ماحول،زمانۂ کلام اور اُردو تذکروں میں میر دردؔ کی اہمیت پر توجہ مرکوز کی ہے۔اس کتاب کا دیباچہ رشید حسن خاں نے تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر صفدر رضا کھنڈوی نے اپنی کتاب ’’اُرود کی ترقی میں نِماڑ کا حصہ‘‘میں مدھیہ پردیش کے علاقے نماڑکی تاریخی ،سماجی و لسانی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔صفدر رضا کھنڈوی نے اس کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا۔ہر باب میں نماڑ کے ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ یہاں کے اُردو نواز لوگوں کا تذکرہ تحقیقی اندا ز میں پیش کیا ہے ۔علیم صبا نویدی نے اپنی ضخیم کتاب’’تمل ناڈو میں اُردو‘‘(دو جلدوں پر مشتمل)میں تمل ناڈو میں اُردو کے فروغ ،اشاعت و ترویج کے علاوہ وہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی خدمات کا احاطہ پیش کیا ہے۔علیم صبا نویدی کی یہ کتاب تمل ناڈو کے حوالے سے صحیح معنوں میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔
ڈاکٹر یونس غازی نے ’’انجمن ترقی اُردو (ہند)تاریخ اور خدمات (1974تک)‘‘،’’اُردو ادب کے فروغ میں ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد کاحصہ‘‘میں دونوں اداروں کی ادبی خدمات کا احاطہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ان دونوں تاریخی اداروں کا اب تک تحقیقی جائزہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔لیکن ڈاکٹر یونس غازی نے اپنے ذوقِ تحقیق کے دم پر ان اداروں کی خدمات کو صفحۂ قرطاس پر آویزاں کیا۔
ڈاکٹر الیاس الاعظمی کا نام شبلی شناسی کے باب میں احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔انھوں نے ’’مطالعات و مشاہدات‘‘،’متعلقات شبلی‘‘،’’شبلی شناسی کے سو سال‘‘،’’شبلی سخنوروں کی نظر میں‘‘،نوادراتِ شبلی ،شبلی خودنوشتوںمیں،آثارِ شبلی ،شبلی کی تعزیتی تحریریں،مکتوبات شبلی ،علامہ شبلی کے نام اہل علم کے خطوط وغیرہ کے توسط سے شبلی تحقیق کو آگے بڑھایا اور بتایا کہ تلاش و جستجو سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتاہے ۔شبلی سے متعلق نئی اور اہم تحقیقی معلومات قارئین تک پہنچانے کی کامیاب سعی کی ہے ۔ڈاکٹر ٹی۔آر۔رینا نے اپنی کتاب’’پنڈت میلارام وفا:حیات و خدمات‘‘میں میلا رام وفا کی اُردو صحافت اور ان کے ادبی،سیاسی و سماجی مقاصد کو قارئین کے سامنے رکھا۔علاوہ ازیں انھوں رشید حسن خاں کے خطوط کو تین ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے۔ساتھ ہی مقالاتِ رشید حسن خاں کو دو جلدوں میں اور رشید حسن خاں محقق و مدون کتاب بھی تخلیق کی ۔ان کا زیادہ تر ادبی سرمایہ رشید حسن خاں کی ذات و صفات اور ان کے تحقیقی کارناموں پر مبنی ہے۔
پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اپنی مرتب کردہ کتاب’’اکیسویں صدی میں اُردو‘‘میں اُردو زبان و ادب کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ عالمی اُردو کانفرنس میں اُردو زبان و ادب بالخصوص اکیسویں صدی میں اُردو کے مستقبل کے بارے میں اُردو دانشوروں نے اپنی قیمتی آرا مقالات کی شکل میں پیش کی تھیں ۔سید محمود حسن قیصر امروہوی نے ’’مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نادر مخطوطات‘‘میں مسلم یونی ورسٹی میں رکھے نادر و نایاب ذخائر کی اہمیت و افادیت پر تحقیقی روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے سر سید اور علی گڑھ کی اہمیت و معنویت کو نئے سرے سے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہوئے ’’عصرِ حاضر میں علی گڑھ تحریک کی اہمیت و معنویت‘‘کے نام سے کتاب تخلیق کی۔در اصل اس کتاب میں پروفیسر صغیر افراہیم کے وہ مضامین شامل ہیں جو انھوں نے سر سید اور علی گڑھ تحریک کے تعلق سے سپردِ قلم کیے تھے۔سرسید شناسی پر ہر سال یوں تو کئی کتابیں منظرِ عام پر آتی ہیں لیکن اس کتاب میں موصوف نے تحقیقی عناصر کو ملحوظ رکھا ہے۔ڈاکٹر انیس اشفاق نے ’’روحِ انیس‘‘کو از سرِ نو مرتب کیا۔اس کتاب میں مقدمہ کے علاوہ،واقعہ کربلا، مرثیہ،شخصی مرثیہ ،انیس کے مرثیے ،سلام اور رباعیوں پر تحقیقی نظر ڈالی گئی ہے۔نور میرٹھی نے اپنی تحقیقی کتابوں،’’تذکرۂ شعرا میرٹھ‘‘،’’مشاہیر میرٹھ‘‘، ’’شخصیات میرٹھ ‘‘میں میرٹھ کی ہر چھوٹی بڑی ادبی بات کو قلم بند کیا۔نور میرٹھی نے کراچی میں بیٹھ کر یہ تاریخی کتابیں رقم کیں ۔ان کتابوں میں ہمیں ان کے تحقیقی شعور کی پختگی اور شعور ِ تحقیق کے جا بجا دیدار ہوتے ہیں۔ڈاکٹر رفاقت علی شاہد نے اپنی کتاب’’تحقیق شناسی‘‘میں تحقیق کے رموز و نکات کی بحث کے علاوہ تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے والوں کے لیے مفید اور کار آمد مشورے بھی دیے۔اس کتاب کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
ڈاکٹر احمد محفوظ نے میرؔ کے حوالے سے خاطر خواہ تحقیقی کام کیا ہے۔ان کی مشہور کتاب ’’بیانِ میر‘‘ہے ۔یہ کتاب ہندوستان کے علاوہ پاکستان سے بھی شائع ہوئی ہے۔اس میں ڈاکٹر احمد محفوظ نے اپنے مضامین میں میر شناسی کے نئے زاویے تلاش کیے ہیں۔ڈاکٹر عمیر منظر نے ’’شبلی ،مکاتیب شبلی اور ندوۃ العلما‘‘میں شبلی کے ان خطوط کو ز مانی اعتبار سے جمع کیا ہے جو ندوۃ العلما سے متعلق ہیں۔1895سے1914کے دوران ان خطوط سے ندوۃ العلما کی پوری تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے اور یہ کہ اس زمانے میں ہمارے اکابرین کا تعلیم کے تئیں کیا نظریہ تھا اور شبلی کن خطوط پر ندوۃ العلما کو لے جانا چاہتے تھے ۔حواشی اور مکتوب الیہ کے تعارف نے کتاب کی تحقیقی حیثیت کو دو چند کردیا ہے ۔وقار صدیقی نے اپنی تحقیقی کتاب ’’رام پرشاد بسمل اور اشفاق اللہ خاں حسرتؔ‘‘میں ان دونوں انقلابی شخصیات کے کلام کو کافی تلاش و بسیار کے بعد ترتیب دیا ہے۔وقار صدیقی اکثر اپنی تحقیقات سے قارئین کو چونکاتے رہتے ہیں۔اس کتاب میں بھی موصوف نے ان دونوں سرفروش شاعروں کے کلام کو حوالے کی شکل میں پیش کیا ہے۔انھوں نے اپنی دوسری کتاب ’’کلامِ شاہ مبارک آبرواور گوالیاری(گوالیری)زبان و تہذیب ‘‘میں شاہ مبارک آبرو کے کلام پر گوالیری بولی کے اثرات کو قارئین کے سامنے تلاش و بسیار کے بعد پیش کیا ہے۔وقار صدیقی کے مطابق شاہ مبارک آبرو کا ابتدائی زمانہ گوالیر میں ہی گزرا تھا اس لیے ان کے کلام میں جا بجا گوالیری بولی کا اثر نمایاں ہے ۔سرسوتی سرن کیف نے ’’فرہنگ ادب اُردو ‘‘میں اس فرہنگ کے اندراجات کو بہ حساب حروف تہجی مختلف عنوانوں کے تحت مرتب کیا ہے اور اس میں علم بیان ،علم عروض ،علم قافیہ کی اصطلاحیں بھی ہیں اور تلمیحات بھی ،مشہور تصانیف،ادبی مراکز،اہم شعرا اور نثر نگاروں کا مختصر تعارف بھی ہے۔یہ فرہنگ طلبہ اور عام قارئین کے لیے یکساں طور پر کار آمد ہے۔
ڈاکٹر ظفر کمالی نے اپنی کتاب ’’تحقیقی تبصرے ‘‘میں اُن تبصرو ،تجزیوں اور مضامین کو شامل کیا جو ملک و بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے تھے۔ان کے تحقیقی تبصروں کو پڑھنے کے بعد ان کے اندر کی ادبی صلاحیتوں کو پرکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔انھوں نے ’بنام مجتبیٰ حسین ‘‘کتاب میں مجتبیٰ حسین کے نام مشاہیر کے خطوط کو بھی مرتب کیا ہے۔ابھی اس کی پہلی جلد منظرِ عام پر آئی ہے لیکن آیندہ ہم اس کی دوسری جلد کے دیدار کریں گے۔کوثر صدیقی نے اپنی کتاب’’مدھیہ پردیش میں اُردو شاعری کی قدامت‘‘میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دبستان دہلی اوردبستان لکھنؤ سے قبل اُردو شاعری کا محور و مرکز مدھیہ پردیش کے علاقے تھے۔پروفیسرآفاق حسین صدیقی نے اپنی کتاب ’’آزادی کے بعد مدھیہ پردیش میں اُردو تنقید و تحقیق‘‘میں 22مضامین کو شامل کیا۔ان مضامین میں اہل قلم حضرات نے آزادی کے بعد مدھیہ پردیش میں اُردوتحقیق و تنقید کی صورت حال اور سمت و رفتار پر اپنی بے باک راے کا اظہار کیا ہے۔کوثر صدیقی اور مختار شمیم کی مرتبہ کتاب’’صاحبِ فکر و نظر ڈاکٹر ابو محمد سحر‘‘ایک دستاویزی کتاب ہے۔اس کتاب میں ابو محمد سحر کی شخصیت ،فن اور ان کے ادبی کارناموں پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔سیفی سرونجی نے اپنی کتاب ’’اُردو نظم کا ارتقائی سفر ‘‘میں مدھیہ پردیش، مہارشٹر، کشمیر، راجستھان، اتر پردیش، مغربی بنگال، دہلی، آندھرا پردیش،کرناٹک، اڑیسہ،تمل ناڈو،پنجاب میں اُردو نظم نگاری کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر وہاب قیصر نے اپنی کتاب’’مولانا آزاد کی سائنسی بصیرت‘‘میں مولا نا ابوالکلام آزاد کے سائنسی نقطۂ نظراور سائنسی شعور کی بالیدگی کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مولانا آزاد نے وزیر تعلیم رہتے ہوئے سائنس کے فروغ کے لیے جو اقدامات کیے ان پر بھی تبادلۂ خیا ل پیش کیا۔محمد مشتاق شارق میرٹھی کی کتاب ’’میرٹھ کی ادبی خدمات‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئی۔اس کتاب میں مشتاق شارق میرٹھی نے میرٹھ کی ادبی سرگرمیوں اور یہاں کے ادیبوں ،شاعروں ،صحافیوں،کتب خانوں،رسائل و جرائد،چھاپہ خانوں کی خدمات کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ہم اس کتاب کو ایک نثری تذکرہ کہہ سکتے ہیں۔ڈاکٹر رفیع اللہ نے پروفیسر سید عقیل رضوی کی حیات میں ’’ادیب و ادب‘‘حصۂ اوّل مرتب کی۔اس کتاب میں ڈاکٹر رفیع اللہ نے پروفیسر سید عقیل رضوی کی شخصیت،اور ادبی کارناموں پر اصحاب قلم کے لکھے گئے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کو یکجا کیا ہے۔ساتھ ہی پروفیسر سید عقیل رضوی کی منتخب تحریروں ،تبصروں کو بھی شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔تسلیم غوری بدایونی نے ’’تذکرہ شعرائے بدایوں،مع تعلیقات‘‘میں اُن شاعروں کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جن کا اندراج لالہ سری رام کے تذکرے’’ خم خانۂ جاوید‘‘ کی جلد اول تا پانچ میں ہوا ہے۔
ڈنمارک میں مقیم نصر ملک نے تحقیق و تلاش کے بعد’’مہاتما گاندھی کے محبت نامے‘‘ میں مہاتما گاندھی کے اُن خطوط کو قارئین کے سامنے پیش کیا جو انھوں نے اپنی لاڈلی ڈینش بچی کے نام لکھے تھے۔ان خطوط کے منظرِ عام پر آ جانے سے گاندھی جی کی شخصیت اور ان کی سیاسی زندگی کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوئی ہے۔پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے اپنی کتاب’’مشاہیر ادبیات مشرقی‘‘میں اُردو شعرا،اُردو کے ادیب اور نثر نگار،عربی ادب کے شعرا،عربی کے مشہور نثر نگار، فارسی زبان کے شعرا اور فارسی کے ادیب اور نثر نگار وں کا تذکرہ کیا ہے۔یہ کتاب مشرقی ادب کو سمجھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوئی ہے۔پروفیسر شہپر رسول اور پروفیسر وہاج الدین علوی نے ’’قصیدے کی شعریات ‘‘کتاب مرتب کی ۔ان دونوں حضرات نے اس کتاب میں اُردو قصیدے کی تاریخ ،روایت اور قصیدے کے ادوار پرسمینار میں پڑھے گئے مقالات کو یکجا کیاہے۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں قصیدے کی سماجیات،شعریات،اسلوب وغیرہ پر تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔اسی کتاب میں محضر رضا نے اشاریہ قصائد اُردو کی جو فہرست تیار کی ہے وہ طلبہ اور اساتذہ کے لیے بہت ہی کار آمد ہے۔ڈاکٹر نریش نے اُردو کے علاوہ پنجابی اور انگریزی میں بھی ادب تخلیق کیا لیکن ان کی شناخت اُرود ادیب کی ہے۔انھوں نے اپنی کتاب’’تلاش و تحقیق ‘‘میں اپنے تحقیقی مضامین کو شامل کیا ۔ان مضامین کے مطالعے سے ہمیں ڈاکٹر نریش کے تحقیقی ذوق کے دیدار ہوتے ہیں۔ڈاکٹر رؤف خیر نے اپنی کتاب’’مشاہیر کے خطوط‘‘میں ایسے نادر و نایاب خطوط کو جمع کیا جن کے مطالعے سے قارئین کی آنکھوں کی چمک دوبالا ہوجاتی ہے۔ان خطوط میں مشاہیر کی ادبی چشمک اور ایک دوسرے سے برتری لینے کی ہوڑ صاف نظر آتی ہے۔
طلبہ کی تحقیقی ضرورت کے مدنظرپروفیسر عبدالستار دلوی کی کتاب ’’ادبی و لسانی تحقیق اور تقابلی ادب[اصول اور طریق کار]‘‘کا دوسرا اڈیشن منظر عام پر آیا۔اس کتاب میں دلوی صاحب نے ادبی اور لسانی تحقیق اور تقابلی ادب کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی کی کتاب ’’مبادیاتِ تحقیق‘‘اور ڈاکٹر مسعود جامی کی کتاب ‘‘رموزِ تحقیق‘‘بھی اس ضمن میںقابل ذکر ہیں۔ان دونوں کتابوں میں دونوں مصنفین نے تحقیق کے طریقۂ کار اور اس کے لوازمات پر بحث کی ہے۔ڈاکٹر عبدالقدوس اور ڈاکٹر عبداللہ صابر نے اپنی کتاب’’رہنمائے تحقیق ‘‘میں تحقیق کے رموز و نکات پر گفتگو کی ہے۔یہ کتاب آسان اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ڈاکٹر اسد فیض نے ’’اُردو تحقیق مسائل و رفتار‘‘میں ہند و پاک کی یونی ورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق کا جائزہ پیش کیا ہے۔انھوں نے اس کتاب میںہند و پاک میں یونی ورسٹی سطح پر لکھے گئے تحقیقی مقالوں کی فہرست سائنٹفک انداز میں پیش کی ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے والوں کو موضوع کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔
اُردو کی نئی نسل نے بھی تحقیق کی جانب اپنی توجہ مبذول کی ہے۔نئی نسل کے لوگوں نے گذشتہ صدی میں تحقیق کے میدان میں قدم رکھا ۔لیکن جیسے تحقیقی کارنامے بیسویں صدی میں دیکھنے کو ملے ویسے ابھی دیکھنے کو نہیں مل پائے ہیں۔الغرض یہ بھی کیا کم ہے کہ نئے لوگوں نے اپنا رشتہ تحقیق جیسے خشک موضوع سے اُستوار کیا۔پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے’’مضامین چکبست ‘‘میں برج نرائن چکبست کے نادر و نایاب مضامین کو یکجا کیا ہے۔ڈاکٹر شمس بدایوںکا شمار نئی نسل کے نمایندہ نقاد اورمحققین میں ہوتا ہے۔ڈاکٹر شمس بدایونی نے ’’غالب اور بدایوں ‘‘،’’تفہیم غالب کے مدارج‘‘اور’’جہاتِ سر سید‘‘وغیرہ کتابوں میں غالب اور سر سید سے متعلق نئی معلومات قارئین تک بہم پہنچائیں ہیں۔ڈاکٹر عباس رضا نیر نے خواجہ احمد عباس کی ادبی خدمات کا احاطہ’’خواجہ احمد عباس‘‘کتاب میں پیش کیا۔اس کتاب میں نیر صاحب نے خواجہ احمد عباس کی شخصیت،افسانہ نگاری،ناول نگاری، ڈرامہ نگاری،صحافت نگاری،خود نوشت اور سفرناموں کے تعلق سے سیر حاصل بحث کی ہے۔ڈاکٹر ارجمند آرا نے اپنی کتاب ’’دیوانِ بیان [احسن اللہ خاں بیان]‘‘میں دلّی میں اُردو شاعری ،بیان کا دور،تحریک اصلاحِ زبان،کے علاوہ بیان کے کلام کی تدوین کے طریقۂ کار پر مدلل اور مفصل بحث کی ہے۔اس کتاب کی خاص بات یہ رہی کہ ڈاکٹر اسلم پرویز اور رشید حسن خاں نے قدم قدم پر ڈاکٹر ارجمند آرا کی اصلاح و مدد کی۔ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے ’’امداد امام اثر،ادبیات ،تصورات اور نو آبادیات‘‘میں امداد امام اثر کی تنقیدی و تحقیق خدمات کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر اکمل احمد نے ’’میزانِ تحقیق‘‘اور ’’آزادی سے قبل اُردو تحقیق‘‘کتابیں رقم کیں۔میزان تحقیق میں 17اور آخر الذکر کتاب میں 18تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ان دونوں کتابوں کے مطالعے سے ہمیں ڈاکٹر اکمل کی تحقیقی صلاحیتوں کا اعتراف صدق ِدل سے کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر شاداب علیم نے ’’نظم جدید کی تثلیث‘‘اور ’’اسماعیل میرٹھی کی ادبی خدمات ‘‘میں میرٹھ کے ادبی منظر نامے کوقارئین کے سامنے سلیقگی کے ساتھ پیش کیا۔’’اسماعیل میرٹھی کی ادبی خدمات‘‘موصوفہ کا تحقیقی مقالہ ہے جس میں انھوں نے اسماعیل میرٹھی کی ادبی خدمات کو نئے زاویوں سے پرکھا ہے۔ڈاکٹر معصوم شرقی نے اپنے تحقیقی ،علمی و ادبی مضامین کو ’’ادب و احتساب‘‘میں یکجا کیا۔موصوف نے اپنی کتاب میں ادب کی مختلف اصناف پر لکھے گئے مضامین کو احتسابی انداز میں پرکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ڈاکٹر الف ناظم نے مصحفی کے حوالے سے ’’بیان مصحفی ‘‘تخلیق کی۔اس کتاب میں انھوں نے مصحفی کی شاعری ان کے فن اور شخصیت کو نئے نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کامیاب کوشش کی۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’سرور جہان آبادی کا نو دریافت کلام‘‘میں سرور جہان آبادی کے کلام کو ازسرِ نو مرتب کیا۔ان کی اس تحقیقی کاوش کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔حتیٰ کہ انھوں نے ہندی رسم الخط میں میں ’’کلیات سرور جہان آبادی [مکمل]‘‘ مرتب کیا ہے ۔ڈاکٹر احمد صغیر بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں لیکن ان کی کتاب’’بہار کی یونی ورسٹیوں میں اُردو زبان و ادب کی توسیع و ترقی میں اساتذہ کی خدمات‘‘خالصتاً تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے۔اس میں احمد صغیر نے بہار کی یونی ورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقی خدمات کا جائزہ پیش کراسے دستاویزی قالب پہنایا ہے۔ڈاکٹر احمد خان نے اپنی تحقیقی کتاب’’اُردو ادب میں اودھ‘‘ میں اودھ سے متعلق لکھئے گئے ادب کا احتساب کیاہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قارئین اس میں گذشتہ لکھنؤ کے اوراقِ پارینہ تلاش کرنے لگتا ہے۔جنید اکرم فاروقی نے اپنی کتاب’’ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی دہلی کی علمی و ادبی خدمات ‘‘میں دہلی کالج میں قائم کی گئی اس سوسائٹی کے ذریعے انگریزی کتابوں سے اُردو میں کیے گئے ترجموں کے بارے میں تفصیلی سے ذکر کیا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں فلسفہ اور ادبی تنقید- عامر سہیل)
ڈاکٹر عارف انصاری نے اپنی تحقیقی کتاب’’برہان پور کی اُردو شاعری پر دبستان لکھنؤ کے اثرات‘‘میں ان عوامل کو تلاش کیا جن کی وجہ سے مدھیہ پردیش کے خطۂ برہان پور میں دبستان لکھنؤ کے اثرات وقوع پذیر ہوئے۔ڈاکٹر سلیم احمد نے ’’اُردو کے خطباتِ آزادی کی تدوین‘‘میں تحقیقی جولانیاں کا استعمال کرتے ہوئے تحریکِ آزادی سے متعلق نادر و نایاب خطبات پر تحقیقی بحث کی ہے۔حنیف نجمی نے اپنی کتاب ’فکر و نظر‘میں تنقیدی و تحقیقی مضامین کو شامل کیا۔انھوں نے اس کتاب میں اُردو کے کئی نامورمحققین اور ناقدین کے ادبی نظریات سے اختلاف کیا ہے۔ڈاکٹر محمد مستمر نے ’’علیم اختر مظفر نگری کی شاعری ایک مطالعہ‘‘اور ’’کلیات علیم اختر‘‘میں مغربی اتر پردیش کے گمنام شاعر کے کلام کی بازیافت کے ساتھ تحقیق کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا۔ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے اپنے تحقیقی مقالے ’’اُتر پردیش میں غزلیہ شاعری :1980کے بعد ‘‘میں غزل گو شعرا کا تحقیقی تجزیہ پیش کیا۔فرقان سردھنوی کی یہ کتاب اُتر پردیش کی غزلیہ شاعری کو سمجھنے میں مفید و معاون ہے۔ڈاکٹر عبدالحمید نے اپنے تحقیقی کارناموں کی بنیادرشید حسن کی ادبی تحقیق پر رکھی۔ان کی اب تک تین کتابیں’’رشید حسن خاں کی ادبی تحقیق‘‘،’’مقدماتَ رشید حسن خاں‘‘اور ’’رشید حسن خاں‘‘منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ان تینوں کتابوں میں موصوف نے الگ الگ زاویوں سے رشید حسن خاں کی ادبی تحقیق اور مقدمات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر وسیم رضا نے اپنے تحقیقی مقالے’’رشید حسن خاں:ایک عبقری شخصیت‘‘میں رشید حسن خاں کی تحقیق،تنقید،تدوین اور خطوط نگاری پرتحقیقی انداز میں سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ارتقا سہسرامی نے اپنی کتاب ’’سہسرام کے مشاہیر نثر نگار‘‘میں سہسرام کے قدیم اور جدید نثر نگاروں کے علاوہ اس خطے کی ادبی تاریخ پر بھی بحث کی ہے،۔
پروفیسر محمد صابر حسین اور ڈاکٹر جمال احمد صدیقی نے کئی برس کی محنت کے بعد لائبریری سائنس کے طلبہ کے لیے ’’رہبرِ اُردو کیٹلاگ سازی‘‘کتاب تخلیق کی۔اس کتاب میں کیٹلاگ سازی کی فنی باریکیوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو موجود ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
مہندر پرتاپ چاند اور پروفیسر ہمت سنگھ سنہا ناظم نے ’’اُردو ادب اور ہریانہ‘‘میں بڑی جاں فشانی اور عرق ریزی کے ساتھ ہریانہ کے تمام شعرا و ادبا کا تذکرہ تحقیق کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا ہے۔اس کتاب کو ہریانہ اُردو اکادمی نے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ڈاکٹرسید شاہد اقبال نے ’’رموزِ تحقیق‘‘میں اپنے اُن تحقیقی مضامین کو شامل کیا جو وقتاً فوقتاً رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ڈاکٹر افضل مصباحی نے ’’اکیسویں صدی کے سیاسی و سماجی مسائل :دستاویز کے حوالے سے ‘‘ میں موجودہ دور کے سماجی و سیاسی مسائل پر اپنی کتاب میں مفصل و مدلل گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر سرفراز جاوید نے ’’حامد اللہ افسر میرٹھی:ایک مطالعہ‘‘میں افسر میرٹھی کو صحیح معنوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔افسر میرٹھی کی ادبی خدمات کے تعلق سے کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن ڈاکٹر سرفراز جاوید نے اپنی کتاب میں افسر میرٹھی کے ہر ادبی گوشے پر تحقیق نگاہ ڈالی ہے۔محمد اویس سنبھلی نے تلمیذِ داغؔ،’’باغؔ سنبھلی کی شعری کائنات‘‘ پر جو تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے اس کی گونج عرصے تک سنائی دیتی رہے گی۔ڈاکٹر خالد مبشر نے اپنی کتاب ’’مقدماتی ادب‘[تحقیق و تنقید]‘میں اُردو کے مشہور و معروف مقدمہ نگاروں کے مقدمات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔یہ کتاب دراصل اُردو مقدمہ نگاری کے آغاز و ارتقا اور اس کے خد و خال پر مشتمل ہے ۔ڈاکٹر ناصر پرویز نے اپنے تحقیقی مقالے’’ناصر کاظمی:حیات و ادبی خدمات‘‘میں ناصر کاظمی کی ادبی خدمات پر تحقیقی و تنقیدی روشنی ڈالی ہے۔ڈاکٹر نیہا اقبال نے اپنی کتاب’’جون ایلیاحیات اور شاعری‘‘میں جون ایلیا کے فن اور ان کی شعری کائنات کا مطالعہ بڑی ہی عرق ریزی سے کیا ہے۔ڈاکٹر محضر رضا نے ’’مکتوبات قاضی عبدالودود ‘‘کو دو ضخیم جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ان مکتوبات میں قاضی صاحب کے علاوہ ان کے عہد کے نامور محققین سے کی گئی ان کی خط و کتابت کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شرف النہار نے اپنی کتاب ’’نظیر اکبر آبادی اور سنت تکا رام ‘‘میں نظیر اور تکارام کے کلام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر شگفتہ غزل نے اپنی کتاب’’شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی‘‘میں جگر کی شعری کائنات کو نئے مفاہیم ومطالب میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری نے اپنے تحقیق مقالہ ’’مارواڈ میں اُردو‘‘عنوان سے لکھا۔اس کتاب میں موصوف نے راجستھان کے مارواڈ علاقے کے ادبا و شعرا کے علاوہ یہاں پر اُردو کے وجود و بقا پر تحقیقی نقطۂ نظر سے عالمانہ بحث کی ہے۔فاروق اعظم قاسمی نے ’’منٹو کے نادر خطوط[کچھ اپنے کچھ اوروں کے نام]‘‘میں منٹو کے غیر شائع شدہ خطوط کو مرتب کر منٹو شناسی کے باب میں نئے در وا کیے ہیں۔اسرار انصاری نے ’’برہان پور کے اہم کتبات ‘‘میںکتبوں کی تاریخی اہمیت اور اس کا ادب پر کیا اثر نمایاں ہوا،کے بارے میں تحقیق طلب باتیں پیش کی ہیں۔شاہد احمد جمالی نے ’’راجستھان کی ادبی فضاؤں کی سیر[جلد اول]میں مفتوں کوٹوی مرحوم کی ادبی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔شاہد احمد جمالی راجپوتانہ اُردو ریسرچ اکیڈمی جے پور کے تحت تاریخی اور تحقیقی نوعیت کی کتابوں کو منظر عام پر لا رہے ہیں۔ڈاکٹر محمد ناظم حسین نے اپنے تحقیقی مقالے’’مختار شمیم :حیات اور ادبی کارنامے‘‘میں مختار شمیم اور مدھیہ پردیش کی تحقیقی اورتنقیدی سرگرمیوں پر تحقیقی بحث کی ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کی کئی تحقیقی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ’’تقسیم کے بعد اُردو ناول میں تہذیبی بحران‘‘،’’آئینہ در آئینہ‘‘،’’اُردو ادب میں تانیثیت‘‘،’’اعتبار و معیار‘‘،’’افہام و تفہیم زبان و ادب ‘‘ترسیل و تفہیم ‘‘،’’تناظر و تفکر‘‘قابل ذکر ہیں۔ان کتابوں میں ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنے شائع شدہ مضامین کو شامل کیا ہے ۔البتہ کثرت سے لکھنے والوں میںان کا شمار ہوتا ہے ۔
محمد ابو بکر قاسمی پورنوی نے اپنی کتاب ’’فکرِ نانوتوی اور دورِ حاضر میں اس کی معنویت‘‘میں مولانا قاسم علی نانوتی کی علمی و فکری خدمات کے علاوہ شاہ ولی اللہ اور دوسرے اکابرین کی خدمات کامکمل احاطہ پیش کیا ہے۔مولانا شاہ عالم گورکھپوری کے اپنی کتاب’’اُردو زبان وا دب کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علما کا مخلصانہ کردار[1850تا1900]میں علما کی اُردو خدمات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔اس کتاب کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علما نے اُردو زبان و ادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ڈاکٹر گیان ویندر سنگھ نے فراق گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری سے متعلق دو کتابیں’’فراق گورکھپوری کی شاعری:ترقی پسند ی اور اشتراکیت کے حوالے سے‘‘اور ’’فراق گورکھپوری اور سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا کی شاعری کا تقابلی مطالعہ‘‘رقم کی ہیں۔ان دونوں کتابوں میں گیان ویندر سنگھ نے فراق اور نرالا کی شاعری کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔خان محمد عاقب نے اپنی کتاب’’کم و بیش‘‘میںاپنے تحقیقی مضامین کو شامل کیا جو رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے تھے۔خان محمد عاقب بنیادی طور پر انگریزی زبان کے اسکالر ہیں لیکن اُردو زبان سے والہانہ شغف کی بنا پر ان کے مضامین اُردو میں شائع ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر دانش غنی کی کئی تحقیقی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں’’ کوکن میں اُردو‘‘،’’عصر حاضر میں بچوں کا ادب‘‘، ’’مہاراشٹر میں اُردو تحقیق و تنقید ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔انھوں نے اپنی تحقیق میں مہاراشٹر کے دہی او رشہری علاقوں میں اُردو کی صورت حال کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔غزالہ سکندر نے اپنے شوہر سکندر احمدکی وفات کے بعد ان کے نا مکمل تحقیقی کارناموں کو منظر عام پر لانے کا بیڑا اُٹھایا۔’’مضامینِ سکندر احمد‘‘اور’’ طلسماتِ عروض‘‘ان کی تحقیقی کاوشیں ہیں۔پرویز شہریار نے ’’منٹو اور عصمت کے افسانوں میں عورت کا تصور‘‘،’’راجندر سنگھ بیدی کی ناول نگاری‘‘اور’’بیدی کے منتخب افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘‘میں فکشن تحقیق کو مقدم رکھا ہے۔عطا عابدی نے رسالہ افکارِ ملی میں ترقی پسند ادب کے حوالے سے شائع ہوئے مضامین اور ادبی بحث کو کتابی شکل دیتے ہوئے’’سقوط ماسکو اور ترقی پسند ادب‘‘کے قالب میں قارئین کے سامنے پیش کیا۔عطا عابدی نے اس کتاب میں مکالماتی رویے کو مقدم رکھتے ہوئے ہند و پاک کے مایہ ناز ادیبوں کے سوال اورجواب کی شکل میں مضامین پیش کیے۔یہ کتاب ترقی پسند ادب کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہے۔ڈاکٹر اطہر فاروقی نے شمس الرحمن فاروقی کی پچاسی ویں یومِ پیدایش ،30نومبر2109کے موقع پران کی جملہ ادبی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے’ ’ارمغانِ فاروقی‘‘نام سے کتاب ترتیب دی۔اس کتاب میں شمس الرحمن فاروقی کی حیات اور ادبی کارناموں پر لکھے گئے اہل قلم حضرات کے مضامین شامل ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے قاری بیک وقت فاروقی صاحب کے جہانِ ادب میں غوطہ زنی کرتے ہوئے مختلف ادبی گوشوں سے روبرو ہوتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے ادبی کارناموں پر اب تک کی یہ سب سے ضخیم کتاب ہے۔
محمد توفیق خاں نے ’’مشاہیر کے خطوط سیفی سرونجی کے نام(انتساب کے حوالے سے)میں سیفی سرونجی کے نام لکھے گئے ادبی خطوط کو یکجا کیا ہے۔ اس کتاب میں رسالہ انتساب میں شائع ہوئے ہند و پاک کے اہل قلم قارئین کے خطوط شامل ہیں۔ حکیم وسیم احمد اعظمی نے طب کے پیشے سے منسلک ادیبوں کی وفیات کو عرق ریزی اور جاں فشانی کے ساتھ یکجا کر اسے ’’وفیات اطِبا ہند و پاک(جلد اول حصۂ اول ۔حرف الف ممدودہ الف)‘‘عنوان سے شائع کیا۔اس کتاب میں ہند و پاک کے 224اطِبا کے حالات ِ زندگی مع حوالہ قلم بند کیے گئے ہیں۔ وفیات نگاری کے یوں تو بہت سے کام ہوئے ہیں مگر اتنے وسیع دائرے میں اطبا کا احاطہ اب تک نہیں کیا گیا تھا ۔ڈاکٹر عبدالسمیع ندوی نے ’’شذرات طب و ادب ‘‘میں ہند و پاک کے اطِبا کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔فاروق ارگلی کی مرتب کردہ کتاب’’حکیم سیف الدین احمد:حیات اور کارنامے‘‘میں حکیم سیف کی طِبی خدمات اور ادبی خدمات پر تحقیقی مضامین جمع کیے ہیں۔چوں کہ حکیم سیف کا تعلق رنج میرٹھی کے علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔فاروق ارگلی نے ’’ریختی ‘‘عنوان سے کتاب کو مرتب کیا ۔اس کتاب میں انھوں نے اُردو کے نامور ریختی گو شاعروں، سعادت یار خاں رنگینؔ،انشاء اللہ خاں انشاؔ، یار علی جان ؔ صاحب اور محسن خاں محسن کے حالاتِ زندگی کے علاوہ ان کا مکمل کلام قارئین کے سامنے پیش کیا۔ڈاکٹر ایاز احمد نے دو جلدو پر مشتمل ’’کلیاتِ ریختی‘‘کو تریب دیا ۔پہلی جلد میں دس ریختی گو شاعروں کا کلام شامل ہے ۔دوسری جلد میں میر احمد نسبت لکھنوی اور عابد مرزا بیگم کا کلام شامل ہے۔ڈاکٹر ایاز احمد کی ایک اور کتاب’’مضامین ریختی ‘‘(1904 تا2007)منظرِ عام پر آ چکی ہے۔اس کتاب میں موصوف نے 1904سے2007تک شائع ہونے والے مضامین خواہ وہ ریختی سے متعلق ہوں یا ریختی گو شاعروں کے حوالے سے ہوں ۔ ساتھ ہی انھوں نے اس کتاب میں کلامِ ریختی پر ناقدین،مبصرین اورعلما کی بے باک راے کو قارئین کے سامنے رکھاہے۔
ڈاکٹر کے۔پی۔شمس الدین ترورکاڈ نے کیرالا میں اُردو زبان کی صورتِ حال اور اس کی ترویج و اشاعت کو منظر عام پر لانے کے لیے’’کیرالا میں اُردو زبان و ادب ‘‘کتاب لکھی جس میں ان تمام امور کی وضاحت کی گئی ہے۔ڈاکٹر شاہ نواز عالم نے اپنے تحقیقی مقالے’’کبیر داس کے دوہوں اور جوش ملیح آبادی کی رباعیات کا تقابلی مطالعہ‘‘میں کبیرداس اور جوشؔ کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔تقابلی تحقیقی کے باب میں یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام عارف نے اپنے تحقیقی مقالے’’خواجہ احمد عباس بہ حیثیت افسانہ نگار ‘‘میں خواجہ احمد عباس کے افسانوی جہاں میں غوطہ زنی کرتے ہوئے ان کے افسانوں کا تحقیقی انداز میں احاطہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر راشد شیخ نے ’’مقالاتِ علامہ عبدالعزیز میمن‘‘،’’سوانح ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘اور’’گلشنِ اُردو‘‘میں اپنے تحقیقی کارناموں کو پیش کیا ہے۔ڈاکٹر گل رعنا نے اپنے تحقیقی مقالے ’’مجتبیٰ حسین اور فنِ طنز و مزاح نگاری‘‘میں مجتبیٰ حسین کے فن،شخصیت اور طنز و مزاح پر دیانت کے ساتھ تحقیقی کام کیاہے۔ان کی یہ کتاب مجتبیٰ حسین کی زندگی میں ہی شائع ہو چکی تھی۔ڈاکٹر زمرد مغل نے اپنی کتاب’’ساقی فاروقی قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ میں ساقی فاروقی کی شاعری اور فن کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر رفعت سلطان نے ’’مولانا ابوالحسن علی ندوی،عبقری شخصیت‘‘میں علی میاں کی دینی ،ادبی،سیاسی و سماجی خدمات کا احتساب احسن طریقے سے کیا ہے۔یہ کتاب علی میاںندوی کی شخصیت علمی اورادبی کارناموں کو سمجھنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوئی ہے۔ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی ادارہ ادبِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔ان کی تمام تر تحقیقی و تنقیدی کتابیں اسلامی ادب کی نمایندگی کرتی ہیں۔ان کی کتاب’’نظریاتی ادب‘‘میں ان کے اسلامی ادب سے متعلق تحقیقی مضامین شامل ہیں ۔ڈاکٹر راحت بدرنے اپنی کتاب’’جدید اُردو غزل :1971سے2010تک‘‘میں غزل اور جدید غزل کے علاوہ غزل گو شاعروں کے کلام میں جدیدیت کے عناصر کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
ڈاکٹرفیاض احمد فیضی نے اپنی کتاب’’اُردو طنز و مزاح نگاری میںاودھ پنچ اور شگوفہ کاحصہ‘‘میں طنز و مزاح کی روایت کے علاوہ ہند و پاک کے طنز و مزاح نگاروں کے اسلوب اور اخبار و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین پر ہنر مندی سے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔غلام نبی کمار نے اپنی کتابوں’’اُردو ادب کی عصری صدائیں ‘‘اور قدیم جدید ادبیات‘‘میں اُن تحقیقی مضامین کو یکجا کیا جو انھوں نے کسی ادبی ضرورت کے تحت رقم کیے تھے۔نورینا پروین نے اپنے تحقیقی مقالے’’محمد حسن :حیات اور کارنامے‘‘میں پروفیسر محمد حسن کی تحقیقی،تنقیدی اور فکشن کے حوالے سے انجام دی گئی خدمات کا مکمل احاطہ پیش کیا ہے۔عامر نظیر ڈار نے اپنی کتاب’’افسانے کے فروغ میں ماہنامہ آجکل کا کردار‘‘میںرسالہ آج کل میں شائع ہوئے افسانوں کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے ان کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے اپنی کتاب’’چاندنی بیگم:ایک مطالعہ‘‘میں قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری کا تاریخی و سماجی جائزہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر عبدالندیم نے اپنے تحقیقی مقالے’’علی سردار جعفری کی شاعری کا سماجیاتی مطالعہ‘‘میں علی سردار جعفری کی شخصیت ،فن ،شاعری ،ادب اور سماج کے باہمی رشتے کو ترقی پسند ادب اور سماج کے پس منظر میں پرکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ڈاکٹر جگ دمبا دوبے نے اپنے تحقیقی مقالے ’’اقبال مجید کے تخلیقی سرمایے کا سماجی اور تہذیبی مطالعہ‘‘میں اقبال مجید کے ابتدائی افسانوی ادوار ،اقبال مجید کے ڈرامے، قبال مجید کے ناول،اور اقبال مجید کے مضاین پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔تسلیم جہاں نے اپنی تصنیف ’’ریوتی شرن شرما بحیثیت ڈرامہ نگار‘‘میں اُردو ڈرامے کے فروغ میں ریوتی شرن شرما کی خدمات کا تحقیقی احتساب کیا ہے۔تسنیم فاطمہ امروہوی نے اپنی کتاب ’’اسلم جمشید پوری بہ حیثیت افسانہ نگار:ایک جائزہ ‘‘میں اسلم جمشید پوری کی حیات اور ادبی کارناموں پر تفصیل کے ساتھ کام کیا ہے۔
محمد ثنا اللہ نے اپنی تحقیقی کتاب’’ماریشس میں اُردو زبان و ادب‘‘میں ہند و پاک کے باہر آباد اُردو بستیوں میں ماریشس کی ادبی فضا کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔موصوف کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے خود ماریشس جاکر اس مقالے کی تکمیل کے لیے مواد فراہم کیا ۔ڈاکٹر پشپیندر کمار نِم نے اپنے تحقیقی مقالے’’رومانی شاعر ،اختر شیرانی‘‘میں اختر شیرانی کی ذات و صفات اور ان کی رومانی شاعری کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا ہے۔محمد یوسف رضا نے اپنی کتاب’’ندا فاضلی :حیات و جہات‘‘میں ندا فاضلی کی جدید نظموں ،غزلوں اور دوہوں کا سماجی مطالعہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر نوشاد کامران نے اپنی کتاب’’اُردو ناول ـآزادئی ہند کے تناظر میں‘‘میں اُردو ناولوں کا تحقیقی و تاریخی مطالعہ و تجزیہ پیش کیا۔اس کتاب میں نوشاد کامران نے آزادی کے بعد لکھے گئے ناولوں کا سیاسی،سماجی،علاقائی اعتبار سے تجزیہ کیا ہے۔رضی شہاب نے اپنی کتاب ’’افسانے کی شعریات ‘‘میں افسانے کی حقیقت ،اس کے پلاٹ، افسانے کے تصورِ زماں و مکاں ،افسانے کی زبان و بیان اور افسانے میں کہانی پن کے بارے میں تحقیقی مشاہدات اور مطالعات کو پیش کیا ہے۔ڈاکٹر رضیہ بیگم نے اپنے تحقیقی مقالے کو ’’اُردو شاعری میں ہندودیومالائی عناصر ‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔اس کتاب میں موصوفہ نے ہندو دیو مالائی عناصر کیا ہے؟جنوبی ہند کی شاعری میں ہندو دیو مالائی عناصر اور شمالی ہند کی شاعری میں ہندو دیو مالائی عناصر پر تفصیل کے ساتھ تحقیقی گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر عبدالبرکات نے اپنے تحقیقی مقالے ’’آزادی کے بعد اُردو افسانوں میں قومی یکجہتی [بِہار کے تناظر میں]میں بہار کے مشہور و معروف افسانہ نگاروں کے افسانوں میںقومی یکجہتی کے عناصر کو بڑے ہی شد و مد کے ساتھ پیش کیا ہے۔انھوں نے اپنی دوسری کتاب ’’ترقی پسند تحریک اور اُردو کا ظریفانہ ادب‘‘ عنوان سے تخلیق کی۔ اس کتاب میں موصوف نے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں کے یہاں پائے جانے والے ظریفانہ رنگ کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے اپنے تحقیقی مقالے’’پروفیسر عبدالمغنی :ناقد و دانشور‘‘میں پروفیسر عبدالمغنی کی حیات و ادبی خدمات کا محاکمہ پیش کرتے ہوئے ان کی اقبال شناسی اور غالب شناسی ،تنقید و تحقیق پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ڈاکٹر فرحانہ ظہیر نے اپنے تحقیقی مقالے ’’مانک ٹالہ:فن کار و محقق‘‘میں ان کی تحقیقی خدمات بالخصوص پریم چند شناسی میں مالک ٹالہ کی خدمات کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی نے اپنے تحقیقی کتاب ’’عربی ادبیات کے اُردو تراجم[تحقیق و تنقید] میں عربی ادب سے اُردو میں کیے گئے تراجم کا تحقیقی محاکمہ پیش کیا ہے۔دوسری زبانوں سے اُردو میں کیے گئے تراجم کو سمجھنے میں یہ کتاب طلبہ کے لیے مفید و معاون ہے۔ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے اپنی دو کتابوں ’’اُردو افسانہ رومان سے حقیقت تک‘‘اور اُردو افسانے پر ادبی تحریکات و رجحانات کے اثرات ‘‘میں اُردو افسانوں میں رومان پسندی اوراس پر ادبی تحریکات کے اثرات کو عیاں کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اُردو افسانوں پر تحریکات کا اثر سب سے زیادہ رہا ہے۔اس لیے ان کی دونوں کتابوں میں اس ضمن میں تفصیلی بحث موجود ہے۔بشیر مالیر کوٹلوی نے ’’اُردو افسانہ اور افسانچہ کی تکنیک پر’’افسانہ ـافسانچہ تکنیکی تناظر میں‘‘میں افسانے اور افسانچے کی تکنیک ، ہئیت اور ان دونوں کی تکنیک پر مفصل بحث کی ہے۔
راقم الحروف کی پانچ کتابیں رشید حسن خاں کے انٹرویوز ،نیر مسعود بنام رشید حسن خاں،رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں اور رشید حسن خاں کی ادبی جہات ،رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔اس کے علاوہ ہند و پاک کے مختلف رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
صحافت سے متعلق کتابیں:
اکیسویں صدی میں صحافت سے متعلق کتابیں منظرِ عام پر آ ئی ہیں۔ڈاکٹر ارتضی کریم نے ’’اُردو صحافت کے دو سو سال‘‘دو جلدوں میں مرتب کی۔ان دونوں جلدوں میں اُردو صحافت کی سمت و رفتار پر مضامین اہل قلم نے رقم کیے ہیں۔ڈاکٹر انیس صدیقی نے اپنی کتاب’’کرناٹک میں اُردو صحافت‘]اور اسالیبِ صحافت‘‘میں صحافت سے متعلق رموز و نکات پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے۔ڈاکٹر آصف علی نے خواجہ حسن نظامی کی کثیر الجہات صحافتی خدمات کا اعتراف اپنی کتاب’’خواجہ حسن نظامی:بہ حیثیت صحافی‘‘میں کیا ہے۔موصوف نے اس کتاب میں خواجہ حسن نظامی کے عہد کی صحافت پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔سہیل انجم نے صحافت کے میدان میں خاطر خواہ کام کیا ہے۔اس تعلق سے ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔’’احوالِ صحافت‘‘اور ’’اُردو صحافت اور علما‘‘میں انھوں نے اُردو صحافت کادل چسپ مطالعہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر افضل مصباحی کی کتاب ’’اُردو صحافت آزادی کے بعد‘‘منظرِ عام پر آئی۔اس کتاب میں موصوف نے ہندوستان میں آزادی کے بعد اُردو صحافت کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔عارف عزیز نے ’’صحافت و ادب کی جہتیں ‘‘میںصحافت اور ادب کے باہمی رشتوں پر گفتگو کی ہے ۔ان کی بیش تر ادبی تحقیق اُردو صحافت پر مبنی ہے۔محمد ساجد نے اپنی کتاب ’’اُردو صحافت :سہارا گروپ کے تعلق سے‘‘میں اُردو صحافت کے فروغ میں سہارا گروپ کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر سلمان فیصل نے اپنی کتاب’’ترسیلی جہات‘‘میں رسائل و جرائد کے علاوہ ٹی وی اور سوشل میڈیا میں استعمال ہونے والی زبان و بیان پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ان کے علاوہ صحافت سے متعلق جن لوگوں نے کتابیں لکھی یا ترتیب دیں ان میں معصوم مراد آبادی کی کتابیں اُردو صحافت کا منظر نامہ اور اُردو صحافت کا ارتقا،گر بچن چندن کی کتابیںجامِ جہان نما ،اُردو صحافت کی ابتدا ور اُردو صحافت کا سفر، پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی اُردو میڈیا، شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی کتاب بنگال میں اُردو صحافت کی تاریخ،ایم جے وارثی کی زبان اور ترسیل،سید اقبار قادر کی کتاب رہبر اخبار نویسی،ڈاکٹر ایاز اور راحیلہ جمیلہ کی کتاب صحافتی ضابطہ اخلاق اور قرآن کی تعلیمات،افتخار کھوکھر کی تاریخ صحافت، محمد سلمان منصور پوری کی تحریک آزادی ہند میں مسلم علما اور عوام کا کردار،سید عبید السلام زیبی کی کتاب اسلامی صحافت، ہمایوں اشرف کی کتاب اُردو صحافت مسائل اور امکانات،سرور الہدیٰ اور خالد محمود کی کتا ب اُردو صحافت ماضی اور حال،پروفیسر خالد محمود کی ایک کتاب ادب اور صحافتی ادب قابلِ ذکرہیں ۔ان میں صحافت سے متعلق مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ رام سرن اوم پرکاش سونی کی کتاب پنجاب میں اُردو صحافت،ڈاکٹر محمد اسلم کی کتابیں مشرقی پنجاب کا صحافتی سفر،مشترکہ پنجاب کے اُردو صحافی،ادبی صحافت کے اولین نقوش، مشترکہ پنجاب کے اُردو اخبارات، ڈاکٹر صالح عبداللہ کی کتاب اُردو صحافت میں اظہار و ابلاغ کے مختلف پیرائے کا تنقیدی جائزہ وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔
رسائل و جرائدکے خاص نمبر:
رسائل و جرائد کے خصوصی نمبر اُردو تحقیق کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔بعض خصوصی نمبر تو کئی تحقیقی مقالوں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔گذشتہ صدی میںاُردو رسائل و جرائدکے خاص نمبر منظرِ عام پر آتے رہے ہیں۔ان میں نگار و نقوش کے نام نمایاں ہیں اکیسویں صدی کے آغاز میں بھی اُردو رسائل و جرائد نے اس روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بل کہ اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ہفت روزہ ’’ہماری زبان‘‘نے ’’رشید حسن خاں نمبر‘‘،’’حنیف نقوی نمبر‘‘،’’خلیق انجم نمبر‘‘بہت ہی سلیقگی کے ساتھ شائع کیے۔سہ ماہی اُردو ادب کے بھی کئی شمارے اس ضمن میں شائع ہوئے جن میں،وہاب اشرفی نمبر،مولوی نذیر احمد نمبر، شمس الرحمن فاروقی نمبر،ڈاکٹر نریش نمبر،انتظار حسین نمبر،خلیق انجم نمبر،شمیم حنفی نمبر،محمدحسن عسکری نمبر،ن م راشد نمبر،میرا جی نمبر،اختر الایمان نمبر وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔رسالہ آجکل عموماً فروری ماہ میںغالب نمبر نکالتا ہے لیکن بزرگ ادیبوں کے اعزاز میں بھی وہ خصوصی شمارے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔مجتبیٰ حسین نمبر اسی کڑی کا ایک خاص نمبر ہے۔علی گڑھ میگزین کا خصوصی شمارہ علی گڑھ میں اُردو تحقیق‘‘2010میں منظر عام پر آیا۔اس شمارے میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے کسب فیض حاصل کرنے والے محققین کی خدمات کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔اس سے قبل علی گڑھ میگزین کے تنقید کے حوالے سے دو خصوصی شمارے شائع ہو چکے تھے۔
ایوانِ اُردو کا سرسید نمبر،مجتبیٰ حسین گوشۂ عصمت چغتائی،گوشۂ وارث علوی،خصوصی شمارہ سعادت حسن منٹو پروفیسر احتشام حسین نمبر،گوشۂ فیض احمد فیض،قمر رئیس نمبر،وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔رسالہ کتاب نما نے بھی خصوصی شماروں اور نمبروں سے اُردو تحقیق کی روایت میں شاندرا کردار ادا کیا ہے۔کتاب نما نے گذشتہ صدی میں ادبی شخصیات پر قابل قدر شمارے شائع کیے۔اکیسویں صدی کے ابتدا کے بعدرسالہ کتاب نما نے رشید حسن خاں نمبر،مرزا دبیر نمبر،پروفیسر گوپی چند نارنگ نمبر، صالحہ عابد حسین نمبر، علی سرادر جعفری نمبر، مجتبیٰ حسین نمبر، آل احمد سرور نمبر، میر انیس نمبر، خواجہ احمد فاروقی نمبر،شاد عارفی نمبر،حنیف نقوی نمبر،قمر رئیس نمبر،ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نمبر وغیرہ شائع کیے ہیں۔
رسالہ اُردو امراوتی کا ندا فاضلی نمبر،جاں نثار اختر نمبر،ساحر لدھیانوی نمبر،نذیر فتح پوری نمبر وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔رسالہ تفہیم کا شمس الرحمن فاروقی نمبر،رسالہ اثبات کا عریاں ادب و فحش نمبر اور سرقہ نمبر ،سہ ماہی نیا ورق کا مشتاق احمد یوسفی نمبر اور گوری لنکیش نمبر،رسالہ اکادمی کا نیر مسعود نمبر،فیضانِ ادب کا نیر مسعود نمبر،رسالہ ثالث کا انتظار حسین نمبر، فکشن نمبر اورعالمی خواتین نمبربھی اہمیت کے حامل ہیں۔رسالہ فکر و تحریر کا خصوصی گوشہ عصر حاضر میں بنگلہ دیش میں اُردو زبان و ادب اہمیت کا حامل ہے۔رسالہ مژگاں کا ریسرچ اسکالر نمبر،بہار ادب نمبر وغیرہ بھی توجہ طلب شمارے ہیں۔رسالہ انشا کے بیش تر شمارے خاص نوعیت کے ہوتے ہیں۔انشا نے بھی لاتعداد نمبر قارئین کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔رسالہ رہنمائے تعلیم کا نارنگ ساقی نمبر بھی قابل قدر شمارہ ہے۔رسالہ ادبی نشیمن کا انور جلال پوری نمبر اور گوشۂ رشید حسن خاں قابل ِ ذکر نمبرات ہیں۔
رسالہ تہذیب الاخلاق اور رسالہ فکر ونظر ہر سال یوم سر سید کے موقع پر ’’سر سید نمبر‘‘ نکالتے ہیں۔لیکن تہذیب الاخلاق کا مشاہیر علی گڑھ نمبر قارئین کے لیے بہت ہی کار آمدثابت ہوئے ہیں۔رسالہ فکر تحقیق کے منٹو نمبر،نئی غزل نمبر، نیا افسانہ نمبر، ناول نمبر،خاکہ نمبر وغیرہ کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔بھاشا سنگم بہار کا پرویز شاہدی نمبر بھی خصوصیت کا حامل ہے۔رسالہ نیا دور کے رشید حسن خاں نمبر، آزادی نمبر، منشی دوارکا پرشاد نمبر،محمد علی جوہر نمبر، شکیل بدایونی نمبر، میر تقی میر نمبر، انیس نمبر، مجاز نمبر، جاں نثار اختر نمبر، والی آسی نمبر،علی برادران نمبروغیرہ کا شمارتحقیقی دستاویز کی شکل میں ہوتا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اُردو سے طلبہ کی تحقیقی و تنقیدی ضروریات کے پیش نظر’’ارمغان ‘‘عنوان سے چھ رسالے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ہر نمبر میں اُردو ادب کی ہر اصناف سے متعلق مشاہیر کے مضامین شامل ہوتے ہیں۔بنارس ہندو یونی ورسٹی ،شعبۂ اُردو کا ششماہی مجلہ دستک کا قاضی عبدالودود نمبر ایک دستاویزی نمبر کی حیثیت رکھتا ہے۔شعبۂ اُردو چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی میرٹھ کا مجلہ ہماری آواز کا آزادی نمبر،اسماعیل میرٹھی نمبروغیرہ کا شمار تحقیقی نمبرات میں ہوتا ہے۔
رسالہ اُردو دنیا نے بھی اپنی اشاعت کے بعد خاص نمبراور گوشے شائع کیے ہیں۔ان خصوصی شماروں اور نمبرو میں ،کیفی اعظمی نمبر، رشید حسن خاں نمبر،احمد ندیم قاسمی نمبر،گوشۂ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر،فکشن کے قطبین :بیدی اور حسین ،کلیم عاجز شخصیت اور فن، گوشہ اُردو ادب اور خواتین،رضا نقوی واہی:شخصیت اور فن،گوشۂ عصمت چغتائی،گوشۂ اختر الایمان،گوشۂ اُردو صحافت نقش و رفتار،خصوصی گوشہ جاں نثار اختر اور غلام ربانی تاباں،گوشۂ اُردو طباعت و اشاعت کی دنیا،گوشۂ خواجہ احمد عباس ،گوشۂ شبلی نعمانی اور دارلمصنفین،گوشۂ ٹیگور اور اقبال،گوشۂ کرشن چندر،ہندوستانی سنیما کے سو سال اور اُردو ،گوشۂ ادب، مذہب اور اُردو ،گوشۂ علی سردار جعفری وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔اُردو دنیا کے یہ گوشے اور خصوصی نمبر تحقیق کے میدان میں قابل قدرنگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔
مونوگراف:
گذشتہ صدی میں اُردو میں مونوگراف لکھنے کا رواج کم تھا لیکن اکیسویں صدی میں مونوگراف لکھنے کا رواج عام ہے۔مونوگراف میں کسی بھی شخص کی شخصیت اور اس کے کارناموں کو اختصار مگر جامع انداز میں پیش کرنا ہوتا ہے۔مصنف تحقیق کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مونوگراف تحریر کرتا ہے۔مونوگراف مفصل کتاب کے مقابلے میں کتابچہ کی شکل میں ہوتے ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے مشاہیر ادب بالخصوص کلامِ غالب کے شارحین کے مونوگراف لکھوانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ان میں پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے حسرت موہانی، ڈاکٹرسرور الہدیٰ کا سُہا مجددّی، عمیر منظرنے رشید حسن خاں،ڈاکٹر ابو بکر عبادنے الطاف حسین حالی،ڈاکٹر نور فاطمہ نے مسعود حسین رضوی ادیب وغیرہ کے مونوگراف لکھے ہیں۔
دہلی اُردو اکادمی نے اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی دہلی کے کلاسیکل شعرا و ادبا کے مونوگراف لکھوانے شروع کیے ۔ان مونوگراف میں نگار عظیم نے بہادر شاہ ظفر،خالد محمودنے شاہ نجم الدین مبارک آبرو،ڈاکٹر دیوان حنّان خان نے پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی،ابنِ کنول نے میر امّن،افتخار عالم خاں نے سر سید احمد خاں،ڈاکٹر توقیر احمد خاںنے مومن خاں مومن، خالد اشرف نے مرزا اسد اللہ خاں غالب،قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے خواجہ میر درد،ڈاکٹر شہزاد انجم نے خواجہ الطاف حسین حالی ،نند کشور وکرم نے کرشن چندر،پروفیسر مظفر حنفی نے میر تقی میر،وسیم فرحت کارنجوی نے یاس یگانہ غیرہ کے مونوگراف رقم کیے ہیں۔
قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان نے بھی مونوگراف لکھوائے ہیں۔ان میں آفتاب احمد آفاقی نے قاضی عبدالودود،عمیر منظرنے منچندہ بانی،مظہر محمود نے رام لعل:حیات و فن،عمر رضا نے علی سردار جعفری،پریم گوپال متل نے گوپال متل،عبدالحمید نے رشید حسن خاں وغیرہ مونوگراف لکھے ہیں۔
ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی نے گذشتہ صدی سے ہی ہندوستانی ادب کے معمار سیریز کے تحت خوب مونوگراف لکھوائے۔لیکن اکیسویں صدی میںمشاہرِ ادب کے مونوگراف تواتر کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ان میں منظور حسن نے کنہیا لال کپور،خالد اشرف نے خواجہ احمد عباس،ف س اعجاز نے نیاز فتح پوری،صغریٰ مہدی نے صالحہ عابد حسین،قمر رئیس نے علی سرادر جعفری، ویرندر پرشاد سکسینہ نے جگر بریلوی اور علامہ سحر عشق آبادی،ارتضی کریم نے رشید جہاں،امتیاز احمدنے آل احمد سرور، محمد حامد علی خاں نے عبدالغفار نساخ،بھوپیندر عزیزیپریہارنے جوش ملسیانی اوربلراج کومل،کوثر مظہری نے وحید اختر، سلیمان اطہر جاوید نے جگت موہن لال رواں اور ساحر لدھیانوی، عابد سہیل نے عبدالعلیم، ایس۔ایم حسنین نے اختر اورنوی، وسیم بیگ نے رفعت سروش،سرور الہدیٰ نے خورشید الاسلام،نافع قدوائی نے حیات اللہ انصاری،مولا بخش نے خواجہ حسن نظامی،انیس اشفاق نے سید مسعود حسن رضوی ادیب،وضاحت حسین رضوی نے علی جواد زیدی،شہزاد انجم نے سید احتشام حسین،کبیر احمد جائسی نے مولانا عبدالسلام ندوی،شمیم طارق نے کالی داس گپتا رضا،وہاب اشرفی نے کلیم الدین احمد،امام اعظم نے عبدالغفور شہباز،قمر رئیس نے سجاد ظہیر،مہتاب حیدر نقوی نے خلیل الرحمن اعظمی،کے ایل نارنگ ساقی نے کنور مہندرسنگھ بیدی سحر،کنور پال سنگھ نے راہی معصوم رضا،شارب ردولوی نے اسرار الحق مجاز،وجیندر نرائن سنگھ نے رام دھاری سنگھ دِنکر(اُردو ترجمہ عنبر بہرائچی)،حامد اقبال صدیقی نے سیماب اکبر آبادی،نند کشور وکرم نے سدرشن،اسیم کاویانی نے ندا فاضلی،وارث علوی نے سعادت حسن منٹو و،سید یحییٰ نشیط نے منشی دوارکا پرشاد اُفق لکھنوی،مناظر عاشق ہرگانوی نے نریش کمار شاد غیرہ کے مونوگراف تحریر کیے ہیں۔ڈاکٹر عبدالحق نے مغربی بناگال اُردو اکادمی اور دہلی اُردو اکادمی کے لیے علامہ اقبال کے تعلق سے مونوگراف تحریر کیے۔
تاریخ سے متعلق اہم کتابیں:
تحقیق میں تاریخ کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔کسی ادبی واقعے کی اہمیت تاریخ پر منحصر ہوتی ہے۔اُردو میں تاریخ سے متعلق بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن اکیسویں صدی میں بھی محققین نے اس جانب خاطر خواہ کارنامے انجام دیے ہیں۔ڈاکٹر راحت ابرار نے 1857کے میرٹھ کے انقلاب کو نئے نظریے سے دیکھتے ہوئے’’1857کے انقلاب کا عینی شاہد جارج پیش شور‘‘کتاب تحریر کی۔اس کتاب میں ایک انگریز شاعر کی آپ بیتی بیان کی گئی ہے جس نے انقلاب کی روداد کو اپنی ڈائری میں قلم بند کیا۔در اصل یہ کتاب 1857کے انقلاب پر ایک دستاویزی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔داکٹر شاہد صدیقی نے بھی ادبی تاریخ کی جانب اپنی توجہ مبذول کی ہے۔ان کی کتاب’غداروں کی کارستانیاں:1757تا 1857کے تناظر میں‘‘اہمیت کی حامل ہے۔ ا س کتاب میں انھوں نے ہندوستانی غداروں کے کالے کارناموں کو منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔شمیم طارق نے اپنی کتاب ’’غالب ،بہادر شاہ ظفر اور1857‘‘میں انقلاب 1857کے محرکات، اس انقلاب میں بہادر شاہ ظفر کے کردار اور مرزا غالب کا اس انقلاب کا عینی شاہد ہونے کے ناطے اس کی روداد کو روز نامچے میں قلم بند کرنے کی روداد کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔در اصل یہ کتاب ایک خطبہ ہے جسے شمیم طارق نے ہندوستان کے پہلے انقلاب 1857کے پچاس سال مکمل ہونے اور مرزا غالب کی 210ویں یومِ ولادت کے موقع پر غالب اکیڈمی،نئی دہلی میں پیش کیا تھا۔
اشاریہ سازی سے متعلق اہم کتابیں:
تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے اشاریہ کسی نعمت سے کم نہیں۔اشاریہ میں محقق اپنے مطلب کا مواد فوراً تلاش کر لیتا ہے۔ اُردو میں اشاریہ سازی کی روایت گذشتہ صدی میں پروان چڑھی اور اکیسویں صدی میں اسے عروج حاصل ہوا۔اشاریہ تیار کرنا ایک دشوار ترین مرحلہ ہوتا ہے۔اشاریہ ساز کئی برس کی محنت شاقہ کے بعد قارئین کے لیے اشاریہ تیار کرتا ہے ۔درج ذیل سطور میں اُردو کے اشاریہ سازوں کے کارنامے تحریر کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹرمحمد اطہر مسعود خاںنے اشاریہ سازی کے میدان میں قابل قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ماہ نامہ نیا دور کا اشاریہ دو ضخیم جلدوں میں اور تذکرہ شعرا ئے اتر پردیش کا اشاریہ ان کے وقیع تحقیقی کارنامے ہیں،ماہ نامہ نیا دور کا اشاریہ تحقیق کے حوالے سے ایک دستاویز ہے۔ڈاکٹر عطا خورشید نے ’’قاضی عبدالودود[ایک موضوعاتی ،وضاحتی اور تجزیاتی اشاریہ]مرتب کیا ہے۔اس اشاریے میں عطا خورشید صاحب نے قاضی عبدالودود کے مقالات ،تصنیفات و تالیفات کو موضوعات کی ترتیب سے رکھا ہے۔رسالہ شب خون کی افادیت و اہمیت سے کون واقف نہیں ۔اس رسالے نے جدیدت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس رسالے کے بند ہونے کے بعد اس کا توضیحی اشاریہ ’’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘‘دو ضخیم جلدوں میں انیس صدیقی نے ترتیب دیا۔یہ اشاریہ رسالہ شب خون کے سنہرے دور کا ادبی دستاویز گردانا گیا ہے ۔رشید حسن خاں کی وفات کے بعد ان کا اشاریہ’’گنجینۂ معنی کا طلسم [اشاریہ دیوانِ غالب]تین جلدوں میں شائع ہوا۔1960کے بعدرشید حسن خاں نے اس اشاریے پر کام کرنا شروع کیا تھاجو ان کی وفات سے ذرا قبل مکمل ہوا۔لیکن یہ اشاریہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔2017،2018اور2019میں اس کی جلدیں منظرِ عام پرآئیں۔تحسین فراقی نے اس اشاریے کی تینوں جلدوں کو یکجا کر کے ایک ضخیم جلد میں شائع کیا ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان اشاریہ سازشاہد حنیف نے ابھی اُردو اشاریہ سازی کے باب میں نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔موصوف نے متعدد رسائل و جرائد کے اشاریے تیار کیے جن میں ماہ نامہ محدث، ماہ نامہ الحق، ماہ نامہ حرمین، ماہ نامہ القاسم، ماہنامہ نقیب ختم نبوت،ماہ نامہ برہان، ماہ نامہ ثقافت، ماہ نامہ معارف،سہ ماہی پیغامِ آشنا، ماہ نامہ الرحیما لولی،ماہ نامہ فقہ اسلامی، مجلہ الثقافت الاسلامیہ، سہ ماہی معاصر،ماہ نامہ حق چار یار و،ماہ نامہ صریر خامہ، پرکھ، تحقیق غیرہ ان کی محنت شاقہ کے چند نمونے ہیں۔ ماہنامہ معارف کا اشاریہ ڈاکٹر جمشید ندوی نے بھی تیار کیا ہے جو دارالمصنفین شبلی اکیڈمی سے شائع ہوا ہے۔کتابیات شبلی ،ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے جس میں شبلی کی کتابیں اور مضامین کے ساتھ ساتھ شبلی اور ان کی کتابوں سے متعلق لکھے ہوئے مضامین کا اشاریہ ہی ہے ۔ پاکستان میں رسالہ اقبال ،سہ ماہی نیا دور، رسالہ نقوش،نوائے وقت وغیرہ رسائل و جرائد کے بھی اشاریے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ہندوستان میں رسالہ عصمت کا وضاحتی اشاریہ شیخ نیاز الدین صابری نے بہت ہی جاں فشانی اور عرق ریزی سے تیار کیا ہے۔ڈاکٹر جمیل اختر نے رسالہ آجکل کے دو ضخیم اشاریے تیار کیے ہیں۔جلد اول تو گذشتہ صدی میں منظر عام پر آ چکی تھی لیکن جلد دوم اکیسویں صدی کے آغاز میں منصۂ شہود پر آئی ہے۔مذکورہ اشاریوں کے علاوہ ایوان اُردو کا اشاریہ فاروق انصاری نے ،ماہ نامہ تحریک کا اشاریہ مطیع اللہ نے، دلگداز کا اشاریہ محمد قمر سلیم نے،رسالہ شاہ راہ کا اشاریہ نوشاد منظر نے، رسالہ معارف کا اشاریہ جمشید احمد ندوی نے، رسالہ جامعہ کا اشاریہ شہاب الدین انصاری نے،رسالہ تہذیب الاخلاق کا اشاریہ ضیا احمد انصاری نے، رسالہ معاصر کا اشاریہ محمد نور اسلام نے ہفتہ وار سچ اور صدق کا اشاریہ عبدالعلیم قدوائی نے اپنی محنت شاقہ سے تیار کیے ہیں۔
ریڈیو اور سنیما(فلم)سے متعلق اہم کتابیں:
ریڈیو اورسنیما ترسیل اور ذرائع ابلاغ کے سب سے مقبول ذرائع ہیں۔ایک زمانہ تھا جب ریڈیوں سے اُردو کے نامور ادیب و شعرا وابستہ تھے۔اسی طرح فلموں میں بھی اُردو کے ادبا و شعرا نے اپنی خدمات انجام دیں۔سچ پوچھیے تو اُردو زبان کے بغیر ریڈیو اور فلموں کی حیثیت کچھ نہیں ۔ذرائع ابلاغ کے اداروںمیں اُردو الفاظ کا استعمال پہلے کے مقابلے میں کم ہوا ہے لیکن اپنی بات کو عوام تک پہنچانے کے لیے اُرود زبان ہی ان کا سہارا بنتی ہے۔اکیسویں صدی میں بھی ترسیل و ابلاغ کے ان دونوں ذرائع کی مقبولیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ہے۔ان دونوں کی ادبی خدمات پر لاتعداد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔
ڈاکٹر شکیل اختر بنیادی طور پر ریڈیو سے وابستہ ہیں لیکن انھوں نے’’ ریڈیوڈرامہ:تاریخ اور تکنیک‘‘ریڈیوز انٹرویوز کا مجموعہ ’’روبرو‘‘ وغیرہ کتابیں تخلیق کی ہیں۔ان کی پوشیدہ تحقیقی صلاحیتوں کو ہم ان کی کتابوں میں تلاش کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر کمال احمد صدیقی نے اپنی کتاب ’’اُردو ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ترسیل و ابلاغ کی زبان‘‘میں موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی زبان کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔’’مضامینِ فلم‘‘میں خالد عابدی نے اُردو ادیبوں اور شاعروں کی فلموں سے وابستگی کے بارے میں اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ مضامین سپردِ قلم کیے ہیں۔انیس امروہوی نے اس میدان میں کارہائے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ان کی فلموں سے متعلق کئی کتابیں اور سیکڑوں مضامین منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔وشو ناتھ طاؤس کے فلموں سے متعلق مضامین رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
لسانیات سے متعلق اہم کتابیں:
اُردو تحقیق میں لسانیات کا اہم کردار رہا ہے۔بیسویں صدی میں لسانیات سے متعلق بہت کام ہوا ۔اکیسویں صدی میں بھی لسانیاتی تحقیق کو نمونے کتابی شکل میں آتے رہتے ہیں۔گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب’’اُردو زبان و لسانیات ‘‘میں اُردو کی ہندوستانی بنیاد،اُردو کا لسانی اشتراک،رسم الخط،اُردو املا اور لسانیات وغیرہ موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔در اصل یہ کتاب نارنگ صاحب کے اُن مضامین کو مجموعہ ہے جو انھوں نے ملک و بیرونِ ملک یاکسی ضرورت کے تحت پڑھا اور لکھا ۔مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی کتاب’’لسانی مسائل و مباحث‘‘میں لسانیات کے حوالے سے اُردو زبان کا تاریخی پس منظر،اُردو قواعد نویسی کی روایت،کھڑی بولی اور ہندی کے تعلق سے تحقیق طلب باتیں رقم کی ہیں۔ڈاکٹر علی رفاد فتیحی کے تحقیقی کارنامے لسانیات کے موضوع پر مبنی ہیں۔انھوں نے اپنی کتاب ’’ساخت اور اسلوب ،طریقہ و تجزیہ‘‘میں اپنے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کو شامل کیا ہے۔علی رفاد فتیحی نے اپنی دوسری کتاب ’’اُردو لسانیات‘‘میں علم صوتیات،اصول فونیمیات،اُردو حرف تہجی،اُردو صرف،اُردو نحو،اُردو معنیات،ہندوستان کا لسانی پس منظر،ہند آریائی زبان کی لسانی خصوصیات، زبان اُردو،اُردو کے آغاز و ارتقا کے نظریے اور دکنی اُردو پر بڑی ہی دیدہ ریزی اور جاں فشانی کے ساتھ تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔ڈاکٹر صباح الدین احمد کی زیادہ تر تحقیق اُردو املا اور لسانیات سے تعلق رکھتی ہے۔یہ ایسا موضوع ہے جس پر کوئی آسانی سے ہاتھ نہیں ڈالتا۔لیکن ڈاکٹر صباح الدین احمد نے ’’املا نامہ:تخریب و ردِّ تخریب‘‘،’’اُردو حروف تہجی:تشکیل و ردِّ تشکیل‘‘اور ’’اُردو حرف و صوت‘‘وغیرہ کتابوں میں اُردو املا اور لسانیات پر بہت ہی اکر آمد باتیں تحقیقی انداز میں تحریر کیں ہیں۔یہاں تک کہ انھوں نے رشید حسن خاں اور گوپی چند نارنگ کی کتابوں’’اُردو املا‘‘اور ’’املا نامہ‘‘پر سخت تنقید کرتے ہوئے ان دونوں ادبی بزرگوں کی املا سے متعلق اصلاحات پر سوالیہ نشان قائم کیے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے اپنی کتاب’’لسانیات اور تنقید‘‘میں گلوبلائزیشن اور اُردو،لسانیات اور تنقید، ادبی تاریخ ، ساختیات،جدیدیت ،مابعد جدیدت ادب اور ادبی تحریکیں،اُردو تحقیق کے پیراڈائم وغیرہ پر تحقیقی نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔پروفیسر ارتضیٰ کریم نے زبان و بیان کے مسائل پرکتاب ’’اُردو زبان وادب :ہند اور بیرونِ ہند‘‘ترتیب دی۔ اس کتاب میں بیرونِ ملک میں اُردو کی ترقی ،اشاعت و ترویج کے مسائل پر سیر حاصل مضامین شامل کیے ہیں۔یوسف رامپوری نے اپنی مرتب کتاب’’اُردو میں تلفظ:معنویت اور مسائل‘‘میں اُردو زبان اور املا سے متعلق مضامین کو شامل کرتے ہوئے اس زبان کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے والوں کے اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں۔
اقبال سے متعلق اہم کتابیں
اُردو محققین کا اقبال سب سے پسندیدہ موضوع رہا ہے۔گذشتہ صدی میں اقبال شناسی میںلاتعداد کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔لیکن اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔پروفیسر عبدالستار دلوی نے ’’اقال اور بمبئی‘‘میں اقبال سے متعلق نئی تحقیق قارئین کے سامنے پیش کی۔’’مہاتما گاندھی ،اُردو،اقبال اور دوسرے مضامین ‘‘میںپروفیسر عبدالستار دلوی نے مہاتما گاندھی کی ہندوستانی زبان کے فروغ کے لیے دی گئی خدمات پر تنقیدی و تحقیقی مباحثے کتاب میں تحریر کیے ہیں۔پروفیسر علی احمد فاطمی نے ’’اقبال اور الہ آباد ‘‘میں علامہ اقبال سے متعلق مضامین کو یکجا کیا۔ انھو ں نے الہ آباد اور اقبال کے حوالے سے جو مضمون سپردِ قلم کیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔اس مضمون میں فاطمی صاحب نے اقبال کے خطبۂ الہ آباد پر مفصل بحث کی ہے۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے ’اقبال اور دبستان شبلی‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ۔اس میں شبلی اکیڈمی کے مصنفین اور معارف میں علامہ پر شائع ہونے والے مضامین کے حوالے سے مباحث اور اشاریے ہیں ۔مطالعہ اقبال کی یہ ایک نئی جہت ہے ۔ڈاکٹر خالد ندیم نے علامہ اقبال کی آپ بیتی کو نئے طریقے یعنی ان کی تحریروں ،خطبوں اور خطوط کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔اس کتاب کا مطالعے سے علامہ اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کوسمجھنے میں قارئین کو آسانی ہوئی ہے کیوں کہ اس کی نثری لطافت پرشعری رنگ نمایاں ہے ۔ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے اپنی تحقیقی کتاب ’’علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد1930‘‘میں اصل خطبے کا عکس اور اس خطبے کے پہلے اُردو ترجمے کو بنیاد بنا کر بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔انھوں اپنی تحقیق میں یہ ثابت کیا کہ علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں ایک مثالی اسلامی ریاست بنانے کی بات کہی تھی نہ کہ مملکت پاکستان بنانے کی۔ڈاکٹر شکیلہ بانو نے علامہ اقبال کی حیات اور ادبی کارناموں کو سمجھنے کے لیے ان کے خطوط کو بنیاد بنایا۔موصوفہ نے ’’حیاتِ اقبال :خطوط کی روشنی میں‘‘اقبال کی شعری، ادبی اور شخصی جہات کو تحقیقی اور سائنٹفک انداز میں پرکھا ہے۔
غالب سے متعلق کتابیں
اُردو محققین نے غالب پر بہت سی نئی تحقیقات قارئین کے سامنے پیش کیں۔غالب کے کلام کی جتنی شرحیںلکھی گئی ہیں اتنی کسی دوسرے شاعرکے کلام پر نہیں لکھی گئیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ’’غالب معنی آفرینی ،جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘‘تخلیق کی۔اس کتاب میں نارنگ صاحب نے غالب کی شاعری اور شخصیت کو نئے طریقے سے سمجھا اور سمجھایا۔پروفیسر حنیف نقوی تا عمر قلم کے سپاہی رہے۔انھوں نے تحقیق کو اوڑھنا اور بچھونا بنایا۔’غالب سے متعلق انھوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے وہ قابلِ ستائش اور لائقِ تقلید ہیں۔غالب شناسی کے باب میں’’غالب اور جہانِ غالب‘‘پروفیسر حنیف نقوی کاقابلِ قدر کارنامہ ہے۔اس کتاب میں انھوں نے17مضامین کو شامل کیا جس میں مرزا غالب اور ان کی شاعری سے متعلق نئے جہتوں پر تحقیقی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ڈاکٹر وہاب قیصر نے کلامِ
غالب میں سائنسی نکات کو تلاش کر اسے قارئین کے سامنے پیش کیا۔موصوف نے اس کارنامے کو انجام دینے کے لیے باقاعدہ ایک کتاب’’سائنس اور غالب‘‘تخلیق کی ۔اس کتاب میں غالب کے اشعار میں سائنس کی مختلف جہتوں کو تلاش و تحقیق کے بعد صفحۂ قرطاس کی زینت بنایا گیا۔ڈاکٹر وہاب قیصرکا یہ عظیم
کارنامہ غالب کے کلام کو سائنسی انداز میں پرکھنے کا نرالا رنگ اور ڈھنگ لیے ہوئے ہے۔یوسف نون نے اپنی کتاب’’غالب شناسی کی تکون[گوپی چند نارنگ،شمس الرحمن فاروقی اور اسلم انصاری]‘‘میں ان تینوں کے غالب کے تعلق سے کیے گئے تحقیقی و تدوینی کارناموں کو تحقیقی انداز میں پرکھا ہے۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور ڈاکٹر رضاحیدر کی مرتب کردہ کتاب’’غالب انسٹی ٹیوٹ :نصف صدی کا سفر‘‘میں ان دونوں حضرات نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی تاریخ
اور یہاں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا تحقیقی انداز میں محاکمہ پیش کیا ہے۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |