انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے آزاد مخلوق ہے غلامی میں رہنا فطرتاً وہ کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اہم سبب عالم انسانیت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنا بھی تھا۔ ایک فرد بھی غلام ہو سکتا ہے اور ایک ملک بھی غیر ملکی طاقتوں کے زیر سایہ ہونے سے غلام کہلاتا ہے ۔ ہمارا ملک ہندوستان جو کہ اب ایک آزاد جمہوری ملک کی حیثیت رکھتا ہے پچھتر سال پہلے غلامی کی انھیں زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ انگریز حکومت تاجر کی حیثیت سے ہندوستان میں آئے تھے انھوں نے ہندوستان میں نہ صرف اپنی تجارت کو وسعت بخشی بلکہ اپنی طاقت کا جابرانہ استعمال کرتے ہوئے مغلوں کو بےدخل کر کے خود تخت نشین ہو گئے۔ ابتدا میں کچھ ہی علاقے ان کے زیر تسلط تھے لیکن پھر دھیرے دھیرے رشوت ، انارکی ، دھوکہ اور اپنی بڑھتی طاقت کے ذریعے پورے ملک پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے یہاں تک کہ پورے ملک میں انھیں کی بنائی ہوئی عدالتیں اور قانون نافذ ہو گئے اور ہندوستانی عوام اپنے ہی ملک میں محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
ایسے میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی اس تحریک میں علماء اور مدارس اسلامیہ نے جو کردار ادا کیا اس کو کبھی کسی بھی طور بآسانی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انگریز حکومت کی ظلم و بربریت کا خاتمہ کرنے اور ملکی نظام پر ان کے تسلط کو ختم کرنے کے لئے علماء نے ان کے خلاف جنگ کرنے کو جہاد سے تعبیر کیا تھا تاکہ عوام اس میں کار ثواب سمجھ کر شامل ہوں 1857ء میں اس وقت کے علماء جس میں علامہ فضل حق خیرآبادی، مولانا لیاقت اللہ الہ آبادی، مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہ شامل تھے انھوں نے باقاعدہ جہاد کا فتویٰ دیا جس کو ہر خواص و عوام تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے اس جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی جان و مال کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ 1857ء کی بغاوت میں انگریزوں نے بےشمار علماء اور عام مسلمانوں کو سر عام پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا ایڈروڈ ٹامسن نے شہادت دی کہ صرف دہلی میں پانچ سو علماء کو پھانسی دی گئ تھی۔ انگریز مسلمانوں کے اتنے بڑے دشمن تھے کہ داڑھی اور کرتا دیکھتے ہی اس کو پھانسی پر لٹکا دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ 1857ء کی بغاوت میں علماء اور مسلمان پیش پیش تھے یہی وجہ ہے کہ اس بغاوت کے کئ سال پہلے ہی گورنر جنرل ہند نے مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا تھا۔ اس بغاوت کی جنگ میں تقریبا دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا جس میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے تحریک آزادی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔
محققین کی رائے کے مطابق 1857ء کی بغاوت کی جنگ میں ناکامی کی اصل وجہ قلت افراد اور وسائل اور تنظیم کی کمی تھی۔ اس ناکامی کے بعد علماء نے اپنی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیا اور دیوبند میں دارالعلوم کی بنیاد ڈالی ۔ جس کے مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد نوجوان نسل کے اندر جذبہء حریت کو پیدا کرنا تھا جو اپنی قائدانہ صلاحیت کو بروئے کار لا کر انگریز حکومت کو پسپائی پہ مجبور کر سکیں۔ اس ادارے سے فارغ التحصیل طالب علم جو کہ بعد میں اس ادارے کے مدرس بھی رہے انھوں نے کہا کہ اس مدرسے کو نانوتوی صاحب نے کیا محض درس تدریس اور تعلیم و تعلم کے لئے قائم کیا تھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں 1857ء کی جنگ میں ناکامی کے بعد یہ ادارہ قائم کیا گیا تاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر ایسے لوگوں کو پیدا کیا جائے جس کے ذریعے 1857ء کی ناکامی کی تلافی کی جا سکے۔ اس سے یہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی خدمت اور اسے آزادی سے ہم کنار کرنے کا جذبہ دارالعلوم دیوبند کی بنیادوں میں شامل تھا۔ اس سے وابستہ علماء نے بےخوف ہو کر آزادی کی تحریک چلائی اور اپنی طاقت کو مزید منظم اور مستحکم بنانے کے لئے اکابر دیوبند نے جمیعۃ علماء ہند قائم کی۔ اکابر جمیعۃ نے آزادی کے لئے فضا ہموار کرنے اور عوام کے اندر آزادی کا جوش پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ جمیعۃ نے کانگریس سے پہلے "ہندوستان چھوڑو” کا نعرہ بلند کیا۔
امام انقلاب حضرت شیخ الھند مولانا محمود حسن صاحب نے اپنے رفقائے کار دیوبندی کے ساتھ مل کر آزادی کی جو تحریک برپا کی تھی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ انھوں نے نہایت بےباکی اور پامردی کے ساتھ جنگ آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا۔
بےشک مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی جانبازوں نے جنگ آزادی میں پانی کی طرح اپنا خون بہایا اور اپنا آرام و سکون اور مال و متاع تج دیا تب کہیں جا کے ہمیں 15 اگست 1947 میں آزادی کی صبح دیکھنی نصیب ہوئی۔ اس وقت ہمارا ملک جس بحرانی دور سے گذر رہا ہے اس کا اندازہ ہم میں سے سبھی کو ہے۔ فرقہ پرست عناصر اس جمہوری ملک میں اپنے فرقے کی اجارہ داری ثابت کرنے کے لئے تاریخ کے منتخب پہلوؤں کی تشہیر میں اس قدر تجاوز کر چکے ہیں کہ مسلمانوں اور علماء کی قربانیوں کو یک قلم مسترد کرنے پر مصر ہیں۔ اور مدارس اور مسلمانوں کی شناخت پہ سوال اٹھا رہے ہیں یہ صورت حال کسی المیہ سے کم نہین۔ اس ملک کو انگریز طاقتوں سے آزاد کرانے میں علماء اور مدارس نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے چشم پوشی برتنا تعصب و تنگ نظری کا ثبوت ہے۔ ہمیں بلا تفریق مذہب و ملت تاریخ کے کسی بھی گوشے کو مسخ کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیوں کہ یہ تاریخ ہماری اگلی نسلوں کے لئے امن و اتحاد کا پیغام رکھتی ہے اور رواداری اور محبت کی فضا ہموار کرتی ہے۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس پر کسی بھی ایک نظریے کا تسلط اس ملک کو واپس آمریت کی طرف دھکیل سکتا ہے اور ملک کی ترقی کی راہیں مسدود ہو سکتی ہیں۔ اس ملک کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں قانون اور عدالت کا نظام بہتر بنایا جائے۔ اس میں متنوع تہذیبوں کو پھلنے پھولنے دیا جائے۔ اس ملک کی ترقی کا انحصار انفرادیت میں نہیں بلکہ تکثیریت میں ہے۔ ازادی ایک بڑی نعمت ہے جمہوریت اس کا پھل ہے جسے ہم کھونے کا تحمل نہیں کر سکتے۔ آزادی کے اس پچھتر سالہ جشن کے موقع پہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے اور اپنے نظریات و خیالات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page