عرض داشت
کسی بھی موقعے اور سبب سے آپسی اختلافات پیدا کرانے کی ہر طبقے میں ایک مہم شروع ہو چکی ہے جس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
عید الاضحی سے ٹھیک پہلے ہندو اور مسلمان دونوں قوموں میں سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تنازعات دیکھنے کو ملے۔ کہیں سوال وجواب کی صورت بھی نظر آئی اور لازمی طور پر بہت سارے مقامات پر اِس سے بڑھ کر بھی صورتِ حال پیدا ہوئی ہوگی۔طرح طرح کی صلاح اوربھانت بھانت کے مشورے دیے اور لیے جا رہے تھے۔ آسانی سے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سارے تنازعات کسی سازش کا حصّہ تھے بلکہ اِس سے بڑھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اِس میں کچھ معصومانہ ذہن بھی اپنی بیوقوفیوں سے الجھ کر اپنے مسائل کو الجھا رہے تھے۔
خدا خدا کرکے قربانی کے تین دن صبر و سکون اور امن و امان سے بیتے۔ اختر الایمان نے اپنی ایک نظم میں اِس بات پر صبر و شکر کا اظہار کیا ہے کہ گھر سے نکل کر دفتر پہنچے اور بہ خیر و خوبی صحت و سلامتی کے ساتھ واپس آ گئے۔ اب یہی حالت ہمارے ملک میں کسی تہوار کی ہے کہ اُس کی آمد ہزارہا اندیشوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور خوف و دہشت کے سائے میں سماج کا ایک بڑا طبقہ مبتلا رہتا ہے۔ اگرکہیں فسادات نہ ہوئے اور جان و مال کا نقصان نہ ہوا تو اطمنان ہوتا ہے کہ چلو یہ تہوار بہ سلامت گزر گیا۔ اُسی طرح واقعتا عیدِ قرباں کسی بڑے فساد اور جان ومال کے نقصان کے بغیر گزرا۔ واقعی یہ قابلِ اطمینان بات ہے اور تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی سکون میں مبتلا ہونے اور خوش ہونے کا مقام ہے۔
ہم ملک کی نازک تر سیاسی صورتِ حال سے پورے طور پر واقف ہیں اور اِسی لیے ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی عوامی تنازعہ قائم ہونے کے امکانات کبھی بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ کبھی اچانک یہ اعلان ہوگا کہ مائک سے اذان دینا غیر قانونی ہے مگر اِس کے ساتھ سڑکوں پر ہزار طرح کے لاؤڈ اسپیکر کے شور تماشے پر نہ کورٹ سے حکم نامہ جاری ہوتا ہے اور نہ ہی کلکٹر صاحب سے لے کر وزیرِ اعلا تک کوئی حکم دیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے بھی بہت سارے ایسے مواقع ہیں جہاں مائک کا استعمال کیا جاتا ہے مگر کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ کسی کورٹ یا انتظامیہ کے کسی رُکن کی طرف سے اُس پر کوئی قانونی چارہ جوئی کی گئی ہو یا تنبیہہ ہی کی گئی ہو۔ دشواری یہ ہے کہ ملک میں الگ الگ صوبے میں ایسے فیصلے سیاسی مفاد اور مذہبی تنگ نظری کے سہارے کیے جاتے ہیں اور اکثر بہ قولِ اقبال:
’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘
اِس بار عیدِ قرباں کے کچھ دنوں پہلے سے ہی جانوروں کی قربانی اور اُس سے سماج اور ماحولیات میں آلودگی کے خطرات کے پیشِ نظر سوشل سائٹس پر بڑے معصومانہ انداز میں تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوال یہ اُٹھا کہ پورے ملک میں لاکھوں اور کروڑوں جانوروں کو ذبح نہ کیا جائے تو اِس سے مسلمانوں کا کون سا نقصان ہو جائے گا؟ فائدہ تو سیدھا یہ تھا کہ اتنے معصوم جانوروں کی جانیں بچ جائیں گی۔ ایسے سوالات پوچھنے والوں میں بہت سارے ایسے افراد بھی نظر آئے جن کے ناموں میں اسلامی رنگ و روغن بھی شامل تھا۔نقلی آئی۔ ڈی کے زمانے میں یہ بات قابل یقین شاید ہی ہو کہ یہ لوگ واقعتا اُسی جماعت سے آتے ہیں جن کے نام سے وہ سوشل سائٹس پر نظر آتے ہیں مگر اِس بحث میں شریک ہونے والوں میں بہت سارے ایسے لوگ بھی نظر آئے جو اِن مسائل کو نہ مذہبی بنیادوں پر سمجھتے ہیں اور نہ ہی سماجی مسائل یا بین المذاہب مباحث کی مبادیات سے ہی واقف ہوں۔ کچھ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی باضابطہ یہ اعلان اور اِشتہارات شایع کرائے گئے کہ ممنوعہ جانوروں کی قربانی پرسخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ یہ اچھا ہوا کہ یہ تنازعات عوامی سطح پر زیادہ پھیلے نہیں اور اِن کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد بھی تھا تو وہ سامنے نہیں آ سکا۔ ایسے مواقع سے راہی معصوم رضا مرحوم کی بات یاد آتی ہے۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ ہندوستان میں گائیں بھی بہت ہیں اور سؤر بھی کم نہیں مگر ایسی صورتِ حال قائم رہی تو سؤر اور گائے تو بچ جائیں گے مگر انسان باقی نہیں رہیں گے۔
ہندستان کثیر مذہبی ملک ہے اور آئین اِسے سیکولر ملک قرار دیتا ہے۔سیکولرزم کی یہ کھُلی تعریف ہے کہ ہر آدمی اپنے مذہبی اعتقاد کے مطابق عمل کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اِس کا مطلب یہ بھی ہو اکہ ہمارے پڑوس میں دوسرا مذہب ماننے والا اگر کوئی شخص ہے تو ہمیں اُس کے مذہبی اعمال میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ اتنے مذاہب کے لوگ اِس وجہ سے بھی ہمارے ملک میں یکجا ہیں کہ ذاتی طور پر وہ ہندو، مسلم ، سِکھ، عیسائی، جین اور بودھ ہیں مگر سماجی اعتبار سے وہ ہندستانی ہیں۔ مذہب اور قوم پرستی کے دائرے الگ الگ ہیں اور ہمارا آئین دونوں دائروں میں خوش اسلوبی سے جینے کے وسائل فراہم کرتا ہے۔ اِسی لیے ایک بُت پرست اور ایک بُت شکن ایک ساتھ خوش و خرّم جیتے نظر آتے ہیں۔دشواری وہاں ہوتی ہے جب ہم غیر ضروری طور پر ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخیل ہونے لگتے ہیں۔کوئی معصومانہ انداز سے یہی کہنے لگے کہ ہندستان کے مسلمان آخر کیوں سعودی عرب کے خانۂ کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں؟ اِس سے بھی گرم جوشی میں یہ نتیجہ اخذ کر لے کہ ہندستانی مسلمانوں کو اپنے ملک سے محبت نہیں ہے اور وہ اپنے ملک سے بڑھ کر سعودی عرب اور خانۂ کعبہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ کوئی مسلمان یہ سوال کرنے لگے کہ ہولی کے تہوار کے موقعے پر رنگوں سے کیوں کھیلا جاتا ہے اور دیوالی میں چراغاں کرنا کارِ فضول ہے۔ ایسے سوالوں کو واقعتا دوسرے مذاہب کے کاموں میں چھیڑ چھاڑ کرنے سے تعبیر کیا جائے گا۔
ذرا سوچیے کہ کوئی جین مذہب کا پیشوا آئے اور ساری جمیعتِ انسانی کو سبزی خور ہی نہیں بنائے بلکہ منہ پر ماسک اِس لیے لگانے کی ہدایت کرے کہ منہ کھُلے ہونے سے ہم بہت سارے حشرات الا رض مار دیتے ہیں،اِ س سے ہمیں بچنا چاہیے۔کورونا کے دَور میں ماسک لگائے لگائے لوگوں کی سانسیں رُکی رہیں، اب اگر کوئی ایسا مشورہ دے تو اُس کی ہنسی ہی اُڑائی جائے گی۔ آپ کا مذہب اگر آپ کو گوشت خوری سے منع کر رہا ہے تو آپ بے شک اُس پر عمل پیرا ہویئے مگر دوسرے لوگ اور خاص طور سے دوسرے مذاہب کے ماننے والے افراد کیوں کر اُس پر عمل کریں گے؟
ہندستان میں جانوروں کی بَلی دینے کا رواج عہدِ قدیم سے موجود رہا ہے۔ ملک کے ہر گوشے میں کچھ ایسی خاص عبادت گاہیں ہیں جہاں الگ الگ مواقع سے جانوروں کی بَلی دی جاتی ہے۔ دسہرے کے موقعے پر یہ چیز بڑے پیمانے پر دیکھی جا سکتی ہے۔گوہاٹی کے کاماکھیا مندر میں جس بڑے پیمانے پر بَلی دینے کا رواج ہے، اِس کے بارے میں سوچنا مشکل ہے۔ اعتقادات اور مذہبی رسومیات پر دوسروں کو سوال پوچھنے کا فطری حق نہیں ہے کیوں کہ جس مذہب میں کوئی روایت تاریخی طور پر چلی آرہی ہے، اُس پر دوسرے مذاہب کے افراد کیوں سوال کریں، بر سرِ عام چیلنج کریں، یہ نامناسب طریقۂ کار ہے۔ اِس ملک میں تو ابھی دوصدی بھی نہیں گزری جب شوہر کی موت پر بیوی کو چتا پر جلا دیا جاتا تھالیکن اِن سوالوں پر اُس مذہب اور اُس سماج میں بحث شروع ہوئی اور اصلاح کی گنجائشیں پیدا ہوئیں۔
ہندستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شخص ہر موضوع پر عوامی مواقع پر گفتگو کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ کبھی اُن معاملات کے تاریخی، مذہبی اور تہذیبی پس منظر کو علمی اعتبار سے سمجھنے کے لیے کوشاں نہیں ہوتا۔ جب تک ٹکنالوجی کی رفتار تیز نہیں تھی، صوفی اور بھکت جگہ جگہ اپنے پیغامات کوپھیلا رہے تھے، اُس وقت تک رواداری کی ایک معقول فضا تھی۔ دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کا ایک عوامی چلن تھا۔ صوفیوںکے یہاں سے مذہبی خیر سگالی اور آپسی میل جول کے پیغامات عام ہوتے تھے۔ تب یہ نوبت آتی تھی کہ عید اور شبِ برأت کی طرح ہولی اور دیوالی ہی نہیں، بل دیو جی کا میلا بھی ہر مذہب کے افراد کو جوڑ کر رکھتا تھا لیکن یہ سارا سلسلہ ہی ٹوٹ گیا۔سیاسی جماعتوں نے یا نئی تعلیم کے متوالوں نے سماجی رواداری کے پیغامات کو عام کرنے کے لیے جمہوری ادارے بے حد محدود پیمانے پر قائم کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک خوش گوار فضا میں جینے کا شوق کم سے کم ہوتا گیا۔ آج اِسی بے اعتمادی، غیر رواداری اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والے اصولوں سے ہمارا معاشرہ چل رہا ہے۔
پہلے تہوار سماجی جشن کے طور پر منائے جاتے تھے اور لوگ اپنے ذاتی غم اور پریشانیوں کو بھلا کر سماجی طور پر خوشی اور شادمانی بانٹنے کے مواقع حاصل کر لیتے تھے۔اپنے سے مخالف مذہب کے افراد سے راہ و رسم قائم کرنے اور اُن کی زندگیوں کو سمجھنے کے لیے اور قریب تر ہونے کے لیے مواقع بن کریہ تہوار آتے تھے مگر افسوس آج یہ تہوار نِت نئے تنازعات کے اندیشوں سے ہمیںہراساں کیے ہوئے آتے ہیں اور ہمیں طرح طرح کے اندیشوں میںمبتلا کرکے پریشان کُن حالات میں چھوڑ جاتے ہیں۔ سماج میں نفرت پھیلانے والے افراد کا اپنا کار وبار ہے۔ اگر اُنھیں آپ نے کوئی بھی موقع دے دیا تو سماجی امن اور سکون پہ ہی حرف آئے گا۔ اِس لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات اور اعتقادات پر اعتماد کیا جائے اور غیر روادارانہ امور سے سماج کے مسائل کو اور نہ بڑھایا جائے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarimamquadri@gmail.com
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page