جاندار مخلوقات میں حرکت وعمل کے لیے کلیدی حیثیت؛حواس کا ہے۔تاہم انسانی حواس میں، قدرت نے بیداری کی شدت عطا کی ہے اور آدمی کے پانچوں حواس ہمہ دم متحرک رہتے ہیں جس کے طفیل تمام مخلوقات میں انسان افضل قرار پاتا ہے۔لہٰذا اپنی وسیع النظری، پاکیزہ قلبی اور ترحمات کے ساتھ انفرادی کام انجام دینے والے افراد کشش کے باعث ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو قبولیتِ عام حاصل ہوجاتی ہے۔ ایسے افراد کی شخصیت، ان کے معاملات، ان سے وابستہ واقعات؛ دوسرے فرد اور معاشرے کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ان کی فعالیت اور ان کی شخصیت کے افادی پہلو میں مقناطیسی کشش ہوتی ہے، اس لیے ان سے قربت اختیارکرنے والے اثرپذیر ہوجاتے ہیں اور ان کی یادیں ذہن میں کلبلاتی رہتی ہیں۔لہٰذا ہمہ وقت نہیں تو خا ص خاص مواقع پر ان کے تصورات ضرور سر اُٹھاتے ہیں کیوںکہ ان سے متعلقہ امور قابلِ تقلید ہوتے ہیں اور ان کے مشورے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ اس لیے ان سے استفادہ کی سبیل نکلتی ہے۔انھیں میں ایک نام احمد جمال پاشا کا بھی ہے جن کی قربت اور ان کے پند و نصائح نے میری زندگی کو ایک نئی دنیا (علمی و ادبی) سے آشنا کرایا، نئی سمت و رفتار عطا کی جس سے سفرِ زندگی بامعنیٰ بنی اور اس میں خوشگواری آئی۔ان کے مشورے اور فکر و عمل، میرے لیے مشعلِ راہ بنے۔لہٰذا ان کی یادوں سے مفر ممکن نہیں!حالاںکہ جب بھی شدت سے ان کی یاد آتی ہے،جہاں بھی ہوتا ہوں؛فاتحہ خوانی سے دل کو تسکین کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں ۲۹؍ستمبر ۱۹۸۷ء کو سیوان میں پاشا صاحب کی تجہیز و تکفین کے بعد ایک تاثراتی خاکہ ’’اب ’ان‘ کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ تحریر کرکے اپنی ہیجانی کیفیت کو معتدل کیا جو ’’نیا دَور‘‘لکھنؤ کے ’’یادِ رفتگاں نمبر‘‘۱۹۸۸ء میں طبع ہواہے۔
دینیات اور اخلاقیات کے عالموں اور دانشوروں کا خیال ہے کہ بزرگوں خصوصاً تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ لوگوں کی صحبت اختیارکریں۔ان کی نصیحتوں پر عمل پیراہونے سے کامیابی نصیب ہوتی ہے اور معاشرہ میں امن وامان قائم ہوتاہے۔اس امر کو میں نے صحیح جانا اور سمجھا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کم عمری سے ہی بڑے بزرگوں سے میرا ربط ضبط پیدا ہوگیا اور میری انجذابی فطرت نے ان کی مثبت فکر اور تعمیری عمل کے اثرات کو قبول کیا۔میرے گاؤں ٹولہ ہردیاں، بڑہریا، سیوان کے بڑے بزرگوں کے ساتھ گرد ونواح کے ایسے افراد سے تعلقِ خاطر پیدا ہوگیا اور استفادے کیے جو خصوصی صفات کے حامل تھے۔ مثلاً گاؤں کے مولوی سعید صاحب جو عالم و فاضل نہیں تھے لیکن دینی کتابوں سے ان کو گہرا شغف تھا۔ گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھاتے۔ وضو اور نماز کی ادائیگی میں انہماک تھا۔ رسم ورواج سے گریز کرتے۔ اسلامی شعائر اور دینِ اسلام کے احکام پر عمل کرتے تھے۔ جلسہ جلوس میں تقریر کے بجائے اپنے عمل، نرم گفتاری اور سادگی سے متاثر کرتے۔لہٰذا ان سے روزانہ میری گھنٹوں گفتگو ہوا کرتی تھی۔اسی طرح محمد عمر صاحب، علمی و ادبی کتابوں کے شوقین، اردو اخبار کا پابندی سے مطالعہ اور اس پر تبادلۂ خیال، ان کا معمول رہاہے۔اخباربینی کا شوق اس قدر کے عید کے دن ۳؍مئی ۲۰۲۲ء کو دیکھا کہ علی الصباح کربلا چوک سے ہاتھ میں اخبار لیے گھر جارہے ہیں۔پڑوسی گاؤں کے ایک مولوی حسن صاحب کو شعر و ادب سے گہرا شغف تھا اور بڑی دلچسپ گفتگو کیا کرتے تھے۔ میری نوعمری کے دَور میں گویاں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی تک گاؤں میں علم کی توسیع اتنی نہیں ہوئی تھی جو آج دیکھنے کو مل رہی ہے اور تفریح کے ذرائع بھی محدود تھے۔گاؤں، دیہات کی شادیوں میں بارات شام کو نکلتی اور دوسرے دن شام تک واپس لوٹتی۔بیل گاڑیوںکی جگہ دھیرے دھیرے موٹر گاڑیاں لے رہی تھیں۔ زمیندار اور بڑے کاشتکار گھرانوںمیں مرجات(ہندی لفظ ’مریادا‘ سے بنا ہے) کا رواج بھی تھا(خصوصاً غیرمسلم گھرانوںمیں)۔یعنی دو شب بارات کو قیام کرانے کا چلن تھا۔ اس صورتِ حال میں لازمی طور پر باراتیوں کے لیے تفریح کا اہتمام ہوا کرتا تھا جس میں ناچ اور قوالی کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ عام طور پر مسلمانوںکی بارات میں قوالی اور غیرمسلم برادری میں ناچ اور ناٹک پارٹی کو مدعو کیا جاتا تھا۔ بلاشبہ اس دَور میں اردو زبان کے فروغ میں قوالی نے اہم کردار نبھایا ہے۔ایک بار ایک دوست کی بہن کی شادی میں شریک ہونے گیا تھا تو دیکھا کہ حسن صاحب (غالباً ان کا نام محمد حسن تھا اور مولوی حسن کے نام سے جانے جاتے تھے)ناچ والے شامیانہ سے نکل رہے ہیں۔میں نے سلام کے ساتھ سوال کیا۔’’آپ یہاں ناچ والے شامیانہ میں؟‘‘ان کا جواب تھا۔’’ہاں! کان میں آواز پڑی تو اصلاحی نظر سے ناچ دیکھنے چلے آئے۔‘‘اس کا مطلب کے جواب میں انھوںنے فرمایا۔’’شادی کے موقع پر اس کو شادیانہ گانا چاہیے تو وہ مرثیہ سنا رہاہے۔‘‘ بہار میں ناچ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ ناچ میں چوپاٹ(ناٹک) ہوا کرتے تھے۔ اس سے عام عوام میں بیداری پھیل رہی تھی۔ناچ منڈلی میں ایک دو جوکر ہواکرتے تھے جو حکمراں اور سماج کی برائیوںکو مزاحیہ انداز میں ہدف بناتے تھے۔بھکاری ٹھاکر جو اپنی ناچ پارٹی چلاتے تھے جس میںاپنے لکھے ہوئے گیت اور ناٹک کے ذریعے انگریزی حکومت کی کارستانیوں کو ہدف بناتے تھے، علاقہ میں بہت مقبول تھے۔ ان کے ناٹکوں اور گیتوں کی گونج آزادی کے بعد بھی سنائی دے رہی تھی لہٰذا بھکاری ٹھاکر پر پی ایچ۔ڈی۔کی ڈگری بہار یونیورسٹی مظفرپور سے ایک ریسرچ اسکالر کو تفویض ہوئی ہے۔
مذکورہ باتیں موضوع کے اعتبار سے غیرضروری معلوم ہوتی ہیں تاہم شعر و ادب کی خُو رکھنے والے افراد میں بچپن کے معاملات، واقعات اور یادیں کردار سازی کے اہم عناصر ثابت ہوتی ہیں اور شخصیت کی تشکیل میں مثبت فکر والی باتیں راہ پانے لگتی ہیں جس سے علمی و ادبی جراثیم کی نمو کا امکان بڑھ جاتاہے۔اس کا احساس اس وقت نہیںہوتا لیکن جیسے جیسے علمی و ادبی صلاحیت افزوں ہوتی ہے۔معاشرتی شعور بیدار ہوتاہے تب یہ احساس ہوتاہے کہ شعر و ادب فرد اور معاشرتی زندگی کی فکر و عمل سے کشید ایک علمی تحفہ ہے جو معاشرتی زندگی کا عکاس بھی ہے اور رہنما بھی۔اس طرح ادب اور زندگی و معاشرتی نظام لازم وملزوم ہیں، انھیں جداکرکے سمجھا نہیں جاسکتا۔اس تناظر میں بطور مثال مذکورہ افراد کی اہمیت و افادیت محسوس کی جاسکتی ہے۔لہٰذا اس معاشرتی پس منظر میں علم و ادب کا کوئی درخشاں ستارہ نمودار ہوجائے تو انجذابی فطرت کے حامل افراد کا مائل ہونا فطری ہے۔جب احمد جمال پاشا صاحب نے سیوان میں رہائش اختیارکیا اور پھر ’’پاشا اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ قائم کرکے گلشنِ اردو ادب کو سجایا تو زبان و ادب کی چاہت رکھنے والے ان سے رجوع کیے۔وہ کہتے تھے۔’’علم و ادب میں دلچسپی رکھنے والے کا حلقہ نہیں بڑھے گاتو میں کس سے گفتگو کروںگا۔یہاں رہنا محال ہوجائے گا۔‘‘ وہ ملنے والوں میں مطالعۂ کتب کا ذوق پیدا کرتے اور جو بھی اہم کتاب شائع ہوتی، اس کو پاشا صاحب خرید لیا کرتے۔ پہلے خود پڑھتے اور پھر اپنے شاگردوں کو پڑھنے کو دیتے اور اس پر ان کی رائے طلب کرتے۔ شیخ عبد اللہ کی کتاب’’آتشِ چنار‘‘ کو طبع ہوتے ہی انھوں نے خریدلیا تھاجس سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔
اس مضمون کو تحریر کرنے کا مقصد احمد جمال پاشا کی فہم اور ادراک کی ترجمانی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے شاگردوںکو تلقین و رہنمائی کرتے تھے۔ ان کی نصیحتوں اور مشوروں پر عمل کرنے سے ان کی قیاس آرائیاںحقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں۔ ہر موقع پر انھوں نے اپنے وسیع مطالعہ اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کے معاملات اور واقعاتِ زندگی بطور مثال بیان کرتے۔ اپنے حوالے سے بھی انھوںنے بتایا تھا کہ کئی بڑی یونی ورسٹی میں لکچرشب کے لیے انٹرویو دیا لیکن شہرت سے گہن لگ گیا۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے بڑی ضبط و احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس کو ذہن نشیں کرلیں۔ان کے تجربات اور مشوروں کی بنیاد پر لائحہ عمل تیار کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے آج کامیاب نظر آتے ہیں۔
میرا میٹرک کا ریزلٹ ۱۹۷۶ء میں آیا اور میں نے اسی سال زیڈ۔اے۔ اسلامیہ کالج سیوان میں، انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا جس کا قیام غالباً ایک سال قبل ہوا تھا۔اس وقت کے نصاب کے اعتبار سے آرٹس میں دیگر سبجیکٹ کے ساتھ میں نے پرنسپل اردو کا بھی انتخاب کیاتھا، جس کا کلاس محترمہ نشاط افزا صاحبہ لیا کرتی تھیں۔ان کی سریلی آواز کانوںکو بہت بھاتی تھی، پھر معلوم ہوا کہ احمد جمال پاشا صاحب لکھنؤ سے اردو زبان و ادب کے استاد کی حیثیت سے تشریف لارہے ہیں تو بہت خوشی ہوئی کہ مضافاتِ سیوان کے طلباکو بھی لکھنوی طرزِ معاشرت کے ایک نمائندہ استاد سے تحصیلِ علم کا شرف حاصل ہوگا۔حالاں کہ اس وقت ہم طالب علموںکو ان کے علمی و ادبی کارناموں سے واقفیت نہیں تھی۔دلچسپی تھی تو لکھنوی انداز کی دلنواز اور پُرکشش شخصیت کو دیکھنے کی۔چند ماہ بعد پاشا صاحب تشریف لائے بھی اور جیسا میںنے تصور کیا تھا ویسا دیکھا۔متوسط قد کاٹھی کا گورا چٹا سلیقے کا بدن، مسکراتا ہوا چہرہ،نفیس سفاری سوٹ اور سفید کرتا پاجامہ ان پر خوب پھبتا۔ آنکھوں پر ہلکے کتھئی رنگ کا گوگل اور ہاتھ میں کبھی سگریٹ بنانے کی پنّی اور پتّی کا پاؤچ اور کبھی پائپ۔کلاس میں آتے اورکرسی کے بجائے طلبا کے سامنے والے بڑے بینچ پر بیٹھ کر اپنی شگفتہ اور رواں دواں زبان میں، لکچر کے لٹکے جھٹکے سے بے نیاز نصابی کتاب پر اظہارِ خیال کرنے لگتے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ کتنے اہم نکتے کو بالکل سہل انداز میں بیان کردیتے تھے۔اس وقت میڈم کی سریلی آواز کے سامنے پاشا صاحب کی علمی واقعہ بیانی کم متاثر کرتی اور ان کی شخصیت زیادہ۔ایک با رکلاس میں ایک واقعہ بھی ہوگیا تھا۔انھوںنے خواجہ میردردؔ پر گفتگو کرتے ہوئے ایک شعر:
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے کہ جہاں تو سما سکے
کی تشریح کی۔بالکل سیدھے سادے مگر شگفتہ انداز میں۔ میں تھا ابھی گاؤں کا باگڑ بلّا، کھڑے ہوکر سوال کردیا۔’’سر آپ نے شعر کی تشریح کی ہے یا منشی جی کی طرح چٹھی باچھی ہے۔‘‘ میری بات سن کر کچھ نہیں بولے اور میری طرف غور سے دیکھا۔ چہرے پر گوئی ناگواری نہیں تھی۔ایک روز وہ کالج سے رکشا پر لوٹ رہے تھے۔ میں پیدل بس اسٹینڈ کی طرف آرہا تھا۔ پاشا صاحب نے رِکشا رُکواکر اپنے بغل میں بٹھالیا اور میرے تعلق سے باتیں کرتے ہوئے اپنے مکان ’’کوٹھی نشاط افزا‘‘ لے آئے۔پھر اپنی لائبریری میں ایک کرسی پر بٹھاکر اندر چلے گئے۔ میری نظریں چاروں طرف گھور رہی تھیں۔ بڑا سا کمرہ جس کا ایک دروازہ اُتّر کی جانب برآمدے میں کھلتا ہے جس سے گزر کر اندر آئے تھے۔ دوسرا دروازہ ٹھیک ان کے اسٹڈی میز کے پچھم کی طرف جس سے وہ گھر میں داخل ہوئے تھے۔ گول پہل دار کمرے کی ہر پہل میں الماریاں جس میں تین طرف گودریج کی شیلف کتابوں سے سجی بھری اور اُتر کی جانب دیوار سے سٹی دو لکڑیوں کی کابک نماالماریاں جس کے ہر خانہ میں الگ الگ چیزیں،کسی میں قلمی نسخے اور پرانے کاغذ، کسی میں پرانے سکّے تو کسی میں کوڑیاں اور کسی میں مکتوبات وغیرہ ہوتے تھے۔درمیان میں ایک بڑے ٹیبل پر ایک طرف قلم دان، لیٹرپیڈ اور سادے کاغذ اور دوسری طرف فوری دستیاب یا خریدی گئی کتابیں اور مکتوبات، دو تین پیپر ویٹ۔ اسٹڈی ٹیبل کی دونوںجانب نیچے دراز تھے جس میں کچھ نایاب کتابیں، رسائل اور ڈائریاں ہوتیں۔ جب راقم سے شاگرد اور استاد کا رشتہ استوار ہوگیا تو ایک دن ٹیبل کی دراز سے ایک ڈائری دکھاتے ہوئے بتایاکہ ’’یہ فلاں برگزیدہ شخصیت کی ڈائری ہے، اس میں انھوں نے اپنی دل بستگی کا سامان جمع کر رکھا ہے۔چھپاکر پڑھتے ہیں، بڑی ترکیب سے اس کو حاصل کیاہے۔‘‘میں نے اس ڈائری میں دیکھا کہ زٹلیاتِ جعفر کے کچھ اشعار اور اسی نوعیت کے اشعار اس میں درج ہیں۔ اسٹڈی ٹیبل کے پورب کی طرف کھڑکی سے متصل ایک گھومنے والی کرسی(Moving Chair) تھی جس پر وہ بیٹھاکرتے تھے۔ سامنے پچھم کی طرف چار کرسیاں لگتی تھیں اور دکن کی جانب ایک، اور اُتر کی جانب ایک آرام کرسی ہوتی جو بعد میں میری پسند بن گئی تھی، کیوںکہ ادبا و شعرا کے مکتوبات ادھر ہی ہوتے جس کو پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا اور وہاں بیٹھ کر پڑھنے میں سہولت ہوتی تھی۔ ممکن ہے اگلے پچاس برسوں میں اس نوعیت کے کتب خانے عنقا ہوجائیں اور الیکٹرانکس ڈیوائس کا اسٹینڈ اپنی جگہ بنالے۔ خیر یہ سب، اس دن میں دیکھتا رہا اور صرف اتنا سمجھ میں آیا کہ یہ کوئی بہت پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔ بلاشبہ اس وقت تک علمی و ادبی دنیا کا یہ منظر میرے تصور سے پرے تھا۔
گریجویشن، میں نے اُردو آنرس سے کیا اس لیے پاشا صاحب سے قربت بڑھتی گئی۔جب گریجویشن میں فرسٹ کلاس آیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔اپنے ساتھ ’’کوٹھی نشاط افزا‘‘ لے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی۔ پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں داخلہ کے لیے مشورہ دیا اور پروفیسر اسلم آزاد کے نام ایک سفارشی رقعہ بھی عنایت کی جس کو میں نے اسلم صاحب تک پہنچا دیا۔ لیکن بہار یونی ورسٹی، مظفرپور کے صدر شعبۂ اردو، پروفیسر محمد سلیمان صاحب کی تحریر اور دستخط سے داخلہ کرانے کے لیے بذریعہ پوسٹ کارڈ ضروری اطلاع موصول ہوئی اور بروقت میں نے داخلہ بھی لے لیا اس لیے پٹنہ یونی ورسٹی میں سلیکشن ہوا یا نہیں، اس طرف توجہ نہیں دی۔اس واقعہ سے شاگردوں کے تعلق سے پاشا صاحب کے اخلاص اور طرزِ عمل کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
پاشا صاحب اپنے شاگردوں اور دوست و احباب کا بے طرح خیال رکھتے اور ان کے یہاں چھوٹی بڑی تقریبوں میں شرکت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے جب کہ اس دوران میں وہ سہولت اور آسودگی نہیں ملتی تھی اور اپنے معمول سے بھی ان کو سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا۔تکلیفیں اٹھانی پڑتی تھی لیکن انکساری اور مروّت اس قدر تھی کہ جب بھی کوئی تقریب میں شریک ہونے کے لیے مدعو کرتا وہ انکار نہیں کرپاتے۔ابھی میں گریجویشن میں تھا کہ پرنسپل بضاعت امام صاحب کی سسرال؛ صرحیاں، بڑہریا، سیوان؛شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور کہا کہ ’’میں برکات کے یہاں رات میں قیام کروں گا۔‘‘وہاں سے میرے گھر کا فاصلہ تقریباً تین کیلومیٹر ہے۔ صرحیاں میں ہی میرے کلاس ساتھی فیاض احمد، ریاض احمد اور عظیم اللہ موجود تھے۔ ان کے یہاں میرے مقابلے بہتر سہولت دستیاب تھی لیکن وہ کسی کے یہاں شب گزاری کے لیے آمادہ نہیں ہوئے اور رکشا سے میرے گھر آگئے۔اس وقت میرے مکان کی شکل کچھ اور تھی۔ دروازے پر کیمپس نہیں تھا۔ غالباً اس وقت کیمپس بنوانے کا رواج عام نہیںہوا تھا۔ کھلے کھلے سب کے بڑے دروازے ہوتے تھے اور دروازے کی مناسبت سے چھوٹے بڑے پیڑلگے ہوتے۔میرے دروازے پر دو گل مہر اور ایک ناریل کا پیڑ تھا۔ پاشا صاحب کی آمد سے میں بہت خوش ہوا۔ کبھی ان کو اور کبھی اپنے مکان کو دیکھتا۔ غالباً اپریل کا مہینہ تھا۔ گاؤں میں ابھی دور دور تک بجلی کا پتہ نہیں تھا۔میں نے دروازے پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جس سے سوندھی سوندھی خوشبو آنے لگی۔ ایک چوکی ڈال کر بستر لگایا اور مچھردانی لگادی اور بغل میں ایک چارپائی پر اپنا بستر لگایا۔پاشا صاحب بہت خوش ہوئے، کہنے لگے:’’بھئی چاندنی رات میں کھلے آسمان کے نیچے ، گاؤں کا پُرسکون ماحول، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، مزہ آگیا۔‘‘سویرے ضروریات سے فارغ ہوکربرآمدے میں کرسی پر بیٹھ گئے۔ پورب رُخ کا لبِ سڑک میرا مکان ہے۔ صاف ستھرا چمکتا ہوا ان کا چہرہ، پائپ میں سگریٹ کا مسالہ(پتی) ڈالتے، سگریٹ بناتے اور پیتے ہوئے دلکش منظر اُبھرتا جو گاؤں کے لوگوں کے لیے نایاب تھا۔کوئی راہگیر ان کو نظربھرکر دیکھے بغیر نہیں گزرتا۔
۲۳؍ستمبر ۱۹۸۵ء کو حج سے پاشا صاحب کی واپسی ہوئی تھی۔ اس دوران میں میری سگائی ہوگئی تھی جس کی تفصیلات میں نے ان کو بتائی اور ۵؍نومبر۱۹۸۵ء کو شادی کا دن متعین ہونے کی اطلاع بھی دی۔یہ سن کر وہ بہت خوش نہیںہوئے۔ چاہتے تھے کہ میں پہلے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کرلوں، پھر شادی ہو۔ وہ متعدد حضرات کی مثالیں دیتے ہوئے فرماتیـ:’’وہ صاحب جو آج کل کالج میں لکچرار ہیں ، ان کے حالات آپ سے زیادہ خراب تھے۔ فلاں پروفیسر صاحب جن کے پاس آج گاڑی بنگلہ ہے، وہ بہت برے حالات سے گزرے ہیں ۔شادی کی ذمہ داریوں کو ابھی آپ سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔‘‘ جب کہ شادی کے توسط سے میں اپنے کئی مسائل حل کرلینا چاہتا تھا۔بہرکیف! شادی کے موقع سے انھوںنے ایک نثری سہرا ’’باندھ کر آیا ہے لائبریری سے محقق سہرا‘‘ تحریرکیا اور بہ نفسِ نفیس متعین تاریخ پر میرے گھر تشریف لائے۔ گاؤں، علاقہ میں اس وقت کی روایت کے مطابق دعوت کھلاکر بارات نکالی جاتی تھی۔ لہٰذا میرے گھر پر دعوت کا اہتمام تھا۔ پاشا صاحب نے باہر کے کمرے(جس کو ڈرائنگ روم بھی کہہ سکتے ہیں) میں بیٹھ کر اپنا نثری سہرا ریکارڈ کرایا۔غالباً انھوںنے محسوس کرلیا تھا کہ اس طرح کے سہرے سے یہاں کسی کو دلچسپی نہیں ہے تو وہاں کا عالم بھی یہی ہوگا۔ بعد میں سہرا ’’کتاب نما‘‘نئی دہلی اور ’’نقوش‘‘ لاہور میں طبع ہوا۔ اس دن پاشا صاحب بے تحاشہ خوش تھے۔ ساتھ میں بارات گئے۔ باراتیوںمیں ڈاکٹر ظفرکمالی، ڈاکٹر محمود حسن محمود اورڈاکٹر قطب الدین اشرف بھی موجود تھے۔پروفیسر ناز قادری صاحب شادی میں شریک نہیں تھے لیکن انھوںنے سہرا لکھ کر بھیج دیا تھا۔۵؍نومبر ۱۹۸۵ء کو شام کے وقت خانسامہ ٹولہ،ہتھوا، گوپال گنج بارات گئی اور ۶؍نومبر صبح بارات واپس آئی۔ پاشا صاحب اپنی خوشی کا اظہار دلچسپ لطیفے اور چٹکلے سناکر کررہے تھے۔ اس طرح شب بیداری میں سب کی رات گزر گئی۔ اس موقع کی کئی تصویریں موجود ہیں ملاحظہ فرمائیں:۔
میرے مکان کے دروازے پر لی گئی تصویر میں؛ راقم سہرے میں، بغل میں استاذی احمد جمال پاشا اور دائیں طرف بڑے بھائی
محمد نورِعین، ڈاکٹر محمود الحسن محموداور بائیں طرف ڈاکٹر ظفر کمالی اورڈاکٹر قطب اشرف کو دیکھا جاسکتا ہے۔
خانساماں ٹولہ ہتھوا میں نکاح کے وقت لی گئی تصویر
پاشا صاحب کی شخصیت کی مثال درخشاں ستارہ کے بجائے روشن چاند سے دی جاسکتی ہے جس کی میٹھی چاندنی میں سفرِ زندگی طے کرنے والے تازہ دم ہوتے اور سکون پاتے تھے، پھر راہِ منزل پر گامزن ہوتے ۔پٹنہ کے ایک سفر کے دوران ، میں ان کے ہمراہ تھا۔ رکشا سے ہم لوگ سیوان اسٹیشن اُترکر پلیٹ فارم پر گئے۔ اس وقت میں سسرالی تھری پیس سوٹ، جس کو میں نے پٹنہ کے ’لبرٹی ٹیلر‘ کے یہاں سلوایا تھا جو اس وقت کے لیے بڑی بات تھی اس لیے لوگوں میں چرچا کا موضوع بن گیا تھا اور ہاتھ میں اٹیچی لے رکھی تھی۔ پاشا صاحب سفری بیگ کندھے سے لٹکائے ہوئے تھے، میرا ہاتھ پکڑکر کہاـ:’’اتنے عمدہ سوٹ بوٹ میں ہیں اور ہاتھ میں سوٹ کیس اچھا نہیں لگتا، یہ ہم کو دے دیجیے۔‘‘بہرکیف! یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا، سرجھکاکر ٹال گیا، اس سے ان کی عظمت و برتری اور دوسروں کو عزت بخشنے اور ان کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کے جذبے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھوںنے کئی مختلف مواقع پر کئی ایسے واقعے سنائے جس سے دوسروں کی زندگی بہتر بنانے میں ان کی کاوش نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک صاحب کے یہاں گئے۔اچھا مکان اور ایک بڑے کمرے میں کتب خانہ، لیکن کتابیں بے ترتیب۔ ٹیبل پر دھول جمی ہوئی۔ وہ صاحب اندر چائے ناشتہ کے انتظام میں لگ گئے، ادھر پاشا صاحب نے ٹیبل کی صفائی کردی اور کتابوں کو ترتیب سے سجایا۔ جب وہ ناشتہ چائے کے ساتھ آئے تو بہت شرمندہ ہوئے۔ پاشا صاحب نے بتایاکہ پھر ان کی زندگی میں سلیقہ اور کتابوںکو کس ترتیب سے رکھا جاتاہے، اس کا ہنر آگیا،لہٰذا اس کے گہرے اثرات بھی میرے پر رہے اور بہت دنوں تک اس عمل کی تقلید بھی کی ہے۔
پٹنہ کے سفر میں پاشا صاحب ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے ڈاکٹر ظفرکمالی کے یہاں قیام کو ترجیح دیتے تھے۔پٹنہ سٹی کے دھولی گھاٹ میں گنگاکنارے ایک بنگلہ نما مکان میں ظفرکمالی رہائش پذیر تھے۔بہت سہانا اور پُرکیف جگہ تھی۔ گنگاکنارے کا وہ آخری مکان تھا۔اس کے پیچھے اور دائیں طرف گھنی آبادی تھی۔بائیں جانب سے دس بارہ فٹ چوڑا راستہ مکان تک آتا تھا اور دو ڈھائی سو گز کے بعد گنگاندی کا کنارہ تھا۔اس بنگلہ نما مکان کے درمیان والے بڑے کمرے میں ظفرکمالی رہا کرتے تھے اور دائیں بائیں کے کمرے میں دوسرے طالب علم ہوتے جو عموماً ان کے دوست ہوا کرتے تھے۔کمروں سے برآمدے میں آکر پورب رُخ سے کھڑے ہونے سے پُرکشش سماں نظر آتا۔برآمدے کے سامنے تھوڑے فاصلے پر ایک اونچی جگت کا کنواں تھا جہاں ایک رسّی والی ڈول رکھی رہتی تھی اور کنواں کے اتر جانب ایک ناریل کا پیڑ تھا جس کے دائیں سے پورب کی طرف ہاتھی کی پشت کی طرح خالی زمین تھی جس میں سبزیاں لگائی جاتی تھیں۔خصوصاً جھاڑی نما بیگن کے پودوں میں لٹکے ہوئے سفید اور کتھئی رنگ کے بیگن، جو بیگنی رنگ سے موسوم ہے؛ توجہ طلب کرتے تھے۔ بہت پُرسکون جگہ تھی۔وہاں آنے پر نہیں لگتا کہ ہم پٹنہ شہر میں ہیں۔ وہاں کی صبح و شام بہت سہانی ہوتی۔ صبح میں کمرے سے باہر نکل کر کھڑے ہوجائیں، پچھم سے پورب کی طرف کل کل کرتی گنگا کا پانی نظر آتا۔ قلعی والے تانبے کی سرخی مائل بڑی تھالی کی طرح سورج ؛ پورب سے ابھرتا ہوا پیتل میں تبدیل ہوکر شعاعیں پھیلاتا نمودار ہوتا اور گنگا میں تیرتی ہوئی کشتیوںکو سنہرا بنادیتا، لگتا سونے کی کشتیاں گنگا میں تیر رہی ہیں۔ اسی طرح شام کے وقت اُتر کی جانب رُخ کرکے کھڑے ہونے پر گنگاپر بنے ’’گاندھی سیتو‘‘ کا پُرلطف منظر۔حدِ نگاہ سیتو کی اسٹریٹ لائٹ جلتی اور عکس پانی میں اترتے تو معلوم ہوتا کہ نیچے پانی میں بھی بتیاں جگمگا رہی ہیں۔ غالباً پاشا صاحب اس پُرکیف ماحول سے لطف اندوز ہوتے تھے، اس لیے بھی دھولی گھاٹ میں قیام کو ترجیح دیتے ۔وہاں برآمدے میںصبح صبح چٹائی بچھاکر ظفرکمالی اور دوسرے طالب علم چائے کی چسکی لیتے اورکسی اہم موضوع پر لکھنے پڑھنے کا منصوبہ تیار ہوتا۔پاشا صاحب نے اپنی دو کتابیں ’’انشائے جمال‘‘ اور ’’چراگاہ‘‘ کی کتابت کے تعلق سے وہاں بیٹھ کر منصوبہ بنایا تھا۔
پاشا صاحب نے ایک ماہ کے لیے سیاحتی سفر کا منصوبہ بنایا جس میں ان کی بیگم سرور جمال صاحبہ اور ان کی بیگم کی بڑی ہمشیرہ محترمہ بلقیس داؤد صاحبہ شامل تھیں لیکن اس سیاحتی سفر کے لیے ایک اور فرد کی ضرورت محسوس کی گئی۔پاشا صاحب نے میرا نام تجویز کیا۔ بعد میں انھوںنے انکشاف کیا کہ ایک دو صاحب نے آپ کی مخالفت کی اور بیگم سے خود ساتھ چلنے کی سفارش کرائی تھی لیکن غور و فکر کے بعد قرعہ راقم کے نام آیا۔ غالباً ۱۹۸۶ء میں اکتوبر کا مہینہ رہا ہوگا۔یہ چار نفری ٹیم مہینوں کے لیے سیاحت پر نکل پڑی۔ سیوان سے ہم لوگ گورکھپور اسٹیشن گئے۔ جہاںسے قاضی پیٹھ(حیدرآباد) کے لیے ٹرین پر سوار ہوئے۔پاشا صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھ کرکتاب پڑھنے میں مستغرق ہوگئے۔ کانپور سے آگے بڑھنے کے بعد ٹی ۔ٹی۔ای۔ نے ٹکٹ طلب کیا۔ پرس کھولاگیا تو چاروں نفر کے ٹکٹ اور اس میں رکھے کچھ روپئے غائب تھے۔گورکھپور کے بعد اگلے اسٹیشن پر روزانہ مسافر ریزرو بوگی میں سوار ہوئے اور ’’بھیا ذرا بیٹھنے دیجیے‘‘ کہتے ہوئے بیٹھ گئے اور ٹکٹ اور روپئے غائب ہوگئے۔بڑی مزاحمت ہوئی۔خیر روپئے تو دوسری جگہوں پر بھی رکھے گئے تھے لیکن ٹکٹ کے لیے بہت زحمت اٹھانی پڑی۔آج کی طرح نیٹ کی سہولت نہیں تھی اور جانکاریوںکے تعلق سے عام بیداری بھی اتنی نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے دوبارہ ٹکٹ کا انتظام ہوا اور پھرراہِ سفر خوشگوار بنا۔پہلے ہم لوگوںکا قیام بنگلور کے ’’ہندوستان ہوٹل‘‘ میں ہوا۔ بنگلور میں سیر و تفریح ہوئی اور مقبول ہفت روزہ اخبار’’نشیمن‘‘ کے دفتر گئے جہاں پاشا صاحب نے اخبار کے تعلق سے بہت ساری گفتگو کی اور اپنے تجربات کو ساجھا کیا۔ وہاں سے میسور کے لیے ٹکٹ بک تھا۔ بڑا سہانا سفر تھا۔ سیوان اسٹیشن سے گورکھپور، اترپردیش ہوتے ہوئے، مدھیہ پردیش کے بھوپال اور راجستھان سے گزرتے ہوئے کرناٹک اور آندھرا پردیش کو چھوتے مدراس (چینئی) تک کا سفر میں گوناگوں مناظر، مختلف تہذیب اور متعدد زبان کے ساتھ طرزِ زندگی کی نیرنگیاں دیکھنے کو ملیں۔ٹرین کبھی سوکھے ہوئے بنجر زمین سے گزرتی تو کبھی ہریالی بھری چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے۔ کبھی ہاتھی کی پشت کی طرح اُبھرے پٹھاروں سے تو کبھی ناریل کے جھنڈ کے درمیان سے اور کبھی دونوں طرف خوشبودار مسالوں کے جنگلات کے درمیان سے۔ ٹرین میں بیٹھے اس وقت کسی کا قول یاد آتا کہ جس نے ہندوستان کی سیر کرلی، اس نے پوری دنیا دیکھ لی۔ حقیقتاً ہر ملک کی جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی، لسانی، سادگی اور رنگارنگی سمٹ کر ایک ہندوستان میں پھیل گئی ہے۔ بہار سے آندھرا تک کے اس سفر میں ہر طرح کے موسم، جنگلات، پہاڑ، پٹھار، پیڑپودے، لوگوں کی زبان اور طرزِ رہائش وغیرہ سے سابقہ پڑا، حتیّٰ کہ آدمی کی قد و کاٹھی، شکل و شباہت اور زبان ولہجہ پر بھی جغرافیائی اثرات دیکھنے کو ملے۔ جانوروںمیں بھی کافی تفریق دیکھنے کو ملی۔نیز صبح اور شام کو ٹرین سے گزرتے ہوئے سورج؛ طلوع اور غروب کے وقت، الگ الگ نظارے پیش کرتا۔
جب ہم لوگ میسور ریلوے اسٹیشن پر اُترے، وہاں اردو کے ادیب سلیم تمنائی صاحب موجود تھے جن کو پاشا صاحب نے بذریعہ پوسٹ کارڈ اطلاع کردی تھی۔ دبلے پتلے اوسط قد کے سلیم تمنائی صاحب شرٹ پینٹ میں جھولا لٹکائے اسٹیشن پر انتظار کررہے تھے۔ انھوںنے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے پر تمنائی صاحب نے پوچھا’’ہوٹل چلنے کے لیے کیا پسند کریں گے شاہ پسند یا موٹرگاڑی؟‘‘پاشا صاحب نے شاہ پسند یعنی بگھی نما ٹم ٹم کو ترجیح دی۔ہم لوگوں کے ساتھ سلیم تمنائی صاحب ہوٹل بھی آئے۔ گھنٹو گفتگو کرتے رہے اور درجنوں اردو کے ادبا، شعرا اور اساتذہ کا ذکر انھوںنے کیا جن کا وہ میسور میں استقبال کرچکے تھے۔
ہفتوں اسی ہوٹل میں ہم لوگوںکا قیام رہا۔سویرے ٹورسٹ بس سے سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے اور سات آٹھ بجے رات تک واپسی ہوتی۔ہندوستان میں ’’ورندابن پارک‘‘ اس وقت اپنی نوعیت کا واحد پارک تھا جس میں فوارۂ رقص(Dancing Fountain)تھا۔شام کے وقت موسیقی کی دھن پر اُس کے فوارے اچھلتے جیسے وہ ناچ رہے ہوں جس کو دیکھنے کے لیے ٹورسٹ حلقہ بنائے کھڑے ہوجاتے۔میسور میں چامراج وڈیر کا محل اپنے شاہانہ رنگ وحسن کی وجہ سے سیاحوں کے لیے توجہ طلب ہے۔ایک روز ہم لوگ شہید ٹیپو سلطان کے مقبرہ پر گئے۔ تاج محل کے طرز پر سنگ مرمر سے بنا ٹیپو سلطان کا مقبرہ جہاں پہنچ کر خود بخود آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ہم لوگوں نے فاتحہ خوانی کی۔ میسور سے ہم لوگ ایک روز اوٹی(نیل گیری) بھی گئے۔وہاں پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے صاف دیکھا جارہا تھا کہ بادل لوگوںکے پاؤں کے نیچے گھوم رہا ہے۔یہاں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور وہاں کی خوبصورتی سے لطف اٹھاتے اور صحت بخش فضا میں تازگی محسوس کرتے ہیں۔ ایک دن سلیم تمنائی اور طیب انصاری صاحب نے پاشا صاحب کے اعزاز میں ’’انجمن اشاعتِ اردو، میسور‘‘ کی وسیع و عریض عمارت میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اچھی خاصی تعداد میں اردو داں طبقہ جمع ہوگیا تھا۔ علم و ادب پر پاشا صاحب کی شگفتہ بیانی اور پُرکشش شخصیت نے سماں باندھ دیا۔دوسرے روز اردو اور کنڑ زبان کے اخبار میں اس کی رپورٹنگ آئی۔ سلیم تمنائی صاحب نے اپنی کتاب ’’قومی یکجہتی اور دکن دیش‘‘ پاشا صاحب کے ساتھ ایک جلد راقم کو بھی عنایت کی۔ ان کی یہ کتاب فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ(اترپردیش) کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔
میسور سے مدراس کے لیے ہم لوگ بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے۔ پاشا صاحب کا کہنا تھا ’’مدراس پہلے چلنا چاہیے تھا،واپسی میںمیسور کی سیر کی جاتی۔ اگلے برس حیدرآباد کی سیاحت کا منصوبہ بنے گا۔‘‘لیکن بدقسمتی سے اگلے برس ۲۶؍اکتوبر ۱۹۸۷ء کو پاشا صاحب سب کو روتے بلکتے چھوڑکر فردوسِ بریں روانہ ہوگئے۔ بہرکیف! ہم لوگ چینئی اسٹیشن پر اترے اور وہاں سے ’’مسلم مسافرخانہ‘‘ جو اسٹیشن سے بہت دور نہیں ہے، اس میں قیام کیا۔مسافرخانہ کے ضابطہ کے مطابق اس وقت قیام کرنے والے مسافروں کو مہمان تصور کرتے ہوئے تین روز تک کوئی کرایہ نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کا کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔مسافرخانہ کا کرایہ کیا تھابلکہ اس سفر میں بڑے ہوٹلوں میں قیام کرنے، ٹورسٹ بس سے تاریخی مقامات کی سیر اور عمدہ ہوٹلوںمیں خورد و نوش میںکیا خرچ ہوتا، اس سے راقم بے نیاز تھا۔چینئی کے مسلم مسافرخانہ میں جو لوگ قیام کرتے، صبح اذان کے وقت بیدار کرادیا جاتا۔ایک صاحب کھڑیوں پر ڈنڈے سے چوٹ کرتے اور کہتے۔’’اٹھو!اٹھو! نماز کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘اس میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔
چینئی میں بھی سابقہ شہروں کی طرح ٹورسٹ بس سے ہم لوگ سیر و تفریح کے لیے نکلتے اور شام کو واپس آتے۔ چینئی میں چھوٹے سے بڑے ہوٹلوںمیں کھانے کے ساتھ دوتین طرح کا سوپ ضرور رکھا جاتا تھا جب کہ میسور میں ناریل کا چلن عام تھا۔ وہاں گوشت کے شوربے میں بھی ناریل کی گڑی پیس کر ڈالی جاتی ہے جس سے شوربہ سفید ہوجاتاہے اور سالن کا تیکھاپن ختم ہوجاتاہے۔ بہرکیف! چینئی کے سبھی تاریخی مقامات پر گئے اور ایک پورا دن ’’گولڈن سی بیچ‘‘ کے لیے نکالا گیا۔ واقعی قابلِ دید ہے۔یہاںزبان کا مسئلہ بھی پیش آتا رہا کہ وہاں اردو اور ہندی بولنے سمجھنے والے بڑی مشکل سے ملتے ہیں اور ہر راہ گیر انگریزی سے بھی واقف نہیں ہوتا۔ ایک روز ہم لوگ مدراس یونی ورسٹی کے عربی، فارسی اور اردو کے شعبہ میں گئے۔ وہاں اس وقت پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب صدرِ شعبہ تھے۔ دکن کی ریاستوں میں اردو کے تعلق سے اس وقت شعبہ کے کسی کام یا تقریب میں ان کی شمولیت ناگزیر تصور کی جاتی۔اس سے قبل وہ بہار یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ تھے اور ڈاکٹر حاتم رام پوری، پروفیسر ناز ؔقادری صاحب، پروفیسر فاروق احمد صدیقی ان کے عزیز شاگروںمیں تھے۔بہرحال! انھوںنے پاشا صاحب اور ہم لوگوںکو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔میں نے عرض کیا کہ ’’میں آپ کا پوتا شاگردہوں۔پروفیسر ناز قادری صاحب کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ تحریر کررہا ہوں۔‘‘پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب ’’پوتاشاگرد‘‘ سے محظوظ ہوئے اور دہراتے ہوئے زبردست قہقہہ لگائے ۔اور بہت دیر تک قسطوں میں قہقہہ لگاتے رہے۔ان کے قہقہے مشہور ہیں۔ انھوںنے اپنی رہائش پرآنے اور تناول کے لیے مدعو کیا۔ اس وقت مدراس یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ڈاکٹر صفی اللہ صاحب بھی استاد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ بہت پُروقار شعبہ تھا۔شعبہ کے آداب اور طریقے قابلِ رشک تھے۔ پاشا صاحب کے قریبی مراسم علیم صبا نویدی سے بھی تھے اور ان کو پاشا صاحب کی آمد کی اطلاع ہوچکی تھی۔لہٰذا انھوںنے بھی ایک روز اپنے یہاں ضیافت کی۔ مدراس میں بھی پاشا صاحب کے اعزاز میں نشستیں ہوئیں جس کی رپورٹنگ دوسرے روز کے اخبار میں پڑھنے کو ملی۔مہینوںکی سیر و تفریح اور چینئی کے کھارے پانی نے سب کی شکل و صورت بدل دی۔ چہرے پر نکھار آگیا تھا۔ چینئی سے سیوان واپسی کے بعد علمی و ادبی توانائی عود کر آئی تھی اور سیاحتی سفر کے ارکان نئے حوصلے، امنگ، انبساط اور الطاف کے ساتھ کاروبارِ زیست میں منہمک ہوگئے۔
پروفیسر عبدُ البرکات
صدر شعبۂ اردو،
ایم۔پی۔سنہا سائنس کالج، مظفرپور(بہار)
Mob. : 8210281400
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page