صحت مند اور مہذب معاشرے کی تشکیل میں سماج کے جن افراد کا خونِ جگر شامل ہوتا ہے انھیں باشعور، باہنر اور تعلیم یافتہ بنانے میں اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ استاذ ایک ایسا چراغ ہے جو تاریک راہوں میں علم کی روشنی پھیلاتا ہے، وہ ایک ایسے پھول کی مانند ہے جس کی خوشبو سے حیات و کائنات مہکتی رہتی ہے۔ اساتذہ ہی ہیں جو حروف تہجی (الف تا ے) سے لے کر ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، حاکم و حکمراں وغیرہ بنانے میں اپنی توانائی، محنت اور قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔ یہ اساتذہ صرف بچوں کو تعلیم نہیں دیتے بلکہ بہتر تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے خوابوں کو نئی زمین اور نیا آسمان عطا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں مستقبل کا بہت ہی خوبصورت خاکہ تیار کرتے ہیں۔ مستقبل کو ایک نئی روشنی اور ایک ایسی راہ دکھاتے ہیں جن سے بچے صرف منزل مقصود تک نہیں پہنچتے بلکہ کامرانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس پر پورا معاشرہ رشک کرتا ہے۔
استاذ بلاشبہ اس روئے زمین پر بلند مقام اور عظیم حیثیت کا حامل ہے۔ دنیا کی تمام قوموں نے استاذ کی عظمت اور بلند مرتبت کو سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اساتذہ کی عظمتوں کے اعتراف کے طور پر دنیا کے بیشتر ملکوں میں عالمی سطح پر 5 اکتوبر کو ’یوم اساتذہ‘ (Teachers Day) کا تعین کیا گیا ہے لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں سروے پلی رادھا کرشنن کی یاد میں 5 ستمبر کو’یوم اساتذہ‘ منایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی پیدائش 5ستمبر 1888 کو ترُتّانی (Tiruttani)ضلع چتّور آندھراپردیش میں ہوئی۔ بھارت رتن ڈاکٹر رادھا کرشنن کی شناخت ایک دانشور، فلسفی، مفکر اورمعلم کی ہے۔ آپ چالیس سال تک مدراس، میسور، کلکتہ، بنارس، آکسفورڈ، شکاگو جیسی یونیورسٹیوں میں تعلیمی اور تدریسی سرگرمیوں سے جڑے رہے اور اپنے افکار و اقدار سے ملک کے نوجوانوں کو علم کی دولت سے مالامال کرتے رہے۔ آپ نے انڈین فلاسفی پر بہت وقیع کام کیا ہے اور آپ نے ہندوستانی فلسفے کو مغربی دنیا میں بھی متعارف کرایا۔ معلم کے ساتھ ساتھ آپ ایک سیاست داں بھی تھے۔ 1952 میں آپ ہندوستان کے پہلے نائب صدر کے منصب پر فائز ہوئے اور13 مئی 1962 سے لے کر 13 مئی 1967 تک ہندوستان کے دوسرے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیے۔ آپ کی وفات 17 اپریل 1975 کو مدراس (تمل ناڈو) میں ہوئی۔
تعلیم اور تعلم کے میدان میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ان کی تعلیمی اور تدریسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 5 ستمبر کو ’یومِ اساتذہ‘ کے طور پر ہندوستان کے تمام اسکولوں میں یہ دن منایا جاتا ہے کیونکہ استاد صرف معلم نہیں ہوتا بلکہ ملک اور قوم کا معمار بھی ہوتا ہے اور اس معمار کو اپنی محبتوں میں شامل رکھنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا سبھی کا فرض ہے۔ (یہ بھی پڑھیں والدین و اساتذہ،تعلیم و تربیت!! – جاوید اختر بھارتی )
تمام ممالک اور مذاہب میں اساتذہ کو بے حد عزت و احترام اور اعتبار و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مذہب اسلام میں بھی استاذ کوبہت عزت اوراہمیت دی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرمؐ کی شان بہ حیثیت معلم بیان کی ہے اور خود رسول اللہؐ نے اِنَّما بعثت مُعَلِّما (مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک بلند درجے پر فائز کردیا ہے۔ رسول اللہؐ نے استاذ کو ایک روحانی باپ کی حیثیت بھی دی ہے کیونکہ بچوں کے حق میں استاذ کی شخصیت ایک باپ کی جیسی ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو باپ سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔
استاد کی عظمتوں کے بہت سے حوالے ہیں اور اس تعلق سے تاریخ کی کتابوں میں بہت سے واقعات بھی ہیں۔ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ خلیفہ ہارون الرشیدکے دو بیٹے امام نسائی کے پاس زیر تعلیم تھے۔ ایک بار استاذ کے جانے کا وقت ہوا تو دونوں شاگرد ان کی جوتیاں ٹھیک کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ دونوں بھائیوں میں اس بات کو لے کر تکرار ہوگئی کہ پہلے وہ جوتیاں درست کرے۔ استاذ نے راستہ بتایا کہ دونوں ایک ایک جوتے درست کریں۔ اس طرح دونوں کو استاد کی خدمت کا موقع مل گیا۔
مشہور کالم نگار اور مصنف اشفاق احمد نے اپنی کتاب ’زاویہ‘ میں ایک واقعہ نقل کیا کہ ایک استاذکا قیام روم کے دوران ٹریفک چالان ہوا۔ استاد کو 12 آنے کی سزا ہوئی جسے وہ وقت پر جمع نہ کروا سکے۔ لہٰذا انھیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ سوالوں کے دوران جج نے جب یہ پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں؟ تو شرمندگی سے سر جھکائے انھوں نے جواب دیا کہ میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا کہ Teacher in the Court ( عدالت میں استاد ہے)۔ یہ سنتے ہی سب احتراماً اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔
استاد کی عزت اور اہمیت کے تعلق سے علما اور دانشوروں کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ سبھوں نے استاذ کو اپنی اپنی نظرسے جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کی عزت و تکریم میں بڑی قیمتی اور معنی خیز باتیں بھی کہی ہیں۔
پیارے بچو! حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ حضرت علی فرماتے ہیں: میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔
مشہور مفکر جون لاک کے نزدیک معلمی کا پیشہ حکمرانی سے بھی زیادہ مشقت آمیز ہے۔
اسی طرح سکندر مقدونی کا کہنا ہے کہ میں اپنے والد کا احسان مند ہوں کہ وہ اس دنیا میں میری آمد کا ذریعہ بنے اور میں اپنے استاذ کا ممنون ہوں کہ انھو ںنے مجھے شعور کی دنیا میں ایک نئی زندگی دی۔
سکندر اعظم سے کسی نے اپنے استاذ کے بے حد احترام کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواباً کہا کہ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جب کہ میرے استاذ ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گئے۔ میرا باپ میری ایسی زندگی کا باعث بنا جو فانی ہے مگر میرے استاذ حیاتِ جاوداں کا سبب ہیں۔ میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا تھا اور استاذ ارسطو میری روح کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
پیارے بچو! اساتذہ صرف بچے کی روح کی دیکھ بھال نہیں کرتے بلکہ وہ شفقت و محبت کا وہ عنوان ہوتے ہیں کہ ہر موڑ پر ان کی شفقتیں بچوں کی کلفتیں اور اذیتیں ختم کردیتی ہیں اسی لیے جن بچوں میں جذبہ اور جنون ہوتا ہے اور جو محنتی اور ذہین ہوتے ہیں اساتذہ بھی ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ جو بچے مالی حیثیت سے کمزور ہوتے ہیں اور اپنی پڑھائی کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے تو ایسے بچوں کی کفالت بھی بسا اوقات ان کے استاذ کرتے ہیں۔
امام شافعی جو بعد میں ایک بڑے عالم ، فقیہ و محدث بنے، بچپن میں جب حصولِ علم کے لیے مدینہ پہنچے تو علم کا شوق تو بہت تھا مگر ان کی راہ میں غربت حائل تھی۔ جب امام مالک کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے اس ذہین شاگرد کو خود اپنا مہمان بنایا اور جب تک مدینہ میں رہے، ان کی کفالت کرتے رہے اور پھر جب امام شافعی نے مزید کسب علم کے لیے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو استاذ نے نہ صرف سواری کا نظم کیا بلکہ سفر کے اخراجات بھی برداشت کیے۔
اسی طرح امام ابو یوسف جو بہت بڑے فقیہ تھے، ان کے والد غریب تھے اور دھوبی کا کام کرتے تھے۔ بڑی مشکل سے گزربسر ہوتی تھی، اس وجہ سے ان کے والدین کو امام ابویوسف کا پڑھنا قطعی پسند نہیں تھا، وہ چاہتے تھے کہ آپ کام کاج کریں اور گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹائیں۔ امام ابوحنیفہؒ ان کی ذہانت اور حصول علم کے شوق سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے آپ کے سارے تعلیمی اخراجات اور مصارِف برداشت کیے۔ (یہ بھی پڑھیں میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے – محمد اکرام )
پیارے بچو! پرانے زمانے کے اساتذہ بچوں کی پیشانی پر محبت اور شفقت کی وہ عبارت لکھ دیتے تھے کہ زندگی کی آخری سانس تک یہ عبارتیں ان کے وجود میں روشن رہتی تھیں مگر آج کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے دور میں استاد کی محبت اور طلبا کی اطاعت میں بھی بہت تبدیلیاں آچکی ہیں۔ طالب علموں کا انداز بھی بدل چکا ہے اور اساتذہ کا طرزِ فکر بھی۔ پہلے اساتذہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی بچوں پر صرف کرتے تھے مگر اب سارا منظر بدل چکا ہے۔ وقت اور توانائی کے مرکز بھی تبدیل ہوچکے ہیں اور طلبا میں اساتذہ کے تئیں وہ عقیدت اور محبت بھی نہیں رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم تو عام ہوگیا ہے مگر تربیت اور تہذیب میں کمی ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں بچوں اور اساتذہ دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ایسے میں اساتذہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت اور راہنمائی کریں۔تعلیم کے ساتھ غلط راستے سے بچنے اور صحیح راستے پر چلنے کی تلقین کریں، اساتذہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو بچوں کے لیے مخربِ اخلاق ہوں کیونکہ بچوںکا شعور پختہ اور بالیدہ نہیں ہوتا ہے، انھیں تربیت اور راہنمائی کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔
اسی طرح شاگردوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ جب وہ استاذ سے درس حاصل کررہے ہوں تو ان کے سامنے بہت ادب و احترام سے بیٹھیں، پورا دھیان صرف استاذ کی باتوں پرہو اور بچے استاذ کی ڈانٹ اور پھٹکار کو اپنے حق میں مثبت انداز میں لیں کیونکہ استاذ اپنے شاگرد کے حق میں کبھی برا نہیں سوچتا۔ اگر پڑھ لکھ کر آپ اعلیٰ منصب پر فائز ہوں گے تو اس سے آپ کے اساتذہ کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا۔
پیارے بچو! استاذ کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے ان کی باتوں کو غور سے سننا چاہیے کیونکہ استاذ کے سامنے زیادہ بولنا بے ادبی کہلاتی ہے۔ کلاس کے دوران اگر کوئی بات آپ کی سمجھ میں نہ آئے تواپنے استاذ سے دوبارہ وہ باتیں پوچھنے میں شرم نہ محسوس کریں، آپ کے استاذ آپ کے اس عمل سے بہت خوش ہو ںگے کیونکہ ایک بہتر استاذیہ چاہتا ہے کہ اس کے شاگرد مکمل طور پر مطمئن اور سیراب ہوکر جائیں۔ وہ طالب علموں کی علمی پیاس بجھا کر اندرونی خوشی اور فرحت محسوس کرتے ہیں کیونکہ استاد محبت، شفقت، عطوفت اور تربیت کا بیکراں سمندر ہوتا ہے۔
Mohd Ikram
89/6A, Street No.:1
Ghaffar Manzil, Jamia Nagar
New Delhi – 110025
Mob.: 9873818237
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |