شاعری میرے نزدیک وسیلہ اظہار کے سوا اور بھی کچھ ہے۔یہ حسین تصورات کی جلوہ گری ہے،رات گئے آنکھوں میں سمانے والا خواب ہے،صبح کی وہ پہلی کرن ہے جو ایک نئی زندگی کے آغاز کا اعلان کرتی ہے۔شاعری درد دل بھی ہے اور درد دل کی دوا بھی ہے۔شاعری دل کے خانقاہ میں پلتی ہے لہذا جذبۂ عشق کے تمام تر آداب سے آشنا ہوتی ہے۔ جذبۂ عشق جب عقیدت کی سرحد کو لانگھتا ہے تو ایسے مقام پر چلا آتا ہے جہاں یا تو کوئی نہیں ہوتا یا وہاں صرف وہ ہی وہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر شیخ رحمنٰ اکولوی بھی شاعری کے خانقاہ کی ایک معتبر آواز ہیں۔
"خیال یار "ڈاکٹر شیخ رحمنٰ اکولوی کی پندرہویں کتاب ہے اور یہ انکی اردو ادب کی خدمات کا بین ثبوت ہے۔”خیال یار”شعری مجموعہ ہے۔جس میں موصوف کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔میں اپنی بات کی شروعات موصوف کے اس شعر سے کرنا چاہتا ہوں جو انتساب میں درج ہے۔
نمود ذات کی خواہش کسے نہیں ہوتی
ہنرور ہاتھ مل جائیں تو پتھر بولتے ہیں۔
اس شعر میں موصوف نے حق بات کہی ہے یقیناً ہنر ور ہاتھ کا نصیب ہونا خوش نصیبی کی علامت اور خالق کائنات کا کرم ہے۔کائنات کی ہر شئے خواہش اظہار رکھتی ہے اور خوش بختی سے کوئی ہنرور مل جاتا ہے تو اپنے حسن کا اظہار بھی کرتی ہے۔مجموعے کی شروعات حمد سے ہوئی ہے اس کا ایک بند پیش خدمت ہے جس میں شاعر نے بہت حسین خیال کا بر ملا اظہار کیا ہے۔
میری ابتدا میں تو
میری انتہا میں تو
بس تو ہی تو
اللہ اللہ اللہ
اکولہ شہر سے پہلا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے شاعر جن کے تھیتھس کا موضوع "مہاراشٹر ریاست میں اردو طنز مزاح” رہا ہے انہوں نے اتنی سنجیدہ نظمیں کہی ہیں کہ ان کو داد نہ دینا غیر دیانتداری ہوگی۔اس مجموعے میں شامل نظمیں مختلف موضوعات پر ہیں۔عشق کا اظہار بھی ہے،ڑمانے کے رنج بھی ہیں،غموں کی سوغات بھی ہے تو مستقبل کی آگہی بھی ہے اور ان کے بیچ ان کا مزاح بھی بہ شکل پیروڈی ہے۔
نظم "کال بیل”بڑی خوبصورت تنہائی کا احساس ہے اور یہ احساس بہت تکلیف دہ ہے۔وقت بدلتے سارے مناظر یکسر بدل جاتے ہیں اور ایک وقت انسان پر ایسا بھی آتا ہے جب وہ بالکل تنہا ہوجاتا ہے اور جی خوش ہونے یا کرنے کے بہانے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔اس نظم میں شاعر نے اسی کرب کو بیان کیا ہے۔
نظم کے آخری چند سطور دیکھیں۔
اب یہ عالم ہے
تنہا ہوں ،اداس ہوں میں
کال بیل بھی ہے خاموش
سوچتا ہوں
کال بیل بجا کر
خود کو یاد کرلوں
خود کو دریافت کرلوں۔
خود کو دریافت کرلوں غضب کی تاثیر پیدا کرتا ہے۔
"آگہی” ایک خوبصورت نظم ہے جس میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کے جھوٹے سہارے سے بہتر ہے خدا سے مدد کی گہار لگائی جائے جہاں سب کی سنوائی ہوتی ہے۔اس کے سامنے دست درازی زیست کی سرفرازی ہے۔
نظم "کوڑا دان”انسانیت کو جھنجھوڑنے والی نظم ہے جس میں موصوف نے کوڑے دان کی زبان سے عصر حاضر کے کوڑے دان نما لوگوں پر گہری طنز کی ہے کوڑے دان سے تو کئی غریب جی جاتے ہیں مگر انسانی جسم جو کوڑا دان بنا ہوا ہے وہ محض غلاظت کا انبار ہے اور کچھ نہیں۔
"نئ پیڑھی” بھی عصر حاضر کا المیہ ہے شاعر نے جنریشن گیپ کی پول کھولی ہے۔اخلاقی تنزلی کی منھ بولتی تصویر ہے یہ نظم۔
"رنگ ترنگے کے” ہندی شاعرہ ارمیلا شکلا کا ہے جسے موصوف نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا ہے کہ حق کسی زبان،ریاست یا عقائد کی محتاج نہیں ہوتی نیز موصوف نے اس نظم کا ترجمہ کرکے یہ بھی باور کرایا کہ دوسری زبانوں کے ادب میں بھی انمول خزانے ہیں انہیں ترجمہ کے راستے ادب میں شامل کیا جاسکتا ہے۔اس نظم میں ملک کا موجودہ حال پیش کیا گیا ہے اور بڑی ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے۔
نظم” کم ظرف ” ان کی طرف ایک اشارہ ہے جو خیالی دنیا میں جیتے ہیں یا جو خوش فہمی کی انتہا پر اپنا کولہا ٹکائے بیٹھے ہیں۔موصوف نے اس نظم میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس دنیا میں کسی چیز کو ثبات نہیں اور تبدیلی اس جگ کی ریت ہے جو اپنی حقیقت سے خبر دار ہوتا ہے وہ زمین نہیں چھوڑتا یہ زمین ہماری حقیقت ہے یہ مٹی ہمارا حاصل زندگی۔
اردو شاعری میں محبوب ہمیشہ جفا پرست ہوتا ہے وہ جس بلا کا حسین ہوتا ہے اسی بلا کا بے وفا اور غیر معتبر مگر عاشق تو عاشق ہوتا ہے وہ محبوب کے در پر وفا کے دئے اور اشکوں کے نذرانے پیش کرتا رہتا ہے اور یہ تمنا اسکے دل میں ہمیشہ رہتی ہے کہ اس کا محبوب کاش وفا شعار ہوتا نظم ۔”لیکن” اسی نظرئے کو بخوبی پیش کرتا ہے۔
نظم”تم” ایک خوبصورت اعتراف ہے اپنے شریک حیات کا یقیناً ایک مرد کی زندگی میں اسکی شریک حیات راحت کا سبب ہے ،رب کی ایک نعمت ہے۔موصوف نے اس نظم میں اپنی شریک حیات کا تہہ دل سے استقبال کیا ہے اس کی اہمیت کا گن گان کیا ہے۔
جو اپنے اسلاف کو بھول جاتے ہیں دنیا انہیں بھول جاتی ہے۔ہمارے اسلاف ہمارا اثاثہ ہیں ان کی حیات ہمارے لئے راہ نما ہیں مگر ہم نے ترقی کی سرپٹ دوڑ میں اتنا دور نکل گئے کہ اپنی شناخت بھی کھو بیٹھے اور تباہی و بربادی کی دہلیز پر پہنچ گئے۔نظم”روشنی”ہماری اس روش پر اشکبار ہے۔
دور رواں میں انسان ایک نمبر بن چکا ہے یہ جگ ظاہر ہے کل تک اپنے نام سے جانا جانے والا شخص نام کے ساتھ ایک نمبر بھی رکھتا ہے جو اسے دنیا میں پہچان دیتی ہے زندگی کے ہر شعبے میں آدمی کی شناخت ایک مخصوص نمبر سے ہو رہی ہے یہ ترقی ہے یا تنزلی پتہ نہیں مگر انسان اس نمبر میں گم ہوگیا ضرور ہے۔نظم”اشرف المخلوقات” میں اس ظریفانہ انداز میں بیان کیا ہے جس میں بھی ایک لمحہ فکر شامل ہے۔
"نظم دشمن ضروری ہے” اچھی اور سبق آموز نظم ہے۔سرسید احمد خان اپنے مقالے "ریا” میں رقمطراز ہیں۔
"دوست ہمیشہ اپنے دوست کی نیکیوں کو بڑھاتا ہے اور دشمن عیبوں کو ،اس لئے ہم کو اپنے دشمن کا ذیادہ احسان مند ہونا چاہئے کہ وہ ہم کو ہمارے عیبوں سے مطلع کرتا ہے۔اگر ہم نے اس کے طعنوں کےسبب ان عیبوں کو چھوڑ دیا تو دشمن سے ہم کو وہی نتیجہ ملا جو ایک شفیق استاد سے ملنا چاہئے تھا”
موصوف نے اپنی زندگی میں جو ہفت رنگ دیکھا اس رنگوں کا مرکز محبوب کا خیال ہی تھا جس نے بے رنگ زندگی میں رنگ بھرا۔ہمہ وقت شاعر کے احساس میں بسنے والا خیال یار نہ ہوتا تو شائد زندگی اجیرن ہو جاتی اور تنہائی کی تاریک راتوں کو صبح کا دیدار نہ ہوتا۔موصوف نے اپنے خیال میں ہر وقت موجود رہنے والے خیال یار کا بہت خوب شکریہ نظم”خیال یار ” میں پیش کیا ہے۔
اس مجموعے میں چار غزلیں اور ایک ہزل شامل ہے۔
غزلوں کے چند خوبصورت اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں امید ہے آپ پسند فرمائیں گے۔
آج دنیا میں کیا نہیں ہوتا
آدمی اس خدا نہیں ہوتا
دل ناداں کو کون سمجھائے
پیار کا کچھ صلہ نہیں ہوتا
حقیقت کے جب افسانے بنے ہیں
خرد والے بھی دیوانے بنے ہیں
یہ ان کی اک نظر کا ہے کرشمہ
کہ جس کےلاکھ افسانے بنے ہیں
تجربے ،مشاہدے اور جذبات نگاری کے بیان کے ساتھ ہی موصوف نے مزاح کا تڑکا لگایا ہے اور ایک پیروڈی شامل کی ہے "ایک لیڈر کو دیکھا تو ایسا لگا” بہت خوب ہے.
کتاب کی ترتیب کے وقت نظموں کے نیچے ان اخبارات و رسائل کا حوالہ بہت خوب لگتا ہے۔”انعامات”اور حوصلہ افزائی”کے زیر عنوان انعامات اور مشاہیر ادب کے وہ سطور پیش کئے گئے ہیں جن سے قاری کو ان کے فن اور شخصیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔مجموعے کے آخر میں مختار یوسفی کی ایک خوبصورت توصیفی نظم شامل ہے۔ اسلوب صاف ستھرا ہے۔ثقیل الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس مجموعے کو ہر خاص و عام کی ذہن تک رسائی دلانے میں کامیاب ہوگا۔کتآب کا سرورق جاذب نظر ہے۔٨٠ صفات پر مشتمل یہ ایک خوبصورت شعری مجموعہ ہے۔میں اس مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور خالق حقیقی سے دعا کرتا ہوں کہ ڈاکٹر شیخ رحمنٰ اکولوی کا سفر یونہی رواں دواں رہے۔آمین۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ماشاء اللہ بہت عمدہ۔۔۔۔۔واقعی آپکے لکھنے انداز بلکل منفرد ہے۔۔۔۔