اکیسویں صدی کوہم برقی میڈیا یا ڈیجیٹل عہد کا نام دے دے سکتے ہیں کیونکہ اس صدی میں میڈیا یا ذرائع ابلاغ کے بہت سارے نئے گوشے منظر عام پر آئے ۔پینڈمک ماحول اور ملک میں تالہ بندی نے جہاں بہت سے افراد کو بے روزگاری اور مفلوک الحالی کی کیفیت سے دوچار کیا وہیں آن لائن طریقہ تعلیم اور درس و تدریس کو یقینی بنانے کی بے سود سعی بھی کی گئی ۔تقریباً دو برسوں سے یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے اور کالج ،یونیورسٹی، مدارس و مکاتب اور اسکول وغیرہ میں آن لائن طریقہ تدریس نے طلبا اور اساتذہ دونوں کو ذہنی ،فکر ی اور عملی سطح پر کاہل ،ناکارہ اور سست بنادیا ہے۔موجودہ آن لائن طریقہ تدریس صرف خانہ پُری اور ہوا ہوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اِس طریقہ تدریس نے بچوں کے اندر بچی کچھی روایتی ،تہذیبی، ثقافتی ،سماجی اور مذہبی رویوں کو یکسر بدل دیا ہے۔یہ ایک ناقص طریقہ تعلیم ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اسی ناقص طریقہ تعلیم کو فروغ دینے اور اس کی ہمہ جہت ترقی کے لیے بہت سے افراد آن لائن طریقہ تدریس کو ہی اپنا پیشہ بنا کر اپنی روزی روٹی کا سامان مہیا کرنے کی انتھک کوشش میں لگے ہیں (اللہ کرے ان کی یہ کوشش با ر آور ہو)۔ایسے طریقہ تدریس کو مواد فراہم کرنے کے لیے بہت سے افراد نے اپنی اپنی ایک ویب سائٹ،ویب پورٹل، یوٹیوب چینل، بلاگ،فیس بک، ٹوئیٹر،واٹس اپ، انسٹاگرام،ٹلیگرام وغیرہ کے ذریعے تشہیری مہم کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور غلط مواد اپلوڈ کرکے سب کو مِس گائڈ کر رہے ہیں۔ان میں سے کچھ سائٹس ایسی ہیں جو یقیناً اچھا کام کر رہی ہیں اور نہ صرف اردو زبان کو فروغ دے رہی ہیں بلکہ اردو زبان و ادب کے بیش بہا ذخائر کو ملک اور بیرون ملک کے افراد تک پہنچانے میں انتہائی اہم کر دار ادا کر رہی ہیں۔ایسے ویب سائٹس میں ایک ویب سائٹ’’ادبی میراث ڈاٹ کام‘‘ ہے۔یہ ویب سائٹ بھی پینڈمک عہد کا ہی زائیدہ ہے یعنی اس کی ابتدا 10اگست2020کو ہوئی۔آج اس کے ایک سال پورے ہوگئے۔لیکن گزشتہ ایک سال میں اس ویب سائٹ نے علمی اور ادبی حلقوں میں اپنی انفرادی شناخت قائم کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔اس ویب سائٹ کے بانی و مدیر میرے ہمدم دیرینہ ڈاکٹر نوشاد منظر ہیں جنھیں نئے نئے خیالات سوجھتے رہتے ہیں اور اس کا ذکر بھی ہم سے کرتے رہتے ہیں کچھ خیالات لایعنی ہوتے ہیں لیکن بیشتر خیالات کا ر آمد ہوتے ہیں اگر ان پر عملی سطح پر کام کیا جائے۔کچھ ناقص مشورے ہم ان کو بھی دیتے رہتے ہیں لیکن نظری تضادات درمیان میں حائل ہو جاتے ہیں وہ مشورے مشورے ہی رہ جاتے ہیں۔لیکن فکری اور نظریاتی مباحث میں تضاد ہونےکے باوجود ہم ایک اچھے دوست ہیں۔یہی تضاد ہی ہماری شخصیت کی نشو و نما میں انتہائی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔اس ویب سائٹ سے قبل ہم دونوں نے ایک ادبی انجمن’’بزم آہنگ‘‘ کے نام سے بھی قائم کی تھی جس میں ہمارے دوسرے رفقا کار بھی شامل تھے ۔ یہ انجمن تقریباً پانچ سالوں تک تواتر کے ساتھ اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہی ۔اس انجمن کے تحت قومی سطح پراستاذ مکرم پروفیسر کوثر مظہری کے فاؤنڈیشن ’مظہر فاؤنڈیشن انڈیا‘کے اشتراک سے دو سمینار کا انعقاد بھی کیا گیا جو بے حد کامیاب بھی رہا اور لوگوں نے حد درجہ پذیرائی بھی کی ، اسی انجمن کے تحت ایک کتاب ’’نقد وآہنگ‘ جس کے مرتب ڈاکٹر زاہد ندیم احسن اور داکٹر صدف پرویز تھیں کا اجرا بھی عمل میں آیا۔بہر کیف اس طرح کی نو وارد خیالات ہمارے دوست ڈاکٹر نوشاد منظر کے ذہن میں آتےرہتے ہیں۔یہ اردو ویب سائٹ ’’ادبی میراث‘‘ بھی انھیں کے ذہن کی اختراع ہے جس کے لیے وہ شبانہ روز کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ویب سائٹ کو خوب سے خوب سے خوب تر بنانے میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔اس ویب سائٹ کی بے شمار خوبیاں ہیں۔ایک تو یہ خالص اردو ویب سائٹ ہے۔دوسرا یہ کی اس میں ہر طرح کے مضامین اپلوڈ کیے جاتے ہیں۔تیسرا یہ کہ کسی مضمون کو تعصب کی نگا ہ سے نہیں دیکھا جاتاہے۔ چوتھا یہ ہندوستان سے بیرون ممالک بالاخصوص یوروپ وغیرہ میں اس کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہاں اردو قارئین کو بآسانی مواد دستیاب ہو جاتا ہے۔پانچواں یہ کہ کوئی بھی مضمون یونیکوڈ میں کاپی کر کے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ۔وغیرہ (یہ بھی پڑھیں اردو ویب پورٹل‘ ادبی میراث ’ میری نظر میں – ڈاکٹر قمر جہاں )
اس ویب سائٹ کی کچھ مزید خصوصیات اس طرح ہیں:
اس ویب سائٹ کا پہلا حصہ’’تخلیقی ادب ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔اس عنوان کے کچھ زیریں عنوانات ہیں جس میں گلہائے عقیدت، نظم، غزل، افسانہ، انشائیہ، سفر نامہ، قصیدہ، مرثیہ اور رباعی وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔یعنی اس حصے میں وہی مضامین پوسٹ کیے جاتے ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح تخلیقی ادب سے رہتا ہے۔جب کہ دوسرا حصہ ’’تنقیدات ‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس میں(الف) شاعری کے تحت ’’نظم فہمی‘‘ ’’غزل شناسی‘‘ ’’ مثنوی کی تفہیم‘‘ ’’ مرثیہ تنقید‘‘ ’’ شاعری کے مختلف رنگ‘‘ اور ’’تجزیے‘‘ کے ذیل میں ان تحریروں کا شامل کیا جاتا ہے جن کی نوعیت کسی نہ کسی سطح پر تنقیدی ہو چاہے وہ ادبی تنقید کے کسی بھی دبستان سے وابستہ ہو۔جب کہ دوسرا حصہ (ب) ہے جس تعلق ’’فکشن‘‘ سے ہے۔اس حصے میں وہ مضامین اپلوڈ کیے جاتے ہیں جن کا راست تعلق فکشن تخلیق یا تنقید سے ہوتا ہے۔اس کے کچھ ذیلی عنوان ہیں جس میں ’’ناول فہمی‘‘ ’’افسانہ کی تفہیم‘‘ ’’افسانچے‘‘ ’’فکشن کے رنگ‘‘ ’’ فکشن تنقید‘‘وغیرہ۔اس کے علاوہ ’’ج‘‘ کے تحت صنف ’’ڈراما‘‘ کو رکھا گیا ہے۔ اس میں ان تمام مضامین کو شائع کیا جاتا ہے جو ڈارمے سے متعلق ہوتے ہیں۔جب کہ ’’د‘‘ کے تحت ’’صحافت‘‘ کا کالم ہے جس میں صحافتی مضامیں کو جگہ دی جاتی ہے۔اور کالم ’’س‘‘ میں ’’طب‘‘ سے متعلق مضامین اپلوڈ کیے جاتے ہیں۔مذکورہ تما م حصوں اور ذیلی عناوین کے علاوہ ایک اور عنوان’’کتاب کی بات‘‘ کے نام سے ہے۔اس میں قدیم و جدید کتابوں پر مختصر اور طویل تبصرے بھی شائع کیے جاتے ہیں اور نو وارد مضمون نگاروں یا تبصرہ نگاروں کو خصوصیت سے جگہ دی جاتی ہے تاکہ قدیم ادبا اور سر بر آوردہ شخصیات کی تحریروں کو پڑھ کر نئی نسل کیا سوچتی ہے ان کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔اس کے علاوہ ایک اور گوشہ ’’تحقیق و تنقید‘‘ اور ’’ اسلامیات ‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ دونوں گوشے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان سب کے کے علاوہ بھی ’’متفرقات‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ ہے جس میں ’’ ادب کا مستقبل‘‘ ’’تحفظ مادری زبان‘‘ ’’تراجم‘‘ ’’ تعلیم‘‘ ’’فکر و عمل‘‘ ’’ مقابلہ جاتی امتحانات‘‘ ’’ نصابی مواد‘‘ ’’ ویڈیو تدریس‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں ” ادبی میراث ” ایک تاثر – ڈاکٹر خان محمد رضوان )
اس طرح جب ہم اس ویب سائٹ کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو تو یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا کہ مستقبل قریب میں یہ ایک کامیاب ویب سائٹ کی شکل اختیار کر لے گی اکیسویں صدی جسے ہم برقی میڈیا یا ڈیجیٹل عہدکہتے ہیں اس میں اس ویب سائٹ کی اہمیت اور اس کی مستقبل بعید میں اس کی معنویت کھال کر آپ سب کے سامنے عیاں ہو جائے گی کیونکہ اس میں اتنے گوشے ہیں کہ اگر ان سب پر تواتر کے ساتھ کام کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب سب اس کے ہمنوا ہو کر اس کی اہمیت،افادیت اور معنویت کو تسلیم کریں گے۔اس سائٹ پر ایسا نہیں ہے کہ صرف نوواردان ادب کو ہی جگہ دی جاتی ہے بلکہ اگر آپ اس کا از سر نو مطالعہ کریں یا دیکھیں گے تو اندازہ ہو گا کہ ایک سال میں اس نے کتنے بڑے سے بڑے ادیبوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ابتدا میں ہر شخص خواہ وہ اردو ادب کا بڑا یا چھوٹا لکھاڑی ہی کیوں نہ ہو اپنا مضمون دینے یا بھیجنے سے حتی الالمکان گریز کرتا تھا لیکن الحمد اللہ ثم الحمد اللہ آج جب ایک سال مکمل ہوگیا ہے تو دیکھتا ہوں کہ اردو ادب کے بڑے سے بڑے نقاد، تخلیق کار ، شاعر و ادیب اپنی تحریروں کو ’’ادبی میراث ‘‘ پر بھیجنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ یہ اس ویب سائٹ کی ہی نہیں بلکہ اس کے بانی و مدیر ڈاکٹر نوشاد منظر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اس مختصر مدت میں اس ویب سائٹ کو بلند معیار و مقام دیا ہے جو ان کی شبانہ روز انتھک کوششوں کا ہی ثمرہ ہے جو آج بار آور ہونے کو تیار ہے۔امید کرتے ہیں یہ ویب سائٹ ایسے تشنگان علوم و فنون کی تشنگی کو بجھانے اور انھیں سیراب ہونے کا بھر پور موقع فراہم کرے گا۔
2 comments
اسسلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی
جناب میرا نام محمد یوسف برکاتی ہے اور راہی میرا تخلص ہے میں اردوپوائنت اور ہماری ویب پر شاعری بھی لکھتا ہوں اور ہماری ویب پر اردو میں Article بھی لکھتا ہوں میرا موضوع زیادہ تر مذہبی نوعیت کے ہوتے ہیں اج پہلی بار آپ کی ادبی میراث کو دیکھنےاور پڑھنے کا موقع ملا اور مجھے محسوس ہوا کہ اگر آپ موقع دیں تو آپ کے اسلامیات سیکشن کے لئے کوئی مذہبی مصمون لکھ سکتا ہوں ۔
محمد یوسف برکاتی
وعلیکم السلام ، بالکل ، آپ ضرور لکھیں، ہمیں خوشی ہوگی۔