صادقہ نواب سحر نے اپنے ناولوں کے نئے موضوعات اور کہانی کے فن کارانہ برتاؤ کی وجہ سے قاری کا اپنا حلقہ بنا لیا ہے۔ یہ بات تو اپنی جگہ مسلم ہے کہ اکیسویں صدی فکشن کی صدی ہے مگر اس برق رفتار دنیا نے فکشن کے قارئین کو بھی متاثر کیا ہے۔جس طرح فکشن لکھنے والوں کے یہاں موضوعاتی تناظر میں ایک بکھراؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے اسی طرح قارئین بھی انتشار ِذہنی کا شکار ہیں۔ اس کیفیت میں قارئین کا اپنا ایک حلقہ بنانا کوئی آسان کام نہیں مگر صادقہ نواب سحر اپنی جادوئی نثر اور سحر انگیز اسلوب سے قارئین کے ایک بڑے حلقے کو اپنے فن کا گرویدہ بنا لیا جو موجودہ عہد میں ایک تخلیق کار کے لیے بڑی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول ’’ راجد یو کی امرائی‘‘ پر لوگ توجہ مبذول کر رہے ہیں اور اس پر ایک سے ایک رائے سامنے آرہی ہے۔ صادقہ نواب سحر کے اس ناول کی طرف التفاف اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ برق رفتار دنیا میں بھی قارئین تخلیقی ادب کے لیے وقت نکال سکتے ہیں مگر شرط ہے کہ فکشن نگار دل جمعی سے انوکھے موضوعات پیش کرے۔صادقہ نواب سحر نے نہ صرف تخلیقات پر توجہ دی بلکہ قارئین کی نفسیات کابھی بھر پور مطالعہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناول،افسانے، ڈرامے اور شاعری میں ایسے موضوعات ومسائل کا تخلیقی تجزیہ کررہی ہیں جن میں آج کا سماج بسا ہوا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ صادقہ نواب سحر نے نہ صرف سماجی موضوعات کا محاکمہ کیا بلکہ قارئین کے ذہن ودماغ سے بھی قربت پیداکرنے کی کامیاب کو شش کی۔
ناول ’’راجدیو کی امرائی‘‘ صادقہ نواب سحر کا تیسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے ’’ کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ اور ’’ جس دن سے‘‘ جیسے ناولوں سے اپنی انفرادیت ثابت کی۔ ’’راجد یو کی امرائی‘‘ بھی ان کا ایک ایسا ناول ہے جس کے بہت سے پہلونہ صرف قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ ناقدینِ ادب کو دعوتِ قرأت بھی دیتے ہیں۔ صادقہ نواب سحر کے پیش نظر ناول’’ راجدیو کی امرائی‘‘ کی یہ خصوصیات ہمیں متوجہ کرتی ہیں:
اول: سوانحی تناظر ات
دوم: تاریخ وتخلیق کا ادغام
سوم: طبقاتی کشمکش
چہارم: محنت کا پیغام
پنجم : اقدار کی کشمکش
ششم:تہذیبی معاملات کا نوحہ
پیش نظر ناول ’’ راجد یو کی امرائی‘‘ میں کہانی کی پیش کش کا معاملہ جدا گانہ ہے۔ کیوں کہ صادقہ نواب سحر نے اکہرے انداز سے واقعات کو پیش نہیں کیا بلکہ کہانی کہنے کا ایک نیا ڈھب اپنایا ہے۔اگر وہ چاہتیں تو راجدیو کے گھرانے کے واقعات تسلسل کے ساتھ بیان کردیتیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور متعدد ذیلی واقعات سے بھی ناول کو دل چسپ بنانے کی کوشش کی۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کی کڑیاں جوڑنے میں انھوں نے فن کاری کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واقعات ناول کا اٹوٹ حصہ بنتے چلے گئے۔ ناول کی قرأت کے دوران اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے قدیم اور موجودہ عہد کے بیانیہ سے الگ اپنی شناخت قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے مکالموں کے درمیان کئی بنیادی نکات کی طرف اشارے بھی کیے ہیں:
’’سمجھ میں نہیں آتا ہے،دیش میں تعلیم پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا کہ مذہب! جتنی کہ ضرور ت ہے!ہرمذہب والا اپنے دھرم کی پریکٹس اپنے ڈھنگ سے کرتا ہے۔ لوگ کہیں کہ دین سیکھ لیں تو دنیا سنور جاتی ہے۔ صحیح ہے۔ میں دنیا دار آدمی ہوں ۔ سوچتا ہوں۔ دنیا کی تعلیم مل جائے تو دین کو خود ہی پڑھ لوں ۔ پڑھ کر سمجھ لوں۔ کسی کے بہکاوے میں نہ آؤں۔‘‘(راجد یو کی امرائی ، ص 40)
مذکورہ اقتباس میں یہ با ت بھی اہم ہے کہ صادقہ نواب سحر نے سیاسی دھمک کو انتہائی پرسکون لہجے میں پیش کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں میں خطیبابہ احساس بساہوا نہیں ہے۔ ان چند جملوں میں ملکی سیاست، مسلکی خرافات، تعلیم کی ناقدری اور ذاتی نا پسند وپسند کا معاملہ بہتر طریقے سے پیش کردیا گیا۔ یہ چند جملے معاشرے پر طنز یہ تناظر میںابھر رہے ہیںکہ ہم بنیادی مسائل سے پہلو تہی اختیار کرتے ہیں اور فروعی معاملات میں الجھ جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ مذکورہ جملوں کی اہمیت اور زیادہ مسلم ہوگی۔ کیوں کہ تخلیقات میں پیش کئے گئے ایسے جملوں سے مستقبل میں تہذیبی مطالعہ اور ملک کی ناگفتہ بہ صور تحال کی کڑیاں جوڑی جائیں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے اشاروں سے تخلیقات میں دستاویزی کیفیت پید اہوجاتی ہے۔ صادقہ نواب سحر نے اپنی تخلیقات میں دستاویزی کیفیت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔اس لیے یہ کہنے میں کوئی تا مل نہیں کہ گزرتے دنوں کے ساتھ ان کی تخلیقات سے فکر وخیال کی نئی جہتیں سامنے آئیں گی اور تخلیقی مورخ لامحالہ ان کی تخلیقات سے استفادہ کرے گا۔( یہ بھی پڑھیں مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں انفرادی رنگ- ڈاکٹر قسیم اختر )
صادقہ نواب سحر نے ’’ راجد یو کی امرائی ‘‘ میں کرداروں کی نفسیات اور سماجی صور تحال کا جو جائزہ پیش کیا ، اس میں سماج کے دیگر کمزور طبقے کے لیے پیغام بھی ہے۔ کیوں کہ راجد یو کے خاندان نے اپنی سماجی حیثیت مستحکم کرنے کے لیے بہت سے کام کیے۔ اسی گھر کافرد کولکاتا جاتا ہے۔ریلوے میں ملازمت کرتا ہے اور اسی ملازمت کے سہارے زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہوبھی جاتا ہے، مگر رفتہ رفتہ اس گھر انہ پر حالات آتے ہیں اور ’’ امرائی/باغیچہ‘‘ تک کو فروخت کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔کہانی کے بیانیہ میں وہ سین بھی اہم ہے کہ اس گھرانے سے جڑا ہوا ایک بھائی دوااسٹور شروع کرتا ہے اور دوسرا ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ پھر ڈاکٹر اور دوا کی دکان کے معاملات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو صادقہ نواب سحر نے چھوٹے چھوٹے واقعات میں سماجی طنز اور حقیقتِ حال کا نقشہ بڑی عمدگی سے کھینچا ہے۔
اس ناول میں پیش کی گئی کہانی سے کئی پیغامات اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ اول، لاغرو کمزور فیملی تھوڑی توجہ سے اپنے حالات بہتر کرسکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حالات کے جبر کا فقط نوحہ نہ کیا جائے۔ صادقہ نواب سحر نے ماضی اور دگر گوں حالات کا تذکرہ کیا ۔ اس کا نوحہ کیا ہے مگر اس نوحے کو طوالت سے محفوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ حالات کے نوحے میں درد کے ساتھ ساتھ ہمت اور حوصلہ مندی کا سبق بھی پیدا ہوگیا۔ اگر صادقہ نواب فقط نوحے اور حالات سے شکایت کا پہلو ابھارتیں تو ناول میں نہ پیغام کا کوئی عنصر پیش کیا جاسکتاتھا اورنہ ہی فنی مہارت کا احساس پیدا کیا جاسکتا تھامگر انھوں نے ایک سچے اور ہنر مند فن کار کی طرح اپنی تخلیقات میں کئی پرکشش واقعات کو مدغم کردیا ہے۔ اس ناول کو دل چسپ بنانے میں ذیلی عناوین بھی اہم کرداراداکرتے ہیں۔ان عناوین کے تحت چھوٹے چھوٹے واقعات ناول میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ناول’’ راج دیو کی امرائی ‘‘ کا سوانحی پس منظر بھی ہے مگر اس کو فقط سوانحی حالات سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتاہے ۔ کیوں کہ انھوں نے سوانحی اثرات کو روزنامچے کے احساسات سے لیس کردیا ہے۔ یہی ان کی فن کاری ہے۔ موجودہ عہد میں بائیو فکشن کا گراف بڑھ رہا ہے۔ دوسروں کی زندگی میں جھانکتے ہوئے لوگوں کو فرحت کا احساس ہوتاہے۔ صادقہ نے ہمیں ایک بڑی فیملی کی زندگی میں جھانکنے کا موقع دیا ہے اور انھوں نے ناول میں ایسے حالات پیش کیے گئے ہیں کہ یہ جھانکنا منفی تناظر ات نہیں رکھتا ہے بلکہ ہم اس فیملی کی زندگی میں جھانک کر اصلاحی پہلو ؤں سے استفادہ کرتے ہیں۔ پیغامات اخذ کرتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو گویا انھوںنے سوانح کو ڈائری ، پھر پیغامات واصلاحات سے جوڑ دیا ہے۔ صادقہ نواب سحر کی ہنرمندی یہی ہے کہ وہ نہ موضوعات کے بیان میں اکہرا رویہ اپناتی ہیں اور نہ ہی تکنیکی تناظر میں کسی ایک پہلو سے اندازِ پیش کش کو تہہ دار بناتی ہیں۔ بیک وقت وہ تکنیکی اور موضوعاتی متعدد انسلاکات وتناظرات سے اپنے فکشن کو لیس کردیتی ہیں۔ذیل میں ہم چند اقتباسات پیش کر یں گے اس ناول کے دیگر ابعاد کواجاکرگرنے کی کوشش کریں گے تاکہ صادقہ نواب سحر کا اسلوبِ تحریر بھی سامنے آئے اور ان کی لفظیات بھی:
’’ابھی ہمیں ایمسٹرڈم سے لوٹے ہوئے تین ہی مہینے ہوئے تھے۔ اس دن میں جلدی نکل گیا ۔ اونتکا سے جلدی جلدی صفائی کروا رہی تھی۔ آج بائی دیر سے آئی تھی۔ اسے کہیں جانا تھا۔ وویکا نند کیندر کے لوگ اپنے ایک پرانے ممبر کی میت میں جانے کے لیے نکل رہے تھے۔ میں ان کے ساتھ ہولیا۔ لوٹتے لوٹتے ساڑھے پانچ بج گئے ۔ بھارت نواس سے گزرتے ہوئے میری نظر بلڈنگ سے باہر آتی ہوئی خاتون پر پڑی۔ وہ زور زور سے ہاتھ ہلا رہی تھی اور مسکراتی ہوئی میری طرف آرہی تھی۔ میں ادھر ادھر دیکھا۔ ‘‘
(راجد یو کی امرائی ، ص89)
اس اقتباس سے اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ صادقہ نواب سحر کے بیانیہ میں ایک بہاؤ ہے۔ کہانی کو پرکشش بنانے میں ان کے سادہ بیانیہ کا اہم کردار ہے۔ کیوں کہ انھوں نے تصنع سے کام نہیں لیا ۔ غیر ضرور ی طور پر تشبیہات واستعارات انڈیلنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر شاعرانہ نہیں بلکہ ان کی سادہ لفظیات میں معنی کی پرکاری نظر آتی ہے ۔ ان کے ناول کا ہر اقتباس اپنی جگہ غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور ناول کی فضا سے مربوط بھی ہے۔
کثرت سے لکھنے والی عورتوں کے یہاں فقط گھریلومعاملات ہوتے ہیں یا پھر عورتوں کی نفسیات ، صادقہ نواب سحر کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے فقط عورتوں کی نفسیات کے گرد اپنی تخلیقات پیش نہیں کیں۔ فقط گھریلو معاملات یا استحصال کی داستان پیش نہیں کی۔ انھوں نے جہاں دیگر افسانوں میںاستحصال کی کہانی سنائی ،وہیں تاریخ وتہذیب سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقات کی فضا میں فقط گھر چہار دیواری نظر نہیں آتی۔’’ راج دیوکی ا مرائی ‘‘ میں ایک کائنات ہے اور کئی نسل کے واقعات بھی۔گویاتاریخی تناظر میں اس ناول کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کیوں کہ انھوں نے کم صفحات میں ایک بسیط عہد کو پیش کرنے کی کوشش کی جس میں انھیں کامیابی بھی ملی ہے۔ایک مختصر ناول میں انھوںنے متعدد نسلوں کی کشمکش پیش کی۔ اس میں پیغام اور فن کاری دونوں کے تناظر میں بہت سی چیزیں ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں شاعری کے کرداروں کا مطالعاتی تناظر- ڈاکٹر قسیم اختر )
صادقہ نواب سحر نے شاعری بھی کی ہے مگر ان کی نثر شاعرانہ علتوں سے پاک ہے۔ یہ بہت بڑی فن کاری ہے۔ کیوں کہ اگر شاعر نثر کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس کی نثر میں اتنی رنگینی آجاتی ہے کہ دوسرے مسائل غائب ہوجاتے ہیں مگر ناول نگار نے زبردست فن کاری کامظاہرہ کرتے ہوئے نثر کو شاعری سے الگ رکھا ہے اور ناول کے لیے ایک قابل ذکر زبان کو استعمال میں لایا۔ جس سے ان کی نثر میں شگفتگی نظر آتی ہے اردو کا ایک بڑا حلقہ ان کے اسلوب کا گرویدہ بن جاتا ہے۔ گہرے فلسفیانہ رنگ وآہنگ سے بھی انھوں نے اپنی تخلیقات کو پاک رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بین السطور کو سمجھنے میں بھی کوئی دقت پیش نہیں آتی ہے۔
مجموعی طور پر اس ناول میں سوانح وتاریخ اور تخلیق وتہذیب کا ادغام نظر آتا ہے۔ تکنیکی اور موضوعاتی سروکار میں ایک جدت ہے۔ کیوں کہ ناول نگار نے تجرباتی سطح پر سوانحی معاملات کو تہذیب میں مدغم کردیا ہے اور اسلوب میں تجربات کے سہارے کئی ایسے رنگ بکھیرنے کی کوشش کی جو معاصرفکشن میں کم نظر آتا ہے۔ صادقہ نواب سحر نے سماجی نفسیات اور طبقاتی کشمکش کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ گویا ان کے اس ناول میں ذاتی نفسیات یا فرد کی نفسیات سے کہیں زیادہ اجتماعی نفسیات کا معاملہ گہرا نظر آتا ہے۔ اس ناول کے مطالعے کے دوران اندازہ ہوتاہے کہ صادقہ نواب سحر فقط ایک تخلیق کار نہیں بلکہ سماجیات کی استاد بھی ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے سماجی تناظرات کو فردو اجتماع سے اس طرح سے جوڑ ا کہ بین السطورمیں ہمارا عہد رچا بسا معلوم ہوتا ہے ۔ اس ناول میں موجودہ عہد کی خوشبو بسی ہوئی ہے تو مستقبل میں اس کی دستاویزی حیثیت ہوگی۔
ڈاکٹرقسیم اختر
اسسٹنٹ پروفیسر،
ڈی ۔ ایس ۔کالج کٹیہار(بہار)
9470120116
qaseemakhtar786@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |