ہر کام کی دو نوعیت ہوتی ہے ۔ ایک محض خانہ پری کے لئے بغیر کسی دلچسپی و خوبصورتی کے انجام دیا جاتا ہے تو دوسرا شہرت و نمود اور بھاری بھرکم انعامات کے حصول کے لیے محنت و لگن اور خوبصورت طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔
ایک ہی کمپنی یا فیکٹری میں بہت سے ملازمین برسر روزگار ہوتے ہیں مگر اس میں کچھ لاپرواہی و کاہلی سے کام لیتے ہوئے اپنی معمولی تنخواہ پر اکتفا کرتے ہیں جب کہ دیگر مالک کے حکم کو بجا لاتے ہوئے کمپنی کی شہرت کو چار چاند لگانے، اسے اوج ترقی تک پہچانے ، اور پھر اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع کی صورت میں اپنی تنخواہ اور کسب معاش میں دو گنا یا بھاری بھرکم اضافہ کی امید میں اپنے کام کو نہایت خوبصورتی اور دلجمعی سے کرتے ہیں ۔ اس طرح انہیں ان کی لگن اور محنت و مشقت کا بہترین اجر ملتا ہے اور وہ مالک کی نظروں میں بھی محبوب ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح کلاس میں بہت سے طالب علم ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کو کامیابی اور ناکامی کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور وہ کھیل کود اور خوش گپیوں میں مصروف کسی بھی قسم کی محنت سے غافل اور صلاحیت سے کورے ہوتے ہیں اور استاد کی نظروں میں بھی حقیر سمجھے جاتے ہیں ۔ جب کہ بعض کو محض کلاس پاس کرنے سے مطلب ہوتا ہے اور یہ بھی اپنے اسکول کا نام روشن کرتے اور نہ استاد کی نظروں میں قابل اعتناء ہوتے ہیں۔ لیکن اسی کلاس میں بعض قابل قدر طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو اساتذہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی دن و رات کی محنت و کاوش اور لگن و دلجمعی سے کام لیتے ہوئے امتیازی نمبرات حاصل کرکے ، اساتذہ کی نظروں میں اعلیٰ مقام بنا لیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اسکول کی شہرت اور اس کی نیک نامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ( ایسے ہی طالب علم کی راہ میں فرشتے اپنا پر بچھا دیتے ہیں اور کامیابیاں و کامرانیاں ان کے قدم چومتی ہیں ).
یہ تو رہی دنیا کی مثال ، اب یہاں بات حسن قرأت و تجوید کے حوالے سے کی جا رہی ہے کہ آج کے اس موجودہ دور میں کچھ لوگ حسن قرأت اور تجوید کی اہمیت اور اس کی فرضیت سے یکسر بے بہرہ اور غافل ہیں تو بعض تلاوت قرآن میں محض خانہ پری سے کام لیتے ہیں اور انہیں حسن قرأت و تجوید اور مخارج حروف سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس طرح ان کی مثال ان طلباء کی سی ہے جنہیں دوہرا اجر وثواب اور اعلیٰ مقام سے کوئی مطلب نہیں ، کیونکہ یہ لوگ قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں مگر اس کی خوشبو ، اس کی لذت ، اس کی شیرینی اور اس کے دوہرا اجر و ثواب سے محروم رہتے ہیں۔
حسن قرأت اور تجوید کے موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ آج کے اس مادہ پرست دور میں لوگ مادی اور دنیوی منافع کے حصول کے لئے تن من دھن سرگرداں ہیں۔ اور اس کی وصولیابی کے لئے دنیا کے تمام علوم وفنون سیکھنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ اسلام کے بنیادی علوم و فنون کی قدر و منزلت بھول بیٹھے۔ حتی کہ ان مادی علوم و فنون کو سیکھنے کے لئے بے دریغ پیسے بہاتے ہیں جب کہ قرآن کریم کی تعلیم اگر انہیں مفت دلائی جائے تو بھی ان کے پاس فرصت نہیں۔ ایسے لوگ یا تو تلاوت قرآن سے بالکل غفلت برتتے ہیں یا محض خانہ پری کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تلاوت قرآن کا حق ادا کردیا۔
تلاوت قرآن کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے جس کی فضیلت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مثل المؤمن الذى يقرأ القرآن مثل الأترجة ، ريحها طيب و طعمها طيب ، و مثل المؤمن الذى لا يقرأ القرآن كمثل التمرة ، لا ريح لها و طعمها حلو ، و مثل المنافق الذى يقرأ القرآن كمثل الريحانة ، ريحها طيب و طعمها مر ، و مثل المنافق الذى لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة ، ليس لها ريح و طعمها مر”.[1]
ترجمہ: مؤمن کی مثال جو قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے ترنج کی سی ہے جس کی خوشبو بھی خوشگوار ہوتی ہے اور ذائقہ بھی مزیدار۔ اس مومن کی مثال جو قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرتا کھجور کی ہے جس میں خوشبو تو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے ریحان کی سی ہے جس میں خوشبو تو ہوتی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرتا حنظلہ کی سی ہے جس میں خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا مزہ بھی نہایت تلخ ہوتا ہے”.
دوسری حدیث میں ہے :
” اقرؤوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعاً لأصحابه "[2]
ترجمہ : قرآن تلاوت کرو اس لئے کہ قیامت کے دن قرآن پاک اپنے پڑھنے والے کے حق میں شفاعت کرے گا۔ ”
اور دوسری جگہ فرمایا :
” من قرأ حرفاً من كتاب الله فله حسنة ، و الحسنة بعشر أمثالها لا أقول : ألم حرف ، ولكن : ألف حرف ، ولام حرف ، و ميم حرف ".[3]
ترجمہ : جس شخص نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا ، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے ۔ میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، بلکہ الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
ان احادیث مبارکہ اور آیات قرآنی مثلاً ” واتل ما أوحى إليك من كتاب ربك "( سورة الكهف : 27)
ترجمہ: اور اپنے رب کی طرف سے وحی کی گئی کتاب کی تلاوت کرو” اور دیگر آیات کی روشنی میں تلاوت قرآن کی فرضیت ، اس کی اہمیت اور فضیلت وا ہو جاتی ہے مگر کیا حسن قرأت و تجوید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقصود حاصل ہوتا نظر آتا ہے؟ جب کہ ارشاد الٰہی ہے ” و رتل القرآن ترتيلا "( سورة المزمل : 4) (یہ بھی پڑھیں نذرانہ عقیدت والد محترم کے نام – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی)
ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ”
دوسری جگہ ارشاد ہے ” ولا تعجل بالقرآن ” ( سورة طه : 114)
ترجمہ : اور قرآن کریم کی تلاوت میں جلد بازی نہ کرو۔
اللہ رب العزت اپنی کتاب میں قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اور بہترین انداز میں پڑھنے کا حکم دیتا ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
” من لم يتغن بالقرآن فليس منا ".[4]
ترجمہ : جو قرآن کو غنا کے ساتھ نہ پڑھے ، وہ ہم میں سے نہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کو گانے یا موسیقی کے طرز پر پڑھا جائے بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ اس کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھو اور اس طرح سے پڑھو کہ رقت طاری ہو۔[5]
حسن قرأت کی فضیلت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” الذى يقرأ القرآن و هو ماهر به مع السفرة الكرام البررة ، والذى يقرأ القرآن و يتتعتع فيه و هو عليه شاق له أجران ".[6]
جو قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور وہ اس کا ماہر ہے تو وہ السفرۃ الکرام البررۃ ( مکرم ، نیک فرشتوں کے ساتھ ہے اور جو قرآن پڑھتا ہے تو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اس کو پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے” ۔
سبحان اللہ ! یہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی اکرام و احسان ہے کہ اپنے کلام کو خوبصورتی سے ادا کرنے والے کو بلند درجات عطا کرتا ہے تو اس کی ادائیگی میں مشقت اٹھانے والے کو دوہرے اجر سے نوازتا ہے ۔ اس کے احسان اور انصاف کا کیا کہنا! مگر اس فضیلت سے واقفیت کے باوجود ہم اس سے غافل ہیں جب کہ دنیا کے کسی بھی قانون میں ہمیں اس طرح کا انصاف نہیں ملتا۔
کسی کلاس کے دو طالب علم کی مثال لے لیجۓ کہ ان میں سے ایک بلا کا ذہین و فطین ہے اور پوری سال وہ کلاس سے غائب رہتا ہے یا پڑھائی سے جی چراتا ہے مگر اپنی ذہانت کی بدولت وہ ایک رات کی محنت میں امتیازی نمبر حاصل کر لیتا ہے جب کہ دوسرا طالب علم کند ذہن ہے ۔ وہ سالہا سال کی محنت کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے ممتحن کو اس کی محنت و مشقت کا پتہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن رب عظیم جو علیم و خبیر ہے اور ساتھ ہی وہ منصف بھی ہے وہ بندوں کی مشقت کا خیال رکھتے ہوئے اسے دوہرا اجر عطا فرماتا ہے۔
یہ تو رہے تلاوت قرآن اور حسن قرأت کے فضائل ۔ اب ہم اس کی فرضیت کے سلسلے میں کچھ باتیں گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔
اس موضوع پر کچھ رقم کرنے کا خیال اس طرح پیدا ہوا کہ میں تلاوت قرآن میں مشغول تھی کہ یکایک ( منجانب اللہ کہہ سکتے ہیں) ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر ہم قرآن کو صحیح مخارج اور حسن قرأت کے ساتھ نہ پڑھیں تو مفہوم کچھ کا کچھ یا بعض دفعہ بالکل متضاد اور الٹا مفہوم نکلتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں جدید اردو نظم میں ماحولیاتی عناصر – سمیہ محمدی)
لہذا میں نے کئی آیات پر کافی غور و خوض کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا علم حسن قرأت اور علم تجوید فرض عین ہے ، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد بلکہ تمام علوم کی بنیاد قرآن وحدیث پر مشتمل ہے اور اس سے غفلت کی صورت میں ہم تحریف حروف یا کم از کم تحریف معانی کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور پھر اس صورت میں تلاوت قرآن کے اجر و ثواب کے بجائے سزا و عذاب کے مستحق بن سکتے ہیں۔ لہذا میں نے تلاوت قرآن کی فضیلت ، حسن قرأت کی فضیلت اور اس کی فرضیت اور لوگوں کی اس سے بے اعتنائی و بے رخی برتنے پر اس کے نقصان و خسارہ پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
اب ذیل میں چند قرآنی آیات کو اس کے مفہوم کے ساتھ پیش کر رہی ہوں جن سے علم تجوید و قرات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
” الحمد لله رب العالمين ” تمام تعریف اس رب کے لئے ہے جو تمام دنیا کا رب ہے۔
جب کہ مخارج کا خیال کئے بغیر قرأت کی صورت میں یہ آیت یوں سمجھی جائے گی ” الهمد لله رب الآلمين ” تمام پھٹے پرانے کپڑے اس رب کے لئے ہیں جو تمام رنجیدہ لوگوں کا رب ہے۔
اسی طرح سورہ عصر کا مفہوم:
و العصر . إن الإنسان لفى خسر. إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر”.
اور قسم ہے زمانے کی۔ بیشک انسان خسارہ میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور حق اور صبر کی فہمائش کرتے رہے۔
جبکہ لا پرواہی کی صورت میں آیت ہوگی
‘” والأسر. إن الإنسان لفى خسر. إلا الذين آمنوا و املوا السالحات و تواسوا بالهك و تواسوا بالسبر.
ترجمہ: اور قسم ہے قید خانے کی۔ بےشک انسان خسارے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور ہتھیار بند کی امید کی اور فساد عقل اور صورت و جمال کی تسلی دیتے رہے۔”.
نیز سورہ اخلاص کا مفہوم جو ثلث قرآن کے برابر ہے۔
” قل هو الله احد. الله الصمد. لم يلد ولم يولد. ولم يكن له كفوا احد.
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے ۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
جبکہ اس سے غفلت کی صورت میں سورہ یوں پڑھی جائے گی۔
” كل هو الله اهد. الله السمد. لم يلد ولم يولد. ولم يكن له كفوا اهد.
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھائیے وہ اللہ پست زمین ہے۔ اللہ حیران و پریشان ہے ۔ نہ اس نے جنا اور نہ جنا گیا ہے۔ اور کوئی پست زمین اس کا ہمسر نہیں۔
ویسے تو لفظ” أحد ” عربی زبان کا ایسا لفظ ہے جو صرف ذات باری تعالٰی کے لئے ہی مستعمل ہے اور اس لفظ کا کوئی بدل نہیں ۔ مگر مخارج حروف سے بے توجہی کے نتیجے میں لفظ "وھد” سے نکلا ہوا لفظ” أھد ” میں مذکورہ بالا معنیٰ کا احتمال ہو سکتا ہے۔
اعاذنا الله منه
واضح رہے کہ مذکورہ بالا تمام بگڑی شکلوں کے کئی معانی ہو سکتے ہیں مگر یہاں پر محض ایک اشارہ دیتے ہوئے مخارج حروف کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
محض ان چند آیات کو پڑھ کر ہر قاری یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس طرح ہم تلاوت قرآن کی کتنی غلطیوں کے مرتکب ہو کر حقیقی مقصود کھو دیتے ہیں اور عند اللہ اجر و ثواب سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ مستحق سزا بھی ہو جاتے ہیں۔
جس طرح مخارج حروف علم قرأت و تجوید میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح رموز و اوقاف بھی اس کا اہم حصہ ہیں۔ کیونکہ کسی بھی زبان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے اس تحریر میں استعمال کی گئی علامتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بسا اوقات اس کا صحیح علم نہ ہونے سے تحریر کا مفہوم الٹ جاتا ہے۔ مثلاً ” روکو ، مت جانے دو ” کا مطلب یہ ہے کہ جانے والے کو روک دیا جائے لیکن اگر اس کو یوں پڑھا جائے ، ” روکو مت ، جانے دو ” ۔ تو مفہوم یہ ہوگا کہ جانے والے کو مت روکو ، جانے دو۔ گویا ایک ہی جملے میں علامت اوقاف پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دو متضاد مفہوم نکلنے کا پورا پورا امکان موجود ہے ۔ اس سے کسی بھی تحریر میں علامتوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ٹوٹتے خاندان اور پنپتی رسومات: اسباب و حل – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
اسی طرح قرآن کریم کی آیات کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے بھی استعمال کی گئی علامتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے جن کو رموز اوقاف کہا جاتا ہے۔
ذیل میں رموز اوقاف کی تفصیل پیش ہے :
- 0 ۔ یہ بات مکمل ہونے کی علامت ہے لہذا یہاں دوران تلاوت رکنا چاہیے۔
- لا ۔ اس علامت پر نہ ٹھہرنا بہتر ہے لیکن ضرورت سے ٹھہرنے میں کوئی حرج نہیں۔
- م ۔ یہ وقف لازم کی علامت ہے۔ یہاں ضرور ٹھہرنا چاہیے ۔ نہ ٹھہرنے سے مفہوم میں خلل پڑ سکتا ہے۔
- ط ۔ یہ وقف مطلق کی علامت ہے۔ یہ علامت وہاں ہوتی ہے جہاں بات کہنے والا مزید کچھ کہنا چاہتا ہے لہذا یہاں رک کر اگلی عبارت پڑھنی چاہیے۔
- ج ۔ یہ وقف جائز کی علامت ہے ۔ یہاں ٹھہرنا بہتر ہے مگر نہ ٹھہرنا جائز ہے۔
- ز ۔ یہ لفظ ” تجاوز ” کا اختصار ہے۔ یہاں ٹھہرے بغیر گزر جانا چاہیے۔
- ص ۔ یہ وقف مرخص کی علامت ہے ۔ یہاں ٹھرنے کی رخصت ہے۔
- صلے ۔ یہ ” الوصل اولی ” کا اختصار ہے ۔ یہاں ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔
- ق ۔ یہ قبل علیہ الوقف کا مخفف ہے یہاں ٹھہرنا چاہیے۔
- صل ۔ یہ قد یوصل کی علامت ہے۔ ٹھہرنا اور نہ ٹھہرنا دونوں طرح جائز ہے لیکن ٹھہرنا بہتر ہے۔
- قف ۔ یہ ٹھرنے کی علامت ہے۔ یہاں پر ٹھہرنا چاہیے۔
- س/ سکتہ ۔ سانس توڑے بغیر معمولی رکنے کی علامت ہے۔
- وقفہ ۔ سکتہ اور وقفہ کا ایک ہی مفہوم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وقفہ پر سکتہ کی نسبت زیادہ رکنا چاہیے۔
- لا ۔ اس علامت پر ہرگز نہیں ٹھہرنا چاہیے۔
- لاْ ۔ میں الف کا تلفظ ادا نہیں کیا جاتا جب کہ اوپر گول نشان ہو۔
- ٠٠٠ . جو عبارت تین تین نقطوں سے گھری ہوئی ہو اسے دوسرے تین نقطوں پر وصل کرکے پہلے تین نقطوں پر وقف کرنا چاہیے یا پہلے تین نقطوں پر وصل کرکے دوسرے تین نقطوں پر وقف کرنا چاہیے۔ اس علامت کو معانقہ یا مراقبہ کہتے ہیں۔
اس مضمون میں ، میں نے محض علم تجوید و حسن قرأت کی اہمیت و افادیت اور اس کی فرضیت اور اس سے بے توجہی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نقصانات اور رموز اوقاف کی نشاندھی کی ہے۔ کیونکہ یہ موضوع تفصیل طلب ہے جسے اس مختصر مضمون میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ لہذا اس سے مکمل واقفیت کے لیے علم تجوید و قرأت سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو بازاروں میں بے شمار تعداد میں دستیاب ہیں۔ علاوہ ازیں موجودہ ٹیکنیکل دور میں لا تعداد ویڈیوز اس سے متعلق موجود ہیں جن سے بآسانی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں اسلام میں شرم و حیا کا تصور – محمد رمضان رضا ماتریدی )
مذکورہ بالا دلائل و فکری توجیہات کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم تجوید و حسن قرأت کا حصول ہر مسلمان پر فرض عین ہے ورنہ بصورتِ دیگر قاری تحریف الفاظ یا کم از کم تحریف معانی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ اور اس علم کے حصول کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو اس کتاب کے نزول کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس علم سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
[1] متفق علیہ ، صحیح بخاری ( کتاب فضائل القرآن ) و صحیح مسلم ( کتاب صلاة المسافرین)
[2] صحیح مسلم ( کتاب صلاة المسافرين ، باب فضل قراءة القرآن)
[3] سنن ترمذى ، أبواب ثواب القرآن
[4] سنن أبى داؤد ، كتاب الصلاة ، باب استحباب الترتيل فى القراءة
[5] فضائل القرآن از ابن كثير ، ص 33
[6] متفق عليه ، صحيح بخارى ( كتاب التوحيد ) و صحيح مسلم ( كتاب صلاة المسافرين)
ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] اسلامیات […]