اکیسویں صدی میں تقریباً ہر تعلیم یافتہ انسان کم از کم دو زبان ضرور بولتا ہے، ایک مادری زبان اور دوسری انگریزی زبان۔ مافی الضمیر کی درست اور ٹھیک ٹھیک ادائیگی کے لیے مادری زبان کی جتنی ضرورت پڑتی ہے، آج نوکری کے لیے بالکل اتنی ہی ضرورت انگریزی زبان کی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو آج انگریزی سیکھنا آپ کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ آپ اگر تعلیم یافتہ ہیں تو آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ کو انگریزی آتی ہے اور آنی بھی چاہیے۔ ایسا اس لیے نہیں کہ اگر آپ انگریزی سمجھتے اور بولتے ہیں تو آپ کو زیادہ ذہین تصور کیا جائے گا۔ اس کا فائدہ بس اتنا ہے کہ آپ اپنی بات ان لوگوں کے سامنے بھی رکھ سکتے ہیں جو آپ کی مادری زبان نہیں سمجھتے ہیں۔ انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے۔ آج پوری دنیا میں اسی زبان کو لنگوا فرنکا کی حیثیت حاصل ہے۔
ہندوستان کا تعلیمی نظام اس طرح کا ہے کہ آپ انگریزی زبان سیکھ ہی لیتے ہیں۔ یہاں والدین بچے کو اول دن سے ہی ABCD پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ انگریزی میڈیم اسکول ہو یا ہندی میڈیم، آپ کے اوپر نصابی کتابوں کا ایسا بوجھ ہوتا ہے کہ آپ انگریزی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ جہاں انگریزی سیکھنے پر اتنی محنت صرف کی جاتی ہو وہاں انگریزی زبان سیکھ لینا بہت فطری سی بات ہے اور اگر آپ پھر بھی نہیں سیکھ پاتے ہیں تو یہ افسوس کی بات ہے۔
روزگار کے نقطۂ نظر سے کوئی نئی زبان سیکھنا بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ آج تقریباً ہر بڑی کمپنی کو ایسے بندے کی تلاش ہوتی ہے جو مادری اور انگریزی زبان کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانیں بھی جانتا ہو۔ اب مثال کے طور پر امیزون کمپنی کو لے لیجیے۔ اس میں تقریباً ہر بڑی زبان کے ماہرین ملازمت کرتے ہیں۔ اس میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، عربی، فارسی اطالوی، ہسپانوی، پرتگالی، چینی، ہندی، اردو اور دوسری زبانوں کے ماہرین کام کرتے ہیں۔ اس طرح کی ہزاروں کمپنیاں ہیں جو زبان کے اکسپرٹ کو ملازمت دیتی ہیں۔ گوگل، یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر اور مائکروسوفٹ کے علاوہ ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیاں ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں زبان کے ماہرین کو اپنے یہاں رکھتے ہیں۔ در اصل آج پوری دنیا کا کاروبار اس طرح ایک دوسرے سے Linked ہو گیا ہے کہ ہر کاروباری کو اپنے یہاں زبان کے ماہرین اور مترجم کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ یہاں ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک زبان کے ماہر یا مترجم کو اس کی پہلی ملازمت میں بھی اطمنان بخش پیکیج مل جاتا ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ بہت ساری کمپنیوں میں ایک بہت سے ایم بی اے کیے ہوئے ملازم سے زیادہ تنخواہ ایک زبان کے ماہر کی ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس دو تین سال کا تجربہ ہے تو پھر یہ کمپنیاں آپ کو منہ مانگی تنخواہ دینے کو تیار ہوتی ہیں۔
اس دور میں اگر آپ ایک سے زیادہ زبان جانتے ہیں، تو بلاشبہ مارکیٹ میں آپ کی اہمیت اور لوگوں سے زیادہ ہوگی۔ آج کی دنیا سمٹ کر اتنی پاس پاس ہوگئی ہے کہ آپ اپنے ملک کی زبان کے علاوہ جتنی غیر ملکی زبان سیکھتے ہیں اتنے ہی روزگار کے مواقع آپ کے لیے آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زبان کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہے تو آپ ایک پروفیشنل کورس کریں اور ساتھ میں کوئی یورپی یا ترقی یافتہ مشرقی زبان بھی سیکھ لیں، آپ دیکھیں گے کہ بازار میں آپ کی کیا قدر اور کیا ڈیمانڈ ہے!
پروفیشنل کرئیر کے نقطۂ نظر سے غیر ملکی زبان سیکھنے کے فوائد تو ہیں ہی، اس کے اور بھی دیگر فائدے ہیں جن کا تعلق ہماری شخصیت اور ذہن و دماغ کی مضبوطی سے ہے۔ جو صرف ایک زبان جانتے ہیں اور جو ایک سے زیادہ زبان جانتے ہیں، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ دونوں کی سوچ و فکر میں فرق ہوتا ہے۔ دونوں کی گفتگو کا انداز الگ ہوتا ہے۔ کسی خاص صورت حال میں دونوں کے برتاؤ میں خاصا فرق نظر آتا ہے۔ جس کے ذہن میں دو زبانوں کام سسٹم انسٹال ہوجاتا ہے، بلاشبہ اس کا ذہن ہمیشہ الگ طریقے سے کام کرے گا۔ دو یا دو سے زیادہ زبان بولنے والوں (Bilingual or multilingual) کی چند اہم خصوصیات کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جا رہا ہے۔
یہ کسی مسئلے کا حل جلدی تلاش کرتے ہیں:
حالیہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو ہفت زباں (Polyglot) ہوتے ہیں ان کے اندر کسی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کسی چیز کو جلدی سمجھ سکتے ہیں اور وہ بنا کوئی مداخلت محسوس کیے زیادہ مرکوز ہو کر اپنا کوئی کام کرتے ہیں۔ اس کی مثال اس ڈرائیور کی طرح ہے جو گاڑی چلاتے ہوئے اپنی گاڑی کے فنکشن بھی کنٹرول رکھتا ہے اور آس پاس سے گزرنے والوں کی حرکت پر بھی نظر رکھتا ہے۔ یعنی ہفت لسان کا ذہن کامل درستگی کے ساتھ مختلف ٹاسک پر ایک ساتھ کام کر سکتا ہے۔
یہ نئی جگہ پر جانے سے نہیں گھبراتے ہیں:
ایک سے زیادہ زبان بولنے والے بلا جھجک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر نئی صورت حال سے ایڈجسٹمنٹ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ آسانی سے اپنے کمفرٹ زون سے نکل جاتے ہیں۔ وہ نئی جگہ پر خود کو کھویا نہیں پاتے۔ صرف ایک زبان بولنے اور سمجھنے والے جہاں پیدا ہوتے ہیں وہیں مرنا بھی پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ صرف ہندی یا اردو جانتے ہیں اور آپ جنوبی ہند کے کسی شہر میں جاتے ہیں، تو آپ وہاں سے جتنا جلدی ہو نکلنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ آپ جنوبی ہند کی زبانوں سے واقف نہیں ہوتے۔ ایک زبان کے ساتھ اپنے ہی ملک کی دوسری ریاست میں آپ خود کو سیٹ نہیں کر پاتے تو دوسرے ممالک میں ہجرت کا تصور کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
یہ ایک زندگی میں کئی زندگی جی لیتے ہیں:
ہر نئی زبان سیکھنے کے بعد آپ کی شخصیت میں نیا نکھار آتا ہے۔ آپ جو بھی نئی زبان سیکھتے ہیں، اسی کے اعتبار سے آپ سوچنے اور غور و فکر کرنے لگتے ہیں۔ ہر زبان کی اپنی تہذیب اور اخلاقیات ہے۔ جب آپ ایک زبان سیکھتے ہیں تو آپ اس کی تہذیب اور اخلاقیات بھی سیکھتے ہیں۔ دہلی سے پٹنہ کے سفر میں ایک صاحب سے میری ملاقات ٹرین میں ہوئ۔ دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ وہ پیشے سے انجینئر ہیں اور ہندی ان کی مادری زبان ہے۔ انہوں نے اردو زبان سیکھی ہے اور وہ عشقیہ اشعار یاد کرتے ہیں۔ ان کی بیوی جب ان سے کسی بات پر خفا ہو جاتی ہیں تو انہیں موم کرنے کے لیے وہ اردو الفاظ اور اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ شریک حیات کے غصہ ہو جانے پر وہ بیوی کا نام لیکر "بیگم” کہہ کر پکارتے ہیں اور اردو کے اشعار گنگناتے ہیں، بیگم پگھل کر گود میں سما جاتی ہیں۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر نئی زبان کے ساتھ آپ اپنی ایک الگ شخصیت بھی بناتے ہیں اور اپنے گفتار و کردار سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی زبان کے ساتھ نئی تہذیب و ثقافت کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ اس نئی تہذیب کی بہت ساری چیزوں کو اپنے اندر غیر شعوری طور پر داخل کر لیتے ہیں۔ نئی زبان سیکھنے کے حوالے سے انگریزی میں ایک بڑی اچھی کہاوت ہے:
Learn a new Language and get a new soul
یہ زیادہ تنقیدی اور تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں:
ایک سے زیادہ زبان جاننے والے بلا شبہ زیادہ تنقیدی اور تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ جو ایک سے زیادہ زبان جانتے ہیں وہ دوسری زبانوں کی اہم تخلیقات و تصنیفات سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں۔ یہی لوگ دوسری زبانوں میں کیے گئے تجربات کو اپنے یہاں رائج کرتے ہیں۔ جو صرف ایک زبان جانتے ہیں وہ نہ اچھی تنقید لکھ سکتے ہیں اور نہ اچھی تخلیق، وہ بس روایتی گفتگو کر سکتے ہیں۔ خیال کے "لین دین” کے بنا اچھی تنقید و تخلیق مشکل ہے۔ اردو میں جو اہم تنقید نگار اور فکشن نگار ہوئے ہیں وہ ایک سے زیادہ زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، چاہے وہ مشرقی زبانیں ہوں یا مغربی یا یوروپی۔ موجودہ دور میں تنقید و تخلیق کے باب میں جن کے نام فخر سے لیے جا سکتے ہیں وہ سب بھی اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کی اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید ہی تنقید اور ان کی تخلیق ہی تخلیق معلوم ہوتی ہے جن کا مختلف زبانوں کا مطالعہ ہے۔
ان کی یاد داشت اچھی ہوتی ہے:
نئی زبان سیکھنا در اصل ایک ذہنی ورزش ہے۔ جس طرح جسمانی ورزش کے ذریعہ آپ اپنے جسم کو مضبوط اور توانا بناتے ہیں اور عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ دنوں تک جوان اور فٹ رہتے ہیں اسی طرح ذہنی ایکسرسائز اپ کے ذہن و دماغ کو زیادہ دنوں تک جوان اور فٹ رکھ سکتا ہے۔ ذہنی ورزش کے لیے نئی زبان سیکھنے سے زیادہ بہتر شاید ہی کوئی اور نسخہ ہو۔ نئی زبان سیکھنا آپ کے ذہن و دماغ کو مؤثر بناتا ہے اور اسے ہمیشہ جوان رکھتا ہے۔ نئی زبان سیکھنے کے دوران آپ نئے نئے الفاظ و محاورے یاد کرتے ہیں، قواعد پڑھتے ہیں، جملے بناتے ہیں اور لکھتے بولتے ہوئے کوئی غلطی نہ ہو، اس کو لیکر بھی آپ کافی محتاط رہتے ہیں۔ اس سارے پروسیس کے پیچھے آپ کا دماغ بہت کام کرتا ہے۔ اگر آپ کو یہ معلوم کرنا ہے کہ زبان سیکھنے کے دوران آپ کا دماغ کتنا متحرک رہتا ہے، تو آپ نئی زبان، جو سیکھ رہے ہیں، صرف پندرہ منٹ بول کر دیکھیں، آپ پائیں گے کہ آپ ذہنی طور پر کافی تھک چکے ہیں۔ ایک تحقیق میں یہ خلاصہ ہوا ہے کہ جو انسان ایک سے زیادہ زبان بولتا ہے اسے الزایمر (Alzheimer) کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس بیماری کا حملہ پچاس ساٹھ کی عمر میں ہوتا ہے جس میں انسان کی یاد داشت ختم ہو جاتی ہے۔
ان میں رواداری کے عناصر زیادہ ہوتے ہیں:
زبان جذبوں سے عاری کوئی مشین نہیں ہے، زبان لفظوں کا مجموعہ ہے اور ہر لفظ میں کوئی نہ کوئی انسانی جذبہ اور احساس رچا بسا ہوتا ہے۔ جب آپ زبان پڑھتے ہیں تو در اصل آپ ایک نیا سماج اور معاشرہ بھی مطالعہ کرتے ہیں، جس کے رہنے سہنے، کھانے پینے اور بات چیت کا انداز آپ کے معاشرے سے مختلف ہوتا ہے۔ آپ زبان کی مدد سے اس سماج کے لوگوں سے بات کرتے ہیں، ان کی نفسیات پڑھتے ہیں اور تہذیبی سطح پر پائے جانے والے اختلافات کو قبول کرتے ہیں۔ یہ شاید صرف ایک زبان بولنے والے نہ کر سکیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اس صدی کا تعلق جنتا سائنس و ٹیکنالوجی سے ہے اتنا ہی نئی زبانوں کے سیکھنے سے بھی ہے۔ اگر آپ سانئس کی طرف نہیں جاتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی میں کم از کم چار پانچ نئی زبانیں ضرور سیکھنی چاہیے۔ یہ نہ صرف معاش اور روزگار نقطۂ نظر سے اہم ہے بلکہ آپ کی شخصیت اور ذہن و دماغ کی ترقی کے لیے بھی بے حد کارآمد ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
بہت ہی شاندار اور علمی و انطباقی مضمون ہے ، مضمون نگار قابل مبارکباد ہیں ۔