بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اسلام کی آمد کے بعد عرصہ دراز تک روئے زمین امن و آشتی کا گہوارہ بنی رہی مگر رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات سے دوری کی بنا پر وہ تمام رسمیں پنپنے لگیں جو انسانی معاشرہ سے سکون و اطمینان چھین کر بد امنی و بد عنوانی کو فروغ دیتی ہیں۔ لہذا آج ہمیں معاشرہ ان رسومات میں جکڑا نظر آتا ہے جس سے رہائی کی کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی ۔اور اسی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ان غیر شرعی رسوم کا جائزہ لیتے ہوئے نگاہیں جن پر مرکوز ہوتی ہیں ، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
شادی بیاہ کے موقعوں پر بعض غیر شرعی رسوم و رواج پر عمل
ایک لڑکی کی شادی کے موقع پر منگنی ، مایوں ، مہندی اور دیگر رسومات پر عمل اس طرح کیا جاتا ہے گویا وہ اسلامی فریضہ ہے۔ نیز لڑکے والوں کی طرف سے بھاری جہیز کے مطالبات اور اس کی ادائیگی میں والدین اور اس کے اقرباء کا دن و رات کوشش میں لگے رہنا اور بڑھ چڑھ کر جہیز کا قیمتی سامان تیار کرنا ایک فیشن شو بن کر رہ گیا ہے۔
اس کے علاوہ باراتیوں کی آمد ، ان کا پرتپاک استقبال ، پھر مڑوا اور جوتاچرائی کی رسم ادا کی جاتی ہے جہاں اسلامی فرائض سے غفلت برتی جاتی ہے وہیں پردہ اور حیا کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ مزید برآں شادی سے پہلے گھر کو لیپنا یا کلر کرانا، اور انگلیوں کے نشان لگانا ، لڑکے کو مہندی اور ابٹن لگانا ، دولہے کا گوٹا لچکا لگا ہوا کپڑا پہننا، ناچ ،گانا ،قوالی کا اہتمام ، پگڑی باندھنے کا التزام ، دولہا کا دولہن کے آنچل پر نماز پڑھنا ، بری کی تیاریوں میں دن رات لگے رہنا اور رونمائی کا خاص انتظام، نکاح کے بعد نوشہ کا سلام و مصافحہ کا اہتمام ، شادی میں لغو سہرا پڑھنا ، نوشہ کو گھوڑے پر سوار کرانا یا گاڑیوں کو سجانا ، دولہے کے سر پر سہرا باندھنا اور ہار گلے میں ڈالنا ، شادی میں رنگین کاغذ کے گیٹ بنوانا ، لوگوں کو سفید پگڑیاں دینا ، سہاگن کے لئے منگل سوتر کا ہار ، اعلان نکاح کے لئے گولہ اور آتش بازی کا استعمال ، دولہے کے لئے پالکی کی سواری یا کسی خاص قیمتی سواری کا اہتمام اور فوٹو اور ویڈیو گرافی کا استعمال گویا سب فرائض میں شامل ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں خوش گوار ازدواجی زندگی کے اصول قرآن و سنت کی روشنی میں-ساجدہ ابواللیث فلاحی )
ان ساری رسومات کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل منفی پہلو سامنے آتے ہیں جو خاندانی انتشار کا سبب بنتے ہیں۔
- ان رسومات پر عمل کرنے کے لئے بے جا اسراف و تبذیر سے کام لیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ شادی معاشرہ پر بوجھ ثابت ہوتی ہے ۔ جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :” اعظم النكاح بركة أيسره مؤنة ” [1]( سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو) ۔ نیز فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين ” ( بنى إسرائيل: 27 ) یعنی بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔
- اس موقع پر قیمتی ملبوسات کی نمائش ہوتی ہے اور مالدار عورت ایک لباس کو دوبارہ پہننا شان کے خلاف سمجھتی ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :” كلوا واشربوا والبسوا و تصدقوا فى غير إسراف ولا مخيلة "[2]( کھاؤ پیو اور پہنو اور صدقہ و خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور فخر و مباہات کے ). اور یہ نمائش محض مالدار عورتوں کے درمیان ہی نہیں ہوتی بلکہ ان عورتوں کے درمیان بھی ہوتی ہے جو اس کی حیثیت نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے ان کے اندر حسد ، رشک ، مایوسی اور بغض و عناد کا جذبہ ابھرتا ہے۔
- جہیز کی ادائیگی کے چکر میں لڑکی کے والدین مقروض ہو جاتے ہیں اور بعض اس کی ادائیگی کی فکر کرتے کرتے دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ۔ جب کہ مقروض شخص کے بارے میں اتنے سخت احکام ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقروض شخص کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھتے تھے تا آنکہ وہ قرض ادا نہ کردیا جائے۔
- شرعی تعلیمات کی روشنی میں تمام تر مصارف کی ذمہ داری لڑکے والوں پر ہوتی ہے مثلاً مہر کی ادائیگی اور ولیمہ کا اہتمام۔ چنانچہ ارشادِ نبوی ہے :” أولم و لو بشأة "[3] ( ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو) ۔ اسی طرح مہر کی ادائیگی جو کہ لڑکی کا شرعی حق ہے بعض دفعہ اس کی ادائیگی کے سلسلے میں فریقین کے درمیان معاملہ تلخ رخ اختیار کر لیتا ہے۔
- شادی جو دو خاندان کو جوڑنے کا ایک نیک اور اسلامی فریضہ ہے مگر ان رسومات کی ادائیگی سے تنازع کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جب جس خاندان کا آغاز ہی نفرت کی بنیاد پر ہوگا تو ظاہر ہے اس کا اثر عائلی زندگی میں نظر آئے گا۔ لہذا لڑکی کے والدین کا یہ گمان کہ جہیز میں دی گئی تمام تر چیزیں عمدہ ہیں مگر لڑکے والوں کی نظر میں ہر چیز کم تر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی جیسا مقدس فریضہ غیر شرعی رسوم کی بنیاد پر ادا کیا جاتا ہے۔
- یہاں دو حرام کام کا ارتکاب ہوتا ہے مثلاً جہیز کی ادائیگی اور پھر اس کے نتیجے میں لڑکی کی وراثت سے محرومی۔ جہیز جس کی ادائیگی میں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر محض الماریوں کی زینت ہوتے ہیں جب کہ لڑکی کا وراثت میں شرعی حق ہوتا ہے اور اس کی ادائیگی کی صورت میں لڑکی کی تمام معاشی پریشانیاں دور ہوں گی جب لڑکی اپنی جائیداد کے پیسوں سے اپنی رہائش و آسائش کا بندوبست کرے گی تو گھروں میں بہن بھائیوں کے درمیان جو تنازعات اٹھتے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے ۔ کیونکہ بہن کی خوشحالی سے بھائی کی پریشانیاں دور ہوں گی اور پھر اس طرح سے گھر میں ساس بہو اور نند بھابھیوں کا رشتہ مستحکم رہے گا۔
- شادی کی بے جا رسومات کی تیاریوں کے چکر میں ہم جو وقت اور مال صرف کرتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے ہم والدین ، اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے معاشی و معاشرتی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے :” قل ما انفقتم من خير فللوالدين و الأقربين و اليتامى والمساكين وابن السبيل ” ( البقرة: 215) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ جو کچھ تم اپنے حلال مال میں سے خرچ کرتے ہو اس میں تمہارے والدین، قریبی رشتے دار ، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ اس طرح ہم جہاں اپنے زیادہ تر اوقات اور بے دریغ مال خرچ کرتے ہیں اگر اس کا کچھ حصہ بھی لوگوں کے معاشی و معاشرتی حقوق کی ادائیگی میں خرچ کریں تو ہمارے ذمے سارے حقوق ادا ہو جائیں گے اور معاشرہ خوشحالی کی آماجگاہ بن جائے گا۔
- بعض مرتبہ جہیز کی تیاریوں کے چکر میں ہی والدین اور اولاد کے درمیان معاملہ زبان درازی و دل شکنی تک پہنچ جاتا ہے جب کہ والدین کے سامنے اف کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ یہی سب وجوہات ہیں جب سماج میں کوئی لڑکی خودکشی کا قدم اٹھاتی ہے اور معاشرے کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
عیدی کا چلن
آج کل معاشرے میں عیدی کا چلن عام ہے جس میں لڑکی کے والدین لڑکے اور اس کے گھر والوں کے لیے قیمتی ملبوسات، زیورات اور دیگر ساز وسامان کے تحائف پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے عید جیسا مقدس تہوار رسومات کی نذر ہو کر ایک بیٹی کے والدین کے لئے پریشانیوں کا باعث بن جاتا ہے۔ حدیث نبوی ” تہادوا تحابوا ” کی روشنی میں اگرچہ تحفے تحائف کا لین دین نہ صرف جائز بلکہ اس کی ترغیب بھی ملتی ہے مگر کسی خاص موقع پر ، خاص نام سے وہ بھی محض لڑکی والوں کی طرف سے تحائف کا اہتمام محض ایک نئی رسم کو فروغ دے کر خاندان کی بقا کو زوال کی جانب گامزن کرتا ہے۔
بچہ کی پیدائش پر غیر شرعی عمل
بچہ کی پیدائش کے وقت اس کے پاس موسل، چھری، چاقو یا لوہے کی بنی چیزوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ بچہ بری روحوں سے محفوظ رہے۔ اسی طرح چھٹی کی رسم بھی بڑی شان و شوکت سے منائی جاتی ہے جو کہ عقیدے کی کمزوری کا پتہ دیتی ہے کیونکہ مومن محض اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے۔
مزید بچہ کی پیدائش کے وقت آج کل جو رسم سر اٹھا رہی ہے وہ یہ کہ بچہ اور اس کے تمام گھر والوں کے لیے قیمتی لباس اور زیورات اور تحفے تحائف کا بھر پور اہتمام کیا جاتا ہے اور پیدائش کے وقت لڑکی کو اس کے میکے بھیج دیا جاتا ہے جب کہ شادی کے بعد تمام اخراجات کے ذمہ دار شوہر یا اس کے گھر والے ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ والدین جن کی کمر جہیز اور عیدی کے چکر میں پہلے ہی ٹوٹ چکی ہوتی ہے وہ ان رسومات پر عمل کر کے مزید خستہ حال ہو جاتی ہے ۔ اس طرح بچہ کی پیدائش رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ اور یہ تمام امور بڑی تندہی سے انجام دیئے جاتے ہیں اور اس دوران اولاد کے اصلی حقوق یعنی ان کی تربیت سے غفلت برتی جاتی ہے۔یہاں پر اولاد کے حقوق کا مختصراً ذکر کرنا مناسب ہوگا جن پر عمل کی صورت میں معاشرہ ایک مضبوط و مستحکم شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں جہیز اور بارات : دو قبیح اور غیر اسلامی رسمیں – ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی )
- نیک ماں کا انتخاب
- نیک اولاد کی دعائیں کرنا
- اسلامی طرز پر استقبال کرنا یعنی تحنیک، ساتویں دن عقیقہ ، اچھے نام رکھنا اور سر کے بال منڈوانا اور اس کے برابر سونا چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا
- رضاعت کا حق ادا کرنا
- بچے کے منھ سے پہلا لفظ اللہ کا کہلوانا
- بچوں کے درمیان عدل و انصاف
- بچوں کے ذہن میں اسلامی عقیدہ راسخ کرنا
- ماں اور باپ کا بچوں پر بھر پور توجہ دینا اور ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کرنا۔ ان کے سوالات سننا اور ان کا صحیح جواب دینا
- ان کے کھیل کود کا صحیح نظم کرنا اس طریقے پر کہ ہر وقت انہیں روک ٹوک نہ کرنی پڑے
- ان سے پیار و شفقت سے پیش آنا مگر ان کی بے جا ضد اور شرارتوں کو کنٹرول کرنا
- ان کے درمیان پڑھائی لکھائی کے لئے مقابلے کا جذبہ پیدا کرنا اور انعامات و تحائف کا اہتمام کرنا اور مل جل کر کام کرنے کی ترغیب دینا
- ان کے اسکول و درسگاہ اور دوستوں پر خاص توجہ دینا
- ان کے اسکول و کالج سے جڑنے کے بعد ان کے ہمراز ہونا اور ان کی کارکردگی پر خاص نظر رکھنا اور اس دوران انہیں اچھے برے کی تمیز ، حرام و حلال کا شعور پیدا کرنا اور خصوصاً ان کے دل میں خوف خدا پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور جھوٹ جیسی بری بیماری کی قباحت و شناعت کو واضح کرنا کیونکہ جھوٹ ہی ہر برائی کی جڑ ہے۔
- ہر اچھے کام کے لیے خود کو رول ماڈل پیش کرنا
- بلوغت کے بعد نکاح میں جلدی کرنا
ان بےجا رسومات کے چکر میں ہم مندرجہ بالا حقوق سے یا تو مکمل بے اعتنائی برتتے ہیں یا پھر اس کی ادائیگی کی صورت میں افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں۔ مثلاً اولاد کے سازو سامان تیار کرنے کے چکر میں ہم والدین اور دیگر اقرباء کے واجب حقوق سے بھی غفلت برتتے ہیں۔ اسی طرح یا تو عقیقہ سرے سے کرتے ہی نہیں یا اگر کرتے بھی ہیں تو سنت رسول کے مطابق لڑکی کے لئے ایک بکرا اور لڑکے کے لئے دو کا اہتمام کرنے کے بجائے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں جب کہ اپنے ہی گھر میں بعض بہن بھائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس وقت ہم وہ فرمان رسول بھول جاتے ہیں کہ جس کو اگر زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو یقیناً سماج خوشحالی کی آماجگاہ بن جائے گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :” المؤمن كمثل الجسد ، إذا ألم بعضه تداعى سائره "[4] (مومن کی مثال جسم کی مانند ہے کہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین ہو اٹھتا ہے )
ان رسومات کی ادائیگی میں ہم اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ہمیں بچوں کے پاس بیٹھ کر ان کی باتیں سننا ، ان کے پاس لاالہ الااللہ کا ورد کرنا اور ان کی صحیح اسلامی تربیت کرنے کا وقت نہیں ہوتا نیز ان کی ادائیگی میں بچوں کے درمیان ناانصافی بھی برتی جاتی ہے ۔ انہیں حرام و حلال کی پہچان کرانے اور لوگوں کے حقوق سے متعارف کرانے کا وقت نہیں ہوتا لہذا یہی وجہ ہے کہ سماج میں کوئی عارف کسی عائشہ کو ٹارچر کرنے سبب بنتا ہے اور کوئی عائشہ خودکشی کا حرام قدم اٹھاتی ہے۔ اور اگر ہم نے اسی طرح اولاد کی تربیت پر دھیان نہیں دیا نہ جانے کتنے گھرانے جہیز کی نذر ہوں گے اور کتنے والدین اولڈ ہاؤس بھیجے جائیں گے۔ کیونکہ ہم نے ان کے حقوق کی ادائیگی کی فکر ہی نہ کی ، ان کی تربیت میں اسلامی فکر راسخ کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ان کے ذہن میں حقوق العباد کی ادائیگی کا پیغام ہی نہیں ڈالا اور انہیں والدین کے حقوق سے متعارف ہی نہیں کرایا اور پھر شکوہ کناں ہیں کہ ہماری اولاد ہمارا خیال ہی نہیں رکھتی۔
سالگرہ کا جشن
مغربی تہذیب کی یلغار اس طرح حاوی ہو چکی ہے کہ اس کی تقلید میں ہم فرمان الٰہی اور فرمان نبوی کو فراموش کر بیٹھے اور اسے اپنی تہذیب کا حصہ سمجھ بیٹھے لہذا آج ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں شادی کی سالگرہ اور برتھ ڈے پارٹی کا رواج عام ہو چکا ہے یہاں تک کہ اس وبا سے دوری اختیار کرنے والوں کو دقیانوس گردانا جاتا ہے۔ اس رسم کی ادائیگی میں جہاں ” من تشبه بقوم فهو منهم "[5] ( جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے) کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے وہیں تحفے تحائف کے چکر میں بے پناہ مال بھی خرچ کیا جاتا ہے جب کہ عقلی اعتبار سے اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ جشن اس وقت منایا جاتا ہے جب عمر کا ایک سال کم ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے ساتھ ساتھ ہم فضول خرچی اور اسراف و تبذیر کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ جب کہ اس رسم سے احتراز کرتے ہوئے اگر ان مال و زر کا استعمال حقوق العباد کی ادائیگی میں کیا جائے تو معاشرے کا ہر فرد سکون کا سانس لیتے ہوئے امن کا علمبردار ثابت ہوگا۔ (یہ بھی پڑھیں رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں – ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)
موت کے وقت بے جا رسومات پر عمل
کسی کی موت پر میت کے لئے سنت رسول کے مطابق ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کے بجائے ان رسوم پر عمل کیا جاتاہے جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ مثلاً قرآن خوانی، دوجہ، تیجہ اور چالیسواں وغیرہ۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تین دن سے زیادہ سوگ منانا کسی کے لئے جائز نہیں ہے سوائے شوہر کا غم بیوی کے لئے کہ وہ چار مہینے دس دن ہے۔ مگر آج خواتین ان کی ادائیگی میں پیش پیش ہوتی ہیں نیز اس موقع پر خوب کھلانے پلانے کا اہتمام کرتی ہیں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف میت کے گھر والوں کو تین دن کھانا کھلانے کا حکم ثابت ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں تمام رشتہ داروں کو کھلانے پلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس سے گریزکی صورت میں طعن و تشنیع بھی کی جاتی ہے اور بعض دفعہ کھلانے کا احسان بھی جتایا جاتاہے جس کی بنا پر کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔
مخلوط خاندانی و تعلیمی نظام
آج کل مخلوط خاندانی و تعلیمی نظام عام ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل سر اٹھاتے ہیں ۔ مخلوط خاندان جہاں تمام بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں اور جب ان کی اولادیں بڑی ہوجاتی ہیں تو گھر کا خرچ اور دیگر مصارف کے بڑھ جانے پر بھائیوں اور ان کے اہل خانہ میں تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں اور بے پردگی کی وجہ سے بہت سی برائیاں منظر عام پر آتی ہیں مثلاً دیور اور بھابھی کے گہرے مراسم ، کزنس کا باہمی میل جول اور ناجائز تعلقات کا فروغ وغیرہ جس کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
اسی طرح مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے بھی برائیاں جڑ پکڑ رہی ہیں مثلاً لڑکے لڑکیوں کا باہمی میل جول، پارکوں، سینیما ہالوں ، بازاروں اور سڑکوں پر گھومنا اور لو میرج کا رواج وغیرہ۔
غرض کہ ان صورتوں میں جو کہ نیک ماں کا انتخاب بچے کا پہلا حق ہے وہ کیسے ممکن ہے ؟ اور جب ماں کا انتخاب ہی نیکی کی بنیاد پر نہیں ہوگا تو اولاد کی تربیت کس طرح سے اسلامی طرز پر ہوگی اور جب تربیت اسلامی نہج پر نہیں ہوگی تو وہ نسل آگے بڑھ کر کس طرح کے خاندان کو فروغ دے گی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور جب خاندان ہی مستحکم نہیں ہوں گے تو پھر ظاہر ہے معاشرہ بھی زوال کا شکار ہوگا کیونکہ کئی مضبوط خاندانوں سے مل کر ہی مضبوط معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
[1]کتاب النکاح ، رواهما البيهقى فى شعب الإيمان
[2] صحیح بخاری : 5783
[3] صحیح مسلم : 1427
[4] مسند احمد
[5] کتاب اللباس ، سنن أبی داؤد
ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ ، اعظم گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |