جشن منانا یا تقریبات کا اہتمام کرنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ البتہ اس کے طریقے مختلف ہیں۔ کہیں انسان اسے بطور شکر خداوندی صوم و صلوٰۃ کی شکل میں ادا کرتا ہے تو کہیں نت نئے اطوار سے برسرِ عام منانے کا قصد کرتا ہے۔ بعض انسان رب کی نعمتوں کا ادراک کرتے ہوئے اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو بعض اس خوشی کا اظہار محض دنیوی رنگ و طرز سے متاثر ہوکر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں اردو ویب پورٹل‘ ادبی میراث ’ میری نظر میں – ڈاکٹر قمر جہاں )
انہی جشن یا تقریب میں سے ایک جشن سالگرہ ہے جو آج اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینیوں کے ساتھ اقوام عالم کے ذہنوں پر حاوی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج وہ معاشرے کا ناسور بن چکا ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ناسور گویا اسلامی تشخص کی معراج بن چکا ہے اور بارہا یہ باور کرانے کے بعد بھی کہ یہ بےجا رسم اسلام کا حصہ نہیں بلکہ شیطانیت کا شیوہ ہے ، امت مسلمہ کا ایک کثیر طبقہ اس لاعلاج ناسور سے متاثر نظر آتا ہے۔ منطقی اعتبار سے بھی کسی چیز کا جشن کسی اہم شئے کی حصول پر کیا جاتا ہے جب کہ سالگرہ کا جشن عمر کا ایک سال کم ہونے پر کیا جاتا ہے جسے خبط الحواسی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے!
جشن سالگرہ کو اگر منظر اور پس منظر کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس کی قباحت مزید دو چند ہو جاتی ہے بلکہ شرعی رو سے اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ جشن سالگرہ کا آغاز تین ہزار سال قبل مصر سے ہوا مگر ان کا طریقہ کار مختلف تھا۔ قدیم مصری دور جدید کی طرح برتھ ڈے پارٹی کا انعقاد نہیں کرتے تھے بلکہ وہ کسی خاص شخص کی پیدائش پر مناتے تھے جسے وہ بطور خدا تسلیم کرتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب مصر میں فرعونوں / بادشاہ مصر کی تاج پوشی کی جاتی تھی تو ان کی حیثیت بطور خدا تسلیم کر لی جاتی تھی۔ اس طرح ان کے لئے یا کسی اور شخصیت کی پیدائش پر اسے خدا مانتے ہوئے اس تقریب کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
Well, when Pharaohs were crowned, it was considered that they had become a god. For them and to be fair , any one , the day man becomes a god is waaaaay up there above being actually phisically born.[1]
اب اگر یونانی تہذیب و ثقافت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو برتھ ڈے پارٹی کے کیک کی شکل نمودار ہوتی ہے جو ابتدا میں چاند کی شکل کا تیار کیا جاتا تھا اور پھر اسے چھوٹی چھوٹی موم بتیوں سے سجایا جاتا تھا اور یہ شمعیں دعائیں بھیجنے کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ یونانی تہذیب میں متعدد خدا اور ان کی دیوتائیں خاص اہمیت کی حامل ہوتی تھیں اور انہی دیوتاؤں کو راضی کرنے کے لئے وہ مختلف قسم کے نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ انہی نذرونیاز میں سے ایک جشن سالگرہ کا کیک بھی ہے۔
As a tribute to Artemis ( their god) , the Greeks would offer up moon-shaped cakes adorned with lit candles to recreate the glowing rediance of the moon and Artemis perceived beauty. The candles signifying the sending of prayers.[2]
یونانی تہذیب میں یہ رسم رائج ہی تھی کہ رومی تہذیب میں مذہبی شخصیات کے علاوہ دوستوں اور عزیز و اقارب کی جشن سالگرہ کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ تقریبات محض مردوں کے لیے منعقد کی جاتی تھیں اور تقریباً بارہویں صدی تک عورتوں کی سالگرہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔
مزید مطالعے اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ آگے چل کر عیسائیت میں بھی جشن سالگرہ کا آغاز ہوا جہاں اس بات کا عقیدہ راسخ ہے کہ ہر انسان گناہ کا بوجھ لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی گناہ کے کفارہ کے طور پر جشن منا کر اس جسم کا کفارہ ادا کرکے خداؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔( اعاذنا اللہ منہ).
