2020 کے جولائی کی کوئی تاریخ تھی جب واٹس ایپ پر ایک میسیج موصول ہوا۔ یہ میسیج جامعہ ملیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھی ڈاکٹر نوشاد منظر کے نمبر سے بھیجا گیا تھا۔ اس میں انھوں نے ایک ادبی ویب سائٹ کی بنیاد رکھنے کی خبر دینے کےساتھ اس پہ شائع کرنے کے لیے تحریروں کا تقاضا بھی کیا تھا۔ میں نے اس میسج کو یوں ہی عام سا میسج سمجھ کر نظر انداز کردیا، اور کافی عرصے تک اس پر اپنی کوئی تحریر بھی نہیں بھیجی۔ لیکن چند مہینوں میں ہی اس نو مولود ویب سائٹ نے نہ صرف یہ کہ میرے خودساختہ مفروضوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں نکالنا شروع کردیا بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ سال مکمل ہونے سے قبل ہی چلنا بلکہ دوڑنا شروع کردیا۔ اور اب جب کہ 10 اگست پر اس ہونہار کی سالگرہ ہے تو میرا دل چاہا کہ میں اس کے تئیں اپنی محبتوں اور نوشاد منظر کی خدمات کے اعتراف میں کچھ لکھوں۔
"ادبی میراث” کے مشمولات پر نظر ڈالنے پر اس نوجوان اور ہونہار اسکالر کی تنقیدی نگاہوں کا معترف ہونا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی جب ہم قلیل مدت میں "ادبی میراث” کے کثیر اور گراں قدر ادبی ذخیرے پہ نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک تنہا شخص نے اردو کے کیسے کیسے لعل و گہر کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کردیا۔ حالانکہ تنہا کہنا زیادتی ہوگی پردے کے پیچھے سے برابر کی شریک بلکہ شریک حیات ‘سمیہ محمدی ’کاساتھ بھی ملا۔ سمیہ محمدی شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پروفیسر کوثر مظہری کی نگرانی میں ‘‘ جمیل مظہری کی شعری کائنات ’’ پر اپنا مقالہ لکھ رہی ہیں ۔ سمیہ محمدی کی پوری تعلیم(کلاس اول سے پی ایچ ڈی) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی ہے۔ ان کے اب تک کئی اہم مضامین اور تبصرے شائع ہوچکے ہیں۔ نوشاد منظر نے 2017ڈاکٹر سرور الہدیٰ کی نگرانی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے "افسانے کی تنقید: ترقی پسند تا حال” کے موضوع پر اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
ڈاکٹر نوشاد منظر اور سمیہ محمدی کی تحقیقی و تنقیدی ژرف نگاہی نیز برس ہا برس کی تربیت کا بین ثبوت یہ ویب سائٹ ہے۔ ایک سال کے قلیل عرصے میں اس ویب سائٹ نے ادبی دنیا میں جس طرح اپنا اعتبار قائم کیا اور سینئر اور معتبر ادبا کی تصنیفات تک ایک کلک میں رسائی کو ممکن بنایا، وہیں ہم جیسے نوآموزوں کی تحریریں شائع کرکے ہماری حوصلہ افزائی کی نیز ہمارے لڑکھڑاتے قدموں کو ادب کی سر زمین پہ سنبھلنا سکھایا، اس مقصد کے تحت "ادب کا مستقبل” نامی ایک مخصوص گوشہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ہم سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ معتبر رسائل میں شائع ہونا نوواردان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے،۔ادبی میراث کا فائدہ یہ ہوا کہ یہاں نہ صرف اس پہ تحریریں شائع ہوتی ہیں بلکہ نوشاد صاحب اسے سوشل میڈیا پر بھی متعارف کراتے ہیں جس سے ہوتا یہ ہے کہ تحریر کئی بار اساتذہ کی نظروں سے بھی گزرتی ہے اور کمنٹ کی صورت میں تنقیدی آراء بھی موصول ہوتی ہیں جو نئے لکھنے والوں کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ادبی میراث کا ‘‘ادب کا مستقبل ’’ گوشہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔
اس ویب سائٹ پر جہاں قاری کے ذوق جمالیات کی تسکین کا سامان فراہم کرتا تخلیقی ادب موجود ہے وہیں نوواردان مملکت ادب کی ادبی تربیت کے لیے تنقیدی فن پارے بھی بکثرت موجود ہیں۔ انٹرنیٹ کی یہ دنیا جغرافیائی سرحدوں کو توڑتی ہوئی اردو کے اہم ادبا و ناقدین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیتی ہے۔ یہاں ریسرچ اسکالرز کو اپنے موضوع کے تعلق سے بہت سارا مواد مہیا ہوجاتا ہے جس سے ان کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ "کتابوں کی بات” کے نام سے ایک گوشہ ہے جس میں پچاس سے زائد کتابوں پر مختلف قلمکاروں کے تبصرے اور تفصیلی جائزے موجود ہیں۔
"اہم لنکس” کے نام سے ایک گوشہ ہے جس پر میری نظر حال ہی میں پڑی اور میں خوشگوار حیرت سے دو چار ہوئی کہ یہ لنکس براہ راست اہم یونیورسٹیوں کے ویب پیج پہ لے جاتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ‘ادبی میراث ’ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس ویب سائٹ پر طلبا کی خاص دلچسپی اور افادیت کی غرض سے ‘نصابی مواد’ کے عنوان سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے، اس گوشے میں یونیورسٹی کے نصاب کے پیش نظر مواد (تخلیقی اور تنقیدی)کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ساتھ ہی اس اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ "ویڈیو تدریس” نامی گوشے پر ادبی اور تعلیمی ویڈیوز کے ہائپر لنکس موجود ہیں جو سرکاری و نجی یوٹیوب چینلز پر موجود مواد تک ایک کلک میں رسائی کو ممکن بناتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یوٹیوب پر ان ویڈیوز کی تلاش میں وقت ضائع کرنے کی زحمت سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہوا خالص ادبی اور تعلیمی دلچسپی کا سامان۔ مگر کیا اس ویب سائٹ کو صرف ادبی دنیا تک محدود سمجھنا درست ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش مجھے ایک بار پھر ویب سائٹ پر لے گئی۔
ویب سائٹ پر اسلامیات کے نام سے ایک لنک ہے جو بلا تفریق ادبی و غیر ادبی دلچسپی و رجحان، ہر فرد کے لیے اپنے دامن میں یکساں تجلیات سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ بھی ویب سائٹ کے زنبیل میں ابھی بہت کچھ ہے جس سے روبرو ہونے کے لیے آپ ویب سائٹ کے لنک پر کلک کرسکتے ہیں نیز اردو داں افراد کو اس ویب سائٹ سے متعارف بھی کراسکتے ہیں۔ احباب میں سے کسی کو یوں شہرت کے مدارج طے کرتا دیکھ کر جو دلی مسرت ہوتی ہے اس نے یہ چند الفاظ لکھنے پرمجبور کیا۔ میں ہمیشہ نوشاد منظر اور سمیہ محمدی کی محبتوں کی مقروض رہوں گی کہ انھوں نے میری تخلیقات کو اپنی ویب سائٹ پہ جگہ دی۔ ایک دوست نے میری نظمیں اس ویب سائٹ پہ شائع ہوتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ "تم نے تو ادبی میراث کو اپنی میراث سمجھ لیا ہے” اور میں نے عرض کیا تھا کہ دوست کی ویب سائٹ ہے بھئی تو اپنی ہی سمجھ لیں۔(یہ بھی پڑھیں ” ادبی میراث ” ایک تاثر – ڈاکٹر خان محمد رضوان )
10 اگست کو "ادبی میراث” کی سالگرہ پہ ڈاکٹر نوشاد منظر اور مستقبل کی ڈاکٹر سمیہ محمدی کو دلی مبارکباد۔ بانیان ویب سائٹ اسے خوب سے خوب تر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اسی سلسلے میں ‘‘ادیب کا مختصر تعارف’’ گوشہ ہے، اس کا مقصد ادبی میراث کے قلمکاروں کو قارئین سے ملوانا ہے، یہ حصہ ابھی تشنہ ہے مگر امید ہے جلد ہی اس حصے میں بہتری آئے گی۔آخری بات نوشاد منظر نے حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ معیار سے سمجھوتا نہ کیا جائے اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں، مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا اس ویب سائٹ پر نئے لکھنے والوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے ان نئے قلمکاروں سے فوری طور پر معیاری تخلیق و تنقید کی امید رکھنا میرے خیال میں زیادتی ہوگی۔
‘ ادبی میراث’ مواد اور مشمولات کی سطح پر روز افزوں ترقی کے زینے طے کررہی ہے۔دل سے دعا ہے کہ احباب کی کوششیں بار آور ہوتی رہیں اور ایک کلک میں ہماری نگاہوں کے افق پر ادب کی قوس قزح یوں ہی جگمگاتی رہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
[…] ادبی میراث کے بارے میں […]
[…] ادبی میراث کے بارے میں […]