ہنری البیر گائے دا موپاساں ۵ اگست۱۸۵۰ میں پیدا ہوا اور6 جولائی 1893 یعنی بیالس سال کی عمر میں اس نے فرانس کی راج دھانی پیرس میں وفات پائی۔ سعادت حسن منٹو نے ۱۱ مئی۱۹۱۲ میں اپنی آنکھیں کھولیں اور ۱۸ جنوری ۱۹۵۵ میں پاکستان میں بیالس سال کی عمر اس دار فانی کو الوداع کہا۔اس طرح ایک انیسویں صدی میں پیدا ہو کر انیسویں صدی میں ہی انتقال کر گیا اور ایک بیسویں صدی میں پیدا ہو کر بیسویں صدی میں ابدی زندگی کی طرف کوچ کر گیا۔چونکہ موپاساں اور منٹو نے الگ الگ ملک، تہذیب اور صدی میں سانسیں لیں اس لئے یہاں ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر دو فنکار کی تہذیب ، زبان اور زمانہ الگ ہو تو پھر ان دونوں میں مماثلت اور یکسانیت کی بنیاد کہاں اور کیسے تلاش کی جائے ؟ جب ہم دو لوگوں کے درمیان یکسانیت کی بات کرتے ہیں تو اس طر ح کے سوالوں کا ذہن میں آنا لازمی بھی ہے اور ضروری بھی ۔در اصل ہم انہیں سوالوں کی مدد سے یکسانیت کے پہلو کھوج نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ موپاساں اور منٹو کی عمر نے نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی۔دونوں محض بیالس سال ہی زندہ رہ سکے لیکن اسی کم مدت میں دونوں نے اپنے اپنے ادب کو لازاوال کہانیوں سے مالا مال کر دیا۔فرانسیسی ادب کے فکشن کا تصور موپاساں کے بغیر ادھورا ہے اور اردو ادب کا فکشن منٹو کے ذکر کے بنا نا مکمل ہے۔ایک دوسرا اتفاق بھی اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے کہ موپاساں اور منٹو دونوں نے دیگر اصناف ادب کے مقابلے میں اپنے احساسات و تجربات کی ترجمانی کے لئے افسانہ کی صنف کو زیادہ اہمیت دی۔موپاساں نے تقریبا تین سو افسانے لکھے اور منٹو نے کم و بیش دو سو پچاس افسانے تخلیق کئے۔ موپاساں کو فرانسیسی ادب کا سب بڑا حقیقت پسند افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے اور منٹو کو اردو ادب کا سب سے بڑاحقیقت پسند افسانہ نگار مانا جاتا ہے۔یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ دونوں کی حقیقت نگاری کچھ اس نوعیت کی ہے کہ دونوں پر فحش نگاری کے الزامات لگے ۔
موپاساں اور منٹو کے درمیان جو چیزیں مشترک ہیں ان میں سب سے اہم دونوں کی حقیقت نگاری ہے۔حقیقت نگاری کوئی فلسفہ نہیں ہے کہ اس پر تفصیلی گفتگو کی جائے۔ ایک فکشن نگار در اصل ہمارے سماج اور معاشرے کا حساس نمائیندہ ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کی توضیح و تشریح اپنے افسانے میں پیش کرتا ہے۔ یہ توضیح جتنی صاف اور غیر مبہم ہوتی ہے وہ اتنی حقیقت سے قریب ہوتی ہے۔ حقیقت پسند تخلیق کارزندگی کی ان حقیقتوں کو پیش کرتا ہے جن کے بارے میں عام طور گفتگو نہیں کی جاتی۔ موپاساں اور منٹو اس لئے حقیقت پسند فکشن نگار تسلیم کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں کو زیادہ جرات مندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔موپاساں کی کہانیوں کا مطالعہ گہرائی کے ساتھ کریں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ زندگی کی سچائیوں کو کتنے صاف لفظوں میں پیش کرتا ہے۔وہ ہمارے سماج کی تلخ حقیقتوں کو ابہام و تمثیل کے حریری پردے میں مستور کرکے پیش نہیں کرتا۔حقیقت نگاری کے نقطئہ نظر سے اس کی کہانی’’ Idyll‘‘ بے نظیر ہے۔کیونکہ جتنی حقیقت پسندی کا مظاہرہ اس میں کیا گیا ہے اس ک مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک ٹرین جینیوا سے مارسئی(Marseille) کی طرف روانہ ہے ۔ اس کے آخری ڈبے میں ایک جوان اور بھرپور عورت سفر کر رہی ہے۔اس کی سامنے والی سیٹ پر ایک نو جوان مگر دبلا پتلا شخص بیٹھا ہے۔اس کے چہرے سے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ وہ دھوپ میں بہت دیر کام کرکے آیا ہے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد دونوں میں رسمی گفتگوکا آغاز ہوتا ہے۔ عورت یہ انکشاف کرتی ہے کہ وہ اپنے تین بچوں کو گھر پر چھوڑ کر مرسی ٹولے نوکری جوائن کرنے جا رہی ہے۔ کچھ دیر بعد دونوں کی آنکھ لگ جاتی ہے لیکن جب دوبارہ آنکھ کھلتی ہے تو عورت ایک دم سے بے چین ہو جاتی ہے۔اس کی بے قراری اس کے چہرے پر صاف طور نمایاں ہے۔وہ بے چین کیوں ہے اس کو موپاساں کی زبان میں دیکھیں:
’’وہ عورت ابھی بھی مشکل سے سانس لے پا رہی تھی۔ اس کے فراک کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔
اس کے رخسار بھرے بھرے اور کچھ گیلے لگ رہے تھے۔ وہ بہت تھکے لہجے میں بولی۔’ میں نے کل سے
اپنی چھوٹی بچی کو دودھ نہیں پلایا ہے اس لئے مجھے چکر آ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ میں بے ہوش ہو جاونگی۔
اگر کسی عورت کی چھاتی میں دودھ بھرا ہو جیسا کہ مجھ میں ہے تب اسے دن میں کم از کم تین بار دودھ پلانا
ضروری ہو جاتا ہے نہیں تو اسے بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے سینے پر
وزنی پتھر رکھ دیا گیا ہو۔‘‘
جب عورت کی بے چینی سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے دیکھی نہیں جاتی تو ہچکچاتے ہوئے کہتا ہے۔
’’میڈم شاید میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں۔‘‘
اور جب وہ شخص اس کی مدد کر چکا ہوتا ہے تو وہ عورت اطمنان محسوس کرتے ہوئے نہایت ہی احساس مندانہ لہجے میں کہتی ہے۔
’’آپ نے مجھ پر بڑی مہربانی کی ہے ۔ میں آپ کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔‘‘
اس پر نوجوان شخص جواب دیتا ہے۔
’’وہ تو مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا کیونکہ گزشتہ دو دنوں سے میرے پیٹ میں ایک دانہ نہیں گیا ۔‘‘
یہ کہانی نہ صرف حقیقت نگاری کی بہترین مثال بلکہ اس سے موپاساں کی بہت سی خوبیاں سامنے آتی ہیں۔موپاساں چاہتا تو اسی جگہ کہانی ختم کر سکتا تھا جہاں پر عورت شکریہ ادا کرتی ہے لیکن ایسا کرنے سے موپاساں کی انفرادیت قائم نہیں ہو پاتی۔افسانے میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ در اصل آخری کے دو سطور میں آنے والی بات کے تاثر کو قاری کے ذہن میں دیر تک قائم رکھنے کے لئے ہے ۔ موپاساں اپنی کہانی کے آخری سطور میں اتنی حیرت انگیز ی پیدا کر دیتا ہے کہ قاری چونک جاتا ہے۔ ایک عورت کے ذریعہ ٹرین میں ایک مرد کو اپنی پستان سے دودھ پلانے کا عمل کریہہ ہے ۔ سماج کتنا ہی غیر مہذب ہو اس عمل کو نا پسند کرے گا لیکن تھوڑا توقف کر کے اس عمل کے پیچھے کی حقیقت کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایک انسان پچھلے دو دنوں سے بھوکا ہے اور روزگار ی تلاش میں سر گرداں ہے۔اس عورت کو اس بات کا احساس ہے یا نہیں یہ پورے طور پر واضح نہیں ہوتاتاہم اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس سے قاری کو یہ پتہ ضرور چلتاہے کہ وہ شخص بھوک و پیاس کی شدت سے ادھ مرا ہو گیا ہے ۔اس لئے جب وہ شخص اس کی مدد کرنے کی اجازت مانگتا ہے تو یہ بھی اعتراض نہیں کرتی ہے اور اپنا پستان اس ک منہ میں ڈال دیتی ہے۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عورت غیر اخلاقی عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن مسئلہ یہ بھی ہے وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ یہاں پر دوچیزیں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ قاری بھی الجھا ہوا ہے کہ وہ محض اپنی تکلیف سے نجات پانے کے لئے اپنا پستان اس کے منہ ڈالتی ہے یا اس کے دل میں بھوکے شخص کی ہمدردی کا جذبہ بھی ہے۔ در اصل یہی وہ مقام ہے جہاں پر افسانہ نگار ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے۔ خیر ہم کچھ بھی سوچیں لیکن کہانی کا اختتامیہ انداز ہمیں آخر الذکر خیال کو ماننے پر مجبور کر دیتا ہے ۔جب ہم دوسرے خیال کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں توپھر ہم اس کے عمل کو بھی برا نہیں کہتے کیونکہ جب ہم دو دنوں کے بھوکے شخص کا تصور ذہن میں لاتے ہیں تو پھر ہماری توجہ عورت کے پستان پر نہیں پڑتی بلکہ اس بھوکے شخص پر مرکوز ہو جاتی ہے جس کے بارے میں یہ نہیں معلوم کہ اسے مزید کتنے دنوں تک بھوکے رہنا پڑتا اگر وہ عورت دودھ نہیں پلاتی۔کہانی کے ذریعہ اصل زندگی تک کی رسائی کا یہ موپاساں کا اپنا انداز ہے جس کی وجہ سے اس کو فرانس کا سب سے بڑا حقیقت پسند کہا گیا ہے۔
موپاساں کے اس افسانہ کو پڑھتے ہوئے منٹو کے افسانہ موذیل کی یاد آتی ہے۔ حالانکہ دونوں کہانی کا پلاٹ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ موذیل کا پلاٹ فسادکے پس منظر میں تیار کیا گیا ہے جب کہ Idyllکا پلاٹ ایک بے روزگار اور بھوکے شخص کو سامنے رکھ تیار کیا گیا ہے۔لیکن حقیقت پسندی اور مدد کے جذبے کے نقطئہ نظر سے دیکھیں تو دونوں میں یکسانیت موجود ہے۔موذیل افسانے میں موذیل کرپال کور کو بچانے کے لئے جو کچھ کرتی ہے وہ Idyllکے نسوانی کردار سے بہت قریب ہے۔کرپال کور کا گھر مسلمانوں کے مرکز میں واقع ہے ۔ وہاں فساد بھڑک اٹھا ہے ۔ کرپال کا عاشق ترلوچن پریشان ہے کہ وہ کس طرح اس کی مدد کرے۔موذیل جو کبھی ترلوچن کی محبوبہ ہوا کرتی تھی وہ کرپال کو بچانے کی جو حکمت عملی تیار کرتی ہے وہ اس مناسبت سے بہت حقیقی ہوتا ہے۔ وہ دنگایوں کی توجہ بھٹکانے کی غرض سے خود نیم برہنہ ہو کر کمرے سے نکلتی ہے اور اپنے پیچھے ترلوچن کو آنے کا مشورہ دیتی ہے ۔ بھاگتے ہوئے موذیل گر پڑتی ہے ۔ اس کا ننگا جسم فرش پر پھیل جاتا ہے ۔ فسادی اسے دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں اور طئے شدہ پلان کے مطابق کرپال کور کمرے سے نکل کر محفوظ جگہ پر چلی جاتی ہے۔جس طرح Idyll کی عورت ایک بے روزگار اور بھوکے شخص کی مدد اپنے پستان سے دودھ پلا کر کرتی ہے اسی طرح موذیل بھی ایک بے بس لڑکی کی مدد اپنے جسم کو برہنہ کرکے کرتی ہے ۔اگر ہم فرش پر پڑے موذیل کے ننگے بدن کو نہارتے ہیں تو پھر اس کے ارد گرد وہاں موجود فسادی کی طرح ہمارے ذہن میں فساد ہے اور اسی طرح اگر ہم ٹرین میں دودھ پلانے والی عورت کے پستان کو دیکھتے ہیں تو ہم شہوت پرست ہیں حقیقت پسند نہیں ۔
موپاساں اور منٹو دونوں نے اپنے اپنے افسانوں میں سماج کے اس طبقہ کو زیادہ جگہ دی ہے جس کی طرف نام نہاد طبقہ اشرافیہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ ہماری حقیقی زندگی میں کئی ایسے کردار ہیں جو مجبور اور لاچار ہوتے ہیں۔وہ اپنے احساسات کسی سے ساجھا نہیں کر سکتے ۔ ایسا ہی ایک کردار طوائف کا ہے۔طوائف دنیا کی سب سے لاچار مخلوق اس لئے ہے کہ اس کی طرف وہ شخص بھی حقارت سے دیکھتا ہے جو رات کی تاریکی میں اس کے کوٹھے پر پہنچ جاتا ہے۔آپ ذرا تصور کریں کہ کیا گزرتی ہوگی اس عورت پر کہ جس کے جسم کے ساتھ رات ڈھلتے ہی لوگ کھیلتے ہیں اور دن کی روشنی میں اس کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتے۔یہ المیہ کوئی معمولی المیہ نہیں ہے۔ جس کے ساتھ یہ المیہ پیش آ رہا ہے اگر اس کے درد کو سمجھنا ہے یا اس کے احساسات سے واقف ہونا ہے تو آپ موپاساں اور منٹو کی کہانیاں ضرور پڑھیں ۔ یہ دونوں طوائف کے احساست و جذبات کی ترجمانی حقیقت پسندانہ طریقے سے کرتے ہیں ۔ موپاساں یا منٹو جب آپ کو طوائف سے رو برو کراتے ہیں تو وہ آپ سے یہ نہیں کہتے کہ آپ اس سے محبت کریں یا یہ نہیں کہتے کہ آپ ان کے پیشے کو صحیح قرار دیں۔وہ بس اتنا مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے احساسات کو سمجھنے کی انسانی کوشش کریں۔طوائف کا ذکر کرتے ہوئے دونوں یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ جو مہذب معاشرہ ہے اس میں رہنے والا انسان واحد ایسا رہائشی ہے جو چہرے کے اندر بھی ایک چہرہ رکھتا ہے اور اس کے باہر بھی ۔طوائف کے ضمن میں موپاساں کا افسانہBoul de Suifبہت اہم ہے ۔Boul de Suifکا اصل نام Elizabethہے ۔ یہ ایک مشہور طوائف ہے ۔Roenپر Prussia کا قبضہ ہو گیا ہے اس لئے کچھ لوگ Rouen سے Havreکی طرف ایک گاڑی میں سوار ہوکر جانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ اس میں اتفاق سے Elizabeth بھی ہوتی ہے ۔ یہ گاڑی کچھ دور جاتی ہے لیکن Prussia کی فوج اس کو روک لیتی ہے۔دو دنوں تک یہ لوگ فوج کے قبضے میں رہتے ہیں۔ ایک دن الیزابیتھ اپنے ساتھیوں سے کہتی ہے کہ ہم لوگوں کو اس وقت تک بندی بنا کر رکھا جائے گا جب تک وہ فوج کے ساتھ رات نہ گزار لے۔الیزا بیتھ افسر کے ساتھ رات گزار نے سے انکار کر دیتی ہے لیکن اس کے ملک کے ساتھی آزادی حاصل کرنے کی غرض سے الیزابیتھ کو افسروں کے ساتھ رات گزارنے کے لئے طرح طرح سے راضی کرنے لگتے ہیں۔اس کے اپنے ملک کے ساتھی اس کے رات گزارنے کے عمل کو ملک کی عزت کے لئے عین اخلاقی اور منطقی بتاتے ہیں۔جب الیزا بیتھ رات گزار کر دوسری صبح اپنے ساتھیوں کے ساتھ Havre کی طرف روانہ ہوتی ہے تو ان میں سے کوئی بھی شخص اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتاجو اس کے اس قربانی کو عین اخلاقی بتا رہے تھے۔