سوال:
ایک بچہ مردہ پیداہواہے ۔ کیا اس کو غسل دیاجائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟
جواب:
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
الطفل لایصلی علیہ و لا یرث و لا یُورَث حتی یستھلّ (ترمذی:1032)
’’بچہ پیدا ہونے کے بعد اگر نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ وہ وارث ہوگا اور نہ اس کا ترکہ تقسیم ہوگا ۔‘‘
امام ترمذیؒ نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھاہے : ’’اس کی روایت مرفوع (یعنی یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے) اور موقوف (یعنی یہ صحابیٔ رسول حضرت جابرؓ کا قول ہے) دونوں طرح سے کی گئی ہے ، البتہ اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے ۔ اس کی بنیاد پر بعض اصحاب علم کی رائے ہے کہ مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ۔‘‘
ایک حدیث حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
السِّقط یُصَلّی علیه ویدعیٰ لوالدیه بالمغفرۃ والرحمة (ابوداؤد: 3180 ، احمد: 18199)
’’جس بچے کا اسقاط ہوجائے اس پر نماز پڑھی جائے گی اور ا س کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعاکی جائے گی۔‘‘
اس حدیث کی بناپر بعض فقہاء کی رائے ہے کہ بچہ چاہے زندہ پیدا ہو یا مردہ ، دونوں صورتوں میں اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ لیکن اول الذکر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دیگر فقہاء ، جن میں احناف بھی ہیں ، کی رائے یہ ہے کہ صرف زندہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ اس حدیث کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس میں ’سقط‘ (اسقاط شدہ) سے مراد وہ بچہ ہے جو وضع حمل کی مدت پوری ہونے سے پہلے پیدا ہوگیا ہو ۔
یہ تو بچے کے مردہ پیدا ہونے پر نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی تفصیل ہوئی ۔ جہاں تک غسل و تکفین کی بات ہے ، ایسے بچے کو غسل دیاجائے گا ، کسی پاک صاف کپڑے میں لپیٹ کر ، قبر کھود کر اس میں دفن کردیاجائے گا ۔
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ، جولائی 2022 ]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page