اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کافی عرصے تک محمد حسین کو لمبا انتظار سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لئے کرنا پڑا ۔ جب بھی ملازمت کے لئے امیدواروں سے حکومت کی طرف سے درخواستیں طلب کئے جاتے تھے تو محمد حسین وقت ضائع کئے بغیر ہی نوکری کے لیے فارم بھرتا تھا۔ لیکن ہر بار اسکو مایوسی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا تھا ۔ آخر کار دس سال بعد اس کو محکمہ تعلیم میں بہ حیثیت ایک استاد سرکاری ملازمت حاصل ہوئی ۔ بیوی اور والدین اب اچھے دن دیکھنے کے منتظر تھے۔ محمد حسین کو دو بھائی اور دو بہنیں بھی گھر میں تھیں جن کی شادی ابھی نہیں ہوئی تھی ۔ مکان بھی پرانا بوسیدہ ہی تھا اس لئے ایک اچھا سا مکان بھی بنانا بھی شدت سے محسوس ہو رہا تھا ۔ بیوی اور گھر کے باقی افراد محمد حسین کو ہر روز قناعت پسندی اور کفایت شعاری کا درس دیتے تھے تاکہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی شادی اور مکان کا تعمیر بھی ممکن بنایا جا سکے ۔۔۔۔۔
محمد حسین ہر کسی کی نصیحت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے طریقے سے ہی گھر کا سازوسامان اور باقی اخراجات کا بندوبست عمل میں لاتا تھا ۔ ہر مہینے وہ والدین ، بیوی، بچوں اور بہن بھائیوں کے لیے نئے کپڑے اور دیگر چیزیں بازار سے خرید کے لاتا تھا ۔۔۔۔
جب بیوی نے محمد حسین کو فضول خرچی سے منع کیا تو اس نے واپس جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔
” ماسٹر لوگ پہلے سے ہی کنجوس کہلائے جاتے ہیں ۔ گاڑیوں، ہسپتالوں اور دیگر دفاتر میں لوگ صرف ماسٹروں کی باتیں دہراتے ہیں ۔ ہمارے تمام رشتے دار بھی مجید انکل کو مجید کنجوس کے نام سے ہی پکارتے ہیں کیونکہ وہ ایک ٹیچر ہے ۔اس لئے میں باقی ماسٹروں کی طرح اپنے آپ کو کنجوس نہیں کہلواوں گا چاہیے مجھے بیس دن میں ہی مہینے کی پوری تنخواہ ختم کرنی پڑے ۔ اپنے اور اپنے عیال کو میں ایک خوشحال زندگی گزارنے دوں گا اور کسی کو بھی میں کسی چیز کی کبھی کمی محسوس ہونے نہیں دوں گا بلکہ ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے جس چیز کی بھی ضرورت محسوس ہو جائے میں فراہم کرتا رہوں گا ۔۔۔۔
رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |