ماضی سے ہی مستقبل کی تشکیل ہوتی ہے اور تاریخ اسی ماضی کے واقعاتی تسلسل کی بیانیہ تعبیر ہے ۔ انسانی وجود کے تجربوں ، رویوں ، تغیرات ، انقلابات اور مادی ، روحانی ارتقاء پیراڈائم شفٹ سے آگہی تاریخ ہی عطا کرتی ہے۔ تاریخ ایک قوت محرکہ ہے۔ اس میں اتنی طاقت ہے کہ کسی بھی ملک اور قوم کو غلام بناسکتی ہے ۔ ہندوستان کے باب میں برطانیہ نے اسی تاریخ کی قوت کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور صدیوں تک ہندوستان کو محکوم بنائے رکھا۔ تاریخ کی وجہ سے ہی بہت سی قوموں کے ذہن میں جنگ جاری ہے اور یہی تاریخ کسی بھی ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسی کا تعین کرتی ہے ۔ تاریخ ایک دائروی نظم (Cyclic Poem) ہے جو خود وقت آدمی کے لوح حافظہ پر تحریر کرتا ہے۔ اس نظمیہ واقعات تسلسل کے تحفظ کی کوشش کی جائے تو انسانی حافظہ ثقافت اور تہذیب کا تصور ہی معدوم ہوجائے۔ تاریخ ہی انسانی ذہن کو ثقافتی تناظر عطا کرتی ہے اور عمرانیاتی تصور سے آگاہ کرتی ہے ۔ ہیروڈونس ، زینوفین اور ابن خلدون کے زندہ ہونے کا راز صرف یہی ہے کہ انہوں نے تاریخ کے تسلسل کو مستقبل کے لئے محفوظ کردیا اور انسانی ذہن کو ایسے تصورات عطا کئے جن کی روشنی میں وہ مستقبل کا سفر طے کرسکیں۔آج کی تعلیم کے لئے کل کی جستجو ضروری ہے۔ ماضی کے بغیر حال کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ اسی لئے دنیا کی ہر قوم اپنے ماضی کی تہذیبی ، سماجی تفہیم کے لئے تاریخ کے دامن میں پناہ لیتی ہے ۔ کسی بھی ملک، قوم یا شہر کو قدیم اسطوری تاریخ کا ذرا سالمس مل جائے تو اس کی جبیں تابناک ہوجاتی ہے۔ اپنی روایت اور اپنے ماضی سے آگہی کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ انسان کی ترقی کاراز اس کے ماضی میں مضمر ہے۔
ڈاکٹر امام اعظم کو انہی تمام حقیقتوں کا ادراک و احساس ہے اسی لئے انہوں نے اپنے شہر کی سائکی کو سمجھنے کے لئے ماضی کی اشارت و عبارت کو تاریخ کے اوراق میں تلاش کیا اور انہیں جستجو کے اس سفر میں کامرانی بھی نصیب ہوئی ۔ محمد الیاس رحمانی جیسے محقق کے مقالے نے ان کے تاریخی اور ثقافتی شعور کو نہ صرف مہمیز کیا بلکہ ایسی روشنی عطا کر دی کہ پورے دربھنگہ کا تاریخی اور ثقافتی منظر نامہ ان کی نگاہوں میں یوں منور ہوگیا کہ ان کے ذہن کا جغرافیہ ہی تبدیل ہوگیا۔ پرانے آثار و اساطیر سے معمور ایک شہر ان کے ذہن میں آباد ہوگیا جس کی ایک روشن تہذیبی تاریخ ہے جو مختلف عہد میں اپنے امتیازی نقوش کے ساتھ زندہ رہا جہاں کی زمین نے بہت سے مد و جز ردیکھے ، پھر بھی اپنے انفرادی تہذیبی وجود کو قائم رکھا اور ہر عہد میں اپنی شناخت بحال رکھی۔ ترہت کا یہ علاقہ کس قدر تاباں ہے اس کی تاریخ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے اور یہ تاریخ بھی مفروضہ یا مسموعی روایت پر مبنی نہیں ہے بلکہ مستند، معتبر تاریخی مصادر و مراجع سے مستنبط ہے۔
داروبھنگا ، دارو بنگ کہئے یا دربھنگہ۔ بختیار خلجی ، علاء الدین خلجی، غیاث الدین تغلق ، فیروز تغلق ، سلاطین شرقیہ، سلاطین لودی، عہد اکبری ، عہد جہانگیری ، عہد شاہ جہانی، عہد عالمگیری میں دیار کی کیا ہیئت رہی اور کیا ہیئت اجتماعیہ، اس کی پوری تفصیل اس مقالے میں ملتی ہے جو محمد الیاس رحمانی نے بہت ہی محققانہ زرف نگاہی کے بعد تحریر کیا ہے۔ یہ تحریر تو تحیر کے کئی باب وا کرتی ہے۔ اور اس تحیر میں مزید اضافہ ڈاکٹرامام اعظم کی وہ تحریر کرتی ہے جس میں دربھنگہ کے ماضی کے ساتھ حال کا منظرنامہ بھی منسلک ہے۔
کتنا زرخیز ہے یہ علاقہ ، اتنی تحقیقی زرخیزی تو بہت کم زمینوں کا مقدر ہوتی ہے۔ یہاں تخلیق ، تنقید کے اتنے مہر تاباں اور ماہ منور ہیں کہ رشک آتا ہے کہ خالق مطلق کے سارے الطاف و عنایات شاید اسی سرزمین پر ہوئے ۔ یہ باعث فخر ہے کہ مہاکوی ودیاپتی، راجہ بھامتی ، گوتم منی کی سرزمین اور اورنگ زیب کی صاحبزادی زیب النساء کے استاد ملاابوالحسن اور ملا جیون، بحر العلوم مولانا عبدالعلی فرنگی محلی کے استاد مولانا ابو محمد ہدایت اللہ صدیقی کی اقامت گاہ دربھنگہ نے قدیم عہدسے جدید عہد تک میں اپنی تابانی برقرار رکھی ہے بلکہ رعنائی و جمال میں اضافہ ہی کیا ہے۔ جس کی پوری تفصیل ڈاکٹر امام اعظم کے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں کا ہر ذرہ آفتاب و ماہتا ب ہے۔ اردو ادب سے جڑی ہوئی کسی بھی ممتاز ہستی کو دیکھ لیجئے اس کا تعلق دربھنگہ سے ضرور نظر آئے گا۔ حالیہ ادبی منظر نامہ اس کی تائید کرتا ہے اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آج جبکہ بہت سی پرانی تخلیقی زمینیں بانجھ ہوچکی ہیں ، دربھنگہ کی تخلیقی تابندگی جوں کی توں ہے۔ کسی بھی شہر کے لئے اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر امام اعظم نے تاریخی و ادبی آثار کے تئیں جس بیدار ی کا ثبوت دیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ صرف اپنی زمین اور مٹی سے محبت کا احساس و اظہار ہی نہیں ہے بلکہ اس مٹی کی اشارت و عبارت میں اس مستقبل کی جستجو ہے جو عہد حاضر کے انسانوں کے ذہن سے معدوم ہوتا جارہا ہے اورمستقبل وہ نسل ہے جو شاید اپنی تاریخی وراثت کے تئیں زیادہ سنجیدہ نہ ہو کہ گلو بلائزیشن نے ذہنی ترجیحات تبدیل کر دی ہیں اور بہت سے لوگ صرف اور صرف حال میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
ذرا سوچئے ماضی اور مستقبل سے اگر رابطہ منقطع ہوگیا تو پھر اس کائنات کو عظیم ذہنی بحران سے کون بچائے گا۔ تاریخ پھر حال میں منجمد ہوجائے گی اور انسانی شعور کا ارتقاء ٹھہر جائے گا۔ انسانی تاریخ میں ایسا ہوچکا ہے جب لوگ صرف حال میں زندہ تھے نہ انہیں ماضی سے آگہی تھی اور نہ مستقبل کی فکر اسی دور میں تاریخ کا تسلسل تھم سا گیا تھا۔ خدا نخواستہ پھر تاریخ حال کے نقطے پر ٹھہر گئی تو؟ ٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page