مظہر امام صاحب کے سلسلے میں جو میری یادیں ہیں وہ آج کے یادگاری سلسلے سے پہلے کی ہیں۔ سلسلہ تو اپنے وقت پہ شروع ہو جاتا ہے لیکن اسے کوئی نام یا عنوان دیر سے ملتا ہے اور کبھی نہیں مل پاتا۔خصوصاً یادگاری سلسلہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو واقعتا رسمی اور رواجی نہیں ہو سکتا۔ کسی ادیب سے ملاقاتوں اور باتوں کا سلسلہ تحریروں کے بغیر پائیدار تو نہیں ہو سکتا۔ تحریریں کیونکہ کسی ادبی شخصیت کا بدل بن جاتی ہیں اور کسی ادبی شخصیت کا خیال اس کی تحریروں کے ساتھ کیوں آتا ہے یہ سوال یا اس قسم کے دیگر سوالات وقت کے ساتھ حل ہوتے رہے لیکن کوئی تشفی بخش جواب کسی کو کبھی مل نہیں سکا۔ ایک جواب کبھی کسی کو مطمئن کرتا ہے اور وہی جواب تھوڑے وقت کے بعد کسی اور جواب کا تقاضہ کرتا ہے۔ مظہر امام کی ادبی شخصیت کا بنیادی حوالہ تو ان کی شاعری ہے لیکن وہ اپنے کئی دیگر معاصرین کی طرح یہ سوچتے تھے کہ صرف شعر گوئی اپنے عہد کی زندگی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتی ۔یہ کہنا اگرچہ بہت ٹھیک نہیں لگتا لیکن ہماری ادبی تاریخ میں ایسی ادبی شخصیات ہر زمانے میں رہی ہیں جنہوں نے شاعری کے ساتھ نثر میں بھی اظہار خیال کرنا ضروری سمجھا۔ نثر سے میری مراد وہ تحریریں ہیں جو کلاسیکی اور جدید ادب سے متعلق ہیں۔ ایک طرف شعر کہنا اور دوسری طرف اپنے زمانے کے مسائل کے بارے میں دلچسپی رکھنا بظاہر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ فکشن کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک رشتہ صحافت سے ہے مگر یہی بات جب شاعری کے لیے کہی جاتی ہے تو ذہن کمزور شاعری کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مظہر امام کی نظمیں اور غزلیں اپنے عہد کی زندگی کا کس معنی میں اظہار کرتی ہیں اس سوال کا جواب ہماری قرات کے تجربے سے ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس ذہن سے بھی ہے کہ کوئی وقت ہے جو کسی نہ کسی طور پر شعر اور افسانے کو متاثر کرتا ہے۔ بعض اوقات ادیب اور شاعر بھی ان مسائل کے تعلق سے اپنی تخلیقات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہے ۔یہ ایک طرح کی ذمہ داری ہے جو تخلیقیت سے بظاہر دور معلوم ہوتی ہے لیکن نظریے کہ جبر سے اگر نکل کر اسے دیکھا جائے تو ذمہ داری کا یہ احساس اتنا غیر ادبی نہیں ہے ۔ مظہر امام نے اپنی شعر گوئی کے ساتھ تنقیدی مضامین اور تبصروں کا بھی سلسلہ جاری رکھا یہ سلسلہ کیا کہتاہے۔ کیا اسے ایک شاعر کی ہلکی پھلکی تحریرکہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا انہیں بغور دیکھا جانا چاہیے۔ اب اتنا وقت تو گزر ہی چکا ہے کہ ہم اس مسئلے پر غور کر سکتے ہیں اور اس کا کوئی حل نکل سکتا ہے کہ مظہر امام کی ادبی شخصیت آج ہمارے لیے کتنی اہم ہے اور ہم اسی صورت میں ان کی اہمیت کو تسلیم کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تحریریں ایک مرتبہ کم سے کم پوری ذمہ داری کے ساتھ پڑھی جائیں۔ کسی کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے اپنے بارے میں بھی ہمیشہ ٹھیک ٹھیک کہنا آسان نہیں ہوتا مگر مظہر امام نے جو زمانہ پایا تھا اس میں ایسے لوگ بھی تھے جو کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ مظہر امام کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عام گفتگو میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہتے تھے وہ سب کو سنتے تھے کوئی رائے بھی دیتے تھے مگر اس سے کسی کی یا کسی کی تضحیک کا پہلو نہیں نکلتا تھا کہا جاتا ہے کہ ان کی ذات پر سب کا اتفاق ہو جاتا تھا لیکن جب ان کی دو کتابیں ایک لہراتی ہوئی اور آتی جاتی لہریں مطالعے میں آئیں تو اندازہ ہوا کہ انہوں نے کس بے باکی کے ساتھ اپنے زمانے کے ڈسکورس کو رد کیا اور جہاں انہیں اتفاق کی کوئی صورت نظر آئی اس تعلق سے کسی تعصب کا اظہار نہیں کیا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر نگاہوں سے اوجھل ہے اس تعلق سے اگر ان دو کتابوں کے دیباچے پڑھ لیے جائیں تو ان کی صاف گوئی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مظہر امام کا جب خیال اتا ہے تو حافظ بلکہ حافظے کی شعریات کا خیال آتا ہے۔ اب تو ہر سبجیکٹ کی ایک شعر یات بن گئی ہے۔ اس دور کی یادداشت اور اس کے حافظے کی کہانی کا ایک اہم ترین حوالہ مظہر امام کی ادبی شخصیت ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی کو جب کوئی حوالہ یاد نہیں آتا تھا یا انہیں اس طرح کی کوئی ضرورت پیش آتی تو وہ مظہر امام کو فون کرتے اور کبھی انہیں مایوسی نہیں ہوئی۔ رسالوں کی اشاعت کی تاریخ ان میں شائع ہونے والی تحریریں، تحریروں کے مسائل و مباحث ان سب کے تعلق سے ان کا ذہن کتنا شفاف تھا۔ صرف یاد ہی نہیں تھا بلکہ ذہن بھی اس کے اظہار میں نہایت ذمہ دار اور حساس تھا۔ گفتگو کے دوران کوئی ایک ادبی مسئلہ دوسرے ادبی مسئلے کے ساتھ الجھتا نہیں تھا۔ یہ وہ ڈسپلن ہے جو تنقید کی ڈسپلن ہے جو مشکل سے آپاتی ہے۔ وہ اپنی بات جب زور دے کر کہتے تو کسی لفظ کی تکرار بھی سامنے آتی تھی۔ مثلاً کسی بات پر زور دینا ہوتا تو کہتے ہرگز ہرگز۔ عموماً وہ اپنی گفتگو کا آغاز’’ ایسا ہے‘‘ کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ لفظ ’دیکھو‘ یہ بھی ان کی گفتگو کا حصہ تھا۔ وہ جب باتیں کرتے تو عام طور پر ان کی آنکھیں بندکر لیتے تھے ۔ بند ہوتی اور کھلتی آنکھوں میں موجودگی اور غیاب کا کیا تصور ہوگا۔ سوچنے ،دیکھنے اور سننے کا عمل جس شعریات کو وضع کرتاہے شاید اسی کا نام حافظے کی شعریات ہے۔ ایک ہی وقت میں سوچنا، سننا اور دیکھتے دیکھتے آنکھیں بند کر لینا اور آنکھوں کو بند کرنے کے بعد دیکھنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنا یہ کتنا خوبصورت عمل ہے۔ اسے ایک معنی میں تخلیقی عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ اسے خیال کی مسافت بھی کہہ سکتے ہیں گرچہ اس عمل کا ایک بڑا تعلق تاریخ ،واقعہ اور حوالے سے زیادہ ہوا کرتا تھا لیکن مظہر امام کے یہاں تاریخی حوالے اور اس طرح کے دوسرے مسائل دیکھتے دیکھتے خیال کی دنیا میں داخل ہو جاتے تھے ۔ یہ سب کچھ ایک دن یا دہائی کا قصہ نہیں ہے بلکہ کم و بیش نصف صدی اس عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔ حافظے کی شعریات کا تجزیہ کیسے کیا جائے۔ شعر یات کی تعمیر و تشکیل میں کن عوامل نے حصہ لیا ہے اور اس شعریات کا تعلق ان کے عہد کی ادبی صورتحال سے کتنا اور کس نوعیت کا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |