یوکرین اور روس کی جنگ زوروں پر تھی گھر ،نگر، بستیاں تباہ ہو رہے تھے۔ سائرن کی آواز کے سوا کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا دہشت اور خوف اس قدر تھا کی لوگوں کو چین سے سوئے ہوئے لگتا تھا مدت ہو رہی ہے۔ رنگ برنگے پھولوں سے سجے مکان کھنڈر میں تبدیل ہو گئے تھے شیشے کی طرح چمچاتی گاڑیاں کنکال بن گئی تھیں، اسکول اور کالج کی بلڈنگیں ہزاروں لوگوں کی قبرگاہ بن گئی تھی۔ ریلوے اسٹیشن، بس اڈے، ایئرپورٹ آگ کے گولے میں تبدیل ہو گئے تھے۔ لوگوں کا پلائن جاری تھا لوگ پڑوسی ملکوں کی طرف بھاگ رہے تھے کچھ جنگ میں بھی شریک ہو رہے تھے۔ کچھ اپنے دیش کے کسی کونے میں جا چھپے تھے اپنے دیش کی مٹی میں اپنے باپ داداؤں کی سرزمین میں اپنی باری کے انتظار میں۔
جن میں جیکلین بھی جو بوڑھے ماں باپ اور چھ سال کے بیٹے کے ساتھ ایک کھنڈر ہوئے عمارت میں چھپی تھی۔
جیکلین ہتھیار چلانا سیکھ لی تھی کچھ ہتھیار جیکلین اپنے ساتھ لائی تھی جیکلین ۳۵؍سالا خوبصورت عورت ہے جو اپنے خوبصورت مکان کو چھوڑ کر پو لینڈ جانے والے راستے پر کھنڈر ہوئی ایک عمارت میں ٹھہری تھی۔
کچھ سال پہلے جیکلین کی زندگی کچھ اور ہی تھی۔ جب جیکلین اپنی آگے کی پڑھائی پوری کرنے روس گئی تھی سینٹ پیٹرس برگ یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ ان کو روس میں کافی اچھا لگنے لگا تھا۔ اسکے پیچھے انکے دوستوں کا گروپ تھا جس میں جیکلین سب سے زیادہ ہونہار اور خوبصورت تھی۔ اینٹس ان کے دوستوں میں سے ایک تھا جو جیکلین کو پسند کرتا تھا جیکلین بھی دھیرے دھیرے ایٹنس کے قریب آ گئی تھی۔ جیکلین اکثر ایٹنس کے ساتھ ڈیٹ پر جاتی، پارٹیاں اٹین کرتی جیکلین کی سینٹ بیسل کیتھڈرل بہت پسندیدہ جگہ تھی یہیں ایٹنس سے پہلی بار جو ملی تھی۔ ماسکو شہر آئے جیکلین کو تین سال بیت گئے۔ جیکلین اپنی زندگی میں اتنا خوش تھی کہ دن اتنی جلدی گزر گئے پتہ نہ چلا۔
آج جیکلین اپنی زندگی کی نئی شروعات کرنے جا رہی تھی۔ جیکلین نے سفید ڈریس پہن رکھا تھا جس میں وہ بلا کی خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ سینٹ بسل کیتھڈرل میں اینٹس کا انتظار کر رہی تھی۔ اینٹس ایک گورا چٹا نوجوان تھا ماسکو کا رہنے والا تھا جس کے والد روس کی مانی جانی شخصیت تھے۔ اینٹس اکیلا وارث تھا۔ جو اپنے والد کی بیشمار دولت کا مالک تھا۔
سینٹ بیسل کیتھڈرل کو رات کی کالی چادر نے گھیر لیا تھا کینڈل لائٹ جگنو کا کام کر رہی تھی۔
جیکلین کی سفید ڈریس آنسوؤں سے بھیگ رہی تھی جیکلین وہاں بیٹھے فادر کو ایک لفافہ دیا اور چلی گئی۔
جیکلین کو ماسکو چھوڑے ۶؍سال بیت گئے مگر جیکلین اینٹس کی یادوں کو نہیں چھوڑ پائی۔یوکرین واپس آنے کے بعد جیکلین وہ جیکلین نہیں رہی ہمیشہ ڈانس کرنے والی پارٹیاں اٹین کرنے والی اور چہکنے والی جیکلین نہ رہی۔
جیکلین کا آدھے سے زیادہ وقت چرچوں میں گزرتا اور باغبانی میں مدر روزی فادر جیمس کی دیکھ بھال میں گزرتا۔
آج جب وولودیمر جیلسکی اور روس کے راشٹر پتی پتن نے جنگ کا اعلان کیا تو جیکلین اور مادر فادر سبھی چرچ گئے۔ اور دیش میں شانتی کی دوعائیں کیں۔ چرچ میں کبھی اتنی بھیڑ نہیں ہوا کرتی تھی۔ جنگ شرو ہو گئی مردے چیخنے لگے یا زندہ مردوں کی طرح خاموش ہونے لگے۔ سائرن کی آوازیں کان کو پھاڑنے لگی۔ دوسری دنیا کا تصور ڈراونا تھا خوبصورت پھولوں سے سجے مکان کھنڈر ہونے لگے۔ خدا کا گھر بھی تو ڑے جانے لگے انسانیت دریا کی گہرائی میں جا بسی۔۷۰؍ اور۸۰؍ سال کی عورتیں بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئیں، انسانوں کی زمین پرکوئی انسان نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہی اس کی بنائی یوجنائیں۔ سبھی چلتے پھرتے مردے تھے جو کہ یوکرینی بچوں اور بزرگوں کی لاشیں نظر انداز کر رہے تھے۔ دھیرے دھیرے کرکے یوکرین مٹتا رہا اور دور دریا میں انسانیت سوتی رہی۔ جوسیف چیخ کر جیکلین کو چپک گیا جیکین کھنڈر ہوئی عمارت کے سب سے پیچھے کمرے میں جہاں روزی اور جیمس تھے۔ جوسیف کو چھوڑ آئی اور بندوقوں اور ہتھیاروں سے لیس جیکلین دروازے کے پیچھے چھپ گئی روسی سینکوں نے چاروں طرف سے عمارت کو گھیر رکھا تھا۔
نکل جاؤ اس عمارت سے تم چاروں طرف سے گھر چکے ہو۔ اگر ہوشیاری کرنے کی کوشش کی تو ایک ایک کو گولیوں سے چھلنی کر دوںگا اگر عورتیں چاہیں تو اپنی جان بچا سکتی ہیں ہمیں سرینڈر کرکے۔
تم لوگوں کو جو ہمارے دشمن ہو غدار ہو ہمارے دیش کے لوگوں کے قاتل ہو کبھی نہیں آخری سانس تک نہیں۔ جیکلین کی آواز اس کھنڈر میں گونج رہی تھی جیکلین نے اینٹوں کے بیچ سے باہر جھانک کر دیکھا تو لڑکھڑا سی گئی ماسکو کی یادیں اور اینٹس کے جھوٹے وعدے اس کے سینہ میں چبھ سی گئی۔ باہر ہتھیاروں سے لیس اینٹس اور ملیٹری کے فوجی موجود تھے۔
مانو جیکلین کی رگوں میں جوالا مکھی پھوٹ پڑا ہو جیکلین نے باہرکی طرف کئی وار کیے اینٹس نے اس کا پیچھا کیا اور اندر کی طرف آتا رہا جیکلین دیواروں سے چھپ چھپ کر وار کرتی رہی جویسیف جو چھ سال کا معصوم تھا اس سے رہا نہ گیا اس کی چیخیں روسی فوجیوں تک جانے لگی اینٹس نے جوسیف کو لپک کر پکڑ لیا اور اپنے قبضے میں لے لیا جوسیف موم موم چیختا رہا اسی میں سے کسی نے کہا مارو یوکرینی کو ۔نانی بول پڑی نہیں نہیں یہ یوکرینی نہیں۔
جیکلین اپنی بندوق اینٹس پر لگا دی جیکلین تم، اینٹس حیرانی سے بولا، ہاں میں اور میرے لوگ، چلاؤ گولی ہم غداروں میں سے نہیں جو پیچھے سے وار کریں۔
ایٹنس کچھ سمجھ پاتا کی پیچھے سے کئی گولیاں جیکلین کو جا لگی جیکلین مسکراتے ہوئے زمین دوز ہو گئی ۔نانی نے جوسیف کا ہاتھ اینٹس کو پکڑایا ہی تھا کہ گولیاں اور دھوئیں کے غبار نے سب کچھ ختم کر دیا۔
زخمی جوسیف کو اینٹس اپنی گود میں لیکر چیختا رہا۔ Stop Stop No Fayerنہ جانے کسی نے اس کی چیخوں کو سنا بھی تھا کی نہیں اس کے درد کو محسوس کیا تھا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ہر ادیب کے فن پر مختصر و جامع مواد کی مزید ضرورت و اہمیت درکار ہے