”شام کے سائے“کی شاعری نئی نسل کے ذہنی دریچے کو وا کرتی ہے: مولانا طاہر مدنی
پریس ریلیز
اعظم گڑھ (7/اگست) اچھی شاعری روح کو تازہ کرتی ہے اور ذہن کو غذا فراہم کرتی ہے۔ جامعۃ الفلاح نے کئی ایسے باکمال پیدا کیےہیں جنھوں نے اپنی ریاضت سے شعر و ادب کے ذخیرے میں اہم اضافہ کیا ہے۔ انھیں میں سعید اختر اعظمیؔ بھی ایک روشن نام ہے۔ انھوں نے جامعۃ الفلاح سے اکتساب علم کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر عصری دانش گاہوں سے فیض اٹھا کر اپنی شاعری کی دھار کو تیز تر کیا ہے اور ریاض جیسے شہر میں عرصے سے مقیم رہنے کے باوجود اپنی ایک خاص پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار آج جامعۃ الفلاح کے ابو اللیث ہال میں منعقد سعید اختر اعظمیؔ کے اولین شعری مجموعے ”شام کے سائے“کی تقریب رونمائی میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد طاہر مدنی نے کیا۔ مولانا مدنی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے آگے کہا کہ سعید اختر اعظمیؔ کی چالیس سالہ محنتوں کا ثمرہ ان کا یہ دیوان اس بیانیے کی ایک اہم دلیل ہے کہ مدارس اور اہلِ مدارس نے اردو زبان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے ارتقاء میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس مجموعے میں شامل غزلوں کے مطالعے سے سعید اختر اعظمیؔ کی خوبصورت زبان پر قدرت اور ان کی فکر کی بلندی کا پتہ چلتا ہے۔ یقیناً وہ ایک ہنرمند فنکار ہیں اور اپنی خلاقانہ قدرت سے شعر و ادب میں بیش بہا اضافہ کرنے میں کامیاب ہیں۔
اس موقعے پر شبلی کالج اعظم گڑھ کے شعبۂ انگریزی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور معروف شاعر و ناقد ڈاکٹر سرفراز نوازؔ نے کہا کہ سعید اختر اعظمی ؔنے اپنی غزلوں کا انتخاب شائع کر کے ایک خوبصورت تحفہ باذوق قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ ”شام کے سائے“میں شامل غزلیں انسانی ذہن کے ارتقاء کی ایک مثال ہے۔ اس کی لفظیات و تراکیب قاری کو متاثر کرنے میں کامیاب ہیں۔ تقریب کی نظامت کرتے ہوئے جناب رجب علی نے کہا کہ ”شام کے سائے“ کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری بار بار رک کر غزل کی معنیاتی تہوں کو گہرائی سے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کئی غزلیں اتنی تہہ دار ہیں کہ رک کر غور و فکر کیے بغیر اس کے لطف سے سرشار نہیں ہوا جا سکتا۔ اس لیے ہمیں بہت بیدار ذہن ہو کر اس کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ افتخار الحسن محشرؔ، احسان الحق عارفؔ فلاحی، شاہ عالم فلاحی، نوشاد اشہرؔ، شمیم احمد شمیمؔ، عبد الرحیم ارحمؔ، آفتاب عالم دھڑکنؔ، جاوید رہبرؔ، عرفان اعظمیؔ، منظر اعظمیؔ، ڈاکٹر رفیق گڑبڑؔ، گھائلؔ مبارکپوری اور نسیم ساز ؔنے بھی تقریب میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ دیر رات تک چلی اس تقریب میں جامعۃ الفلاح کے اساتذہ اور طلبہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آخر میں سعید اختر اعظمی ؔکے شکریے کے ساتھ پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
*
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page