سال بیلوکاانٹرویوThe Art Of Fiction،1966میں شائع ہوا۔The Parris Reviewمیں اس کانمبر 37ہے۔اس کاترجمہ کرتے ہوئے بیلو کی اس تقریر کاخیال آیاجو انہوں نے نوبیل پرائز قبول کرتے ہوئے کی تھی۔باقر نقوی نے اپنی اہم کتاب نوبیل ادبیات میں بیلو کی تقریر کاترجمہ بھی پیش کیاہے۔نوبیل انعام کو قبول کرتے ہوئے جن اہم تقاریر کوشہرت ملی ان میں اہم تقریر اورحان پامک کی تقریر ’ابا کاسوٹ کیس‘ بھی ہے۔اس کاترجمہ اجمل کمال اور عمر میمن نے کیاہے۔یہ تقریر اتنی اہم اور فکر انگیز ہے کہ اسے بار بارپڑھنے کو جی چاہتا ہے۔سارابھید تو اباکاسوٹ کیس میں ہے جس کاایک حقیقی وجود تھا۔پامک نے ایک حقیقی واقعے کاذکر کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ وہ کہانی میں تبدیل ہوگیاہے۔سال بیلو کی تقریر دیگر تقاریر سے خاصی لمبی ہے۔یہ خطبہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ وہ امریکہ کی تہذیبی زندگی کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔عموماًادیب جس ملک کاشہری ہے وہاں کے بارے میں بہت احتیاط سے بولتااور لکھتاہے۔فکشن میں تو حقائق کچھ بدل جاتے ہیں۔لہذ ا گرفت کی وہ صورت باقی نہیں رہتی ہے جو کسی تقریر یاتحریر میں ہوسکتی ہے۔سال بیلو نے اپنی تعلیمی زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ بھی بتایاہے کہ وہ کن ادیبوں سے متاثر رہے ہیں۔ان کی شناخت ایک ناول نگار کی ہے۔لہذایہ اور بھی ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ ایک ناول نگار کس طرح اور کیوں کر اپنے دور کی سماجی، سیاسی اور تہذیبی صورت حال سے گہری وابستگی کااظہار کرتاہے۔
وہ بار بار زمانے کی طرف دیکھتاہے اور زمانہ سیاست کے بغیر پہچانانہیں جاتا۔عالمی جنگ ہو یامقامی جنگ دونوں صورتوں میں سیاست اپنا اہم کردار اداکرتی ہے۔باقر نقوی نے بہت اختصار کے ساتھ سال بیلو کی زندگی اور تصانیف کے بارے میں لکھاہے بلکہ اسے فہرست کہنازیادہ مناسب ہوگا۔مگر چند جملے ایسے ہیں جو سال بیلو کی ناول نگاری اور دیگر تحریروں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بیلو کے گیارہ ناول اور کہانیوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ان کی ایک کتاب Two Jerusalem & Back شائع ہوئی جو اسرائیل میں ان کے قیام سے متعلق ہے۔یہ کتاب ایک مخصوص خطے میں قیام کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔آج کی تاریخ میں اسرائیل سے متعلق بیلو کے خیالات کامطالعہ اور بھی دلچسپ ہو جاتاہے۔بیلو نے ناول کے کرداروں اور کرداروں سے ناول کی بڑھتی ہوئی دوری کے مسئلے پر بہت فکرانگیز خیالات کااظہار کیاہے۔انیسویں صدی میں کردار ناول کے لیے لازمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ناول کے کردار دھیرے دھیرے مقتدرہ کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں اس بارے میں سوچاتوگیامگر بیلو کی طرح کسی نے نہیں سوچا۔بیلو نے جس نظر سے کرداروں کو دیکھاہے وہ آج کی نظر معلوم ہوتی ہے۔گر چہ یہ خطاب 1976کاہے۔مگر اسے پڑھتے ہوئے تازگی کااحساس ہوتاہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ 70کی دہائی کے بعد ناول کی دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں،ان میں تکنیک سے زیادہ موضوع کااہم حصہ رہاہے۔تکنیک کاحوالہ بالآخر موضوع کے زیر اثر آجاتاہے۔کردار جب غائب ہوجائیں یاسائے کی طرح معلوم ہوں تووہ زندگی کی ٹھوس سچائیوں سے دور جاپڑتے ہیں۔کردار ٹھوس حقائق کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں تو مکالمے کے درمیان کبھی کبھی حقائق دھندلا تے بھی جاتے ہیں۔مگر کردار حقائق کاساتھ نہیں چھوڑتے یاحقائق کردار سے اپنی برأت کااعلان نہیں کرتے۔بیلو نے کانراڈکاذکر کرتے ہوئے کہا ہے۔
”اس کے موضوعات سیدھے سادے ہوتے ہیں۔فرض شناسی،کمان داری،بحری روایات، نظام مراتب،نازک اصولوں پر مبنی جن پر اس وقت عمل کیاجاتاجب کسی طوفان کاسامنا ہوتا۔گو ان نازک دکھائی دینے والے اصولوں کی طاقت پر، اور اپنے فن پر یقین رکھتاتھا۔اپنی کتاب The Nigger Of The Narcissus کے دیباچہ میں اس نے اپنے اصول بہت سادگی سے بیان کیے ہیں۔کانراڈ کاکہناہے کہ فن نظرآنے والی کائنات کے ساتھ اعلی ترین انصاف کی کوشش کرتاہے کہ فن نے اس کائنات میں مادے اور زندگی کے حقائق کے تناظر میں وہ کچھ تلاش کرنے کی کوشش ہے جو بنیادی اہمیت کاحامل ہے،پائیدار ہے اور ضروری ہے۔۔۔۔ابتدا میں توفن کار کے سامنے اس کااپناوجود تھا وہ اپنے وجود کی گہرائیوں میں اترتاگیااور اس کی ان تنہائیوں کے علاقے میں ابھرنے والے بہت سے سوالوں کا ادراک ہوا۔“(ترجمہ باقر نقوی)
کانراڈ کایہ اقتباس بھی بیلو نے پیش کیاہے۔
”اس حصے میں جو اس کو تحفے میں ملاتھاحاصل نہیں کیاگیاتھاجس میں مسرت کی صلاحیت بھی تھی اور حیرت کی بھی۔درد کی بھی اور محرومی کی بھی۔ان تمام محسوسات کی جو انسانیت کی تخلیق میں روز ازل سے کارفرما ہے۔اس موہوم جذبہ یگانگت کاجوتنہائی کے مارے ہوئے دلوں کو ایک ساتھ نتھی کرتاہے تمام تر انسانیت کو یکجاکرتاہے۔مرجانے والوں کو زندہ رہ جانے والوں سے اور زندہ رہ جانے والوں کو مستقبل میں پیداہونے والے ادیبوں سے۔“
کانراڈ کے یہ خیالات بیلو کو اپیل کرتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عصری تناظر میں دیکھناچاہیے تاکہ یہ حقیقت روشن ہو کہ ناول یاکوئی تخلیق کس طرح زندوں اور مردوں کووقت اور آنے والے وقت سے جوڑتی ہے۔اس کے لیے فن کار کو کیسی تخلیقی بصیرت کی ضرورت ہے یہ کوئی اور بتاتو سکتاہے مگر وہ ایک خارجی قصہ ہوگا۔اصل چیز تو تخلیق ہے کہ وہ کس طرح روایت،عصر اور مستقبل سے بیک وقت رشتہ قائم کرتی ہے۔بیلو نے صاف طور پر لکھاہے کہ میرارشتہ ان قارئین سے ہے جو انسانی اقدار اور عقیدے کے گرویدہ ہیں۔ہیمنگ وے نے ان اقدار کو سوال کی زد میں لاکر قصہئ پارینہ بنادیاہے۔اس کے پیچھے ٹھوس سچائی اور حقیقت تھی کہ کس طرح جوہر ی اثرات نے انسان پرستی کوبے دخل کیاہے۔بیسویں صدی کے واقعات بیلو کو بار بار اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور پھر انہیں کا نراڈکی باتیں یاد آتی ہیں۔وہ ان باتوں کو لفاظی تک کہتے ہیں۔پھر بھی انہیں کانراڈکی سچائی اور ہوش مندی متاثر کرتی ہے۔بیلو کہتے ہیں کہ
”میراخیال ہے کہ ہمیں کانراڈ کے جملوں پر تشکیک کانمک چھڑکنے کی ضرورت نہیں مگر ایسے بھی لکھنے والے ہیں جن کے نزدیک کانراڈی ناول یااس نوع کے ناول ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکے ہیں۔مثال کے طور پر فرانسیسی ادب کے راہنماؤں میں سے Alain Robbe-Grillet ہے جوThingism کاسرخیل ہے۔لکھتاہے کہ ہمار ے دور کی عصری تخلیقات سارتر کی nauseaکامیو کی The Strangerیاکافکا کی The Castle میں آپ کو کردار نہیں وجود یاصفات ملیں گے۔وہ کہتاہے کہ کرداروں کاناول اب مکمل طور پر ماضی کاحصہ بن چکاہے جو در اصل ایک عہد کابیان ہے۔اور فرد کے منتہائے کمال کی نشاندہی کرتاہے۔“
معاشرہ جب فرد میں سمٹ جاتاہے یافرد معاشرے کی پہچان بن جاتاہے تو بہت سی سچائیاں دب جاتی ہیں یانگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔اس حقیقت تک پہنچنے کے لیے اس وقت کاانتظار کرناپڑتاہے جب معاشرہ فرد کو اپنے دامن میں کچھ اس طرح سمیٹتاہے کہ جیسے کوئی شئے کھو گئی تھی اور وہ مل گئی ہو۔فرد کو بیلو نے کردار کا نام دیاہے۔آج فرد کاتصور بڑی حد تک وجودی فکر سے قائم ہو گیاہے۔اردو ناول کے سیاق میں اگر دیکھا جائے تو وہ بڑی حدتک معاشرے کانمائندہ معلوم ہوگا۔یااس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک خاص وقت ہی ایسے کرداروں کو پیداکرسکتا تھا۔فرد کیاایک عہد کابیان ہو سکتاہے اور فرد کمال کی انتہا کی علامت بھی ہے۔بیلو کاخیال تو یہی ہے۔بیلو نے کردار کو رد کیاہے۔رد کرنے کاشعور اور حوصلہ انہیں بدلے ہوئے وقت نے عطاکیا۔ ناول کی دنیا اسی صورت میں پھیل سکتی ہے کہ اسے چند افراد یاچند خاندانوں کے عروج و زوال کی کہانی سے آگے لے جایاجائے۔انہوں نے بالژاک کے عہد کابھی ذکر کیاہے جس میں ایک کردار یاایک نام اہم ہوتاتھا۔کائنات توکائنات ہے۔بیلو کسی صورت میں اسے ایک چہرے کانام نہیں دے سکتے۔گویاہمارے عہد کو مختلف چہروں کی ضرورت ہے۔ کوئی ایک چہرہ تمام تربدصورتی کی علامت نہیں ہوسکتا۔سال بیلو کہتے ہیں۔
”میں خود بھی ازکار رفتہ عام تصوراور ہر قسم کی ہنوط شدہ لاشوں سے دل برداشتہ ہوں مگر اعلی درجے کے ناول پڑھنے سے کبھی نہیں تھکتا۔مگر کوئی ان کتابوں کے کرداروں کاکیاکرے؟ کیایہ ضروری ہے کہ کردار کی تفتیش کو ترک کردیاجائے؟ کیا ان میں موجود اتنی واضح خصوصیات مر سکتی ہیں؟۔کیاانسان بند گلی میں پہنچ گیاہے؟۔کیاانفرادیت واقعی تاریخی اور تہذیبی حالات پر اس قدر انحصار کرتی ہے۔؟کیاہم تحکمانہ انداز میں دی گئی تفصیلات کو قبول کرنے پر مجبورہیں؟۔ میراخیال ہے کہ سوائے ان خیالات اور حالات کے جن میں مسائل پوشیدہ ہیں کچھ بھی انسان کے کام کے نہیں ہیں۔ ان سب کی فرسودگی اور کوتاہی ہماری حوصلہ شکنی کرتی ہے۔مشکلات کامنبع تلاش کرنے کے لیے ہم کو اپنے اذہان کوکھنگالناہوگا۔“(ترجمہ باقر نقوی)
بیلو کے اس اقتباس سے ایک سنجیدہ قاری ناول نگار کی شبیہ ابھرتی ہے۔ان کی نگاہ میں اعلی درجہ کے ناول سے مراد کرداروں سے مزین ناول ہیں۔بیلو کی یہ بات بہت توجہ طلب ہے کہ کرداروں کے ساتھ جو خصوصیات وابستہ ہیں اور ناول نگار نے ان کے اظہار میں جن تفصیلات سے کام لیاہے کیاان سے پیچھاچھڑایاجاسکتاہے۔بیلو نے اس ضمن میں پانچ سوالات قائم کیے ہیں۔شاید کسی اور نے ناول کے کرداروں کے سلسلے میں ایسے سوالات قائم نہیں کیے۔ان کی یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ انفرادیت تاریخی اور تہذیبی حالات پر انحصار کرتی ہے۔عجیب قصہ ہے کہ ہمارے یہاں انفرادیت تاریخی اور تہذیبی حالات سے بے تعلقی کااعلان کرتی ہے۔گویا انفراد یت تاریخی اور تہذیبی حالات کے ساتھ قائم نہیں ہوسکتی۔البتہ بیلو نے ایک اہم بات یہ کہی کہ وہ خیالات اور حالات زیادہ اہم ہیں جو مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں باقی سب کچھ ہمارے لیے فرسودہ ہے۔اخیر میں بیلو اپنے اذہان کو کھنگالنے کی بات کرتے ہیں۔انہیں یہ بات بھی ٹھیک نہیں لگتی کہ کردار کی موت کے ضمن میں کسی کاغذ پر دستخط کیے جائیں۔فن تہذیب کے ساتھ کب تک اور کتنی دور تک چلے گااس کافیصلہ ناول نگارکو کرناچاہیے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان نظریاتی بنیادوں پر کرداروں کو رد کرناکہ فرد کازمانہ ختم ہو چکاہے، حماقت کی دلیل ہوگا۔ہم کو اپنے دانشوروں کو اپناحاکم نہیں بناناچاہیے۔
Part II
مانگی ہوئی دن کی روشنی میں بننے والا نقش در اصل ایک قسم کی موت ہے:سال بیلو
سال بیلو نے یہ بات عام زندگی کے سیاق میں کہی ہے۔عام زندگی انہی اطلاعات سے بنتی اوربگڑتی ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ ان عام اطلاعات کاہماری زندگی میں کوئی اہم مقام نہیں ہے۔انسانی آبادی میڈیاکے ذریعہ جن حقائق تک پہنچتی ہے انہیں چیلنج کرناایک معنی میں خود کو ماضی کاانسان بنالیناہے۔سال بیلوکی پریشانی یہ ہے کہ وہ میڈیاکے ذریعہ حاصل ہونے والی معلوما ت کو بڑی تخلیق کی راہ میں حائل سمجھتے ہیں۔تخلیق کار کے لیے لازم ہے کہ وہ ان معلومات کو خام مواد کی صورت میں دیکھتے ہوئے ایک ایسی دنیا تخلیق کرے جو معلومات کامحض حوالہ نہ بن جائے۔ سال بیلو نے امریکہ کی سماجی اور سیاسی صورت حال کو کئی بار موضوع گفتگو بنایاہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی معاشرہ جس طرز زندگی کی گرفت میں ہے اس میں پائیداری کافقدان ہے۔بائیں بازو کی تحریک نے روس میں جو حالات پیداکیے ان کی طرف بھی بیلو نے اشارہ کیاہے۔ نفسیات، سماجیات،تاریخ نویسی اور صحافت کے وسیلے سے جو آگہی انسانو ں تک پہنچتی ہے ان کے بارے میں ہمارارویہ مخلصانہ نہیں ہوتا۔ہم عام اطلاعات سے وہ ہی مطلب نکالناچاہتے ہیں جو ہمیں عزیز ہیں اور جن سے ہماری نفسیاتی الجھنیں تسکین پاسکیں۔میڈیا کے بارے میں سال بیلو نے ان دنوں یہ بات کہی تھی جب آج کی طرح میڈیا کاپھیلاؤ نہیں تھا اور نہ میڈیااتناتیز رفتار تھا۔سال بیلو کی اس تحریر کو پڑھ کر یہ لگ سکتاہے کہ انہیں عام زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ایسا سوچنا بے خبری کاثبوت دیناہوگا۔یہ تحریر ایک ایسے ادیب اور ناول نگارکی ہے جو سیاسی صورت حال کے بغیرناول کاتصور نہیں کر سکتا۔لیکن ناول جس حقیقت کو خلق کرتاہے اس کی اپنی ایک منطق ہے۔اس منطق کو عام اطلاعات کی روشنی میں بھی سمجھاجاسکتاہے۔لیکن اس کے لیے قاری کاہوشمند ہوناضروری ہے۔سال بیلوقرأت کے عمل کے بارے میں کچھ نہیں لکھتے البتہ انہیں شدید احساس ہے کہ کسی قاری کااچھاقاری بن جاناسب سے مشکل کام ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر قاری ان کی نگاہ میں قاری نہیں ہے۔یہ جب ہے کہ ناول کے بارے میں عموماً سمجھا جاتاہے کہ اس کے لیے کسی گہری قرأت کی ضرورت نہیں۔اس رویے کو ان حضرات نے تقویت پہنچائی ہے جنہیں ہمہ وقت اطلاعات جمع کرنے کاشوق ہے۔جمع آوری کایہ عمل قاری کو سنجیدہ قاری بننے نہیں دیتا۔غور وفکر کاعمل وقت چاہتاہے جس کے بارے میں سال بیلو نے لکھاہے۔
”ہمارے اندرون سے ایک اور زندگی بہ اصرار ابھرتی ہے جو ان مانگی ہوئی دن کی روشنی کے بنائے ہوئے نقش اور جعلی زندگی کے اندرون موت۔کو رد کرتی ہے۔اس لیے کہ یہ غلط ہے اور اس حقیقت سے ہم واقف ہیں،اور ہماری خفیہ غیر منطقی مزاحمت کو روکابھی نہیں جاسکتا۔اس لیے کہ مزاحمت ابھرتی ہے مسلسل ہونے والی القائی کیفیات سے۔شاید بنی نوع انسان بہت زیادہ حقیقت کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔نہ بہت زیادہ تصنع کو اور نہ سچائی کی بہت زیادہ پامالی کو“ (ترجمہ باقر نقوی)
پوری زندگی مانگے کے اجالے میں گزر جاتی ہے۔مگر اس کااحساس زندگی بھر نہیں ہوتا۔دن کی روشنی زندگی ہے لیکن یہ زندگی تخلیقی زندگی کوکس قدر بامعنی بناسکتی ہے اس کا انحصار دن گزارنے والے پر ہے۔کتنے دن آئے اور دن کے ساتھ روشنیاں آئیں اور شام کے ساتھ دن اندھیروں کی زد میں آگیا۔دن کے اجالے میں شام کو دیکھناکوئی آسان کام نہیں ہے۔ شام بھی کبھی کبھی دن کاتاثر پیش کرتی ہے۔ مگر یہ روشنی کہیں اور سے آتی ہے۔بیلو نے تہذیبی زندگی کے مختلف حوالوں کو پیش کرنے کے بعد کتنی اہم بات لکھی ہے کہ انسان بہت زیادہ حقیقت کو برداشت نہیں کرسکتااورنہ سچائی کی پامالی کو دیکھ سکتاہے۔سال بیلو زندگی اور ادب میں انتہائی صورتوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انتہاؤں کے درمیان کوئی حقیقت ہے جو عام انسانی زندگی میں نگاہ سے اوجھل رہتی ہے۔اس حقیقت کی دریافت کاعمل بیلو کی نگاہ میں تخلیقی عمل ہے۔بیلو نے دنیا پر نظر ڈالنے کے بعد اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ کیاہے کہ ہم تباہیوں کو کوئی اور نام نہیں دے سکتے۔تباہیوں میں جو لوگ روشن پہلو تلاش کر لیتے ہیں وہ بھی دیکھنے کاایک زاویہ ہے لیکن یہ ایک حماقت بھی ہے۔تباہی کوناول نگار کوئی اور نام نہیں دے سکتا۔وہ اسے ایسی صورت میں بھی پیش نہیں کر سکتاجس سے اس پر لذت حاصل کرنے کاالزام آئے۔سال بیلو اپنے دورکے ادب کے بارے میں غور کرتے ہیں تو انہیں ہنگامے کی صورت دکھائی دیتی ہے۔انہیں محسوس ہوتاہے کہ ان ہنگاموں کے درمیان سچے اور جھوٹے ادب کی تمیز مشکل ہو گئی ہے۔انہیں یہ شعور بھی حاصل ہے کہ بھلائی اور برائی کو سیاسی بنیادوں اور حوالوں کی روشنی میں دیکھا نہیں جاسکتا۔وہ ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار ہیں کہ ہر شئے کازوال اور اس کاعروج روز مرہ کی زندگی کاایک اندیشہ ہے۔ سال بیلوجب شئے کے زوال اور عروج کو دیکھنے کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں تو اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ایک ناول نگارکس طرح اپنے دور کی زندگی کے بدلتے معیار اور اقدار کو اپنے عہد کی نظر سے دیکھتاہے۔ایک فرد کی نظر،معاشرے کی نظر اگر نہیں بنتی تو اسے تخلیق کار کی شکست کے طور پرنہیں دیکھاجاسکتا۔فرد کی نظر اپنے ہی عہد میں اجنبی ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتاہے کہ معاشرہ اس نظر سے دنیاکو دیکھنے لگتاہے۔سال بیلو نے بار بار تہذیبی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ کی جانب اشارہ کیاہے۔محسوس ہوتاہے کہ سال بیلو کی نظر ہمہ وقت عام انسانی زندگی پر مرکوز ہے۔وہ چاہے ناول کی جس حقیقت اور سچائی کی بات کریں راستہ تو عام انسانی زندگی سے ہو کر ہی جاتاہے۔یہی وہ رمز ہے جس کو بعض ناول نگاروں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اسے ایک غیر ضروری حوالہ قرار دیا۔سال بیلو لکھتے ہیں۔
”ہم ایک نرالے قسم کی تطہیر کے عمل کے تجربے سے دوچار ہو رہے ہیں اور یہ عمل کافی عرصے سے جاری ہے۔پراؤسٹ کے Time Regainedپر نظر ڈالتاہوں تو لگتاہے کہ وہ اس سے اچھی طرح واقف تھا اس کاناول جو عالمی جنگ کے دوران فرانسیسی معاشرے کو بیان کرتاہے اس کے فن کی قوت کو جانچ رہاہے۔اس کی اس کااصرار ہے کہ اپنی ذاتی اور اجتماعی رنجیدگیوں کے باوجود فن کے بغیر ہم خود سے بھی واقف نہیں ہو سکتے بلکہ کسی سے بھی نہیں۔وہ صرف فن ہی ہے جو ہمارے اطراف،اس کی دنیا کے ظاہری حقائق پر مبنی،فخر،ہوائے نفس،ذہانت اور عادتوں کی اٹھائی ہوئی دیواروں سے گزرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ایک اور حقیقت ہے اصلی حقیقت ہم جس کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔یہ حقیقت ہمہ وقت ہم کو اشارے کرتی رہتی ہے،ہم جس کو فن کے بغیر وصول نہیں کرسکتے۔پراؤست نے ان اشاروں کو سچے نقوش کانام دیاہے۔“ (ترجمہ باقر نقوی)
Time Regainedپراؤست کے ناول In Search Of Lost Time کی آخری جلد ہے۔سال بیلو کی اس میں دلچسپی یہ بتاتی ہے کہ ناول کی دنیاوقت اور کھوئے ہوئے وقت سے کس طرح مکالمہ کرسکتی ہے۔ناول کے لیے سچے نقوش کی ترکیب ان لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے جنہیں نہ عام انسانی زندگی میں دلچسپی ہے اور نہ ہی مشرق ومغرب کے زوال کی تاریخ میں۔اپنی ذات کیاناول میں اتنی بڑی ہو سکتی ہے کہ وہ کائناتی بن جائے۔ذات کانوحہ ناول نے تو بہت پہلے پڑھ دیاتھا۔مگر اب بھی ذات نرالے قسم کی تطہیر کے عمل سے گزر رہی ہے۔یوں دیکھیں تو ذات زندگی اور ادب کے لیے کتنی بڑی حقیقت اور سچائی ہے۔سال بیلو نے ہیگل کے حوالے سے لکھاہے۔
”ہیگل کے خیال میں خالص فن کاسب سے بڑ اکارنامہ یہ ہے کہ فن اب پرانی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کے سنجیدہ نہیں رہا۔“
ہیگل نے جسے فن کاسب سے بڑاکارنامہ کہاہے وہ اس کے زوال کی ایک تاریخ بھی ہے۔سال بیلو اسی لیے یہ لکھتے ہیں۔
”انیسویں صدی میں یوروپ میں ایسے بھی ادیب موجود تھے جنہوں نے انسان کی بنیادی مصروفیات سے ادب کارشتہ نہیں توڑاتھااس رشتے کے توڑنے کاخیال بھی ٹالسٹائے،دوستوفسکی کے لیے دھچکہ ثابت ہوتاہے۔مگر مغرب کی ادبی دنیا میں عظیم ادیبوں اور عام ادیبوں کے درمیان فاصلے پیدا ہوگئے۔“
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page