۱۵/اگست بھارتی تاریخ کا وہ روشن دن ہے جس دن اس ملک نے آزاد فضاؤں میں سانس لی یہ دن ملک بھر میں بڑے جوش و خروش سے ‘قومی تہوار’ کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ ۱۵/اگست صرف قومی تہوار کے طور پر ہی نہیں بلکہ حُب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرنے کے لئے بھی منایا جاتا ہے۔
اس آزادی کے لئے دی جانے والی قربانیوں کے تذکرے تو ہم سنتے ہی ہیں لیکن کیا یہ واقعی وہی آزادی ہے؟ جس کے لئے ہمارے آباء و اجداد نے قربانیاں دی…
تھیں؟
کیا ہم نے آزادی اسی لئے حاصل کی تھی کہ ہم انصاف کے لئے در در بھٹکیں۔ ۔ مذہب کے نام پر قتلِ عام ہو ۔ ۔ عام آدمی کے لئے ضروریاتِ زندگی سراب کی مانند ہوجائے؟
آزادی ہمیں کس بات سے چاہئے تھی ۔ ۔؟
ہمیں وہ قانون چاہیے تھا جو ہندو مسلم، امیر و غریب سب کے لئے یکساں ہو، سیاسیات کا وہ راستہ چاہیے تھا جو ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کی جانب لے جاتا ہو، وہ تعلیم چاہئے تھی جو آدمی کو علم عطا کرتی ہو، جو شعور کو بیدار کرتی ہو …
آج بھی ہم غلام ہیں فرقہ واریت کے، اندھی تقلید کے، غربت کے، بےروزگاری کے، ناخواندگی کے ہم غلام ہیں غلط سوچ کے ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلام ہیں ۔ ۔
ہر شخص کسی دوسرے شخص کے حقوق چھین رہا ہے تو ہم آزاد کیسے ہوئے؟
اس ملک نے ہمیں ایک شناخت دی لیکن افسوس ہم خود کے ہاتھوں ہی اپنی شناخت کھوتے جارہے ہیں جو قومیں اپنی تہذیب وثقافت کو کھو دیتی ہیں ان کے لئے ترقی کرنا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔
اگر ہم اپنی تہذیب و ثقافت ہی کی حفاظت نہ کرسکیں تو ہم آزاد کیسے ہوئے؟
ہمیں آزادی تو حاصل ہو گئی مگر حقیقی معنوں میں ہم آزاد نہیں ہوئے۔ آج بھی ہمارے لوگ بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ حکمران تو عیاشی کر رہے ہیں لیکن عوام کے مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
محض سیاسی تبدیلی ملک کی ترقی نہیں ہوتی۔
بلکہ ہمیں آج ضرورت ہے ایک وسیع تر سماجی تبدیلی کی جہاں لوگوں کی بنیادی ضرورتی پوری ہوتی ہوں۔ صاف پانی، ہوا اور صحت مند غذا مہیا ہو۔ غربت کا خاتمہ ہو، بے روزگاروں کو روزگار فراہم ہو، سرکاری دفاتر میں بغیر رشوت کے کام ہو۔
ملک کے ہر شہری کو انصاف ملے، ملک میں خواتین محفوظ رہیں، بال مزدوری کا جڑ سے خاتمہ ہو، سرکاری ہسپتالوں میں مکمل سہولیات ہو، ملک دہشت گردی خون خرابے سے پاک ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ ملک کی فلاح و بہبود کا سارا دارومدار صرف سیاست ہی کے ذمہ ہے بلکہ ایک عام شہری کے بھی کئی فرائض ہیں جس سے ملک کے سماجی حالات بہتری کی طرف آ سکتے ہیں۔
ریڑھی والے سے لے کر عہدیداروں تک ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے کام میں ڈنڈی مارتا ہے بتاؤ دودھ میں پانی کون ڈالتا ہیں؟ کون کرتا ہے غذائی اجناس میں ملاوٹ؟ گلی محلوں میں کچرا کون ڈالتا ہیں؟ رنگ برنگے اشتہاروں سے دیواروں کو کون رنگتا ہیں؟
قومی اثاثوں کی بےحرمتی کون کرتا ہے؟ قدرتی ماحول کو کون آلودہ کررہا ہے؟ ایسے ماحول میں ترقی کرنا کیسے ممکن ہے؟
ہر شخص ملک کی ترقی کا برابر ذمہ دار ہے اگر ہم غور کریں کہ ہم نے ملک کو امن کا گہوارا بنانے کے لئے کیا کیا؟ تو یقیناً ہمیں افسوس ہی ہوگا۔
آج حُب الوطنی کا تقاضہ لڑجانا، مرجانا ، پھانسی چڑھ جانا نہیں ہے بلکہ آج حُب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے فرائض کو دیانت داری سے ادا کریں۔
ہمارے دل میں حقیقتاً وطن عزیز کیلئے تقدس کا جذبہ ہو ناکہ محض حب الوطنی کے نام پر سال میں دو دفعہ واٹس ایپ اور فیس بُک کی ڈی_پی کو تین رنگوں میں رنگ دیا جائے۔ ۔ ہمارے دل میں ملک کا احترام ہو۔
ہم اس نئی صبح کو عزم کریں کہ ہم ملک کی تعمیر وترقی میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم اپنا ہر کام ایمانداری اور دیانت داری سے کریں گے کیونکہ
"یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہی ہیں پاسباں اس کے”
بقلم: عائشہ نبیلہ بنت شیخ محمود
اورنگ آباد
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page