مر کر بھی کچھ لوگ جہاں میں
خود کو زندہ کر جاتے ہیں !
اے مرد دانا و بینا سر سید!
اخلاص کے چراغ اور بےلوث جدوجہد کی مجسم تصویرآپ، ملت اسلامیہ ہندیہ کے ان عظیم قائدین میں سے تھے جن کی تعلیمی، سیاسی اور سماجی خدمات و سرگرمیاں بظاہر خاموش ہوا کرتی تھیں لیکن درحقیقت ان کے نتائج پُر اثر اور پر شور ہوا کرتےتھے، ان کی عظیم خدمات سے ایک نسل رہتی دنیا تک فائدہ اٹھائے گی، غمِ امت میں تڑپنے اور کڑھنے والے اور طعن و تشنیع کی برسات میں بھی قومی ترقیات کے لیے فکرمند اور جواں عزم رہنے والے اس قحط الرجالی کے دور میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں، اور یہی دراصل اندھیروں کے چراغ ہوتےہیں، آپکی وفات حسرت آیات ہے، ملت اسلامیہ ہندیہ کے درخشاں پہلوﺅں کی تاریخ آپکے بغیر نامکمل ہوگی_
آپ نےاپنی قوم کے لیے پوری زندگی محنتوں اور کارناموں کی تاریخیں رقم کی۔اب اس بڑھاپے میں آپ تھک چکے تھے ،اب آپ کو آرام کی ضرورت تھی۔رب العالمین نے 27 مارچ کو آپ کی موت مقدر کرکے قبر کے سوال و جواب سے آپ کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا ہےکیونکہ آپ کی موت ایک شہید کے موت جیسی ہے جس کی وجہ سے روز محشر تک کے لیے آپکو آرام کی نیند سونے کا سنہرا موقع بخش دیا ہے۔
جس طرح ” امام بخاری و مسلم ابو حنیفہ اور امام جعفر سقراط و فلاطوں ، ابن تیمیہ اور ابن قیم امام شافعی اور امام مالک– ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ، اسی طرح آپ اور جدید تعلیم بھی دنیا میں اب ہمیشہ ایک ہی وجود کے دو نام رہیں گے۔ “
آپ اِسی نابغۂ عصر کے جانشین ہیں۔ جو اپنے سےبڑوں سے آگے نہیں بڑھے تو پیچھے بھی نہیں رہے۔ “
” تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی “ کی آخری نشانی آپ ہی ہیں۔ “
” آپ نے تا حیات جس چیز کو اپنا شعار قرار دیا ، وہ یہ تھی کہ جدید تعلیم سے مسلمانوں کو آراستہ و پیراستہ کیا جاسکے ان کے مستقبل کو ایک روشن و تابناک مستقبل بنایا جاسکے اور مسلمانوں کی صحیح مسیحائی کی جاسکے۔انھیں گمراہی کے دلدل سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ آپکی شخصیت اپنے ذرۂ ہستی میں ایک صحرا اور اپنے وجود میں ایک سمندر تھی آپ مسیحا تھے مسلم قوم کے اور بانی تھے جدید تعلیم اور جدید نثر کے۔
” آپ کی محنت کا حاصل اگر کسی کو دیکھنا ہو تو وہ اُس شہ پارۂ علم و تحقیق کو دیکھے جسے اب دنیا ” علی گڑھ مسلم یونیورسٹی “ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ بندۂ امروز نہیں ، مردِ فردا تھے
” ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں سائنس آپکی دریافت ہے ، لیکن آپ نے اپنی جدید تعلیم کو ہندوستان میں وہاں پہنچا دیا ہے کہ اپ کے منکر بھی اب انکار کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے۔ “ بقول اکبر الہ آبادی۔ ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید کام کرتا تھا۔
” میں نے بذات خود بہت سی شخصیات کو دیکھا ، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا ہے ، لیکن اے سر سید آپ اور آپ کے رفقاء حالی و وقار الملک کا معاملہ وہی ہے کہ:
غالب نکتہ داں سے کیا نسبت!
خاک کو آسماں سے کیا نسبت! “
آج آپ کا پیکرِ آب وگل نہیں لیکن آپ کی شخصیت زندہ ہے،آپ مکیں ہو ہمارے دل کے آپ مسیحا ہو ہماری قوم کے۔لوگ آج اعزاز واحترام سے آپ کے کارنامے سنتے ہیں اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتےہیں،جن لوگوں نے آپ کی عظیم ہستی کو نہیں دیکھا وہ حسرت کرتے ہیں کہ کاش ان کی آنکھوں نے آپ کی زیارت کی ہوتی،جو آنکھیں شرف زیارت سے ممتاز ہوچکی ہیں ان کی آرزو ہے کہ کاش انھیں فخر کلامی حاصل ہوتا ، اور جو خوبیِ بخت سے اس سے بھی مستفید ہوچکے ہیں ان کی تمنا ہے کہ کاش یہ نعمت عظمیٰ ہم سے ابھی اور نہ چھینی جاتی لیکن مشیت ایزدی پوری ہوکر رہی ، آپ کی گراں مایہ ہستی ہم سے رخصت ہو گئی، اب آپ کے روشن وزریں کارنامے ہیں جو ہماری تسکین ورہنمائی کے لیے کافی ہیں۔اسکی مثال خطبات احمدیہ، اسباب بغاوت ہند اور اردو میں جدید نثر کی بنیاد موجود ہیں۔
آج آپ ہمارے درمیان بھلے ہی موجود نہیں ہیں لیکن 27 مارچ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے جملہ خدام و اراکین آپ کی رحلت کو ملت اسلامیہ ہند کے لئے عظیم خسارہ تصور کرتے ہوئے آپ جیسے مجاہد کو آپ کے عظیم کارناموں پر خراج تحسین و عقیدت پیش کرتے ہیں،آپ کی بال بال مغفرت کے لئے دعا گو ہیں اور تمام احباب سے آپ کے ایصال ثواب کے اہتمام کی درخواست کرتے ہیں۔
اناللہ و انا الیہ راجعون
اللہ کریم آپ رحمہ اللہ پر اپنی کامل رحمتیں و برکتیں اور دائمی سلامتی فرمائے باری تعالیٰ آپ علیہ الرحمہ کے قبر مبارک کو معطر و منور اور تاحد نگاہ وسیع فرمائے اللہ کریم آپ رحمہ اللہ تعالی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے آمین۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page