تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں زندگی کرنے کا طریق بھی بدل رہا ہے اور یہ فطری ہے. قدیم زمانوں میں انسان جانوروں کی کھال پہن کر رہتا تھا، کچے گوشت کھاتا تھا اور پتھروں پر تصویر بناتا تھا. ان زمانوں میں پہلے گاڑیاں پہنچتی تھیں پھر خبریں. دنیا نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی. معلومات کا وفور ایسا ہوا کہ اب ہوا سے باتیں کرنے والی گاڑی ہوائی جہاز ہے پھر بھی خبریں پہلے پہنچ جاتی ہیں. اس دور کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ خبریں سچی ہیں یا جھوٹی جب تک ان کی تصدیق ہوتی ہے یہ خبریں اپنا کام کر چکی ہوتی ہیں. اور اس کی تخریب ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر چکی ہوتی ہے. ادب کی اہمیت خبروں سے زیادہ اس طور ہے کہ اس کی بدولت تہزیب مجسم ہوتی ہے.
آج کے سوشل میڈیا کی دنیا میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہے. کوئی بھی شعر اچھا لگے لوگ اس کو غالب سے منسوب کر سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلا دیتے ہیں، یا کوئی بھی اچھی بات یا قول کو حضرت علی سے منسوب کر دیا جاتا ہے. سادہ لوح اور شریف عوام اور کبھی کبھی تو بڑے سنجیدہ لوگ بھی ان امور پر آنکھ موند کر یقین کر لیتے ہیں. اس میں ان کو غلط ٹھہرانا بھی مناسب نہیں لگتا. کیونکہ اگر کوئی شلوک سنسکرت کا کسی غلط کتاب سے منسوب کر دیا جائے تو مجھ جیسے سنسکرت سے نابلد طالب علم کو تو اس پر یقین آ ہی جائے گا.
ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ادب کے کچھ آتھینٹک ویب سائٹس ہوں جن پر آپ آنکھ موند کر یقین کر سکیں. ادبی میراث نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے. ظاہر ہے صرف ایک ویب سائٹ کافی نہیں. اور بھی کئیوں کی ضرورت ہے. لیکن اولیت کے صف میں ادبی میراث کو مورخ ضرور جگہ دے گا۔ شاعری کے علاوہ ‘ادبی میراث’ کے نثری زمرے بھی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نئی نسل سے شکایت کرنے کے بجائے ان کے کاموں کا جائزہ لیں ، اس پر گفتگو کریں، خامیوں کی نشاندہی بھی کریں ، مگر جو لوگ اپنے میدان میں اچھا کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔نوشاد منظر میرے عزیز ہیں ، اللہ پاک ان کے جذبے کو قائم و دائم رکھے آمین۔
ڈاکٹر انوارالحق
صدر، دی ونگس فاونڈیشن