پروفیسر ابو ذر عثمانی نے اردو کے فروغ کے لیے خود کو وقف کر دیاتھا: پروفیسر مظفّر بلخی
ڈالٹن گنج کے ’کاشانۂ نادم بلخی‘ میں پروفیسر ابوذر عثمانی کی تعزیتی نشست کا انعقاد
۲۳؍ نومبر میدنی نگر، پلامو: پروفیسر ابو ذر عثمانی کے جھارکھنڈ میں اردو کے عظیم مجاہد تھے، انھوں نے اردو زبان کی فروغ و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ مندرجہ بالا باتیں ڈالٹن گنج واقع ’کاشانۂ نادم بلخی‘ میں منعقد پروفیسر ابوذر عثمانی کی تعزیتی نشست میں جی ایل اے کالج، میدنی نگر کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر مظفر بلخی نے کہیں۔ وہ اس تعزیتی نشست میں صدر کی حیثیت سے اپنے تاثرات پیش کر رہے تھے۔ گذشتہ سنیچر کو جھارکھنڈ میں اردو تحریک کے روحِ رواں پروفیسر ابو ذر عثمانی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خبر سے پورے جھارکھنڈ اور ہندستان کے لوگ مغموم ہوئے۔ ڈالٹن گنج میں بھی ابو ذر عثمانی نے اردو تحریک کے سلسلے سے انجمن ترقی اردو کی شاخ قایم کی تھی ۔ان کی نگرانی میں تحقیق کام مکمل کرنے والے ڈاکٹر اطہرؔ مبین قریشی نے استادِ محترم کی رحلت پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا۔ اس محفل میں شہرِ ڈالٹن گنج کی سنجیدہ اور فعال ادبی شخصیات نے حصہ لیا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹراطہرؔ مبین قریشی ہی فرما رہے تھے۔
نشست کا آغازمعروف شاعر ڈاکٹر مقبول منظر کے تعارفی کلمات سے ہوا۔ انھوں نے پروفیسر ابو ذر عثمانی کی مختصر سوانح اور ادبی خدمات کا خاکا پیش کرتے ہوئے ابو ذر عثمانی کو اردوتحریک کاایک مجاہد قرار دیا۔ اردو تحریک کے سلسلے سے مختلف صوبوں میں ابوذر عثمانی نے جو کام کیے اور اردو اساتذہ کی بحالی کے لیے جو کوششیں کیں، ان پر بھی مقبول منظر نے خاطر خواہ روشنی ڈالی۔ استاد شاعر پروفیسر نادم ؔ بلخی کے صاحب زادے مصطفی بلخی گویاؔ عظیم آبادی نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابوذر عثمانی نے اردوکے فروغ ، تحفظ اور بقا کے سلسلے سے جو کوششیں کی ہیں، وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ابو ذر عثمانی سے اپنی ملاقاتوںکا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے خاک ساری،سادہ لوحی اور انکساری کو عثمانی صاحب کی شخصیت کا خاص وصف قرار دیا۔ انقلابی لہجے کے شاعر ایم جے اظہرؔ نے اپنے ماضی کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ابو ذر عثمانی صاحب سے ان کی ملاقات ان کے استاد نادمؔ بلخی کے توسط سے ہوئی۔ انھوںنے بتایا کہ اس زمانے میں میرے اسکول کی جگہ انجمن ترقی اردو کے کاموں کے لیے منتخب کی گئی تھی۔ دفتر سکریٹری کی حیثیت سے میں انجمن ترقی اردو کا کام میں کیا کرتا تھا۔اس کے علاوہ ’ذکرِ نادم بلخی‘کے اجرا کے موقعے پر اپنی ملاقات اور اردو کے فروغ کے سلسلے سے عثمانی صاحب انداز و اطوار پر بھی ایم جے اظہرؔ نے روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر تسلیم عارف نے ا بو ذر عثمانی کے سلسلے سے ایک خاکا محفل میں پیش کیا جس کا عنوان تھا’ابوذر عثمانی: جیسا میںنے انھیں پایا‘۔ اس خاکے میں تسلیم عارف نے ابوذر عثمانی کے لباس، بات چیت کے انداز اور اردو تحریک کے سلسلے سے ان کے والہانہ لگاو کو پیش کیا۔ انھوں نے کہا :’’ابوذر عثمانی نے چھوٹا ناگ پور میں اردو کے فروغ کواپنی زندگی کا مشن بنایا تھا۔ اگر ہم واقعی ان سے محبت کرتے ہیں تو ان کے مشن کو ہمیں پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔
پروفیسر ابوذر عثمانی کی نگرانی میں اپنا تحقیقی کام مکمل کرنے والے ڈاکٹر اطہرؔ مبین قریشی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ابوذرعثمانی کے مزاج اور ان کے سکھانے اور تربیت کرنے کے انداز پر دل چسپ گفتگو کی۔انھوںنے بتایا کہ عثمانی صاحب سے کئی مرتبہ انھیں شدید ڈانٹ بھی پڑی۔ لیکن اردو سیکھنے کی چاہت اور محنت دیکھ کر انھوںنے دعا بھی دی کہ میرا تحقیقی مقالہ شایع ہوکر قبولِ عام حاصل کرے گا۔ اردو تحریک کے سلسلے سے ان کے جذبات اور والہانہ انداز پر بھی مبین قریشی نے روشنی ڈالی۔ معروف شاعر ارشد قمرؔ نے موصوف کو جھارکھنڈ میں اردو کے لیے نعمت قرار دیا۔ انھوں نے یہ بتایا کہ ابو ذر عثمانی سے باضابطہ ملنے کے مواقع تو انھیں نہیں مل سکے لیکن ان کے کاموں سے ان کی واقفیت ہے۔ انھوں نے کہا کہ عثمانی صاحب نے انجمن ترقی اردو کی صدارت پر قابض رہے۔ انھیں اپنی رحلت سے قبل ہی اپنے جاں نشین مقرر کر دینے چاہیے تھے۔ لیکن ان کی مجموعی ادبی خدمات اور اردو تحریک کے لیے کی گئی کوششوں سے انکار ممکن نہیں۔
جی ایل اے کالج میں شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر خورشید عالم نے یہ بتایا کہ موصوف رانچی یونی ورسٹی میں جب ونوبا بھاوے یونی ورسٹی سے ٹرانسفر ہو کر آئے تھے، اس وقت میں شعبے میں طالبِ علم تھا۔ وہ صرف اور صرف اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے سے لوگوں کو ابھارتے تھے۔ اردو کے ری فریشر کورس میں بھی ان سے استفادہ کا موقع ملا۔ ان کی علمی صلاحیت بہت تھی لیکن انھوں نے اردو کی خدمت میں ہی خود کو وقف کر دیا۔ اطہرؔ مبین قریشی نے اظہارِ تشکر کے دوران اس سانحہ کی بھی خبر دی کہ دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، ادیب اور صحافی ڈاکٹر امام اعظم کا انتقال آج صبح ہوا۔ ان کے لیے سبھی نے دعائے مغفرت بھی کی۔محفل میں شرکت کرنے والوں میں جناب ندرت نواز، حیدر بلخی ، امین رہبرؔ اور دیگر حضرات بھی موجود تھے۔
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page