کامران غنی صبا
صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور
…………..
استاد……ایک چھوٹا سا لفظ جس کے اندر محبت و عقیدت اور عزت و عظمت کا ایک جہان معنی پوشیدہ ہے. والدین کے بعد ہماری زندگی میں جن کے احسانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں وہ یقیناً ہمارے اساتذہ ہی ہیں. بعض اعتبار سے اساتذہ والدین سے بھی سبقت لے جاتے ہیں. والدین سے ہمارا خونی اور جذباتی رشتہ ہوتا ہے. والدین کو یہ توقع ہوتی ہے کہ ایک دن ان کی اولاد ان کا سہارا بنے گی. استاد اس توقع کے بغیر بھی کہ اس کا شاگرد کبھی اس کا سہارا بھی بن سکتا ہے، اپنے شاگرد کو بنانے اور سنوارنے کی انتھک کوششیں کرتا ہے.
استاد کردار ساز ہوتا ہے، زمانہ ساز ہوتا ہے. وہ ہمیں مایوسی اور ناامیدی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور یقین کے اجالے سے آشنائی عطا کرتا ہے. وہ استاد ہی کیا جس کے پاس امید کی شمعیں نہ ہوں……. لیکن آج حقیقت کروٹ بدل رہی ہے. اساتذہ مایوس ہو رہے ہیں. ان کی زبان پر گلے اور شکوے ہیں….. "طلبا اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ہیں. بچے پڑھنا نہیں چاہتے ہیں. مطالعہ کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے. پروفیشنلزم نے استاد شاگرد کے روحانی رشتے کو ختم کر دیا ہے…..”
یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تدریس کارِ پیغمبری ہے. قرآن نے نبی کو معلم کہا ہے. نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم "معلم اعظم” ہیں. ان کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے. سخت سے سخت حالات میں بھی آپ کبھی مایوس اور ناامید نہیں ہوئے. ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم صرف استاد ہی نہیں بلکہ "معلم اعظم” کے پیروکار بھی ہیں. ہم مایوس کیسے ہو سکتے ہیں؟ مذہبی نقطہ نظر اگر کسی کو ٹھیک نہ لگے تو پیشہ وارانہ طور بھی ایک استاد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گلہ اور شکوہ کرے. حالات سے مایوس ہو جائے…. ذرا سوچیے کہ اگر کوئی تاجر یہ شکایت کرنے لگ جائے کہ لوگ کیسے کم ظرف ہیں اس کی دکان سے چیزیں نہیں خریدتے تو ایسے تاجر کو آپ کیا کہیں گے؟ اس ڈاکٹر کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہوگی جو مریضوں کو کوستا رہے کہ مریض اس سے علاج کرانے کیوں نہیں آتے ہیں؟
کوئی تاجر، کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل کوئی پیشہ ور زمانے کا گلہ نہیں کرتا ہے. اپنا تجزیہ کرتا ہے. اگر اس کی تجارت، اس کی پریکٹس اچھی نہیں چلتی ہے تو خود کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے…..
تدریس کو اگر نصب العین نہ سمجھ کر پیشہ ہی سمجھ لیا جائے تب بھی ایک پیشہ ور ہونے کی حیثیت سے استاد کو قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ طالب علموں کو یا سماج کو مورد الزام ٹھہرائے. استاد معاشرے کا معمار ہوتا ہے. اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور تعلیم و تہذیب کی زوال آمادہ قدروں سے مایوس ہوئے بغیر تاریک ماحول کو اپنے علم و عمل سے روشن کرنے کی کوشش کرتا رہے. مایوس روحیں مایوسیاں تقسیم کرتی ہیں. وہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو مایوسی کے بھنور سے کیسے نکال سکتے ہیں جو خود ہی حالات سے مایوس ہوں؟ وہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو اعتماد کی دولت کس طرح تقسیم کر سکتے ہیں جو خود ہی کم اعتمادی کا شکار ہوں؟ آج ہم میں سے بہت سارے اساتذہ اپنے طالب علموں سے، زمانے سے، نظام تعلیم سے، تہذیب کی شکست و ریخت سے دلبرداشتہ نظر آتے ہیں. یہ ٹھیک ہے کہ تعلیم کا معیار متاثر ہوا ہے. نظام تدریس اصلاحات چاہتا ہے. تہذیبی قدریں اپنا نوحہ آپ پڑھ رہی ہیں لیکن بحیثیت استاد ہمارے سامنے "معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم” کی زندگی کا نمونہ ہونا چاہیے جنہوں نے سخت سے سخت حالات میں بھی امید اور یقین کے چراغ کو کبھی بجھنے نہیں دیا اور علم و آگہی کا ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے. یوم اساتذہ ہمیں اپنے احتساب کی دعوت دیتا ہے کہ بحیثیت معلم ہم اپنے فرض منصبی کو کتنی ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں؟
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page