عید الفطر کی نماز سے قبل امام صاحب طریقۂ نماز و مسائل بتاتے ہوئے۔۔۔
”عیدالفطر کی نماز چھ زائد تکبیروں کے ساتھ واجب ہے۔ اگر امام یا مؤذن سے تکبیر یا دیگر کسی ادائیگئ نمازمیں چوُک یا بھول ہو جائے تو کثیر ہجوم والی اجتماعی نماز میں سجدۂ سہو کا شرعی حکم نہیں ہے۔“
اتفاقاً! امام صاحب سے دوسری رکعت کی زائد تکبیروں کے دوران گڑبڑی ہو ہی گئی !
چند برسوں کا نمازی اور مختصر مدتی مسجد کمیٹی کا فعال ممبر تڑاک سے اُٹھا اور دھڑاک سے امام پر گرجا (گویا سلام سے پہلے کلام کی عجلت اسے کھائے جا رہی تھی!) کہ نماز دوبارہ ہونی چاہئے۔ معلوم ہو کہ پہلے جس کی اقتدا میں تھا، اب اسی سے اپنی اتباع کروانا چاہتا ہو۔۔۔!
ایک ضعیف العمر مصلی نے شائستگی سے کہا:
”جب آپ کا امام کہہ رہا ہے کہ آپ کی نماز ہوگئی تو بغیر عرض کیے فرض کر لیں کہ ہو گئی۔ آگے کے معاملات امام کے سر۔”
ایک دوسرے عمر رسیدہ نمازی نے کہا:
”جدت ہے! یا بدعت! اللہ جانے۔ مگر میرے تجربے کے مطابق جدید دور میں دو قسم کے مقتدی ہوتے ہیں۔ پہلی قسم میں عام مصلیان ہیں، جو کس کی اقتدا کرتے ہیں، یہ بے نمازی بھی جانتے ہیں۔ جب کہ دوسری قسم میں ”امام و مؤذن” ہیں، انھیں مجبوراً کس کی اتباع کرنا پڑتی ہے، طشت ازبام ہے۔
موبائل :8820239345
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page