کتنا خوب صورت، جاذب نظر، دل کش اور دل نشیں عنوان ہے-
پہلی نظر میں تو مجھے ایسا لگا کہ پریم چند کے گاؤں لمہی اور میلا آنچل والے پھنیشور ناتھ رینو کے گاؤں اوراہی ہنگنا کی طرح نظیر اکبر آبادی کا بھی کوئی گاؤں ہوگا جس کو تلاش کرنا ہے— مگر پھر یہ خیال آیا کہ نظیر تو دلی کے ایک ثروت مند خاندان میں پیدا ہوئے تھے، گاؤں سے ان کا کوئی رشتہ تو تھا نہیں۔ تب سمجھ میں آیا کہ بات ان کے پیدائشی گاؤں کی نہیں بلکہ اس گاؤں کی ہے جو ان کے ذہن، ذات اور شاعری میں آباد ہے— جو ایک زندہ وجود اور ثقافتی قدر کے طور پر ان کے ہاں تابندہ ہے— ان کا گاؤں کوئی مخصوص قطعہ اراضی یا زمین کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ فطرت اور ثقافت سے ہم رشتگی اور معصومیت و یگانگت سے عبارت ایک جمالیاتی احساس اور تہذیبی تکثیریت کا نام ہے— یہ گاؤں بیگانگی اور مغائرت نہیں بلکہ محبت اور مودت کا ایک استعارہ ہے—ایسا گاؤں تو اکبرآباد میں بھی ہو سکتا ہے اور ارریا میں بھی— یہ انگریزی کے فکشن نگار راجہ راؤ کے کانتھاپورا یا آر کے نارائنا کے مال گوڈی کی طرح مشخص گاؤں نہیں ہے— بلکہ ہر وہ گاؤں نظیر کا ہے جہاں پنگھٹ ہے، گھونگھٹ ہے، گوریا ہے، گوریاں ہیں، گجرا ہے، بانس ہے، بسواری ہے، کنواں ہے، رہٹ ہے، میلے ٹھیلے اور کھیل تماشے ہیں— جہاں فطرت اور انسان کا رشتہ مرا نہیں ہے— جہاں بے چہرگی نہیں بلکہ ہر فرد کا ایک چہرہ ہے— جہاں انسان کی شناخت نیم پلیٹ یا مکان نمبر سے نہیں بلکہ اس کی اپنی ذات سے ہوتی ہے— نظیر اکبرآبادی نے گاؤں کے سارے اوصاف و خصائص، متعلقات اور تلازمات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور گاؤں کو ایک مثبت، مربوط کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ حتی کہ گاؤں کی بولیوں اور الفاظ کو بھی نئی زندگی دی ہے۔ نظیر کے ذخیرہ الفاظ میں وہ تمام علاقائی اصطلاحات اور لفظیات ہیں جن کے معانی اب لغات میں بھی نہیں مل سکتے— ایسے ایسے جانوروں، درختوں، پھل پھولوں، پتنگوں، پیشوں کے نام انہوں نے اپنی شاعری میں لکھے ہیں کہ ماہرین لغات بھی شاید ان سے آشنا نہ ہوں۔
نظیر نے عوامی سائیکی اور نفسیات کی عکاس زندگی آمیز گاؤں کی زبان کو زندہ رکھا اور حاشیائی الفاظ و اصطلاحات کو موت سے محفوظ رکھا۔ یہ ان کا بڑا کمال ہے۔
آج جس حاشیائیت یا سب الٹرن کی بات تنقیدی ڈسکورس میں ہوتی ہے۔ نظیر نے تو اس کا عملی تصور بہت پہلے پیش کر دیا تھا— نظیر ایک فطری نظریہ ساز تھا— اس کا کوئی بھی نظریہ مغرب سے مستعار یا مستفاد نہیں بلکہ ان کے مشاہدات اور نجی تجربات کا کشید کردہ تھا-
نظیراکبرآبادی کی پوری شاعری دیہی فطرت اور جمالیات کا نگار خانہ ہے— دیہی جمالیات اور مقامی حیاتیات کا خوب صورت مرقع ہے-
نظیر کی شاعری کا خاص کردار عوام ہے— وہ عوام جس کی تصویر نظیر کے ’آدمی نامہ‘ میں نظر آتی ہے اور ’روٹیاں‘ میں بھی-
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہے روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
نظیر اکبرآبادی کا گاؤں تو وہ ہے جہاں مذہبی فناٹیسزم نہیں بلکہ تعامل،تعاون، مساوات اور مواسات کا جذبہ ہے— رواداری کی لو روشن ہے— تیوہاروں اور تقریبات میں کوئی تفریق نہیں— یہ مل جل کر ایک دوسرے کے تہوار مناتے ہیں— عید ہو یا دیوالی، شب برأت ہو یا بسنت، کسی مذہب کی مہر نہیں لگتی— ساری خوشیاں مذہبی حصاروں کو توڑ کر تمام چہروں کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیتی ہیں—
اسی لئے ہر آن خوشی سے آپس میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں
اور دیوالی میں بھی روشنی چند خاص گھروں میں قید نہیں ہوتی بلکہ ہر طرف پھیلتی ہے اور ہر اک مکاں روشن ہوتا ہے:
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے دل میں سما بھا گیا دیوالی کا
یہاں بھی نظیر ہر ایک طرف اور سبھی کے دل کی بات کہہ کر گاؤں کے اجتماعی طرز احساس کا اشارہ دیتے ہیں۔
سید ولی محمد نظیر نے اُس متھرا میں معلمی کی تھی جو محبت کا اسطور ہے جو دیہی ثقافت کا روحانی مظہر ہے۔ جہاں کے برنداون میں گاؤں کے فطری مناظر اور مظاہر کے سارے نقوش تابندہ ہیں۔ یہ نقوش مٹ جائیں تو متھرا کا روحانی وجود منہدم ہو جائے گا۔ دیہی اقدار و روایات نے ہی اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ ا سی متھرا کے سب سے خوب صورت رومانی اور روحانی کردار کرشن کنہیا نظیر کے آئیڈیل تھے— اسی لئے تو جتنی وارفتگی اور شیفتگی کے ساتھ کرشن جی پر نظیر نے نظمیں لکھیں شاید ہی ہندی کے کویوں نے اتنی عقیدت کے ساتھ لکھی ہوں گی— کنہیا کی بانسری سے متاثر ہو کر نظیر نے کیسے کیسے نغمے چھیڑے ہیں:
سب ناری آئیں گو کُل کی اور پاس پڑوسن آ بیٹھیں
کچھ ڈھول مجیرے لائی ہیں کچھ گیت جچا کے گاتی ہیں
کچھ ہر دم مکھ اس بالک کا بلہاری ہوکر دیکھ رہیں
کچھ تھال پنجیری کے رکھتیں کچھ سونٹھ سنٹھورا کرتی ہیں
یہ ڈھول مجیرے تھال پجیری سونٹھ سنٹھورا سب گاؤں کی لفظیات، ثقافتی علامات ہیں—متھرا، گوکُل اور برنداون— یہ نظیر کے گاؤں ہیں جہاں ساری روحانی، تہذیبی، اخلاقی قدریں زندہ ہیں— انہی گاؤں کے علامات و اساطیر سے ان کی شاعری کا نگارخانہ آباد ہے— یہ صرف گاؤں نہیں ہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے استعارے ہیں—وہ زندہ علامتیں جو اگر مٹ گئیں تو ہندوستانی سنسکرتی اور سبھیتا کا سورج غروب ہو جائے گا-
بھارت کی آتما جس گاؤں میں بھی زندہ ہے وہ گاؤں نظیر اکبرآبادی کا ہے— اُس گاؤں کو ثقافتی حافظے میں محفوظ رکھنا اب ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ مگر ہماری معاشرت اور ثقافت کے ساتھ موجودہ عہد میں بہت سے المیے جڑ گئے ہیں ان میں ایک بڑا لمیہ گاؤں کی گمشدگی اور صنعتی صارفی شہری تہذیب کا تسلط ہے۔ گاؤں کے آنگن میں اب شہر داخل ہوتا جا رہا ہے۔ شہر کی میکانکیت نے گاؤں کی محبت اور معصومیت چھین لی ہے— آلہا اودل کے قصے اور حسینی پیا کے گیت گم ہوتے جا رہے ہیں۔گاؤں کا چہرہ اور چرتر بدل رہا ہے— ماڈرنائزیشن اربنائی زیشن نے گاؤں کا سارا فطری حسن و جمال چھین لیا ہے— اور ساتھ ہی فطری احساس و اظہار بھی— علاقائی بولیاں، محاورے الفاظ بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں— ہماری زبان کا یہ المیہ ہے کہ تطہیر پسندوں نے خالص فطری عوامی زبان بھی ہم سے سلب کرلی— یہ بھی ایک عجب المیہ ہوا کہ تصنع اور تکلف سے پاک فطری اظہار و احساس کی ایک علامت چمو بی بی بھی غائب ہوگئی— امیر خسرو نے جس کے لئے یہ کہا تھا کہ:
اوروں کی چوپہری باجے چمو کی اٹھ پہری
باہر کا کوئی آئے ناہیں آئیں سارے شہری
رین، نین، ساجن جیسے کومل شبد بھی گم ہوتے جار ہے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے الفاظ لے رہے ہیں— اب زبان کا ذائقہ اور زائچہ دونوں بدل گئے ہیں— تطہیر پسندوں نے اس اچھی خاصی صاف ستھری زبان کو بھی مثلہ بنا دیا— جس زبان کو نظیر نے نئی زندگی اور تازگی عطا کی تھی—وہی نظیر جس کو مولانا عبدالباری آسی نے ایران کا سعدی اور انگلینڈ کا شیکسپیئر کہا تھا اور اشپرنگر نے یہ لکھا تھا کہ نظیر ہی ہندوستان کا واحد شاعر ہے جو مغربی شاعری کے معیار پر پورا اترتا ہے— بہت افسوس ہوتا ہے کہ نظیر جیسے ہفت زبان اور ہفت قلم شاعر کو نظر انداز کیا گیا— ابتذال و سوقیت سے متہم کیا گیا— یہ تو خدا بھلا کرے سر مہرا گاؤں ضلع پٹنہ کے پروفیسر عبدالغفور شہباز کا جنہوں نے زندگانی بے نظیر لکھ کر نظیر کو زندہ جاوید کر دیا-
میرا خیال ہے کہ اگر نظیر جیسا شاعر زندہ نہیں رہا تو شاعری کی زندگی پر بھی اس کا منفی اثر پڑے گا یا شاعری کی زندگی بھی معرض خطر میں پڑ سکتی ہے-
نظیر نظم کا وہ پورا آدمی ہے جس کے بغیر نظمیہ شاعری کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔بھیڑ کا ایک ایسا شاعر جو اپنی حقیقی پہچان اور جداگانہ شناخت رکھتا ہے— بھیڑ میں اس کی شناخت گم نہیں ہوئی بلکہ بھیڑ نے ہی اسے ایک مضبوط اور مستحکم شناخت عطا کی ہے-
نظیر اس فقیر کی دعا تھے جس نے ان کے والد محمد فاروق سے یہ کہا تھا کہ یہ بچہ نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ اس کی خوشبو دور دور تک پہنچے گی-
اس فقیر کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی اور نظیر کی خوشبو قریہ قریہ، نگر نگر پھیل رہی ہے-
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page