بابو محمد شکیب اکرم کی یاد میں محمد خورشید اکرم سوز اور نزہت جہاں قیصر کی مرتب کردہ تعزیتی تحریروں کا اجرا
نئی دہلی :وژڈم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ اور قندیل کے زیر اہتمام محمد خورشید اکرم سوز اور نزہت جہاں قیصر کا ان کے فرزند بابو محمد شکیب اکرم کی وفات پر لکھی گئی تعزیتی تحریروں کا مجموعہ ذکر تیرا بعد تیرے کی تقریب اجرا کا انعقاد افضل حسین آڈیٹوریم ابوالفضل اینکلیو نئی دہلی میں عمل میں آیا .
اس موقع پر تمام مقررین نے اس کتاب کے مشمولات کے حوالے سے پرمغز گفتگو کی اور شکیب اکرم کی یادوں کو تازہ کیا اور والدین کے لئے صبر جمیل کی دعا کی.
عشرت ظہیر نے اس کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذکر تیرا بعد تیرے در اصل محبت اور موت کی تفسیر، تعبیر اور تقدیر ہے. جناب عظیم اختر نے خورشید اکرم سوز کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ شکیب اکرم جیسے نوجوان کی موت پر سب سے بہترین خراج محبت یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی یاد میں غریب مستحق طالب علموں کو وظائف دیے جائیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ خورشید اکرم سوز نے کرناٹک سے اس سلسلے کا آغاز کر دیا ہے. مجلس صدارت کے اراکین میں جناب سلیم شیرازی اور ڈاکٹر فریاد آذر نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید اکرم سوز کی یادوں کے کرب کو شیر کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ حزن و غم کا یہ سلسلہ ہر انسانی وجود سے جڑا ہوا ہے مگر ذاتی غم صرف اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب انسان خود اس کرب سے گزرتا ہے خورشید حیات نے فلسفہ موت اور تصور الم پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کرب کو ایک اجتماعی المیہ سے تعبیر کیا. ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا اور ڈاکٹر رخشندہ روحی نے بھی کہا کہ یہ صرف ایک فرد کا درد نہیں بلکہ ایک مشترکہ درد ہے جسے ہم سب اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں اوراس جیسی کیفیتوں سے اکثر گزرتے رہتے ہیں، حقانی القاسمی نے کتاب کے حوالے سے کہا کہ یہ آنسوؤں کا اوڈی تاژ اور درد کا کولاژ ہے شکیب اکرم کی موت صرف ایک بیٹے کی موت نہیں بلکہ ایک خواب، ایک آرزو اور ایک روشن مستقبل کی موت ہے. شاہد انور نے تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے اپنی پرسوز تعزیتی نظم پیش کی. اس کے علاوہ ڈاکٹر شاذیہ عمیر، ڈاکٹر احمد علی جوہر،ڈاکٹر سعود عالم، ڈاکٹرنعمان قیصر، ڈاکٹر منظر امام، ڈاکٹر امیر حمزہ، ڈاکٹر جاوید عالم، ڈاکٹر شاداب شمیم، عبدالباری قاسمی ،محترمہ خوشبو پروین اور محترمہ سعدیہ پروین نے اس کتاب کے تعلق سے بیش قیمت خیالات کا اظہار کیا اور شکیب اکرم کی حیات مختصر پر اختصارسے روشنی ڈالی اور اس کی موت کو بڑا خسارہ قرار دیا. تقریب اجرا کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے بحسن و خوبی انجام دیے، محترم فیروز ہاشمی اور تقریب کے کنوینر ڈاکٹر خان رضوان کے کلمات تشکر پر پروگرام کا اختتام ہوا.اس موقع پر ڈاکٹر عبدالرشید اعظمی، ڈاکٹر عبدالواحد، ابواللیث قاسمی، شاہ رخ خان عبیر،محمد زید خان ، ساجد ندوی، نشاط حسن، محمد رضی، نوشاد عالم ندوی اور سلام الدین خان وغیرہ بطور خاص موجود رہے.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page