کیا سنیں، کیا پڑھیں؟ : نئ نسل کے لیے بہترین علمی تحفہ – وزیر احمد مصباحی
دور حاضر میں بدمذہبوں کی تحریر و تقریر پڑھنے و سننے کے حوالے سے سادہ دل نسل نو کی بڑھتی بے احتیاطی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ زیرِ تبصرہ کتاب "کیا سنیں؟ کیا پڑھیں؟” اس بڑھتی مرض کے لیے کسی نسخہ کیمیہ سے کم نہیں ہے. آج اس حقیقت سے قطعی آنکھیں نہیں موندی جا سکتی ہیں کہ یہ بڑھتی بےزاری و بے احتیاطی وغیرہ ہی وہ دواعی ہیں، جو نسل نو کی مرضِ گمراہی و آزاد خیالی کے لیے قوی ترین ذرائع میں سے ہیں. خاص کر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع ابلاغ مثلاً : فیسبک،یوٹیوب ،ٹیوٹر ،انسٹاگرام ،بلاگر،ٹیلی گرام اور واٹشپ وغیرہ نے تو نہلے پہ دہلا کا کام کیا ہے . اس پر بدمذہبوں کی تحریریں، تقریریں اور مختلف رنگ و آہنگ سے مزین ایسی ضخیم ضخیم کتابیں اور کتابچے و رسالے ہر آن گردش میں رہتے ہیں کہ جس سے ایک سادہ لوح مسلمان کو ہر لمحہ محتاط اور کوسوں دور و نفور رہنا چاہیے، پر ایسا کم ہی ہوتا ہے اور اکثر جدت پسند طبیعتیں بدمذہبوں و باطل پرستوں کے ذریعے بنے گیے اس جال و دامِ فریب میں آ کر اپنے ایمان و عقیدے جیسی قیمتی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے کم خواندہ افراد یا پھر ان سے تھوڑے اونچے علمی گراف کے مالک اور اپنے آپ کو علامہ فہامہ کہلانے والے حضرات بھی موادِ گمراہیت سے پر تحریروں کو پڑھنے میں اپنی دلچسپیاں کچھ زیادہ ہی دکھاتے ہیں، پر جب انھیں کسی جانکار کے سہارے ایسی خبیث چیزوں کے پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے اور راہ مستقیم کی طرف گامزن ہونے کی نصیحتیں کی جاتی ہیں تو وہ بطورِ صفائی جھٹ سے اس بات کی دہائی دینے لگتے ہیں کہ :”وہ محض غلط و صحیح کے مابین امتیاز کے لیا مطالعہ کرتے ہیں تا کہ اصلِ حقیقت طشت از بام کیا جا سکے”. مگر ہائے رے سومئ قسمت! (سوائے دو چند کے) ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، بلکہ اکثر و بیشتر ثمرہ یہی نکلتا ہے کہ ایسے قارئین خود بخود جستہ جستہ بدمذہبوں کے ثناخواں و مداح نظر آنے لگتے ہیں، انھیں ان کے عقائد و نظریات بھلے معلوم پڑنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہاں پہنچ کر ایسے افراد اس کے اپنے ایسے سچے پکے مبلغ بن جاتے ہیں کہ وہ پھر لگے ہاتھوں بنام تبلیغ میٹھی میٹھی باتوں سے دل جیت کر دوسرے بھولے بھالے سادہ دل سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کو بھی گمراہی و بدعقیدگی کے غار عمیق میں ایسا ڈھکیلنا شروع کر دیتے ہیں کہ جہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے. جی ہاں! اب تک تو وہ مذہب حق و صراط مستقیم سے اتنے دور جا چکے ہوتے ہیں کہ انھیں رتی بھر صحیح و غلط کی تمیز ہی باقی نہیں رہتی، حالانکہ وہ پہلے اسی شاہراہ حق سے کھرہ و کھوٹا کا خوبصورت پیمانہ لے کر تلاش حق کے سفر پہ نکلے ہوئے ہوتے ہیں . اگر آپ اول فول جان کر میری ان باتوں پر یقین نہ دھرنے کے تاک میں ہیں تو آپ سوشل میڈیا ہی کا جائزہ لے لیں، معلوم ہوگا کہ آج ایک گمراہ فرقہ جسے دنیا "قادیانی” کے نام سے جانتی ہے، اسی جدید ذرائع ابلاغ کے سہارے دنیا بھر میں اپنے گمراہ کن عقائد و نظریات اور پراگندہ اخلاق و عادات کے فروغ میں سب سے آگے ہے. سوشل میڈیا پر جو پکڑ دھکڑ اس وقت اس کی ہے شاید ہی کسی اور فرقے کی ہو. دن رات اس کے نام نہاد مبلغین اسلامی بھیس میں جدت پسند طبیعتوں کو اپنے جال میں پھانسنے کا کام کرتے رہتے ہیں اور پھر اکثر وہی افراد بھی اس کے دام فریب کے زد میں آنے سے نہیں بچ پاتے، جو بوقت مطالعہ یہ حیلہ تراش لاتے ہیں کہ "دیکھیں! ذرا اس کی سچائی کیا ہے تا کہ حقیقت طشت از بام کیا جا سکے ". (یہ بھی پڑھیں نہ رادھا نہ رکمنی: امرتا پریتم کا اہم سوانحی ناول – وزیر احمد مصباحی )
حالانکہ ان جیسوں کو تو ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک ، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا،گوشہ ذہن میں محفوظ رکھنا چاہیے. حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک موقع پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے کہ :یا رسول اللہ! ہم یہودیوں سے کئی ایسی بات سنتے ہیں جو ہمیں اچھی لگتی ہیں کیا ہمیں اجازت ہے کہ ہم ان میں سے کچھ لکھ لیا کریں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم دین اسلام کے مکمل اور کافی ہونے میں حیران و پریشان ہو کہ دوسروں کی باتوں کی طرف توجہ دیتے ہو جیسا کہ یہودی اور عیسائی اپنے مذہب میں حیران ہو گیے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پر اکتفا نہ کر کے اِدھر اُدھر مصروف ہو گیے. (سن لو) میں تمھارے پاس یہ واضح اور پاکیزہ شریعت لے کر آیا ہوں ".
اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ :” جو کسی بدمذہب کی طرف اس لیے چل کر گیا تا کہ اس کی تعظیم و توقیر کرے اس نے یقیناً اسلام کو ڈھانے پر مدد کی”.
اب اس حدیث کی روشنی میں حالات کے نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنے ابعاد و اطراف کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بدمذہبوں کے کتنے ہی ایسے مراکز ہیں جہاں سے وہ براہ راست دین کی آڑھ میں بدمذہبیت کے ارتقا میں کوساں ہیں، پر نہ جانے کیوں اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھنے والے ہمارے کچھ نوجوان، اس سے ہاتھ ملانے، واہ واہی لوٹنے اور ساتھ ہی اکل و شرب سے اجتناب نہیں کرتے؟ حالانکہ سلف صالحین و بزرگوں کے اعمال سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ جہاں وہ اپنے آپ کو اس طرح کی میل ملاپ سے بچاتے تھے وہی وہ اپنے بال بچوں اور شناساؤں کو بھی اس سے ہرگز قریب نہیں ہونے دیتے. کتاب ھذا میں اسی نوعیت کے اکثر مسائل سے مصنف موصوف نے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور شریعت کی جانب سے اس پر لاگو ہونے والے قوانین و ضوابط کو ایک بہترین پیرائے میں قید تحریر کرنے کے ساتھ جس انداز سے صفحہ دو صفحہ کے بعد اس سے کشید ہونے والے نتائج کو جلی حروف میں بشکل نوٹس رقم کرنے کی روش قائم کی ہے، وہ ضروری طور پر مطالعہ کیے جانے لائق ہیں.
اوہ، معاف دارید! ہو سکتا ہے اتنی ساری متذکرہ باتوں کے سائے تلے اب تک آپ کے ذہن میں یہ خاکہ گھر چکا ہوگا کہ یہ کتاب بھی بڑی ضخیم اور دور حاضر میں چل پڑی دیگر غیر ضروری رسموں سے بالکل لیس ہوگی. ہاں! اگر ایسا ہے تو پھر میں اس سے پردہ اٹھانے کی سعی کروں کہ یہ کوئی بھاری بھرکم اور ابواب در ابواب پر مشتمل کتاب نہیں ہے، بلکہ مشکل سے یہ ٣٢،٣١/صفحات پر مشتمل ہے.اور کسی نوعیت کی بے جا بحث و مباحثہ سے گریز کرتے ہوئے موضوع کے مناسبت از اول تا آخر ایسی نپی تلی باتیں لکھ دی گئی ہیں کہ جس سے مقصد بھی حاصل ہو جائے اور دوران مطالعہ قارئین کی طبیعتیں بھی انجماد و اضمحلال کا شکار نہ ہونے پائے.
ایک منفرد و بالکل الگ نوعیت کی وہ طرز جو میں نے یہاں دیکھی، سچ پوچھیں تو اس نے اس غریب کو بڑی حیرت میں ڈال دیا، مگر چند ہی لمحے بعد جب ذہن پر زور ڈالا اور اصل حقیقت تک رسائی پانے میں کامیابی حاصل کی تو یک لخت تحیر و شکوک کی ساری بنیادوں پر پانی پھر گیا. وہ طرزِ نو یہ ہے کہ مصنف موصوف نے، رواں دور میں کتاب لکھنے لکھانے میں اصل موضوع پر کلام کرنے سے قبل جاری شدہ رواج یعنی ایک درجن تقاریظ، کلمہ تشکر اور حرفِ آغاز رقم کرنے کے بجائے اصل موضوع سے نقاب کشائی کا عمل شروع کر دیا ہے. مجھے تو لگتا ہے کہ اس روش تئیں وقت کی قدر و قیمت، قارئین کا خیال یا فضول روشنائی صرف کرنے سے اجتناب وغیرہ جیسے نیک مقاصد و عمدہ خیالات ہی کا حسنِ جذبہ ہے کہ موصوف مذکور کو اس طرف پہل کرنے پر گامزن کیا . واقعی اس پر مصنف موصوف حقیقی داد و تحسین کے لائق ہیں اور اس کا یہ عمل سراہے جانے لائق بھی. نئے دور کے نئے مولفین و مصنفین کو تو میرے خیال سے اس عمل تئیں غور فکر کرنے کی شدید ضرورت ہے تا کہ وہ بھی اس طرح کی بے فائدہ چیزوں سے بچتے ہوئے محورِ واحد، یعنی اصل مدعی پر کلام کرنے میں زیادہ طاقت و قوت صرف کریں. (یہ بھی پڑھیں پیڑ پودے لگائیں اور آکسیجن فراہم کریں – طفیل احمد مصباحی )
کتاب ھذا میں شامل شدہ سرخیاں جیسے : بدمذہبوں کے متعلق احادیث مبارکہ، بزرگوں کا بدمذہبوں سے سلوک، بدمذہبوں کی بات پڑھنے یا سننے کے متعلق بزرگوں کا طریقہ، بدمذہبی و بے ادبی پر مشتمل کتابوں کی نحوست، بدمذہبوں کی تحریر و تقریر اور مفتیانِ اسلام و مشائخ عظام کا موقف وغیرہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں. سرخی ثانی کے تحت حضرت امام حسن بصری قدس سرہ ، حضرت فضیل بن عیاض قدس سرہ، حضرت یحییٰ بن ابو کثیر قدس سرہ اور حضرتِ سفیان بن عیینہ قدس سرہ کے طریقہ کار کو من و عن نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے. ساتھ ہی گمراہ فرقوں کے پیچھے آج جو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ کم پڑھے لکھے حضرات یا اپنے آپ کو ماڈرن سمجھنے والے لوگ، نماز پڑھ لیتے ہیں اور اس میں کچھ کراہت محسوس نہیں کرتے، اس حوالے سے طریق سلف و خلف کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تا کہ لااُبالی پن کے یہ شکار افراد اپنے اعمال کی خبر لیں. مصنف موصوف صفحہ نمبر، ١٤ پر حلیۃ الاولیاء کے حوالے سے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں. لکھتے ہیں :”ایک دفعہ کسی شخص نے سفیان ثوری سے عرض کی : حضور! میرے دروازے کے سامنے مسجد ہے جس کا امام بدمذہب ہے. آپ نے فرمایا : اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا. اس نے کہا: کبھی رات میں بارش بھی ہوتی ہے اور میں بوڑھا آدمی ہوں؟ ارشاد فرمایا : تب بھی اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا”.اب آپ حدیث متذکرہ کی روشنی میں اس بات کا بخوبی سراغ لگا سکتے ہیں کہ کل بروزِ محشر ایسوں کا کیا بنے گا اور وہ کہاں منہ چھپائیں گے؟
سرخی سوم کے تحت بزرگوں کے طریقہ کار نقل کیے گیے ہیں تا کہ امرِ ھذا میں کسی آزاد خیال انسان کو حق اعتراض و اعراض حاصل نہ ہو. اس باب میں جہاں بزرگوں تئیں ان کا اپنا عمل ذکر کیا گیا ہے وہی ان کے اپنے اہل و عیال اور خویش و اقارب کے ایمان و عقیدے کو لے کر چوکنا و محتاط رہنے کا حسن تذکرہ بھی ہے. صفحہ/ ١٦،١٥ پر اس حوالے سے حضرت امام ابن طاوس رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرنے کے بعد قوم کے نام جو نوٹس رقم کی ہے، اس کے سطر سطر میں گارجین کے لیے اولاد و اہل عیال تئیں فکرمند رہنے کی نصیحتیں پنہا ہیں. لکھتے ہیں :”کیا آج ہم اپنی اولاد کے ایمان و عقیدے کے حوالے سے فکر مند ہیں، کیا ہم نوٹ کرتے ہیں کہ ہماری اولاد کہاں سے کیا سن اور کیا پڑھ رہی ہے؟ کیا کبھی اپنے بچوں کے موبائل، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ چیک کیے کہ ان کی ہارڈ ڈسک میں کون سے مقررین کی تقریریں اور پی ڈی ایف کی شکل میں کن مصنفین کی کتب ہیں یا کس قسم کے ویڈیو کلپس و امیجز ہیں؟ ".
اب قارئین میں سے وہ حضرات جو صاحب اہل و عیال ہوں، اس نصیحت اور کتاب میں موجود امام ابن طاوس قدس سرہ کے واقعہ کی روشنی میں بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں اور تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ اس حوالے سے وہ کہاں تک کامیاب ہیں اور کہاں تک ناکام؟.
پھر لگے ہاتھوں موصوف نے سرخی چہارم میں، جو تقریباً ٤،٣/صفحات پر مشتمل ہے، بدمذہبی مواد پر مشتمل کتابوں تئیں مختلف نحوست و حرماں نصیبی کا تذکرہ کیا ہے اور پانچویں سرخی کے تحت ماضی قریب کی مختلف معتمد علیہ شخصیات کا موقف و فتاوی بھی. تا کہ آزاد خیال طبیعتیں اسے قصہ پارینہ سمجھ کر عدم توجہی اور تساہل و تغافلی کے کہیں شکار نہ ہو جائیں. اس میں امام اہل سنت، فاضل بریلوی امام احمد رضا قدس سرہ کا موقف، صدر الشریعہ علامہ امجد علی خان علیہ الرحمہ اور مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ کا موقف بیان کرنے کے ماسوا دوسرے اور پانچ بزرگوں کے موقف اور نظریات و ترجیحات بصورتِ فتاویٰ قلم بند کیے گیے ہیں. سچ تو یہ ہے کہ "آخری بات” کی سرخی قائم کر کے جس طرح علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی اس رو سے دو ٹوک نصیحت کو بیان کرکے رسالہ ھذا کو لباسِ اختتام عطا کیا گیا ہے، اس نے اس کی زیبائش و آرائش میں مزید چار چاند لگا دیا ہے. بحوالہ کراماتِ صحابہ (ص: ٧١)رقم کرتے ہیں کہ :”ہم اپنے سنی حنفی بھائیوں کو یہی مخلصانہ مشورہ بلکہ حکم دیتے ہیں کہ ان گمراہوں کی تقریروں، تحریروں اور صحبتوں سے بالکل قطعی طور پر پرہیز کریں کیونکہ گمراہی کے جراثیم بہت جلد اثر کر جاتے ہیں اور ہدایت کا نور بڑی مشکل اور بےحد جد و جہد کے بعد ملتا ہے. خداوند کریم ہمارے برادران اہل سنت کے ایمان و عقائد کی حفاظت فرمائے اور تمام گمراہوں، بددینوں اور بے دینوں کے شر سے بچائے رکھے. (آمین) ". (یہ بھی پڑھیں مولانا آزاد کا تصوّرِ تعلیم – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
بخوف طوالت اب چلتے چلتے اس آخری مرحلہ میں اگر میں متذکرہ بالا تمام گفتگو کے تحت یہ رائے قائم کروں کہ یہ رسالہ از ابتدا تا انتہا عوام و خواص کے لیے بالکل یکساں مفید ہے اور مطالعہ کے شوقین حضرات کو اپنی حیات میں کبھی وقت نکال کر ایک دفعہ ضرور مطالعہ کرنی چاہئے تو شاید قارئین کرام کی نظروں میں میں مجرم قرار نہ دیا جاؤں. در اصل اس کی قوی وجہ بھی یہی ہے کہ رسالہ مواد و بیان کے اعتبار سے بالکل پر ہونے کے ساتھ موضوع سے مکمل میل کھاتا ہے. اور پھر مزید یہ کہ دوسرے تمام رطب و یابس اور حشو و زوائد سے محفوظ و مامون بھی ہے. مگر ہاں! یہ بات یاد رہے کہ یہ ساری خوبیاں مصنف موصوف ہی کی کڑی محنت و لگن کے بل بوتے وجود میں آئیں ہیں، اس لیے آپ لوگ بھی ان کے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ انھیں جزائے خیر سے شادکام فرمائے اور دین و سنت کی مزید خدمت انجام دینے کی توفیق رفیق بھی۔ (آمین یا رب العالمین)
____________________________
وزیر احمد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |