Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
ناول شناسی

خواتین ناول نگاروں کے یہاں مزاحمتی عناصر – ڈاکٹرنشاں زیدی

by adbimiras اگست 10, 2021
by adbimiras اگست 10, 2021 0 comment

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی شروع ہونے کوہے ۔سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے زندگی کوایک نئی سمت دی ہے ۔اور زندگی اس نئی سمت کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔سماج میں نئے نئے موضوعات سر اٹھا رہے ہیں۔ان کا اثر ہمارے ادب پر بھی نظر آرہا ہے۔ اگر بات کریں افسانے اور ناول کی تو افسانے اور ناول میں بھی نت نئے موضوعات کو برتا جا رہا ہے ۔مزاحمتی ادب بھی ایک اہم موضوع بن کر ابھرا ہے ۔یوں تو ہر ادیب اپنے طور پرمزاحمتی رویہ اختیار کرتا ہے کیونکہ جب کوئی ادیب یا قلم کارقلم اٹھاتا ہے تووہ سماج کی کسی بدعنوانی سے نالاں ہو کر اٹھاتا ہے اور اپنے نوک قلم سے سماج کی بے راہ روی کے خلاف احتجاج درج کراتا ہے ۔ادیب کا حساس ذہن سماج کی برائی کو محسوس کرتا ہے اور پھر وہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ قارئین کو اس پر غورکرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور اگربات کی جائے خواتین کی تویہ تو حقیقت ہے خواتین کا ذہن مردوں کے مقابلے زیادہ حساس ہوتا ہے۔حالات کی سنگینی اور سماج میں ہونے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے وہ ہر چیز اور ہرمسئلہ کو باریک بینی سے دیکھتی ہیں۔ خواتین ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں زندگی کے ہرپہلو کا بخوبی احاطہ کیا ہے ۔انہوں نے حیات کے کسی ایک گوشے تک ہی خود کو محدود نہیں کیا ہے بلکہ حیات وکائنات کے ہرپہلو کا بغورجائزہ لیا ہے۔سماج میں پھیلی بدعنوانی کو نہ صرف خواتین ناول نگاروں نے محسوس کیا بلکہ اس کے خلاف پرزور احتجاج درج کرایا۔اس کی شروعات دور اول کی ناول نگاررخواتین میں رشیدۃالنسا، ندر سجادحیدر،محمدی بیگم ،اکبری بیگم ،حجاب امتیازعلی،صغریٰ ہمایوں،طیبہ بیگم ،رشیدجہاں نے باقاعدہ کردی تھی۔بعدمیں عصمت چغتائی ،حمیدہ سلطان،صالحہ عابدحسین،رضیہ سجادظہیر،قرۃالعین حیدر،عطیہ پروین،عفت موہانی،مسرورجہاں،واجدہ تبسم ، جیلانی بانو،صفیہ سلطانہ ،شکیلہ اختر،رفیعہ منظور الامین،جمیلہ ہاشمی،صغرامہدی،آمنہ ابوالحسن ،کے یہاں سماج کے ہرمسئلے پربات کی گئی ہے ۔ان ناول نگاروں کے یہاں ذاتی کیفیات کی ترجمانی سے لے کرعہد حاضر کے تمام معاشرتی اورسیاسی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ عورت کو برابری کا درجہ دینے کی بات ہو یاحکومت کے ظلم کے خلاف آواز بلندکرنا ہو،یاسماج میں اونچے طبقے کے ذریعہ نچلے طبقے کا استحصال ہوہر موضوع کو خواتین نے اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے۔حالات کے کرب کونہ صرف خواتین نے شدت سے محسوس کیا بلکہ چابکدستی سے اسے ناول کے پیرائے میں ڈھالا۔ جہاں سماج کے دوسرے مسائل کو پرویا وہیں خود خواتین نے اپنے حقوق کا پرچم بھی زوروشور سے بلند کیا۔  (یہ بھی پڑھیں ’’راجدیو کی امرائی ‘‘ میں صادقہ کی سحر کاری – ڈاکٹر قسیم اختر )

یہ صحیح ہے کہ دور اول کی خواتین کے ناول فن اور تکنیک کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے ۔اس میں کہیں نہ کہیں فنی جھول محسوس ہوتی ہے لیکن دور اول کی خواتین کے ناولوں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماحول،معاشرتی نظام سے نالاں تھیں اور انہوں نے ناول کے ذریعہ اپنا احتجاج ظاہر کیا۔رشیدالنسا نے ’’اصلاح النسا‘‘ کے نام سے 1880میں ناول لکھا ،جسے اردو کے نثری ادب میں خواتین کا پہلا کارنامہ کہا جاتا ہے ۔پروفیسر عظیم الشان صدیقی اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’نذیر احمدکے ناول اگر تحریک نسواں اورتعلیم نسواں کا نقطۂ آغاز ہیں،تو رشیدۃ النسا کا ناول ’’اصلاح النسا‘‘(سن تصنیف ۱۸۸۱)اس تحریک کا پہلا ثمرہ اور نثرمیں نسوانی ادب کا نقطۂ آغاز ہے۔‘‘(مضمون اردوناول کے فروغ میں خواتین کا حصہ‘‘از عظیم الشان صدیقی ،مشمولہ اردو ادب کو خواتین کی دین صفحہ ۲۱)

رشیدالنسا کے زمانے میں مسلم معاشرے میں بہت زیادہ جہالت تھی اور اس جہالت نے بہت سی بیہودہ رسموں کو جنم دے دیا تھا ،جس کو رشید النسا کے حساس ذہن نے قبول نہیں کیا اور انہوں نے اس کی مخالفت ومزاحمت کی۔وہ اس صورتحال کودیباچہ میں وضاحت کے ساتھ رقم کرتی ہیں:

’’چند عورتوں نے مسلم گھرانوں کی جہالت اور بیہودہ رسوم کا ذکر ان سے کیا اور جب انہوں نے ان باتوں کا تجزیہ منطقی انداز میں کیا تولوگوں نے بہت تعریف کی اور ان سے فرمائش کی کہ ان باتوں کو نصیحت کے طورپر لکھ ڈالیں۔ان کے کہنے سے ہم کوبھی خیال ہوا کہ ایک کتاب ایسی لکھیں،جس میں ان رسموں کا بیان ہو جن کے باعث صدحا گھر تباہ ہوگئے اور جو باعث فضول خرچ اور فساد کے ہیں مگر مجھے یہ خیال بھی ہوا کہ ان باتوں کو نصیحت کے طور پر لکھنا میری حیثیت پر زیبا نہیں ہے بلکہ ان باتوں کو قصہ کے پیرایہ میں لکھنا ہر طرح سے مناسب ہوگا۔(اصلاح النسا از رشیدالنسا خدا بخش لائبریری طبع ثانی۲۰۰۷ص۔۱۰۔۱۱)

اس اقتباس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دور اول کی خواتین اپنے معاشرتی نظام سے نالاں تھیں وہ سماج کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانا چاہتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے معاشرے کے خلا ف آواز بلند کی اور آگے کے لئے راہ ہموار کی۔ابتدائی دورکی خواتین نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے بنیادی مسائل پر کھل کر بحث کی ہے اور ناول کے ذریعہ خواتین کی تعلیم وتربیت اور سماجی واخلاقی خامیوں کو دورکرنے کی سعی کی ہے۔ان کی تخلیقات سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کا خیال تھاکہ عورت کا جاہل ہونا ہی تمام خامیوں اور برائیوں کی جڑہے ۔عورت اگر تعلیم یافتہ ہوگی توہی کامیاب زندگی گزارسکے گی۔علاوہ ازیں سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اور فرسودہ رسوم کے خلاف بھی آواز بلندکی۔محمدی بیگم نے اپنے ناول ’’آجکل‘‘،سگھڑ بیٹی اور ’’شریف بیٹی ‘‘اور طیبہ بیگم نے  ’’انوری بیگم‘‘میں خواتین کے اندر خانگی ذمہ داریوں کے جذبہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ندر سجاد حیدر نے جہاں’’آہ مظلوماں‘‘ میں بے جوڑ شادی کے برے نتائج پر غورکیا ہے وہیں’’اخترالنسا ‘‘میں لڑکیوں کی تعلیم کو موضوع بنایا ہے۔اور جہالت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔صغرا ہمایوں مرزا نے بھی ’’مشیرنسواں‘‘کے نام سے اسی طرح کا ناول لکھا جو1906میں شائع ہوا۔اس میں مسلم معاشرے میں تبدیل لانے پر زور اور فرسودہ رسموں کے خاتمہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔دوسرے دور کی خواتین کے یہاں مذاحمت کا عنصر واضح نظر آتاہے ۔صالحہ عابدحسین کے یہاں مزاحمت کا عنصر موجود ہے یہ مزاحمت ذات کے دائرہ سے نکل کر اجتماعی سماجی حقیقتوں کی ترجمان بن جاتی ہے۔صالحہ عابدحسین نے جس دور میں لکھنا شروع کیا ۔وہ سیاسی سماجی تبدیلیوں کا دورتھا،ایک طرف لوگ انگریزی حکومت کے خلاف آزادی کے لئے لڑرہے تھے تو دوسری طرف سماج میں تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ صالحہ عابد حسین نے اس وقت کے سماج کا بغور مطالعہ کیا اور سماجی مسائل کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ۔ان کا ناول ’’راہ عمل‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔اس میں آزادی کے بعد ہندوستان کی تشکیل کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔انہوں نے جہاں گاؤں کی سادہ زندگی ،کسانوں کے مسائل اور بے معنی رسم ورواج پر نشتر چلائے ہیں،وہیں تیز رفتار،بناوٹی زندگی عیش وعشرت کوبھی حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔مصنفہ نے ’’راہ عمل‘‘ میں جہاں زمین دارانہ نظام کے عروج و زوال کوبڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے وہیں زمین دار اور اچھوتوں کے درمیان نفرت پر بھی وارکیا ہے ۔زمیندار طبقے کی ذہنیت کو اس طرح بیان کرتی ہیں:

’’سیتا دیوی پوری طرح چلارہی تھیں،

ارے غضب تو دیکھوکمینوں کی یہ مجال ،پاؤں کی جوتی سرکو آئی ۔روٹیاں لگ گئی ہیں روٹیاں،مرے کم ظرف چھچھورے ،کھانے کو ملنے لگا نہ اب کاہے اب کاہے شریفوں کی شرافت،ٹھاکروں کی ٹھاکری ان کے ہاتھوں باقی رہے گی ۔اے ایشوریہ کیا ستم ہے ۔یہ کیا غضب ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں ہجور آما: تجرید سے پرے ایک نیا قدم – خلیل مامون )

ساس سیتا۔اورکیا بہو جب ہماری زمین ان کمینوں کو چھین دے دیں گے ۔ہم منگتے وہ زمین داربن بیٹھیں گے۔وہ راجہ ہم پرجہ بن جاویں گے ۔تویہی ہوگا بھگوان کون پاپ کیا تھا ہم نے کہ انگریز ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔اور کالوںکی حکومت ہے۔(راہ عمل از صالحہ عابدحسین صفحہ۔۱۶۵)

ہمارامعاشرا طبقاتی اور جاگیردارانہ معاشرہ ہے ،جس میں سرمایہ دار اور جاگیر دار ہمیشہ مضبوط،طاقت ور اور با  اختیاررہا ہے ۔نچلا طبقہ کمزورسے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔صدیوں سے اس طبقے کا استحصال جاری ہے۔خواتین ناول نگار نے اس صورتحال کو محسوس بھی کیا اوراپنی تخلیقات کا موضوع بھی بنایا۔ صالحہ عابدحسین نے سرمایہ دار طبقے کے خلاف آواز اٹھائی ۔ استحصالی طبقے کی حمایت میں ان کے لہجے میں گہرا طنز نظر آتا ہے۔ صالحہ عابد حسین کے دیگر ناولوں میں بھی مزاحمتی رنگ محسو س کیا جا سکتا ہے۔ عصمت چغتائی اور قرۃالعین حیدر کے یہاں احتجاجی لہجہ واضح طورپر سنائی دیتا ہے۔عصمت چغتائی نے اپنے شاہکار ناول ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘میں سمن کے کردارکے ذریعے متوسط طبقہ کے معاشرتی،اخلاقی  اور ذہنی پہلوؤں کو مختلف جہتوں سے پیش کیا ہے۔’’معصومہ‘‘میں فلمی زندگی کی قلعی کھولی گئی ہے۔

عطیہ پروین اوربشریٰ رحمٰن نے بھی اردو کو کئی ناول سے نوازا۔ انہوں نے موجودہ سماج کے بیشتر مسائل پر قلم اٹھایا ہے ۔ان کے ناولوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سماج کے نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیرکا تخلیقی سفر تقریباً نصف صدی پر محیط ہے ۔ترقی پسندانہ نظریات رکھنے والی اس فکشن نگار کی تخلیقات سیاسی سماجی ،معاشرتی شعور کی آئینہ دارہیں۔ان کے ابتدائی ناول میں رومانوی عناصر نظرآتے ہیں۔لیکن ’’اللہ میگھ دے‘‘ میں ان کے ہاںفنی ارتقا کے ساتھ موضوعات وخیالات میں بھی تبدیلی نظرآتی ہے۔جذباتی مسائل کے بجائے ان کی نظر بڑے مسائل تک پہنچتی ہے وہ نئے نظام سے نالا ںہیں۔تقسیم ہند سے لے کر نظام نو تک ایک بڑی کائنات ان کے یہاں موجود ہے۔ان کے ناولوں میں ترقی پسند رجحان نمایاں طورپرنظرآتا ہے۔انہوں نے چارناول لکھے ۔’’سرشام‘‘،کانٹے‘‘،’’سمن‘‘اور اللہ میگھ دے‘‘۔’’سر شام‘‘ میں جس دورکا احاطہ کیا گیا ہے وہ سیاسی انتشارکا دورتھا۔اس ناول کا موضوع تقسیم ہنداور بنگال کا بٹوارہ ہے اورسماجی ناہمواریوں پر ظنز کیا گیا ہے۔’’اللہ میگھ دے‘‘رضیہ سجادظہیرکا اہم ناول ہے۔ناول کا موضوع لکھنؤ میں آنے والا سیلاب ہے،جو گومتی ندی پربنے باندھ کے ٹوٹنے سے آیا ہے ،سیلاب سے ہونے والی تباہی کا ذمہ دار سرکاری افسروں کو ٹھہرایا گیا ہے،جنہیں اپنے عہدے پر آنے کے بعدکسی کی فکر نہیں ہوتی ہے۔مصنفہ نے سرکاری افسروں اور سرکاری نظام کی خوب مزاحمت کی ہے۔ اس ناول میں نوجوان نسل کے جوش و جذبے کوفنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔اور ان کرداروں کے ذریعہ بدعنوانی کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ہے۔امتیاز، نہال، نریندر، بوس، نیتا اور دیپاناول کے اہم کردارہیں۔انہی کے چاروں گردکہانی گردش کرتی ہے ،یہ سب لکھنؤ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔امتیاز ،نہال اور بوس انجینئرہیں۔نریندرڈرگ ریسرچ سینٹرمیں کام کرتاہے ۔نیتا آرٹسٹ ہے اور دیپا اسکول میں بچوں کو پڑھاتی ہے ،یہ نوجوان انقلابی ذہن کے مالک ہیں اور سماجی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ملک میں خوشحالی قائم کرنا ان کا سب سے بڑا خواب ہے ۔ہر شخص اپنے کام کے مطابق ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔نیتا اپنی مورتیوں کے ذریعہ ملک کی بگڑی حالت کو سدھارنا چاہتی ہے ۔دیپا اسکول کے اساتذہ کی تنخواہ بڑھانے کی کوشش کرتی ہے اوران چاروں انجینئروں کو ہروقت یہی فکر رہتی ہے کہ اس سیلاب کی تباہی سے لوگوں کو کیسے بچائیں۔اس ناول میں مصنفہ نے سیاسی اور سماجی نظام پر طنز کے نشتر چلائے ہیں،وہیں ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایاہے جو عوامی مسائل کو بھی سیاست کی نظرسے دیکھتے ہیں اور مصیبت کی گھڑی میں بھی ان کو ووٹ حاصل کرنے کی فکر رہتی ہے۔ناولوں کے کرداروں کے ذریعہ سیاسی رہنماؤں کی گندی ذہنیت پر وار کیا گیا ہے ۔

ہر سماج میں اعلیٰ طبقے عوام کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں،کبھی ریاست، کبھی مذہب کے نام پر ،کبھی سیاست اورکبھی معیشت کے نام پر ۔ان استحصالی قوتوں کے ہاتھ جھٹک دینے کے لئے مزاحمتی عمل جاری رہتا ہے ۔صغرا مہدی نے بھی سماج کی کہنہ اور فرسودہ رسم ورواج کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات کو کسی ایک پہلو تک محدود کرنے کے بجائے زندگی اور سماج سے منسلک بہت سے مسائل پر بات کی ہے۔ان کے ناول ’’پابہ جولاں‘‘میں سماج میں پھیلی برائی کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔’’دھند‘‘میں ناول نگارنے ان طلبا اوراساتذہ پر ضرب کاری لگائی ہے ،جو مذہبی تفریق کا کھیل کھیل کر اسکول کا ماحول خراب کرتے ہیں۔مصنفہ نے ناول کے ذریعہ معاشرے کا بغور جائزہ پیش کیا ہے۔ناول کی ہیروئن بلقیس جہاں اسکولوں کے طریقۂ تعلیم اور استادوں کی بے حسی سے نالاں ہے وہیں ناول کا ہیرو احمد زیدی کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سیاست میں حصہ لیں،اسے گندی اوربری چیز سمجھ کرچھوڑ نہ دیں۔ان کے خیال میں اس وقت تک سماجی،سیاسی،اور معاشی نظام بہترنہیں ہو سکتا ،جب تک سیاست میں حصہ نہ لیا جائے۔واجدہ تبسم اور آمنہ ابوالحسن نے حیدرآبادکے روایتی ماحول اور معاشرے میں عورت کے استحصال پر نشتر زنی کی ہے ۔آمنہ ابوالحسن نے اپنے ناول ’’سیاہ ،سرخ،سفید‘‘اور’’پلس مائنس‘‘میں عورتوں کی جنسی نفسیات کی گتھیوں کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ان کے یہاں عورتوں کے مسائل ضرورہیں،مگر نقطۂ نظر محدود نہیں ہے۔ان کے یہاں موضوع کی رنگا رنگی کا عکس واضح طورپر ملتا ہے۔واجدہ تبسم کی شناخت ایک بے باک ناول نگار کی حیثیت سے ہے ۔ان کے زیادہ تر ناول روایات سے بغاوت کے حامل ہیں۔’’پھول کھلنے دو‘‘،’’شہرممنوع‘‘ اور’’روزی کا سوال‘‘ میں خاص طور پرحیدرآبادکے جاگیردارانہ ماحول اور معاشرے میںعورت کے استحصال پرکھل کرنشتر زنی کی گئی ہے۔ہاجرہ مسرور کے ناول ’’آنگن اور اور خدیجہ مستور کے ناول’’ گھروندے‘‘ میں عہدحاضر کی منتشر اور مضطرب زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔جیلانی بانوں نے ’’ایوان غزل ‘‘ میں خواتین کی معاشی حیثیت اور ان کے حالات ومسائل کو موضوع بنایاہے جاگیردارانہ معاشرے میں اعلیٰ طبقے اور دبے کچلے طبقے کی عورتوں کی زندگی اور ان کے حالات ومسائل کا احاطہ کیا ہے ۔ان ناولوں کا خمیرمزاحمتی عناصر سے تیار ہوا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں نذیر احمد کا ناول ایامیٰ اور نو آبادیاتی جدیدیت – پروفیسر ناصر عباس نیرّ )

اور اگر اکیسویں صدی کے ناول کا بغورجائزہ لیا جائے تو نئے ناول نگاروں کے یہاں بھی مزاحمتی ادب کے گہرے نقوش نظرآتے ہیں۔نئے ناولوں میں اگر احتجاجی پہلو تلاش کیا جائے تو ثروت خان ،شائستہ فاخری،صادقہ نواب سحر،ترنم ریاض اور غزالہ قمر اعجاز وغیرہ نے بھی اپنے اپنے انداز میں مزاحمت کی ہے ۔ان کی تخلیقات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ موجودہ حالات سے دل برداشتہ ہیں۔

ثروت خان راجستھان کی رہنے والی ہیں۔انہوں نے راجستھان کے لوگوں کے درد کو شدت سے محسوس کیا ۔وہ راجستھان کے لوگوں کو حوصلہ نہ ہارنے اورجدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔انہوں نے دو ناول لکھے’’ اندھیرا پگ‘‘ اور’’کڑوا کریلا‘‘۔انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ سماج کے مختلف مسائل خصوصاً راجستھان کی معاشرتی وسیاسی فضا ،تہذیبی وثقافتی زندگی کے ساتھ ساتھ عورت کی حیثیت اوراس کی زندگی کے مسائل کی عکاسی کی ہے۔اور اس کے خلاف آواز اٹھا کرعورتوں کے حقوق کی بات کی ہے۔انہوں نے اس معاشرے میں اعلیٰ طبقے کی عورتوں کی زندگی کے المیے کوبڑے سلیقہ سے اجاگرکیا ہے۔’’اندھیرا پگ ‘‘کے بارے میں پروفیسر وارث علوی لکھتے ہیں:

’’اندھیراپگ‘‘ثروت خان کی پہلی ناول ہے اور اس قدر کامیاب کہ ان کی تحقیقی صلاحیت منواتی ہے۔۔جس میں بیوہ کی بپتا تانیثی بغاوت میں بدل جاتی ہے ۔بیوہ کی بپتا کے بیان میں راجستھان کے پروہتوں کی حویلیوں کا نقشہ نازیوں کے کیمپوں کی یاد دلاتا ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ نازیوں کا ظلم دشمنوں کا تھااور نفرت کے جذبہ کے تحت تھاجبکہ بیوہ بیٹی پرظلم اپنوں کا تھا اور سماجی مجبوری اور رسم ورواج کی غلامانہ پابندی کے سبب تھا ۔اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ظلم بپتا اور دکھ اتفاقی نہیں۔‘‘(اندھیرا پگ،از ثروت خان،ناول فلیپ)

ثروت خان نے’’ اندھیرا پگ ‘‘میں عورت کی دو تصویروں کو پیش کیا ہے ایک یہ کہ عورت مظلوم ،محکوم اوربے بس ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کے اندراتنی طاقت بھی ہوتی ہے کہ وہ اگر اس جابرسماج کا نشانہ بنتی ہے تو باغی بن کرمردانہ ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلندکرتی ہے ۔’’اندھیراپگ‘‘کی ہیروئن روپ کنور اپنے باپ سے سوال کرتی ہے:

’’میں پوچھتی ہوں باپو آخر کب تک ہم اس سسٹم کی بھینٹ چرھتی رہیں گی ۔یہ تو کمیونسٹوسے بھی بدتر ہے ،ذہن ،مشن، وژن، سب کا ناش کرنے والا۔‘‘اب وہ باپ کے روبروتھی۔’’جیو کی مرتیوتو یہیں ہوجاتی ہے باپوہاڑمانس کے لوتھڑے کو منش یے نہیں کہتے۔نہیں باپو…میں لوتھڑا نہیں بننا چاہتی ۔مجھے ادھیکار چاہئیں۔آپ نے تو شاستر پڑھے ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے… کیا سماج نہیں جانتا۔خود شاستروں کی رچنا استری نے کی ہے۔پھرہماری کرنی ماتا بھی تو استری تھیں۔باپومیں استری کی اسی کھوئی ہوئی استھتی کی تلاش میں ہوں۔‘‘(اندھیرا پگ از ثروت خان)

’’اندھیراپگ‘‘ایک ایسا ناول ہے جس میں مصنفہ نے گھٹ گھٹ کرزندگی جینے والی عورتوں کی نمائندگی کی ہے اور ایسی فرسودہ رسموں کے خلاف احتجاج کیاہے جس میں عورتوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ اس میں مصنفہ نے راجستھان میں عورتوں کی زندگی کے تلخ حقائق کوبیان کیا ہے اور مردسماج کے اوپر طنز کے نشتر چلائے ہیں۔’’اندھیرا پگ کی ہیروئن روپ کنورمردوں کے بنائے ریتی رواج کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن اس کی خواہشات کا گلا دبا دیا جاتا ہے۔روپ کنور ایک ذہین لڑکی ہے پڑھائی میں بہت تیز ہے اور وہ چاہتی ہے بڑے ہوکر ڈاکٹر بنے اس کی پھوپی راج کنور اس کے خوابوں کو تعبیردینا چاہتی ہیں۔لیکن جب وہ سترہ سال کی تھی اس کی شادی کردی جاتی ہے دو مہینے کے بعد وہ بیوا بھی ہوجاتی ہے۔سترہ سال کی بچی جس کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب تھے اس کے خواب نوچ دئے جاتے ہیں اور وہ بیوہ ہوجاتی ہے۔اور اس پر سماج کے فرسودہ رواج تھوپے جاتے ہیں۔جیسے ابلا ہوا کھانا کھانا، رنگین کپڑے نہیں پہننا نہانا دھونا نہیں۔ اس طرح کی بہت سی پابندیوں میں اسے جکڑدیا جاتاہے ۔سسرال میں تو یہ سلوک اس کے ساتھ ہوتا ہی ہے لیکن جب رات کے اندھرے میں اندھیرے پگ کی رسم ہوتی ہے اوروہ میکے آجاتی ہے ۔تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ نارمل زندگی گزارے گی لیکن یہاں پر بھی اسے ایک اندھیری کوٹھری میں ڈال دیا جاتا ہے اوراگر وہ کسی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو کہاجاتا ہے سماج کیاکہے گا برادری کیا کہے گی۔آخر کار روپی کی پھوپی اس کو گاؤں والوں سے چھپ کر شہر لے جاتی ہے اوراس کی آگے پڑھائی جاری کرا دیتی ہے ۔روپی اپنا ماضی بھول کر پڑھائی میں لگ جاتی ہے اس کا نام میڈیکل کالج میں آجاتا ہے۔ادھر گاؤں میں جب سب اس کے بارے میں پوچھتے ہیں تو گھر والے بہانا کرتے ہیں کہ روپی بیمارہے اور شہرمیں علاج کے لئے گئی ہے۔لیکن کسی طرح سے گاؤں والوں کو پتہ چل جاتا ہے اور سب روپی کے باپ دادا پر چڑھائی لے کر آجاتے ہیں۔اور روپی کی پڑھائی چھڑواکر گاؤں بلانے کی بات کہتے ہیں۔روپی اور اس کی پھوپھی دونوں سماج کے فرسودہ نظام سے لڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔لیکن کٹر وادی لوگ ان کو ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیتے ہیں۔روپی کی پھوپی اس فرسودہ نظام سے لڑتے لڑتے دنیا ہی چھوڑدیتی ہے اور روپی ان کٹر وادیوں کا تنہا سامنا کرتے کرتے گھر چھوڑکر چلی جاتی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں غلام باغ اور بدلتی ہوئی سماجی صورتحال – سیدہ ہما شیرازی )

ثروت خان نے روپی کے کردارکے ذریعہ عورت کی مظلومیت و محکومیت ،جبر واستحصال ،مجبوری ومحکومی کو ہی نہیں پیش کیا بلکہ عورتوں کو یہ پیغام بھی دیاہے کہ رونے اور ظلم سہنے کے بجائے اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی بیدار کرے اور نہ صرف مسائل کا سامنا کرے بلکہ مردانہ سماج کے سوتیلے رویوں کے خلاف بھی آواز بلندکرے۔انہوں نے ایک طرف ان باہمت عورتوں کو کردار بنایا جو سماج کے سوتیلے رویہ کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرتی ہیں۔اور دوسری طرف ان عورتوں کے کردارکوبھی پیش کیا ہے جو سماج کے ڈر سے منہ نہیں کھولتی اور مردوں کے استحصال کا شکارہوتی رہتی ہیں اور مردوں کے کالے کرتوت پر پردہ ڈالتی رہتی ہیں۔اس ناول میں سماج کی درندگی اوربے حسی کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں۔

صادقہ نواب سحر نے بھی اپنے ناولوں کے ذریعہ سماج میں پھیلی ہوئی برائی کو اجاگر کیا ہے ۔ان کے ناول مزاحمتی لہجہ کے غماز ہیں۔انہوں نے عورت کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس کو موضوع بنایا ہے ۔’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘میں انہوں نے عورت کی نبض ٹٹول کر اس کے دکھ درد کو بڑی چابکدستی سے اجا گر کیا ہے ۔’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ایک سوانحی ناول ہے ،جس میں متاشا کے کردار کو مرکز بنا کر اس کی زندگی کے مختلف ادوار اور مختلف کرداروں،مقامات اور حالات کو مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا ہے ۔ایک عورت پر ہونے والے مظالم کی داستان کو بڑی چابک دستی سے پورے ناول میں سمویا ہے۔ناول کا بنیادی کردار متاشا حساس دل کی مالک ہے ۔باپ کے ذریعہ ماںپر کئے گئے مظالم کا اسے شدت سے احساس ہے۔وہ بچپن سے لے کر زندگی کے آخری پڑاؤ تک استحصال کا شکار ہوتی ہے ۔لیکن ہمت نہیں ہارتی ہے ۔وہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے لیکن ہر بار اس کے اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے مصنفہ نے متاشا کے کردار کے ذریعہ یہ بات ذہن نشین کرائی ہے کہ مردہاوی معاشرے میں عورت ہر طرح کی آزادی کے باوجود بھی محفوظ نہیں رہ سکتی ۔متاشا نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھاکہ باپ کی عمر کے ایک شخص نے اپنی ہوس کا شکار بنایا ،جس کی وجہ سے وہ مردوں سے نفرت کرنے لگی ،وہ اس کا اظہار اس طرح کرتی ہے:

’’ان دنوں مردوں سے نفرت کا احساس مجھ میں اتنابڑھ گیا تھا کہ گھر آکر کوئی صوفے یا کرسی پر بیٹھتا تو میں وہ حصہ جھٹک کر صاف کریتی۔‘‘(کہانی کوئی سناؤ متاشا)

متاشا کو زندگی کے ہرمرحلہ میں مردکی غلط نگاہوں کا شکارہونا پڑا ۔یہاں تک کہ شوہر کی موت کے بعد سوتیلا بیٹا اس کو غلط نگاہ سے دیکھتا ہے ۔متاشا کو ہر قدم پر احتساب سے گزرنا پڑتا ہے لیکن وہ حوصلہ سے کام لیتی ہے ۔دو بار اس کی منگنی ہوتی ہے اور اچھے لڑکے بھی اس کی زندگی میں آتے ہیں لیکن باپ کی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہوپاتی۔جب اس کا باپ اس کی ماں اور بچوں کو گھر سے نکال دیتا ہے تو وہ اپنی ماں کا سہارا بنتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی عمرسے دوگنی عمرکے ادھیڑ مرد سے شادی کرلیتی ہے۔پورا ناول ایک عورت کی دردبھری داستان ہے ،جس سیکڑوں عورتوں کے کرب کی داستان چھپی ہے۔

صادقہ نواب سحر کا دوسرا ناول ’’جس دن سے … ‘‘ میں والدین کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے بچوں کے اوپر کیااثر پڑتا ہے اور خاندان کس طرح بکھرتا ہے ،کو موضوع بنایا گیا ہے اس کے علاوہ بھی مصنفہ نے بہت سے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ناول کا اہم کردار جتیش ہے جس کو سب جیتو کہتے ہیں۔جیتو کے ماں باپ آپس میں بہت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور جب جھگڑا زیادہ بڑھ جا تا ہے جیتو کی ماں اپنے مائیکے چلی جاتی ہے اور کچھ دن کے بعد جیتو کی خاطر واپس آ جاتی ہے لیکن یہ جھگڑا ایک دن اتنابڑھ جاتا ہے پھر وہ واپس نہیں آتی ۔جب جیتو کے ڈیڈی شہر میں ہونے والے الیکشن میں قدم رکھ رہے تھے تو جیتو کی ماں نے منع کیا اوراس بات پر جھگڑا اتنا بڑا کہ جیتو کی ماں ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی اور یہ گھر پوری طرح سے برباد ہو گیا۔جیتو کا بڑا بھائی نکھل ماں کے ساتھ چلا جاتا ہے اور جیتو باپ کے پاس رہ جاتا ہے ۔جیتو کا باپ اپنی بیوی سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ جیتو کو پی سی او پر لے جا کر ماں کو گالیاں دلواتا ہے۔’’جس دن میں بھی مصنفہ نے ایک عورت پر ہونے والے مظالم کوبیان کیا ہے۔صادقہ نواب ایک عور ت پر ڈھائے جانے والے ظلم کو اس کے بیٹے جیتو کی زبانی اس طرح بیان کرتی ہیں۔

’’اور پھر میری زندگی میں وہ دن بھی آ گئے جب رات کے وقت ڈیڈی مجھے پی سی او لے جاتے،’’ماں کو گالیاں دے۔‘‘پبلک فون کا رسیور زور سے میرے کان پر دبا دیتے،’’تیری ماں نے ……….ایسا کیا ویسا کیا…….تو اس کو گالیاں دے‘‘،وہ شراب کے نشہ میں ہوتے۔ مجھے جھنجھوڑتے ……پیٹتے میں اپ ہی ماں کو گالیاں دیتا اور روتا۔۔۔ممما سے کہہ نہیں پاتا کہ یہ الفاظ میرے نہیں۔‘‘ص۳۵

جیتو پل پل تڑپتا رہتا ہے دوسرے بچوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے سوچتا ہے کہ کاش میری زندگی بھی ایسی ہوتی لیکن اس کی یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوتی ۔با پ جیتو کی ماں کو چھوڑنے کے بعد دو اور شادیاں کرلیتا ہے۔ سوتیلی ماں اسے بہت پریشان کرتی ہے اور جب وہ شکایت کرتا ہے تو اسے باپ کی مار کھانی پڑتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جیتو کے دل میں ماں باپ کے لیے نفرت کا زہر بھر جاتا ہے۔

’’مجھے اکثر لگتا ہے ۔ماں ،ماں نہیں۔صرف ذریعہ ہے،دنیا میں لانے کا۔میری ماں’مدر نیچر‘۔’میری ماں قدرت ہے‘۔۔۔کیوں کہ اسی نے مجھے جینا سکھایا ہے۔۔۔۔زندگی میں بہت کچھ سوچتا ہوں،’ایسا کرناہے۔،’’ممی ڈیڈی ہیں ہی نہیں۔‘‘میں چاہتا تھا کہ عام لوگوں کی طرح رہوں۔دوسرے گھروں کی طرحجہا ںسب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوں۔‘‘ص۴۱

سوتیلی ماں جیتو کو جب زیادہ پریشان کرتی ہے تو جیتو کے ڈیڈی اس کو اپنے بھائی کے یہاں رکھ دیتے ہیں ۔اور اس کو رکھنے کے لیے بھائی کو پچاس ہزار روپے بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود بھی وہاں اس کے تایا گھر کا سارا کام کراتے ہیں جب وہ کچھ کہتا ہے تو اس کی مار لگائی جاتی ہے۔یہاں تک ایک دن  اس کے اوپر چوری کا الزام لگا کر پورے دن سزا دی جاتی ہے ۔جیتو کے ڈیڈی کو جب پتہ چلتا ہے تو وہ اس کو لینے کے لیے آجاتے ہیں لیکن جیتو سوتیلی ماں کے پاس جانے سے انکار کر دیتا ہے۔اور اس کے ڈیڈی اس کو الگ فلیٹ میں شفٹ کر دیتے ہیں ۔لیکن جیتو کو سکون حاصل نہیں ہو پاتا ۔اس کا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگتا وہ ماں باپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔اپنے ڈیڈی سے بہت زیادہ نفرت کرتا ہے، نفرت تو وہ ماں سے بھی کرتا ہے لیکن ماں کے لیے اس کے دل میں ایک نرم گوشہ ضرور تھا اور وہ اکیلے میں سوچتا کہ اس کی ماں نے کتنی مار جھیلی۔

’’سوچتا ہوں مما کا بھی کیا قصور تھا!مجھے وہ دن یاد آ گیا جب مما کو ڈیڈی نے بیلن منھ میں ڈال کر،دیوارسے سٹا کر اٹھایا تھا کبھی کبھی وہ انہیں ڈائننگ چیئر سے مارتے ۔‘‘ص۵۵

جیتو کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ جب وہ باپ کے پاس جاتا تو وہ ماں کو الزام دیتے اور جب وہ ماں کے قریب ہوتا تو وہ اس کے باپ کو برا کہتیں ۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے دل میں تلخی بھر جاتی وہ اس تلخی جتنا بھی نکالنا چاہتا وہ دور نہیں ہو پاتی۔وہ سوچتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں ہند اسلامی تہذیب و ثقافت اور فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ – نورین علی حق )

’’میں مما کو بری طرح جواب دیتا ہوں۔تمیز سے بات نہیں کرتا۔اکثراس بات کا افسوس نہیں کرتا۔۔۔۔مگر کبھی افسوس بھی ہوتا ہے۔پھر بھی جب مما کی آواز سنتا ہوں خود بخود کچھ لہجہ میں آ جاتا ہے۔۔ایسا میرے آس پاس والے کہتے ہیں۔‘‘

’’باپ پر گیاہے،اسی کی سائڈ لیتا ہے!مما کہتی ہیں۔۔۔مگر آج اس و قت ایسا محسوس ہو رہاہے کہ میں ماں سے دس گنا زیادہ اپنے باپ سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘

ماں باپ کے جھگڑوں کا جیتو پر اتنا اثر ہوا کہ وہ ایک ایک کلاس میں کئی کئی بار فیل ہوا۔جب وہ پڑھنے بیٹھتا تو اس کا دل کتابوں میں بالکل نہیں لگتا ۔ایک  ایک واقعہ اسکے سامنے آجاتا اور اس کا دل پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا۔

مصنفہ نے جیتو کے کردار کے ذریعہ یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ والدین کے آپس کے جھگڑے کا بچوں پر اس طرح اثر پڑھتا ہے کہ انہیں سماج میں بھی عزت نہیں مل پاتی۔کچھ تو بچارا کہہ کر پکارتے ہیں اور کچھ دوسری طرح سے ذلیل کرتے ہیں۔

زندگی قدم قدم پر جیتو کا امتحان لیتی ہے۔اس کو دلی سکون کسی حال میں نہیں ملتا اگر کوئی خوشی ملتی بھی ہے تووہ اسکے ماضی کی تلخی اس کے حال پر غالب آجاتی ہے اس کی زندگی میں چار لڑکیاں آتی ہیں ۔لیکن سچی محبت حاصل نہیں ہو پاتی۔اسی طرح تعلیم میں بھی ناکامی ہاتھ لگتی ہے اور کئی سال فیل ہونے کے بعد لائی میں پاس ہوتا ہے۔اور اپنے ماضی کی تلخیوں کو بھول کر ایک کامیاب انسان بننے میں لگ جاتا ہے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گھریلو تشدد پر صادقہ نواب سحرکی گہری نظر ہے اور انہوں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی۔

شائستہ فاخری دور جدید کی اہم فکشن نگارہیں۔ان کے دو ناول’’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘‘اور’’ صدائے عندلیب بر شاخ شب‘‘نسائی ادب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ ان کے ناولوں میں مزاحمتی فکر کی روح سمٹ آئی ہے ۔شائستہ فاخری نے اپنے ناولوں کے ذریعہ سماج کے اسی روایتی نظام اور مردحاوی ذہنیت کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ان کے نزدیک عورت سماج کا ایک اہم حصہ ہے جس کے بغیر سماج بلکہ صحت مند سماج کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔وہ عورت کی اہمیت کو اس طرح بیان کرتی ہیں:

’’عورت وہ ہے جو اپنی رضا قضا کے ہاتھوں سپرد کرکے زہر جیسی تلخ زندگی کو شکر کے مانند شیریںبنا کر زندگی جیے جاتی ہے اور وہ جو ہجرکی شب بیداری میں بھی وصل کے نغمے گا کر آب حیات پئے جاتی ہے۔‘

شائستہ فاخری نے ’’ صدائے عندلیب بر شاخ شب‘‘میں اونچے طبقے اور غریبی میں گزارا کرنے والی دونوں طبقوں کی عورتوں کا موازنہ کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ کہ خواہ عورت امیرہویا غریب،خوبصورت ہویا بدصورت،تعلیم یافتہ ہویا جاہل عورت صرف عورت ہے۔یعنی مردکی کھیتی۔ہر تہذیب وتمدن ،ہر کلچر و ثقافت میں عورت مردکی کھیتی رہی ہے۔

ناول کا مرکزی کردار نازنین  بانو اونچے طبقے کی ہے جس کے ارد گرد کہانی گردش کرتی ہے۔دوسرا اہم کردار ستارہ ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔مصنفہ نے ان دونوں کرداروں کے ذریعہ سماج کے دونوں طبقوں کی زندگی کا احاطہ کیا ہے۔انہوں نے نچلے طبقے کی  بستی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر وہاں کے رسم ورواج ،ان کی عورتوں کے مسائل ،ان کا رہن سہن کھان پان سب کا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ستارہ کے درد کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے ۔اور نازنین کے دکھ کوبھی پیش کیاہے۔نازنین کی ماں  کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا باپ نے دوسری شادی کرلی تھی۔اور جب جوان ہوئی تو اس کی مرضی جانے بغیر کاشف اصغر سے اس کا نکاح کردیا۔شادی کی پہلی ہی رات شوہر کی بیوفائی اس کا نصیب بن گئی ہرطرح کا عیش ہونے کے باوجود اسے دلی سکون نہیں حاصل ہوا۔نچلے طبقے کی ستارہ بھی اپنے شوہر کی بے وفائی کا شکار ہوتی ہے ۔شائستہ فاخری نے عورت کی نفسیات کی گرہوں کوخوبی سے کھولا ہے۔وہ عورت کے متعلق لکھتی ہیں:

قدرت نے عورت کی تخلیق میں کتنے رنگ بھردئے …کتنی خاموشی سے سب کچھ سہتی رہتی ہے اورجب سہتے سہتے آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے قریب ہوتی ہے تو مردکے پھینکے گئے چلوبھر ترحم کے پانی سے اپنی پوری آگ بجھا لیتی ہے۔ایسی آگ جس میں پوری کائنات کو  جھلسا دینے کی قوت ہوتی ہے وہ لمحے بھر میں ایسی ٹھنڈی ہوجاتی ہے جہاں چنگاری بھی نہیں سلگ سکتی۔(’ صدائے عندلیب بر شاخ شب ص۔۳۴)

شائستہ فاخری کا خیال ہے کہ عورت ذات کا مقدر ہی کمزور،بے بسی اور محکومی سے عبارت ہے ۔وہ ایک جگہ سوال اٹھاتی ہیں:

کائنات کا تصور ایک خیال ہے اور خیال کا سچ کن فیکون میں پوشیدہ ہے ۔اس نے اپنے راز مخفی کئے ہیں۔پھربھی عقل کی آنکھیں جھپکنے لگتی ہیں کہ جہاں خیال ہی مخلوق کی مکمل تکمیل کا باعث بنتا ہو وہاں مٹی کا ایسا کون سا قحط خلق میں پڑگیا تھا کہ عورت کی تخلیق کے لئے مردکی بائیں پسلی کاٹنی پڑی۔(  صدائے عندلیب بر شاخ شب )

ناول نگار عورت کے بارے میں مزید لکھتی ہیں:

’’لوگوں کی نگاہوں،لوگوں کی پھبتیوں،آڑے ترچھے اشارے…اف…ایک عورت کو مردوں کی دنیا میں قطرہ قطرہ کتنا زہر پینا پڑتا ہے ۔شیو کی طرح وہ سارا زہر پیتی ہے مگر پی کر اپنے وجودکا حصہ نہیں بننے دیتی ۔زہر کے مادے کو اپنے اندر نہیں اتارتی ۔ زہر پیتے پیتے نیل کنٹھ کی طرح آدھا حصہ نیلا پڑجاتا ہے باقی آدھا حصہ وہ عورت اپنے مردکے لئے بچا کررکھتی ہے۔( صدائے عندلیب بر شاخ شب )

شائستہ فاخری نے اپنے ناولوں کے ذریعہ عورتوں پرہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔شائستہ فاخری سماجی حالات سے دلبرداشتہ ہیں۔خصوصاًمسلمانوں کی کسمپرسی انہیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔

غزالہ قمراعجاز کے یہاں بھی مزاحمت کی دبی دبی آواز سنائی دیتی ہے ۔یہ مزاحمت ذات کے حصار سے نکل کر اجتماعی سماجی حقیقتوں کی ترجمان بن جاتی ہے ۔غزالہ قمر اعجاز کا ناول ’’قطرے پہ گہر ہونے تک‘‘ان کے عصری شعور کا عکاس ہے۔اس میں ایک لڑکی حبہ کی کہانی بیا ن کی گئی ہے جس نے مستقبل کے روشن خواب سنجوئے تھے لیکن حالات سے مجبور ہوکر اس کو ریحان سے منسوب کر دیا گیا اور وہ وقت کے ہاتھوں اپنے خوابوں کو آنکھوں سے نوچنے پر مجبور ہوگئی۔حبہ کہتی ہے:

’’ریحان کے نام کی انگوٹھی پہنتے ہی میں نے سب کچھ قسمت کے بھروسے چھوڑدیا اور خود کو یقین دلایا کہ جو کچھ ہوا وہ ماضی تھا اورلوٹ کر کبھی نہیں آئے گا زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔حبہ اور ریحان یہ ایک حقیقت ہے ۔بالکل اسی طرح جس طرح انکت اور پوجا ۔ باقی سب ایک سراب ہے ۔چھلاوا ہے ۔کسی بلبلے کی طرح ،جو لمحے بھر کے لئے ابھرتا ہے ۔ایک خوبصورت عکس بناتا ہے ۔اور پھر غائب ہوجاتاہے ۔حقیقت کو جتنی جلدی قبول کرلیا جائے ذہنی کامیابی ہے ۔اور عقل مندی کی دلیل بھی ۔مجھے بھی عقل مند ہونے کے احساس نے مغرور بنا دیا اورمیں بہت دنوں کے بعد من ہی من مسکرائی۔‘‘(قطرے پہ گہرہونے تک از غزالہ قمر اعجاز)

اسی طرح وہ ایک جگہ عورت کی آزادی کے بارے میں رقم طرازہیں:

’’میں خود بھی عورت کی بے جا آزادی کو جائز نہیں سمجھتی ہوں اور میرے خیال میں نافرمانی اور رشتوں سے انحراف بھی آزادی نہیں ہے ۔کیونکہ اپنوں کو دکھ دے کر سکون سے جینے کی چاہ بے سودہے ۔مگر آج کی پڑھی لکھی عورت پاؤں کی جوتی ہو سکتی ہے …ایک وقت تھا جب یہ یقین کرنا میرے لئے مشکل تھا ۔مگر اس مشکل سے میرا سامنا دھیرے دھیرے ہو رہا تھا ۔حالانکہ میں خود کو قصوروار ٹھہرا کرمعاملہ کو سنجیدہ ہونے سے بچاتی رہی۔‘‘(ایضاً)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں  کہ غزالہ نے بھی  ایک ایسی عورت سے متعارف کرایا ہے ۔جو حالات کے آگے خودکو جھکانے کے ہنر سے واقف ہے۔غزالہ نے ایسی عورت کو پیش کیا ہے جو اپنی محبت کے ہاتھوں بھی مجبور ہے اور کسی کو دل بھی آسانی سے نہیں دے سکتی۔ ناول نگار نے عورت کو اپنے ہی جذبوں کی ماری ہوئی عورت بتایا ہے۔

ترنم ریاض کے یہاں بھی عالمی وملکی سیاسی ومعاشرتی حالات کے خلاف احتجاج اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے گونج سنائی دیتی ہے۔انہوں نے اپنے ناول ’’مورتی‘‘اوربرف آشنہ پرندے‘‘میں نظریات وتصورات کی روشنی میں عصری حالات وکوائف کو موضوع بنایا ہے۔

ان خواتین ناول نگاروں کے یہاں ماحول کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ غور و فکر کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کے یہاں صرف جذبات نگاری نہیں ہے بلکہ فکر کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے ۔اپنے موضوعات کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے کیونکہ ان موضوعات پر ان کی پوری گرفت تھی ۔خواتین ناول نگاروں کے تخلیقی تجربات اپنے عہد سے ہم آہنگ ہیں۔اپنے عہد کے انسانوں کے داخلی وخارجی،نفسیاتی،روحانی مسائل کا مشاہدہ ومطالعہ ان کے ناولوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ان ناول نگارخواتین کی حسیت عصری اور جدیدہے۔ان ناول نگاروں کے یہاں ہمیں انقلاب کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور انقلاب برپا کرنے کے لئے دعوت عمل بھی ملتی ہے۔رشیدالنسا سے لے کر دورجدید کی خواتین ناول نگاروں کے یہاں مزاحمت کے عناصر نظرآتے ہیں۔

مجموعی طورپرہم کہہ سکتے ہیں کہ خواتین ناول نگار صرف اپنی ذات اور خاندان تک محدود نہیں ہیں بلکہ نئے نظام نے جس گلوبل عورت کو جنم دیا ہے ان تمام سیاسی اور سماجی تغیرات سے آگاہ ہیں اور ہر پل بدلتی دنیا سے باخبر۔ان کا ارتکاز خانگی اقدار پر نہیں ہے  اورنہ ہی وہ روایتی رسمی علاقہ میں محصورہیں بلکہ انہوں نے حیات وکائنات میں تمام تر مسائل کے لئے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور ان پر ردعمل کے اظہار میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

Dr.Nisha Zaidi

B-63/S-2 DLF Colony,

Sahibabad Distt.Ghaziabad.U.P.-201005.

M-9873297860

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

 

Home Page

ترنم ریاضخواتین ناول نگارشائسہ فاخریصادقہ نواب سحرنشا زیدی
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
اردو ویب پورٹل‘ ادبی میراث ’ میری نظر میں – ڈاکٹر قمر جہاں
اگلی پوسٹ
ہمت اور حوصلے سے تاریخ رقم کرنے والی غیرمعمولی خاتون: دیپاملک – سفینہ عرفات فاطمہ

یہ بھی پڑھیں

ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ایک مبسوط جائزہ...

نومبر 17, 2024

ناول ”مراۃ العُروس “ایک مطالعہ – عمیرؔ یاسرشاہین

جولائی 25, 2024

ڈاکٹر عثمان غنی رعٓد کے ناول "چراغ ساز”...

جون 2, 2024

گرگِ شب : پیش منظر کی کہی سے...

اپریل 7, 2024

حنا جمشید کے ناول ’’ہری یوپیا‘‘  کا تاریخی...

مارچ 12, 2024

طاہرہ اقبال کے ناول ” ہڑپا “ کا...

جنوری 28, 2024

انواسی :انیسویں صدی کے آخری نصف کی کہانی...

جنوری 21, 2024

مرزا اطہر بیگ کے ناولوں کا تعارفی مطالعہ...

دسمبر 10, 2023

اردو ناول: فنی ابعاد و جزئیات – امتیاز...

دسمبر 4, 2023

نئی صدی کے ناولوں میں فکری جہتیں –...

اکتوبر 16, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,124)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (125)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (66)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں