ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال کا یہ شعر سر سید کی ذات پر صادق آتا ہے۔ سر سید ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی قوم کی خدمت میں صرف کی ہے۔ سر سید جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کو کرنے میں بھی نہیں جھجکتے تھے۔ خواہ سارا زمانہ ہی ان کے مخالف کیوں نہ ہو۔ ان کی نظر میں تعلیم کی بڑی اہمیت تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں جدید تعلیم کا رواج ضروری ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے تہذیب الاخلاق رسالہ نکالا۔ جس کا مقصد بقول سر سید ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کرنا تھا۔
جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سر سید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو بھی فروغ دیا۔ لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چند صفحات میں کام کی بات کہنے کا ہنر سر سید نے عام کیا۔ ان کے مضامین ہمارے ادب میں دو اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ ایک ادبی دوسرا افادی۔ یہ دو پہلو قومی اور ادبی ترقی کے لحاظ سے اس قدر اہم ہیں کہ ہم سر سید کی فکر کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سر سید کی تحریروں میں بیان کی سادگی، زبان کا حسن، بیان کا جوش، طرزادا کی روانی کے علاوہ متانت اور ظرافت کے وہ جوہر پاۓ جاتے ہیں جو کسی انشاپرداز کے یہاں مشکل ہی سے ملیں گے۔
سر سید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے اور ان کی نثر میں وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا۔ وہ وقت کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اپنی تحریروں کے ذریعے وہ قوم کے نوجوانوں کو وقت کی قدروقیمت کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ اردو نثر کی انہوں نے جو بنیاد ڈالی اس سے تمام انشاپرداز اور ادیب نے فیض حاصل کیا ہے۔ آج ان ہی کی وجہ سے ہم اردو ادب میں اتنی ترقی کر سکے ہیں۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page