سعادت ہے ،سخاوت ہے،عبادت ہے علم
دولت ہے،بصیرت ہے،طاقت ہے علم
تمام مذہبی معاشروں میں علم کی ضرورت کو ہر دور میں محسوس کیا جاتا رہاہے کیونکہ علم کے عمل سے ہی انسان اپنے آپ کو سمجھتا ہے اور انسانی شعور بیدار ہوتا ہے۔رہنے،کھانے،پینے،گفتگو کرنے وغیرہ میں علم کی مدد سے ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے اور نسل در نسل ادبی ،ثقافتی ، علمی ورثہ منتقل ہوتا ہے۔علم ہی وہ خزانہ ہے جس کے زریعہ انسان کی ذہنی ،جسمانی اور اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور اس کی شخصیت معاشرے میں کھل کر سامنے آتی ہے۔
سب سے پہلے اگر ہم علم کی بات کریں تو آج سے ۱۲۰۰ سال قبل ماضی میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ جب معاشرہ تو تھا انسانوں کاو،قانون تو تھا لیکن جنگلوں کا اور انسان تباہی کے راستے پر گامزن تھا۔اُس وقت خدا وند تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور سرکار دو عالم کو اِس دنیا میں بھیجا گیا جن کی تعلیم و تربیت کی بدولت اس معاشرے نے پلٹا کھایا کہ وہی لوگ تھے، وہی جگہ تھی مگر طرزِزندگی تبدیل ہو گیا تھا۔وہ معاشرہ جو برباد ہونے والا تھا اب امن اور سکون کی علامت بن گیا تھا کیونکہ علم نے جینے کا سلیقہ سکھا دیا تھا ۔
یہی وہ علم ہے جس کی وجہ سے ہم انسان’’ اشرف المخلوقات ‘‘سے نوازے گئے،یہی وہ علم ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے آدم کو کچھ چیزوں کے نام سکھائے اور فرشتوں کو نہیں بتائے گئے اور فرشتوں کے سامنے وہ چیزیں جب پیش کی گئیں تو فرشتوں نے عرض کیا کہ ہم ان چیزوں کا نام نہیں بتاسکتے کیونکہ ہمیں ان چیزوں کا علم نہیں دیا گیا پھر خدا تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ تم ان چیزوں کے نام بتائو آدم کو کیونکہ سب علم دیا گیا تھا تو آپ نے ایک ایک چیز کا نام بتایا تب خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا کہ میرے اِس شاہکار کوسجدہ کرو اور فرشتوں کی پیشانیاں آدم کے آگے سجدے میں جھک گئیں تو فرشتوں کی پیشانیوں کے جھکنے کا سبب حضرتِ آدم کا ان اسما کو جانناتھا جن سے فرشتے ناواقف تھے۔
علم کے سبب سے انسان کو اللہ نے اُس کے مشارکات سے بھی امتیاز کیا اور دیگر مخلوقات سے بھی اُس کو ممتاز کردیا۔تبھی تو اسلام کی تعلیمات کا آغاز بھی لفظ’اقرا‘ سے ہوا۔حضرت انس رضی اللہ ُتعالیٰ کی اس روایت سے علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
’’جب کوئی شخص گھر سے علم کی تلاش میں نکلتا ہے تو وہ راہِ خدا میں ہوتا ہے جب تک وہ پلٹ نہ آے‘‘۔
علم کیونکہ ایک روشنی ہے،ایک نور ہے،ایک کاوش ہے،ایک احترام ہے۔اس علم کی بدولت عرب کی تپتی ریت پرحضرت بلال نے احد احد کا نارہ بلند کیا کیانکہ علم ایک ایسا خزانہ ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے ۔اگر میں دوسرے رخ سے بات کروں تو ہٹلر نے کہا تھا :
’’تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوںگا‘‘۔کیانکہ وہ جانتا تھا انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے جہاں سے تعلیم کا آغاز ہوتا ہے ،جہاں سے انسان بولنا سیکھتا ہے،جہاں سے انسان چلنا سیکھتا ہے اور پھر اپنے اساتذہ اکرام کی زیرسرپرستی آکے علم حاصل کرکے اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کر دیتا ہے۔
یہی علم جب اقبال کے پاس آیا تو وہ ڈاکٹر محمد اقبال بن گئے،علم کے میدان کے سپاہی جب قوم کے رہنما بنتے ہیں تو سر سید احمد خان بن کر قوم کی رہنمائی کرکے جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں،علم کے میدان کے سپاہی جبIT کے میدان میں اترتے ہیں تو کسان کا بیٹا Billgateہو یا غربت وافلاص کا سامنا کرنے والی ’میڈم کیوری‘ہومصیبتوں سے لڑکر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں،علم کے میدان کے سپاہی جب Alexander flaming اور Edward jennerبنتے ہیں تو antibiotics اورvaccinationکی ایجاد کرکے زندگیاں بچا کر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ،علم کے میدان کے سپاہی سائنس میںNewtonاور گراہم بیل بنتے ہیں تو دوسروں کے کام آکر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں،علم کے میدان کے سپاہی جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اورموصیقی میں آتے ہیں تو راحت فتح علی خان سے لیکر اے۔آر۔رحمان بنتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں:
علم نے خونِ رگ جاں دیا اور نہ مرا
علم نے زہر کا پیالا پیااور نہ مرا
علم سقرات کی آوازہے عیسیٰ کا لہو
علم سیارہ و گہوارہ و انجام و نمود
علم بیٹے کی نئی قبر پر ماں کے آنسو
علم عباس علمبر دار کے زخمی بازو
علم طالب کو طلب سے ہی سِلا دیتا ہے
اور جہل کو ابو جہل بنا دیتا ہے۔۔
اگر ہم معاشرے میں تعلیم یافتہ شخصیات کی بات کریں تو معاشرہ بھی ایسی شخصیات سے متاثر ہوتا ہے اور ان کے قول وعمل کو دیکھتا ہے پرکھتاہے اور ان کو اپنا رہ نما منظور کرتاہے کیونکیہ علم سے ہی شخصیت متاثر ہوتی ہے ۔ایک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا ہمیشہ کے لئے پر خلوص انسان بن ہی جاتا ہے کیانکہ علم ہی سکھاتا ہے کہ متاثر کُن شخصیت کیسے بنا جاسکتا ہے اورایک عالم تب تک متاثر کُن شخصیت نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے عمل میں مخلص نہ ہو۔
انسان کی شخصیت کو نکھارنے اورمتاثر بنانے میں عاجزی اور انکساری ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ انسان جب سامنے والے کو دیکھتا ہے تو وہ دوسروں کا احترام کرتا ہے اس کے ساتھ بڑے پیار اور محبت سے پیش آتا ہے کیونکہ اسے اپنے علم وعمل اور تقوے کا غرور نہیں ہو تا،کوئی اسے دعوت دے وہ انکار نہیں کرتا ،مصیبت اور پریشانی میںساتھ کھڑاہو جاتا ہے،کسی کے گھر کوئی تقریب ہو تو مبارکباد پیش کرتا ہے۔اِس طرح کے رویے سے معاشرہ بھی خوش ہوتا ہے اور اللہ بھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے افراد کہاں ملتے ہیں؟تو ایسے افراد کسی دوسری دنیا کے نہیں ہوتے وہ اسی دنیا کے تعلیم یافتہ شخصیات ہوتی ہیں ۔ایک علمی اور ایک ناعلم شخصیت کو اگر آمنے سامنے بٹھا دیا جائے تو اس کا فرق واضح ہو جاتاہے۔اس کا سبب علم ہی ہے۔تعلیم کے لیے ہمارے پیارے نبی کا بھی قول ہے ’’علم حاصل کرنے کے لیے چین بھی جانا پڑھے تو جائو‘‘کیونکہ آج کے دور میں علم ہی سے انسانی زندگی میں شعور پیدا ہوتا ہے ۔
علم ایک درخت ہوتا ہے اس سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے۔ایک مثال یہاں پیش کرتی ہوں:
’’ایک شکاری کُتاجس کو شکار کرنا سکھایا جاتا ہے اور جب وہ شکار کے لیے جاتا ہے تو وہ شکار اس کے لیے جائز ہوتا ہے،اور ایک عام کُتااگر جائے گااور شکار کریگا اور وہ مر جائے تو وہ جائز نہیں ہوگا کیونکہ سکھائے ہوئے اورعام کُتوں میں دونوں میں فرق ہوتا ہے‘‘۔
تو اگر کُتا بھی سیکھ جاتا ہے تو وہ ایک عام کُتوں سے منفرد ہو جاتا ہے ،اسی طرح اگر انسان سیکھ جائے گا تو وہ انسانوں میں ممتاز کیوں نہیں ہو سکتا۔یہ شرف ہے انسان کاکہ علم سے انسان اپنے دیگرافرادِقوم سے ممتاز ہو جاتا ہے۔اسلئے اسلام نے بھی ہمیں علم حاصل کرنے کا درس دیاہے اور علم صرف اسلامی علوم نہیں عصری علوم حاصل کرنے کی بھی ترغیب اسلام نے کی ہے۔
آج کے معاشرے میں بہت سے ایسے افرادبھی ہیں جو تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ کر ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنے پر مجبورہیں کیونکہ آج ۹۰فیصد معاشرہ جدید عصری علوم،جدید ٹکنالوجی ہو یا جدیدسائنس علوم میں پیچھے رہ گئے ہیں ہمیں ان علوم کو حاصل کرنے کی بھی تلقین اسلام نے کہ کی ہے۔
تعلیم کے بارے میں مشہور ماہرِتعلیم پنٹر نے کہا تھا’’تعلیم کا مقصدمحض علم حاصل کرنا نہیں ،محض معلومات کا حصول نہیں بلکہ انسان کی مکمل زندگی کے لئے اس کی ذہنی افزائش ہے اس کی اخلاقی تربیت ہے‘‘۔
اس طرح ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ علم شخصیت کو نکھارتا ہے اور انسان کو باشعور اور باوقار بناتا ہے۔انکساری اور خیرخواہی سکھاتا ہے،قول وعمل میں یکسانیت سکھاتا ہے،حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور انسان کوایک باشعور فرد بناتا ہے ،اسلئے علم حاصل کرنا تمام انسانوں پر فرض ہے تبھی ہم ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
علم کی مقدس شمع کو روشن جو کیا کرتے ہیں
زندہ رہتے ہیں ہمیشہ وہ لوگ کہاں مرتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page