وہ کس نفسیاتی کیفیت میں ہے اس تعلق سے کوئی بھی اس سے ہم دردی کے دو وبول نہیں بولتا۔الیزا بیتھ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے اس رویہ سے دل شکستہ ہو جاتی ہے اور رونے لگتی ہے۔ رونے کی آواز سن کر ایک عورت اپنے شوہر سے یہ شرم ناک جملہ کہتی ہے ’’Elle Pleursahont ‘‘ یعنی یہ شرم کی وجہ سے رو رہی ہے۔ سب اپنی اپنی آزادی کی خوشی میں مگن نغمہ سن رہے ہیں اور الیزا بیتھ کی کیفیت کیا ہے اس کو موپاساں کے الفاظ میں دیکھیں:
Et Boul de suifPlearaittoujour; etparfois un sanglot, qu’elle
n’avaitpurentir, passait entre deux couplet, dans les tenebres
ترجمہ: اور بو ل دا سوف روتی رہی، نغموں کے درمیانی وقفے میں کبھی کبھی اس کی سسکیاں جن کو وہ روک نہیں پا رہی تھی اندھیرے میں دور تک پھیل جاتیں۔
Boul de suifکی حالت اور کیفیت کو دیکھتے ہوئے منٹو کے ہتک کی سوگندھی نظروں کے سامنے آجا تی ہے۔سوگندھی بھی ایک طوائف ہے ۔ وہ اپنے دلال رام لال کے کہنے پر بن سنور کر سیٹھ کے پاس جاتی ہے جو کوٹھے کے نیچے اس کا منتظر ہے۔ سوگندھی کے بارے میں رام لال سیٹھ سے کہتا ہے :
’’بڑی اچھی چھوکری ہے، تھوڑے ہی دن ہوئے اسے دھندا شروع کئے‘‘
اب آگے کا منظر منٹو کی زبانی دیکھیں:
’’ایک لمحے کے لئے اس روشنی نے سوگندھی کی خمار آلود آنکھوں میں چکا چوند پیدا کی۔ بٹن دبانے کی
آواز پیدا ہوئی اور روشنی بجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے ’’اونہہ‘‘ نکلا پھر ایک دم سے موٹر کا انجن پھڑ پھڑایا
اور کار یہ جا وہ جا۔۔۔‘‘
سیٹھ کے اس رویہ کو سوگندھی سمجھ نہیں پائی تھی کہ رام لال بول پڑا ۔
’’پسند نہیں کیا تجھے ۔ اچھا بھئی میں چلتا ہوں۔ دو گھنٹے مفت ہی برباد گئے۔‘‘
اس کے بعد سوگندھی اپنے کمرے میں جاتی ہے اور خارش زدہ کتے کے ساتھ سو جاتی ہے۔ آپBoul de suifکے ساتھیوں کا رویہ دیکھیں اور ساتھ میں اس جملہ کو یاد کریں کہ ’’شرم کی وجہ سے رو رہی ہے‘‘ پھر سیٹھ کے ’’اونہہ‘‘اور رام لال کے جملہ کو سامنے رکھیں ان میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ کیونکہ دونوں جملوں میں ایک کردار کے تئیں حقارت کا پہلو پوشیدہ ہے۔Boul de suifاور سوگندھی دونوں ایک ہی طرح کے احساس سے دوچار ہوتی ہے۔ایک کو اس کے ساتھی حقارت سے دیکھتے ہیں اور گفتگو کرنے میں ذلت و عار محسوس کرتے ہیں ۔ دوسری طرف سوگندھی ہے جس کے وجود کو صرف ایک لفظ ’’اونہہ‘‘ کے ذریعہ جھٹلادیا جاتا ہے۔رام لال جس کی روٹی روزی سوگندھی اور اس جیسی دوسری طوائف کی مرہون منت ہے وہ بھی ’’ دو گھنٹے مفت میں برباد گئے‘‘ کہہ کر اس کے زخم پر نمک چھڑک دیتا ہے۔ در اصل بول دا سوف اور سوگندھی ایک ہی تجربے سے گزرتی ہے۔ دونوں کی ذہنی کیفیت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔
یہاں میں ایک چیز اور واضح کرتا چلوں کہ موپاساں اور منٹو نے اپنے اپنے افسانوں کے بین السطور میں نام نہاد انسانیت پر جتنی تلخ چوٹ کی ہے اس کی مثال بے نظیر ہے۔ ْْْْبول دا سوف ایک طوائف ہے ۔ افسر کے ساتھ ایک رات گزار لینے سے اس کی ذات پر کیا فرق پر سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے ساتھیوں کے رویہ پر اس قدر حیران ہے کہ وہ زار و قطار رونے لگتی ہے ۔ اس کا رونا صرف اس کے ساتھیوں پر رونا نہیں ہے بلکہ وہ اس پورے سماج پر آنسوں بہا رہی ہے جو اس کے ساتھیوں کی طرح دوہرا رویہ رکھتے ہیں۔ موپاساں نے ایک طوائف کے ذریعہ نام نہاد مہذب انسان کے دہرے رویے پر آنسوں بہوا کر اس مہذب انسان کے وجود کو ایک طوائف کے پیشے سے زیادہ رزیل بنا دیا ہے۔ اسی طرح ہتک کی سوگندھی جب ایک خارش زدہ کتے کے ساتھ سوتی ہے تو در اصل وہ ایسا کر کے اس پورے معاشرے کو ایک خارش زدہ کتے سے زیادہ مکروہ اور گھٹیا ثابت کرنا چاہتی ہے جس کی بنیاد منافقت پر ہے ۔یہاں موپاساں اور منٹو کی منشا در اصل ایک ہی ہے اور وہ ہے نام نہاد مہذب معاشرے پر چبھنے والا گہرا طنز۔اس طرح دیکھا جائے تو دونوں کہانیوں کی مختلف دھارائیں بہتی ہوئی ایک ہی مقام پر پہنچ جاتی ہیں۔
(یہ بھی پڑھیں اختر اورینوی کی افسانہ نگاری-شاہ نواز فیاض )
موپاساں او ر منٹو میں جو یکسانیت ہے اس کے بارے میں ہمارے بزرگوں نے ایک غلط فہمی یہ عام کردی کہ منٹو در اصل موپاساں سے بہت متاثر تھے۔ شروع شروع میں انہوں نے فرانسیسی کہانیوں کے ترجمے کئے ۔ ہمایوں کا فرانسیسی نمبر جو ستمبر 1935 میں شائع ہوا، اس کو منٹو نے ہی مرتب کیا تھا۔اس لئے منٹو پر اس کا اثر پڑنا لازمی تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ منٹو کے ادبی کیریر کا آغاز ترجمہ نگاری سے ہوا۔ ترجمہ کرتے ہوئے ظاہر بہت سے افسانے اس کی نظر سے گزرے ہونگے۔ اس لئے ممکن ہے وہ بعض کہانیوں سے متاثر بھی ہوا ہو لیکن کسی سے متاثر ہو کر کوئی لازاوال افسانے نہیں لکھ سکتا۔ منٹو کے حوالے سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس نے موپاساں سے جو چیزیں مستعار لی ہیں ان میں تکنیک اور حقیقت پسندی اہم ہیں۔لیکن صرف اسی پر موقوف نہیں موپاساں اور منٹو میں کہانی، پلاٹ، ، کردار اور بعض دفعہ موضوع میں بھی بہت تک یکسانیت نظر آتی ہے۔اس کی اصل کیا ہے اس کے بارے میں شاید نہیں لکھا گیا۔بات یہ ہے کہ سماج چاہے وہ فرانس کا ہو یا ہندوستان کا اس میں رہنے انسان ہی ہوتے ہیں۔انسان کسی بھی کلچر کا کا پروردہ ہو دکھ اور تکلیف میں اس کی کیفیت ایک سی ہوتی ہے۔موپاساں اور منٹو نے اپنے اپنے سماج کے اس انسان کا مطالعہ کیا ہے جو ہماری بے توجہی ، نفرت اور حقارت کا برسوں سے شکار تھے۔موپاساں اور منٹو نے سماج کے ستائے ہوئے لوگوں لوگوں کے دلوں میں جھانک کر اس کے داخلی کرب اور دکھوں پتہ لگایا۔عجیب اتفاق ہے کہ موپاساں نے جب لکھنا شروع کیا تو پروشیا اور فرانس کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔جنگ کی تباہی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دوسرے مسائل جیسے ہجرت اور اس کے کرب کو موپاساں نے موضوع بنایا۔ادھر منٹو نے جب لکھنے کا آغاز کیا تو ملک کی آزادی کی جنگ اور پھر تقسیم ملک کے وقت رونماں ہونے والے فسادات نے منٹو کو تقریبا وہی سب موضوعات دئے جو موپاساں کے ملے۔اس لئے میرا یہ ماننا ہے کہ موپاساں اور منٹو میں یکسانیت کی اصل وجہ در اصل دونوں جگہ کے ایک سے حالات کا ہونا ہے۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |