ہندوستان کے سیاسی، سماجی، تعلیمی، مذہبی، صحافتی اور ادبی منظر نامے پر مولانا ابوالکلام آزاد ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کے فکر وعمل کی دنیا بے نظیر ہے. بحیثیت مجاہد آزادی ان کی جدوجہد ناقابل فراموش اور ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے ان کی خدمات لائق تحسین ہیں. وہ میدان صحافت میں ایک بےخوف صحافی اور مفسر قرآن کی حیثیت سےایک پر وقار عالم دین ہیں. تعلیمی محاذ پر وہ ترقی پسندانہ نظریات کے علمبردار اور بطور انشا پرداز ایک عظیم ادب نواز ہیں. اور بلاشبہ جہان خطابت کے وہ شہنشاہ ہیں. گویا مولانا ابوالکلام آزاد ایک ایسے کثیرالجہات شخصیت کا نام ہے جو ایک مدبر سیاست داں، عظیم مجاہد آزادی، نڈر صحافی، عالم و فاضل، ممتاز ادیب، مفسر قرآن مجید، شعلہ بیان مقرر اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے منفرد مقام پر فائز رہے. ان کی پیدائش مکہ منورہ میں 11نومبر 1888 عیسوی اور وفات 22نومبر 1958 عیسوی کو دہلی میں ہوئی.
ہندوستانی قومی تحریک کو پروان چڑھانے نیز قومی یکجہتی اوربین المذاہب ہم آہنگی کو اپنے فکر وعمل سے منور کرنے والے رہنماؤں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے.
مولانا آزاد کا نظریہ تکثیریت اور قومی یکجہتی دراصل ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں.واضح ہو کہ مختلف ثقافتوں، تہذیبوں، عادات واطوار اور رویوں کا ایک وحدت میں ضم ہونے کو تکثیریت کہا جاتا ہے جبکہ مشترکہ امور اور مسائل میں ملک کے تمام مذہبی اور قومی اکایئوں کا مشترکہ اور متحدہ طور پر جدوجہد اور باہمی تعاون کے نظریہ کو قومی یکجہتی سے تعبیر کیا جاتا ہے. گویا تہذیبی ہم آہنگی قومی یکجہتی کی روح ہے. اور ہندوستان میں تہذیبی ہم آہنگی کی شاندار روایت اور اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے. تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں ایک طرف ایرانی، یونانی، تاتاری، ترکی، عربی وغیرہ اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ہندوستان آئے اور ہندوستان کی تہذیب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے. وہیں دوسری طرف ہندوستانی تہذیب نے بھی اپنے وسیع دامن سے ہر تہذیب کا خیرمقدم کیا اور مختلف تہذیبوں کو اپنے اندر سمو لیا اور اس طرح ایک مخلوط تہذیب بن کر ابھری. یہی باہمی تہذیبی اور ثقافتی لین دین ہندوستان کی قومی یکجہتی کے وہ عناصر ہیں جو کثرت میں وحدت کا پیغام دیتے ہیں. اور جس کی بنیاد میں تثکیری نظریات کی رنگا رنگی دکھائی دیتی ہے.
نظریہ تکثیریت اور قومی یکجہتی کے مآخذ اور معنی و مفہوم سےیہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اتحاد و سالمیت اور اشتراک و اجتماعیت کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایسی قدریں ہیں کہ بغیر ان کے ایک صالح اور پرامن معاشرے کا تصور ناممکن ہے.اس اعتبار سے جب ہم مولانا آزاد کے نظریہ تکثیریت کی کسوٹی پر قومی یکجہتی کو سمجھنے کی طرف قدم بڑھاتے تو ان کے فکر وعمل کی ایک ایسی دنیا آباد دکھائی دیتی ہے جس کے چاروں اطراف میں مذہبی قدروں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا جذبہ قومی یکجہتی کو متوازن بنانے میں مصروف دکھائی دیتا ہے. لہٰذا اپنی زندگی کے آخری سانس تک دونوں قوموں کو متحد کرنے کے لئے کوشاں رہے. دراصل ان کے خوابوں کے ہندوستان میں مذہبی جنون اور ذات پات کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی. سیاسی منظر نامے میں ابھرنے کے بعد مولانا آزاد نے بیشتر موقع پر اپنے اس امر کا اظہار ببانگ دہل کیا. ان کی تقریروں اورتحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے نظریہ تکثیریت اور قومی یکجہتی کے اپنے نظریے کی پرورش ہندوستان کی اس مشترکہ تہذیب کی گود میں کی تھی جو ہندو اور مسلمان دونوں ہی قوموں کے باہمی اشتراک، آپسی بھائ چارگی، رواداری اور وسیع المشربی جیسے اعلیٰ اور ارفع اقدار حیات کے رنگ اور امنگ سے بھری ہوئی تھی. لہٰذا انہوں نے ہندوستان کی عوام کے سامنے قومی یکجہتی کی تشریح کرتے ہوئے انہیں ایک قوم سے تعبیر کیا اور تاریخی واقعات اور شواہد کی بنیاد پر ایک قوم کے نظریات کو واضح کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کیا کہ ہندو یا مسلمان ہونے کا تعلق عقیدے سے ہے تاہم مذہب اور عقیدے سے الگ ہندوستان کے جغرافیائی حدود میں بسنے والے ہندو اور مسلمان دراصل ایک قوم ہیں. مولانا آزاد کا خیال تھا کہ مذہب قومیت کے تصور میں رکاوٹیں نہیں ڈالتا بلکہ مذہب انسان کے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرتے ہیں اور انسان دوستی اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں لہٰذا 25 اکتوبر 1921 میں مجلس خلافت آگرہ کے خطبہ صدارت میں مسلمانوں کو یہ پیغام دیا "میرا عقیدہ ہے کہ ہندوستان میں ہندوستان کے مسلمان اپنے بہترین فرائض انجام نہیں دے سکتے جب تک وہ احکام اسلامیہ کے ماتحت ہندوستان کے ہندوؤں سے پوری سچائی کے ساتھ اتحاد و اتفاق نہ کر لیں…. اسی خطبہ صدارت میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ” ہندوستان کے سات کڑور مسلمان ہندوستان کے بائیس کڑوڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہو جائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی ایک قوم اور نیشن ہو جائیں ” 1940 عیسوی میں جب وہ دوسری بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تو رام گڑھ کےخطبہ صدارت میں گزشتہ باتوں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا
"ہندوستان کے لئے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کے مختلف نسلوں، مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل ہے. ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی اور پھر ایک کے بعد ایک کا سلسلہ جاری رہا اور اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کے لئے جگہ نکالی… ہماری زبان، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم و رواج، ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں کہ جس پر اس قدر مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ چکی ہو. یہ تمام مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے.”
متحدہ قومیت کی دولت کو بچائے رکھنے کے لئے انہوں نے تمام صعوبتوں کو برداشت کیا. لیکن اپنے اس موقف پرہمیشہ قائم رہے کہ ہندوستان کے تحفظ و ترقی کے لئے ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کا اتحاد ضروی ہے. تاریخ کے صفحات پرسینکڑوں شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ مولانا آزاد کے لئے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب، ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی ایک عقیدے کی حیثیت رکھتا تھا اورکسی قیمت پراس عقیدے سے دستبردار ہوکر زندگی گزارنا انہیں قابل قبول نہیں تھا. اپنے اسی عقیدے اور پختہ عزم و ارادے کی بنا پر انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب مسلم لیگ کی علیحدہ پسند نظریئے کی انہوں نے شدید مخالفت کی. ایک ایسے وقت میں جب قومیت اور ثقافتی شناخت کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا تھا مولانا آزاد نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے موقف کوان الفاظ میں بیان کیا.
"بہ حیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی کلچر کے دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے، لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے. اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی اور اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے. میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں. اور میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا عنصر ہوں. ”
مولانا آزاد نے اپنے ذہن رسا سے اس نکتے کو دریافت کر لیا تھا کہ ایک کثیر مذہبی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں مذہبی اختلافات کسی بھی طرح مفید نہیں ہے اس لئے انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کی پر زور صدا لگائی.اور کہا –
"آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر کر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے، بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائے، تو میں سوراج سے دستبردار ہو جاؤں گا مگر اس سے دستبردار نہیں ہوں گا. کیونکہ سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا. ”
آزادی کے ساتھ ملک میں جس طرح قتل وغارت گری اور تہذیبی اور سماجی بحران کا بازار گرم رہا، مولانا آزاد نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے اسے ختم کرنے کی حت المقدور کوشش کی. دلی کی جامع مسجد میں دیا گیا ان کا تاریخی خطبہ ہندوستان کی قومی یکجہتی کو نیا رنگ و آہنگ عطا کرتا ہے.جامع مسجد دہلی سے 1947 میں کی گئی تقریر میں انہوں نے کہا "ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیات معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے. اس کو چھوڑو.آؤ عہد کریں کہ یہ ملک ہمارا ہے. ہم اس کے لئے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے ” آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندوستان کی قومی یکجہتی اور بین المذاہب قدروں کی معنویت اور اس کی پاسداری کے بنیادی نکات کو سمجھنے کے لئے ان کی یہ تقریر نہ صرف دو قومی نظریے کی نفی کرتی ہے بلکہ یہ تصور بھی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ قومی یکجہتی کے لئے انہوں نے اپنی ذات کو مکمل طور مختص کر دیا تھا.
آج اس پرآشوب دور میں جبکہ گنگا جمنی تہذیب کو زبردست خطرہ لاحق ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مولانا آزاد کی تعلیمات کو عام کرنے اور ان سے سبق حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے.
ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اردو
ملت کالج ،دربھنگہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page