بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم:انتخابِ نعت / ڈاکٹر عبدالحق – صدف فاطمہ
عشق رسول سے سرشار پروان چڑھتی صنف نعت اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہے ۔ اس سرمائے میں بلاتخصیصِ مذہب، فرقہ و ذات ہر دور میں اضافہ ہوا ہے ۔ نعت کی خاصیت ہے کہ یہ علاحدہ جتنی مضبوط صنف ہے اتنی ہی دیگر شعری اصناف سے مربوط بھی ہے ۔ مثنوی ، قصیدہ، مرثیہ بذاتِ صنف نعت نہیں لیکن روایت اور محبت نے ہر ایک کے ابتدائیے کو نعتیہ کلام سے مزین کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو جیسی نئی اور کم عمر زبان میں بھی نعتیہ کلام کا نمایاں ذخیرہ ہاتھ آیا۔
"بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم” ملا داؤد(ولادت ۱۲۸۶ء) سے صبیح رحمانی (ولادے ۱۹۶۵ء) تک اٹھاون شعرا کے نعتیہ انتخاب کا مجموعہ ہے ، جسے ڈاکٹر عبد الحق ،پروفیسر ایمریٹس، دہلی یونی ورسٹی نے حال ہی میں مرتب کر کے نعت ریسرچ سنٹر انڈیا سے شایع کیا ہے ۔ ۱۸۳ صفحات پر مشتمل مذکورہ انتخاب کے متعلق ڈاکٹر عبد الحق لکھتے ہیں:
"اس قید و بند کے زمانے میں ناچیز کو جو سہولت سے مل سکا وہ کلام انتخاب میں شامل ہے ۔”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخاب میں زبانِ زد عام تاریخ کے مطابق امیر خسرو کے نعتیہ کلام سے آغاز کیوں نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبد الحق کا نقطہ نظر مختلف ہے ۔”بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم” میں شامل گیارہ صفحاتی ‘تقدیم’ میں ڈاکٹر عبد الحق رقم طراز ہیں:
"راقم نے عہد قدیم کے نعتیہ کلام سے انتخاب کا آغاز کیا ہے ۔ کیونکہ وہ ہمارا قدیم اور بہت ہی وقیع سرمایہ ہے۔ہماری ادبی تاریخ خسرو کے مشکوک اور مشتبہ کلام سے نہیں شروع ہوتی ۔ یہ ایک مغالطہ ہے ان کے اردو کلام کے وجود کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے برخلاف انہی کے معاصر ملاداؤد کا کلام معتبر اور تحقیق شدہ ہے ۔ اس عہد کے مخطوطات کی موجودگی سے اس متن کی صحت میں کوئی شک نہیں رہتا۔ ہماری بدتوفیقی تھی کہ اردو کو صاف و شستہ اور شہری زبان بنانے کے شوقِ بے جا میں انھیں تسلیم کرنے سے گریز کیا گیا۔ ”
مرتب کا بیان قابل نظر انداز نہیں بلکہ قابل غور ہے ۔ ڈاکٹر عبدالحق نے اپنے انتخاب کو تاریخی تسلسل سے ترتیب دیا ہے اور اس کا آغاز ملا داؤد کے نعتیہ کلام بعنوان ‘مثنوی چندائن’ سے کیا ہے :
پرش ایک سر جس اجیارا
ناؤں محمد جگت پیارا
انتخاب میں اٹھاون شعرا کے نعتیہ کلام کو تاریخ واراس طرح ترتیب دیا ہے کہ شاعر کے نام کی ذیل میں معلوم تاریخ پیدائش و وفات مع ماخذِ کلام اور عنوان نعتیہ کلام درج ہے ۔مثلا:
ولی دکنی
(۱۶۶۸ء ۔ ۱۷۰۷ء)
کلیات ولی
در نعت حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم
بعض شعرا کی تاریخ پیدائش یا وفات مشکوک ہے یا معلوم نہیں ، ایسی صورتحال میں معلوم کوائف ہی درج کیے ہیں۔ مثلا:
ملاداؤد
(ولادت ۱۲۸۶ء)
انتخاب "بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم”دو پہلوؤں سے قارئین بالخصوص طلبا کے لیے کارگر ہے ۔ اول و اہم پہلو صنف نعت میں وقت کے ساتھ ساتھ ہئیتی و موضوعاتی ارتقا ہے۔ تیرھویں صدی سے اکیسویں صدی تک اردو زبان نے خوب ارتقائی سفر کیا ۔ اس سفر کے نقوش کا مطالعہ مذکورہ انتخاب کے توسط بالتخصیص نعت کیا جاسکتا ہے ۔ "بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم”کی روشنی میں دیکھا جائے تو نعت کے ابتدائی نقوش مثنوی ہئیت میں اور قدیم ناپختہ زبان کی صورت نظر آتے ہیں۔ مثلا ملاداؤد کی مثنوی ‘چندائن’ ، فخرالدین نظامی کی مثنوی ‘کدم راؤ پدم راؤ’، محمد فخرالدین ابن نشاطی کی مثنوی ‘ پھول بن’ وغیرہ ۔ ان سب کی ہئیت و زبان اپنے اندر خوب دلچسپی لیے ہوئے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے بھی نعت میں دلچسپ ارتقا سامنے آتا ہے ۔ اس ارتقا کی طرف ‘تقدیم’ میں ڈاکٹر عبد الحق اشارہ کرتے ہیں:
"نعت میں محبت و ارادت کی جگہ مقاصدِ رسالت کے حکیمانہ پیغام کو پیش کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ رحمت عالم کے ساتھ محسن انسانیت پر توجہ دی گئی۔۔۔سیرت پاک کے اس انقلابی پہلو کو نعت میں خاص توجہ دی گئی ۔۔۔گویا نعت نگاری میں کرہ ارض کے معاملات کی ترجمانی نے ایک نئے عنوان کو متعارف کرایا اور ان سلگتے ہوئے مسائل کا شافی علاج دامنِ رسول میں پایا گیا۔ ”
"بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم”چونکہ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے چنندہ شعرا کے نعتیہ کلام کا انتکاب ہے ، اس میں مزید شعرا اور ان کے نعتیہ کلام کا اضافہ کیا جاسکتا ہے ، جس سے اسکالرز کے لیے نعت میں موضوعی ارتقا و ضرورت کی ذیل میں تحقیق کا اہم باب وا ہوتا ہے ۔
"بحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم”کا دوسرا اہم پہلو نصابی ضرورت کی تشفی تکمیل ہے ۔ اردو ادب کی دیگر اصناف مثلا افسانہ ، انشائیہ ، نظم وغیرہ کی نصابی کتب تو موجود ہیں لیکن طلبا اور مدارس نعت کے نصابی مجموعے کی کمی محسوس کرتے رہے ہیں۔نعت کی صنف کو شامل نصاب کرنا از حد اہم ہے لیکن اس سے بھی اہم اس کا نصابی مجموعہ ترتیب دینا ہے تاکہ اس صنف کو جِلا ملے۔ نعت کے نصابی مجموعے کی کمی ایسے اداروں میں زیادہ معلوم ہوتی ہے جہاں اردو ادب کو بطور ثانوی زبان پڑھایا جاتا ہے ، یا جہاں کے طلبا کی مادری زبان اردو نہیں ہے ۔ اس ضمن میں فیروز احمد، ڈائریکٹر نعت ریسرچ سنٹر انڈیا ،لکھتے ہیں:
"نعت کو شامل نصاب کیے جانے کے حوالے سے جب بھی ہماری کسی دانشور سے گفتگو ہوتی تو اس نے سب سے پہلا سوال یہی کیا کہ اس کی تو کوئی نصابی کتاب ہی نہیں جسے ہم شامل نصاب کر کے پڑھیں ، پڑھائیں اور دیگر اصناف ادب کی طرح یہ فن بھی فروغ پا سکے ۔ ”
ٍ مذکورہ دونوں پہلو ڈاکٹر عبد الحق کے انتخاب کی اہمیت پر دال ہیں،جسے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہو گی ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق نے نعت کا جتنا عمدہ انتخاب کیا ہے، مبصر نے اسی انداز میں اس کو سراہا ہے۔ تبصرے سے خود تبصرہ نگار کی نعتِ رسول سے وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ضرورت تھی کہ نعتِ رسولِ کریم کا نہایت ہی عمدہ انتخاب کیا جائے اور پروفیسر صاحب نے اس ضرورت کو احسن طریقے سے پورا کیا ہے۔