پٹنہ، ۹؍ جون: اردو کے مایۂ ناز شاعر، ناقد، صحافی اور ہردل عزیز سیاسی رہنما پروفیسر اسلم آزاد سرکاری اعزاز کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں مولانگر (سیتامڑھی) میں سپرد خاک کر دیے گئے۔ نماز جنازہ مشہور عالم دین مولانا سعید احمد نے پڑھائی۔ ہزاروں سوگوار لوگوں نے ۸؍ جون کو ۹ بجے شب پرنم آنکھوں سے اپنے محبوب رہنما کو الوداع کہا۔
۸؍ جون کو ۱۱؍ بجے دن میں پٹنہ ایمس میں ان کا ۷۲ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے بھانجے پروفیسر ابوبکر رضوی نے بتایا کہ آپ کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ایک مقبول استاد ، اردو اور مسلم مسائل کے لیے وقف ان کی شخصیت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ پروفیسر اسلم آزاد کے شاگردِ عزیز پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ وہ میرے مشفق استاد تھے اور انھوں نے مجھے طالب علمی کے زمانے سے لے کر آخری وقت تک عزیز رکھا۔ اکثر کوئی مضمون شائع ہوتا تو فون کرکے مبارکباد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کی شخصیت میں محبت، انکسار اور خلوص بھرا ہوا تھا۔ فکشن تنقید کے حوالے سے ان کی خدمات کو ادبی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج ان کے چلے جانے سے ایک خلا کا احساس ہورہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور متعلقین کو صبر جمیل دے۔ ڈاکٹر خالد مبشر، اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے کہا کہ بہار کے ادبی و سیاسی منظر نامے پر ان کا نام نمایاں ہے اور زبان و ادب کے فروغ میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پروفیسر اسلم آزاد کو طالب علمی کے زمانے سے شعر و ادب سے گہرا شغف تھا۔ گریجویشن کے زمانے میں ہی انھوں نے مولانگر سے ایک ادبی رسالہ ’’شباب‘‘ نکالا۔ جناب رضا نقوی واہی کی ایما پر انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہیں سے ایم۔ اے اور پروفیسر اختر اورینوی کی نگرانی میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں پٹنہ یونیورسٹی میں لکچرر بحال ہوئے اور اردو میں سب سے کم عمر یونیورسٹی پروفیسر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ ایک طویل عرصے تک پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو اور ڈین فیکلٹی آف ہیومنیٹیز رہے۔ ۲۰۰۶ء میں بہار قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور کونسل میں جنتا دل یو کے ڈپٹی لیڈر مقرر ہوئے۔ بہار قانون ساز کونسل سے شائع ہونے والے خبرنامہ اور رسالہ ترجمان کے مدیر بھی رہے۔ انھوں نے تقریباً ایک درجن کتابیں لکھیں اور ہند و پاک کے موقر جرائد میں مسلسل ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ ’اردو ناول آزادی کے بعد‘، ’قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری‘، ’عزیز احمد بحیثیت ناول نگار‘، ’اردو کے غیر مسلم شعرا‘ اور شعری مجموعے ’نشاطِ کرب‘، ’مختلف‘ اور ’ریت پر اک نام‘ ان کی اہم تصانیف ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف تعلیمی اور سیاسی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود خاکساری، اخلاق اور غریب پروری ان کی ذات کا اٹوٹ حصہ رہی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page