یہ عقیدہ عام تھا کہ اچانک ڈرامائی طور پر چوتھی صدی عیسوی میں کرسمس کے تعارف کے ساتھ اس عقیدے میں بھی تبدیلی آئی ۔ رومیوں کے اس تہوار کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عیسائی گرجا گھروں میں بھی اسی طرز پر محفلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ اس طرح کرسمس کا آغاز ہوا اور عیسی علیہ السلام کی جشن سالگرہ کے طور پر اس کا انعقاد ہر سال دیسمبر میں منایا جانے لگا۔ (یہ بھی پڑھیں حسن قرأت و تجوید کی اہمیت و فرضیت – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
ابتدا میں جس کا انعقاد محض یورپی ممالک تک ہی تھا ، اس سالگرہ کے غیر مقبول ہونے کے باوجود رفتہ رفتہ عیسائیوں میں عیسی علیہ السلام کی جشن سالگرہ کے اہتمام کے ساتھ ساتھ مختلف پیش روؤں کی پیدائش و وفات پر جشن کا انعقاد کیا جانے لگا۔
جشن سالگرہ کے بارے میں Origen کا کہنا ہے:
"…. Of all the holy people in the scriptures, no one is recorded to have kept a feast or held a great banquet on his birthday. It is only Sinners ( like Pharaoh and Herod) who make great rejoicings over the day on which they were born into this world below”.[3]
علاوہ ازیں Anton Lavey سالگرہ کے اس جشن کے عروج اور لوگوں کا اس کے تئیں بدلتے نظریات پر یوں رقم طراز ہے جہاں یہ فکر عام ہونے لگی کہ ہر شخص اپنے آپ میں محترم ہے اور ہر ایک کو اس کی تکریم میں جشن کا حق حاصل ہے۔ وہ لکھتا ہے :
” The Satanist feels :” why not really be honest and if you are going to create a god in your image , why not create that God as yourself”. Every man is a god if he choose to recognize himself as one. So, the Satanist celebretes his own birthday as the most important holiday of the year.[4]
مندرجہ بالا تحقیقات کے پس منظر میں اگر جشن سالگرہ کا ایک مدلل جائزہ لیا جائے تو یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ رسم مصر سے شروع ہو کر یونانی تہذیب کا حصہ بنی جہاں اپنے اپنے طور پر اپنے خداؤں کی عزت و تکریم کے لئے اس کا اہتمام کیا گیا پھر رفتہ رفتہ یورپی تہذیب میں اپنی گرفت مضبوط کی اور یکے بعد دیگرے عیسائیت میں بھی اسے خوب پذیرائی ملی ۔ ابتدا میں تو خدا کی تعظیم میں چاند کی شکل کا کیک وغیرہ سجا کر اسے عبادت کا درجہ دیا گیا پھر بتدریج یہ فکر پنپنے لگی کہ ہر شخص بذات خود ایک خدا ہے اور اپنی ذاتی تکریم کے لئے اس طرح کی تقریبات کا حقدار ہے یہاں تک کہ یہ سوچ فروغ پاگئی اور ہر شخص اپنے تئیں اس طرح کی تقریبات کا اہتمام کرنے لگا جیساکہ یہ رسم آج ہمارے اسلامی معاشرے میں بھی زور پکڑ رہی ہے حالانکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ” من تشبہ بقوم فھو منھم ” کے مطابق اس طرح کی تقریب کی اجازت نہیں ملتی۔
بعض وجوہات کی بنا پر جشن سالگرہ کی تحریم واضح ہے ، وہ اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
- اس جشن کا آغاز انسانی خدا کی تکریم کے لئے کیا گیا جو سراسر ناجائز ہے۔
- اس جشن کے ذریعے چاند کو خدا کی حیثیت دی گئی جو کہ حرام اور باطل ہے۔
- اس جشن میں موم بتی کے استعمال سے خدائی تصویر کشی اور پھر اس کی خوبصورتی میں اضافے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک شنیع فعل ہے۔
- اس جشن کے ذریعے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدائی کا درجہ دیا گیا جو کہ شرک اکبر ہے۔
- اس جشن کے ذریعے ہر شخص نے خود کو خدائی کے درجے پر لانے کی کوشش کی اور اپنے نفس کی پرستش کی جو کہ حرام ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
- اس جشن کے ذریعے یورپی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملتا ہے اور اس کا اختیار کرنا فرمان نبوی کے مصداق گویا خود کو اسی تہذیب کا حامل قرار دینا ہے ۔
- اسلام نے جہاں روحانی پاکیزگی کا حکم دیا وہیں جسمانی پاکیزگی کا حکم بھی دیا ۔ لہذا طبی اعتبار سے یہ بات ثابت ہے کہ کیک کی موم بتیوں پر جو پھونک ماری جاتی ہے تو وہ چودہ گنا آلودہ ہو جاتا ہے جو کہ صحت کے لئے مضر اور اسلامی شریعت کے منافی ہے۔
مختلف ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز وغیرہ پر یہ تمام واضح معلومات دستیاب ہیں۔ عبداللہ بن عبد الرحمن الجبرین فرماتے ہیں : ” برتھ ڈے منانا ایک بدترین بدعت ہے ۔ اس کو منانا یا اس کی مبارکباد دینا جائز نہیں ".[5]
علاوہ ازیں متعدد مفتیان کرام مثلاً مفتی مینک ، ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ نہایت خوش اسلوبی سے جشن سالگرہ کے ناجائز اور حرام ہونے کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں مگر افسوس امت کے مسلمانوں پر کہ جس قدر ان پر یہ باتیں عیاں ہوتی نظر آتی ہیں کہ یہ سراسر حرام اور شرک ہے اسی قدر وہ اس میں ملوث نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی حالات کے لئے علامہ اقبال نے اپنے غم و غصّے کا اظہار یوں کیا ہے:
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
مندرجہ بالا معلومات کے پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جشن سالگرہ کا اہتمام کرنا گویا شرک و کفر کا ارتکاب کرنا ہے اور غیر مسلموں سے مشابہت کی بناپر خود کو انہی کی صف میں شامل کرنا ہے۔ اور عمر کا ایک سال کم ہونے پر محاسبہ نفس کے بجائے جشن کا انعقاد کرنا گویا خود کو خبط الحواس سے تعبیر کرنا ہے جب کہ اس جشن کا اسلامی شریعت میں کوئی ثبوت نہ ہو۔
[1] Source Origen, in Levit, Hom. VIII, in Migne P.G.X II,495 Thurston H.Natal Day Transcribed by Thomas M. Barrett. Online Edition copyright 2003 by K. Knight. Nihil Obstat, New York
[2] ایضاً ، Origen
[3] ایضاً Origen
[4] The Satanic Bible , Anton Lavey , p.96 , 1969
[5] فتاویٰ اسلامیہ ، فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبد الرحمن الجبرین ، جلد 1 ، ص 139 ،
(مضمون نگار کا مختصر تعارف۔ ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی)
ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
عمدہ تحریر ….دور جدید کے مسلمانوں کو ضرور پڑھینی چاہئے … ..?????✒✒
اللہ زور قلم میں مذید اسطرح کی تحقیق اور تحریر سامنے آئے