’’جگ ہنسائی ‘‘ : ایک تاثر – ڈاکٹر فیضا ن حسن ضیائی
نئی نسل کے تازہ کار لکھنے والوں میں احسن ایوبی اپنی طرف متوجہ کرنے میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں احسن ایوبی کی تحریریں ملک کے موقر مجلات میں شامل ہوتی رہی ہیں ۔موصوف ہندی فکشن سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں وقتاً فوقتاً معاصر ہندی افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرتے رہے ہیں ۔قیصر تمکین ان کے مطالعے کا اہم نتیجہ ثابت ہوئے ہیں ۔جس کا ثبوت ’’ جگ ہنسائی‘‘اور گومتی سے ٹیمز تک‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔’جگ ہنسائی‘ قیصر تمکین کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۵۷ء میں بار اول منظر عام پر آیا تھا۔لیکن افسوس ،کہ وقت اور زمانے کی گرد نے اسے قارئین کی نظروں سے اوجھل کر دیا ۔نتیجتاً یہ کتاب ہندوستان کی نمائندہ لائبریریوں میں بھی محفوظ نہ رہ سکی ۔محب گرامی احسن ایوبی نے بڑی محنت و مشقت اور عرق ریزی سے اس کتا ب کے اصل نسخے تک رسائی حاصل کی ہے اور اسے نئے رنگ و آہنگ اور وقیع تقدیم کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے ۔
’’ جگ ہنسائی ‘‘ پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے ۔اور بحیثیت افسانہ نگار قیصر تمکین کی تحریروں سے یہ پہلی ملاقات ہے ۔اس مجموعے کی کہانیوں میں زندگی کی کڑوی سچائی ،معاشرے اور سماج میں پھیلی ہوئی بد عنوانیو ں اور دکھتی رگوں پر انگلی رکھنے کا عمل نظر آتا ہے۔خزاںکاپھول،بڑی آن والے،رشتے کی تلاش ،جگ ہنسائی ،ایک لڑکی ایک سماج اور ’لٹ چکے کارواں میں آپ اس کیفیات کو محسوس کر سکتے ہیں ۔اس مجموعے کا پہلا افسانہ ’’ ’’خزاں کا پھول ‘‘ہے جن میں رومانی فضا کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ علاقے کی ایک حقیقی تصویر بھی ہے جس سے ایک مخصوص طبقہ متاثر ہوتا رہا ہے ۔اس خوف زدہ ماحول میں سرکاری بابوئوں کی لا پرواہی اور بے توجہی کی بھی پردہ کشائی کی گئی ہے ۔لیکن بظاہر رومانیت کی فضا حاوی نظر آتی ہے ۔افسانے کا مرکزی کردار ’ندیم‘ زمانہ طالب علمی میں جس لڑکی کے لئے جذبہ محبت رکھتاہے وہ بس دل کے نہا خانے میں ایک وقتی پھول بن کر رہ جاتے ہیں ۔لیکن وقت جب انہیں دوبارہ رو برو کرتا ہے تو ندیم کے ذہن و دل میں ابھرنے والی وہ لا علاج دیوانگی کا احساس اس کے ویران دل میں بہار لے آتا ہے ۔بقول افسانہ نگار۔
’’ خزاں کا پھول ۔۔۔آہستگی سے ندیم نے کہا اور سوچنے لگا کہ آج پورے تین سال بعد اس نے بزمو کو دیکھا تھا ۔اس کے
ہونٹوں پر وہی دلآویز مسکراہٹ اب بھی کھیل رہی تھی ۔اس وقت اس کی گہری اور سیاہ آنکھیں بند تھیں ۔وہ بے ترتیبی اور پریشانی کے
عالم میں ایک ہلکی سرخ شال اوڑھے آرام سے کرسی پر سو رہی تھی ۔۔۔۔آج بزمواس کے سامنے محو خواب تھی ۔‘‘(جگ ہنسائی، قیصر تمکین۔مرتب احسن ایوبی۔ایڈیشن۲۰۲۱ء ص ۲۸)
ان دونوں کی ملاقات اس وقت ہوتی ہے جب ندیم سیلابی خطرات سے متاثربستی میں بحیثیت رپورٹر بھیجا جا تا ہے ۔جہاں بزمواور اس کا شوہر بھی محکمہ آب کا ری کی جانب سے تعینات رہتے ہیں۔افسانے کاا ختتام یو ں ہے کہ ندیم سیلاب کی خوفزدہ لہروں سے بستی اور خاص کر اپنی محبت کو زندہ رکھنا چاہتا ہے ۔اس لیے وہ بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن طوفانی تھپیڑے اسے بہا لے جاتے ہیں۔افسانہ نگار نے ندیم کی موت سے ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
’’ رشتے کی تلاش‘‘ بھی اس مجموعے کی اہم کہانی ہے ۔جس طر ح موجودہ معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کی آزادانہ روی نے شادی کے انتخاب میں خود کو آزاد رکھاہے ۔یہ خیالات نصف صدی قبل ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تھے لیکن افسانے میں نورالصباح کا کردار اپنی پسند و ناپسند کے لیے والدین کی جانب سے آزاد ہے لہذا وہ ایک پڑھے لکھے نوجوان لڑکے سے شادی کے لیے اس لئے انکار کر جاتی ہے کہ وہ مولویانہ خیالات کا پروردہ ہے ۔بظاہر افسانہ نگار نے مولویانہ خیالات پر طنز بھی کیا ہے۔ساتھ ہی معاشرے کی اس صورت حال کی بھی وضاحت کی ہے جہاں رشتوں کی تلاش میں عورتوں کے ذہن میں مختلف قسم کے غیر ضروری خیالات پنپتے ہیں جس کے نتیجے میں رشتے مجروح ہوتے ہیں اور کئی زندگیا ں متاثر ہوتی نظرآتی ہیں۔
’ایک لڑکی ایک سماج ‘ میںعورتوں کے ساتھ مردوں کی بے مروتی اور اس کی نفسیاتی کشمکش کا کامیاب اظہار ہے ۔افسانے میںظہیرہ کا کردارحالات کی ستم ظریفی کا شکار ہے ۔وہ پڑھ لکھ کر ایک کامیاب زندگی کا خواب دیکھتی ہے لیکن اس راہ میں بے شمار نشیب و فراز اسے کمزور بنا دیتے ہیں اور جب وہ کمیونسٹ لڑکی پدما کے ساتھ کالج میںسسٹم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو اسے فائنل امتحان میں پروموٹ کر دیا جاتا ہے اور اس کے وظیفے پر بھی پابندی عائد کر دی جاتی ہے ۔اپنے گھر کی خستہ حالی اور بوڑھی ماں کی بلکتی آنکھیں اسے حالاات سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور اس پیچ دار گتھی کو سلجھانے کی خاطروہ منیجر کے یہاںجانے کا ارادہ کرتی ہے ۔جہاں منیجر جبراً اسے اپنی ہوس کی آنچ میں جھونک دیتا ہے۔لیکن اس کے اندر انتقامی شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور وہ موقع دیکھ کر منیجر کا خون کر بیٹھتی ہے ۔بے ہوشی اور بے کیفی کے عالم میںنکلتے ہوئے اس کی ملاقات مہیش سے ہوتی ہے ۔مہیش اس کے نڈھال جسم کی کیفیت دیکھ کر اس حادثے سے آشنا ہو جاتا ہے اور کسی طرح اسے گھر پہنچاتا ہے لیکن اپنے اندر کی حیوانیت پر وہ قابو نہیں رکھ پاتا ۔اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتاہے۔:
’’زندگی میںیہ پہلی لڑکی تھی جس سے اس نے محبت کی تھی ۔جس کو اس نے چاہا تھا اور جس کے کردار سے وہ بری طرح متاثر ہوا تھا ۔
اور آج اس کے سامنے اس طرح پڑی تھی ،کوٹھے کا دروازہ اندر سے بند تھا ۔اس لیے رمیش دیر تک کھڑا رہا پھر اس نے میز کے گرد
ٹوٹی ہوئی کرسیاں اکھٹا کیں ۔ان پرلالٹین کا تیل چھڑکا اور ماچس دکھادی۔جب وہ بھاگ کر جا رہا تھا تو ظہیرہ کے گھر سے شعلے بلند
ہو رہے تھے ۔‘‘(جگ ہنسائی ، قیصر تمکین۔مرتب احسن ایوبی۔ایڈیشن۲۰۲۱ء ص ۔۱۲۲)
قیصر تمکین نے اس کردار کے ذریعے سماج کی بے رحم سچائی کو اجاگر کیا ہے اور مرد معاشرے کی ایک محدود فکر پر طنز بھی ۔سماج کی ہوسناکی اور ایک لڑکی کی بے بسی کی یہ کہانی سماج کو آئینہ دکھاتی ہے ۔ظہیرہ کا کردار آبرو لٹنے کے باوجود قاری کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
قیصر تمکین نے معاشرے اور فرد کی زخمی روح کا مطالعہ مختلف زاویوں اور جہات سے کیا ہے ’لٹ چکے کارواں ‘ کا قصہ بھی اسی قسم کا آئینہ خانہ ہے ۔کہانی کا مرکزی کردار اظہر قداوئی کے ذہن میں شعور و لاشعور کی مختلف لہر یں بیک وقت چلتی رہتی ہیں ۔وہ دل ہی دل میں ناہید سے محبت کرتا ہے ۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ ناہید کے لئے تحئفہ محبت بھیجتا ہے اور اس کی غائبانہ مدد بھی کرتاہے ۔لیکن اس کے دل و دماغ میں عشق کی Realityصرف اور صرف ظاہری حسن ہے ۔لہذا جب ناہید سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر اس کے چہرے کی صباحت اور ایک آنکھ کی روشنی جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں تو وہ ایک انجانی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے ۔اور بے غیرتی کا مظاہرہ کر بیٹھتا ہے ۔بقول مصنف۔:
’’ شام کو اظہر نے اسپتال میںفون سے معلوم کیا۔پتہ چلا کہ ناہید کے چہرے کا ایک حصہ بہت ہی خراب ہو گیا ہے ۔آنکھ کے ضائع ہوجانے
کا خطرہ ہے ۔اس کے چہرے کی صباحت اور ہونٹوں کا امرت زہر بن چکا ہے ۔۔۔۔ازہر قدوائی نے تمام حال معلوم ہونے کے بعد بینک
کو چٹھی بھیج دی جس کے ذریعے سے اس نے بینک کو چیک کی رقم ادا کیے جانے کے لیے منع کر دیا ۔‘‘(جگ ہنسائی ، قیصر تمکین۔مرتب احسن ایوبی۔ایڈیشن۲۰۲۱ء ص۔۱۳۰)
قیصر تمکین کے افسانوی موضوعات آج کے مسائل و معاملات کی عکاسی کرتے ہیں ۔مجموعے کی دیگر کہانیوں میں مڈل کلاس کے احساس کمتری و محرومی،سماجی ناانصافی ،محبت کی ناکامی،انسانی رشتوںمیں اعتبارو بے اعتباری کی کشمکش ،تقسیم ہند کے بعد پیدا شدہ مسائل کی عکاسی کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل پر یہ ابتدائی دور کی کہانیاں قارئین کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔موضوعات کی پیش کش میں قیصر تمکین نے سیدھے سادے پلاٹ پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔واقعات میںتسلسل کو قائم رکھتے ہوئے حیات انسانی کے مختلف مناظر کو سادے بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے ۔
کرداروں کی پیش کش میں ترقی پسندی کاجو Patternتھا مثلاً ،افسانوں میں کردار کا باقاعدہ تعارف ،اس کانام ،خاندانی پس منظر،اس کا ماحول ،اس کی شکل و صورت اور اس کی عادت وفطرت کی تفصیل بیان کی جاتی تھی ۔گویا کردار قاری کے سامنے کھل کر سامنے آتے تھے ۔قیصر تمکین کے افسانوں میں بھی کردار سازی کا یہ عمل اپنے عہد کے رجحانا ت کی عکاسی کرتا ہے ۔
قیصر تمکین نے یہ افسانے اپنی ٹین ایج میں تخلیق کیے تھے ۔لیکن زبان و بیان ،فنی ٹریٹمینٹ،جملوں کی ساخت اور مافی الضمیرکی پیش کش میں کہیں ان کی عمر کا کچاپن ظاہر نہیں ہوتا ۔انہوں نے اپنے خیالات اور جذبے کے اظہار کے لیے جو راہ اختیار کی تھی اس راہ میں قاری کو کسی قسم کی الجھن بھی محسوس نہیں ہوتی۔لیکن یہ بات بھی اہم معلوم ہوتی ہے کہ یہ ابتدائی دورکے افسانے ان کے بعد کے افسانوں کے اسلوبیاتی پس منظر میں ذرا پھیکے پن کا احساس دلاتے ہیں ۔
واضح ہو کہ قیصر تمکین نے اپنا اولین افسانہ ۱۹۴۹ میں لکھا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب افسانوی دنیا میں منٹو،کرشن چندر،بیدی،عصمت،اوپیندر ناتھ اشک،احمد ندیم قاسمی،علی عباس حسینی وغیرہ جیسے باشعور افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے آسمان ادب پر آفتاب و ماہتاب کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔اس دور میں ریفوجی لائف ،تقسیم ہند ،جنسی بے راہ روی،سیاسی اتحصال پسندی،آمرانہ ماحول و معاشرت کی فرسودگی وٖغیرہ کوعام طور پر افسانوں کا موضوع بنایا جاتا تھا اور ایک خاص فلسفیانہ نظریہ ادب و زندگی کے تحت مسائل کو اجتماعی تناظر میں پیش کرنے کا رجحان عام تھا ۔ساتھ ہی منصوبہ بند طریقے سے کمزور پسماندہ اور استحصال کا شکار ہونے والے طبقے کی حمایت کو بھی ایک لازمہ فن کی حیثیت بخشی جاتی تھی جس کا نتیجہ کبھی کبھی سنسنی خیزی کی صورت اختیار کر لیتا تھا ۔قیصر تمکین نے ایسے ہی ماحول میں اپنی فنکاری کا آغاز کیا ۔ظاہر ہے فکر وبیان کی اس یکسانیت سے قیصر تمکین کا ذہن بھی بیزار ہوا ہوگا۔لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو افسانے کو فکر وفن کے اکتا دینے والے ماحول سے باہر نکالنے کے لیے قیصر تمکین نے اپنے تخلیقی ذہن کو بے حد فعال و متحرک رکھا ہے جس کے طفیل اردو کے افسانوی ادب میں ایسے افسانوں کا اضافہ ہوا ہے جن میں فکر و اظہا کی انوکھی دنیا آباد ہے ۔قیصر تمکین کے افسانوں کا یہ سرسری مطالعہ باور کراتاہے کہ انہوںنے اپنا جو سرمایہ فن ہمیں سونپا ہے وہ فکرو فن ہر دوصورتوں سے ناقابل فراموش ادبی اہمیت کا حامل ہے ۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر فیضا ن حسن ضیائی ، محلہ بارہدری، سہسرام (بہار)
(76318-87356)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |